ذکرِ خیرحضرت شیخ محمد ادریس چشتی ابوالعلائی
حضرت شیخ محمد ادریس چشتی ابوالعلائی جامع علوم و فنون، پاکیزہ اخلاق، ستودہ صفات اور زاہدانہ افعال و کردار سے متصف تھے۔ چودھویں صدی ہجری میں آپ کی ذات بابرکات سے اریہ میں خداشناسی کی انجمن کو رونق اور ادعیات و وظائف کو عظمت حاصل تھی۔ بڑے شب بیدار، عابد و زاہد، عاجز نواز، بے یاروں کے یار، کمزوروں کے قوتِ بازو اور سخی بزرگ تھے۔
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے آپ کو ’’سعید ازلی‘‘ لکھا ہے جبکہ حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی نے ’’قدوۃ العارفین، اسوۃ السالکین‘‘ سے یاد کیا ہے، اس کے علاوہ ’’قطبِ مسکین، شمس العارفین، رہبرِ سالکین‘‘ اور ’’عاشقِ مولیٰ‘‘ جیسے القاب کا بھی ذکر ملتا ہے۔
آپ کی پیدائش بختیارپور (پٹنہ) سے دس کوس دکھن کی طرف کوئلانواں گاؤں میں ہوئی۔ والد کا نام شیخ اصغر علی تھا۔ کم سنی میں والدۂ ماجدہ داغِ مفارقت دے گئیں، اس لیے والد کے بے حد عزیز رہے۔ پدر بزرگوار کی آپ پر شفقت و عنایت خوب رہی۔ پندرہ برس کی عمر میں صدق دلی کا اثر ہونے لگا، خاموش طبیعت اور پاکیزہ صحبت نے آپ پر تصوف کے رنگ کو ظاہر کیا۔ ابھی عمر تشنہ تھی کہ حضرت مخدوم بیابانی کے مزار پر انوار پر حاضری اور جاروب کشی کرتے، رفتہ رفتہ دل لگنے لگا، کامِ عشق کا ہوتا گیا، چسپیدگی بڑھنے لگی اور یہ روزمرہ کام معمول سا ہوگیا۔(تذکرۃ الابرار، ص 71)
حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی رقم طراز ہیں کہ
ایک روز عام رویہ میں آپ کو ایسا معلوم ہوا کہ حضرت مخدوم بیابانی کے مزار اقدس پر حاضر ہوا ہوں۔ دفعۃً ایک سفید پوش بزرگ مزار سے متجلیٰ ہو کر معانقہ سے مشرف کیا۔ جب بیدار ہوئے تو آنکھیں اشک بار تھیں، ایک وجدانی کیفیت طاری ہوئی۔ انہیں دنوں آپ کے والد سے ملاقات کو ایک مولوی صاحب عظیم آباد سے تشریف لائے جو آپ کے والد کے پرانے ملاقاتی تھے۔ مولوی صاحب کی اصرار پر ان کے ہمراہ آپ حصولِ تعلیم کے لیے عظیم آباد نکل پڑے۔ خانقاہوں کی روحانی و عرفانی مجالس میں شریک ہونے لگے۔ حسن اتفاق سے یہ صورت پیش آئی کہ آپ کو بسلسلۂ تقریب ایک دیہی علاقہ میں جانے کا اتفاق ہوا، حضرت مخدوم سجاد پاک بھی وہاں رونق افروز تھے۔ میزبان نے حفظ و مراتب کا خیال کرتے ہوئے مخدوم کے واسطے مسند بچھوائی مگر آپ نے حکمًا مسند اٹھوادی اور ارشاد فرمایا کہ
’’مجھ کو میری نظر میں دیگر برادرانِ طریقت پر کوئی وجہ افضل نہیں معلوم ہوتی۔‘‘(تذکرۃ الابرار، ص 73)
اس کسر نفسی اور سادگی کے ادائے دلکش نے آپ کا دل موہ لیا۔ کچھ روز بعد آپ مخدوم سجاد پاک کی خانقاہ میں تمناۓ شوق زیارت حاضر ہوئے اور ایسے والہانہ انداز میں قدم بوس ہوئے کہ صحیح معنوں میں پھر ان قدموں سے تادمِ آخر جدانہ ہوئے۔ بیعت کے طالب ہوئے تو ارشاد ہوا کہ ابھی وقت نہیں آیا ہے۔ تعلیم کا سلسلہ زوروں پر چلنے لگا۔ چنانچہ ایک مرتبہ حجرہ میں طلب فرمایا اور طریقت کے شرف سے مشرف فرما کر اجازت و خلافت سپرد کی۔
خود فرماتے ہیں کہ
عمر بارہ سے ہوا ہے تعلیم آپ سے
دن بدن کہلاتا گیا سب بات حقانی
یہاں ہو گیا جب حال مجھ کو جذب کی
ہوا تب بیعت حضرت سجاد قطبِ لاثانی
(دیوانِ سیرداؔ، ص 95)
تعجب خیز امر ہے کہ ایک جگہ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے آپ کو سلسلۂ ابوالعلائیہ کا مرید بتایا ہے، تو دوسری طرف حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی نے سلسلۂ چشتیہ کا مرید لکھا ہے، مگر اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آپ کی تعلیم سلسلۂ ابوالعلائیہ کے نصاب پر ہوئی۔
کچھ عرصہ بعد مخدوم سجاد پاک رحلت فرما گئے تو عرصۂ دراز تک آستانۂ مخدوم سجاد پاک کی جاروب کشی کیا کرتے، ایک دن عالمِ رویہ میں مخدوم نے ارشاد فرمایا:
’’یہاں پڑے رہنے سے بہتر ہے کہ مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچاؤ۔‘‘(تذکرۃ الابرار، ص 67)
مخدوم کے حکم پر آپ خدا کا نام لے کر تبلیغ و ارشاد کے سلسلے میں نکل پڑے۔ چلتے چلتے راجگیر پہنچے تو یہ خیال کرکے بستر لگا دیا کہ اب زندگی کے باقی دن یہیں گزارے جائیں، مگر چند مہینوں کے قیام کے بعد پھر حکم ہوا کہ آگے بڑھو! اپنی منزل تلاش کرو۔ دشت بدشت اور منزل بمنزل پھرتے پھرتے، خدا کی عبادت کرتے ہوئے بہار کے شمالی علاقے میں پہنچے۔ وہاں کی بود و باش اختیار کی، جہاں بندگانِ خدا نے آپ کی بڑی خدمت کی، مگر دل اس بات پر راضی نہ تھا کہ یہاں قیام کیا جائے۔ اس لیے پھر زادِ راه لے کر سفر پر روانہ ہوئے اور اریہ میں گڑھ بنیلی کے قریب دو گچھی میں وارد ہوئے اور اس جگہ کو پسند کیا۔ یہ مقام آپ کے لیے دل کش اور دل پسند ہوا۔ بیش تر بندے آپ سے تعلیم و تربیت اور ارشاد حاصل کرنے لگے۔ مسجد، حجرہ اور تالاب وغیرہ کی بنیاد رکھی گئی، مگر اشاعتِ دین نے آپ کو کُمہیا میں قیام کرایا۔ کُمہیا میں عالی شان مسجد، عیدگاہ، تالاب کی بنیاد ڈالی گئی۔ سیکڑوں خلقِ خدا آپ کی جانب متوجہ ہوئے اور فیضانِ علم و عمل سے فیضیاب ہوئے۔ مریدین و معتقدین کی طرح مجاز و مسترشدین کی تعداد بھی خوب ہوئی، چند کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
شیخ عبدالغفار چشتی، شیخ نورمحمد چشتی، شیخ گوہر علی چشتی، شیخ انظار علی ابوالعلائی، شاہ عبدالرحمٰن ابوالعلائی، شیخ دلاور علی چشتی، شیخ یعقوب علی چشتی، شیخ واحد علی، شیخ انظار علی چشتی، شیخ عبدالصمد چشتی، شیخ عبدالرحمٰن چشتی، شیخ اصاب علی چشتی، شیخ امام علی چشتی، شیخ قطب الدین چشتی۔(تذکرۃ الابرار، ص 89)
شیخ محمد ادریس چشتی شروع سے صوفی مزاج تھے۔ اپنا اکثر وقت ذکر و فکر میں لگایا کرتے۔ والد کی سعی پیہم پر نکاح کیا جس سے ایک دختر تولد ہوئیں، ان سے ایک بھانجہ محمد اسحاق ہوئے۔
آپ کی نظر میں کیمائے اثر اور بات میں قبولیت کی تاثیر تھی۔ سیکڑوں نامراد آپ کی دعا سے اپنی مراد کو پہنچے۔ بہت سے لوگوں نے آپ کے ہدایت و ارشاد سے کمالات اور حالات کا مزہ پایا۔ سیکڑوں مایوسِ العلاج مریض آپ کی کوڑیوں کی طبی دوا اور دعا سے صحتیاب ہوئے۔ جاننا چاہیے کہ علمِ طب کی تعلیم آپ نے کلکتہ سے حاصل کی تھی اور اورادو و وظائف کی اجازت اپنے پیر کے علاوہ حضرت شاہ عزیز الدین حسین منعمی، حضرت شاہ محمد کبیر ابوالعلائی اور حضرت عبدالقادریمنی وغیرہ سے پائی تھی۔(تذکرۃ الابرار، ص 81)
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری رقم طراز ہیں کہ
’’مولوی صاحب کو بیعت طریقۂ ابوالعلائیہ میں حضرت والد ماجد مؤلف سے ہے اور شرفِ اجازت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ بڑے محنتی اور کمال فروتن، مسکین، کم سنی، صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک چہرے کا رنگ اثر کیفیت سے متغیر ہوتا رہتا ہے۔ شورش کے وقت جذب کی حالت رہاکرتی ہے، تھوڑے زمانے سے کلکتہ کے اطراف میں مصروفِ تعلیم اشغالِ باطن ہیں۔‘‘(نذر محبوب، ص 41)
بے شمار تصرفات و کرامات آپ کی ذات سے نمودار ہوئی ہیں۔ چونکہ اختصار ملحوظ ہے، اس لیے بہت مختصر لکھ رہا ہوں۔ چند کتابیں بھی مقبول ہیں جیسے: مجموعات گنجِ عرفان، دافع المہمات، وظائف العارفین اور دیوانِ سیردا۔ ان سب کا قلمی نسخہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔
مجموعات گنجِ عرفان : 120 ارشادات پر مشتمل، تصوف کے حوالے سے بڑی قیمتی اور معلوماتی کتاب ہے۔ اس میں تصوف کی بنیادی اصول سے لے کر ہر چھوٹے بڑے پہلو پر تھوڑی بہت تفصیل موجود ہے۔ جگہ جگہ بزرگوں کے کلام اور حدیث کی عبارتوں سے مضمون کی خوبصورتی بڑھ گئی ہے۔ اسے آپ نے مریدین و معتقدین بالخصوص اپنے بھانجہ محمد اسحاق کے لیے مرتب کیا ہے۔ 202 صفحات پر مشتمل، یہ کتاب مطبع قیومی (کان پور) سے طبع ہوئی۔
دیوانِ سیردا : 143 صفحات پر مشتمل اردو اور ہندوی کلام کا مجموعہ ہے۔ حضرت ادریس کو اس فن میں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری سے شاگردی کا فخر حاصل تھا۔ سیردا تخلص کرتے، جوان کے نام ادریس کا الٹ ہے۔ اس کی طباعت مطبع قیومی (کان پور) سے ہوئی۔ راقم کی نظر میں دیوان کے علاوہ چند ایک غزلیں گلدستۂ بہار میں بھی طبع ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض غیر مطبوعہ کلام خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔
وظائف العارفین : اس کا موضوع اور ادو و وظائف ہے۔ درمیان میں حضرت سیّدنا امیر ابوالعلاء کارسالہ ’’فنا و بقا‘‘ کا اردو ترجمہ بھی شامل ہے۔ یہ کتاب مطبع قیومی (کان پور) سے طبع ہوئی۔ اسی موضوع پر دوسری کتاب دافع المہمات بھی خاصہ اہمیت رکھتی ہے۔ مطبع قیومی (کان پور) کے مالک محمد قمرالدین سے آپ کے دیرینہ تعلقات تھے، دونوں کے مابین ایک درجن سے زیادہ خطوط ملتے ہیں۔ اسی تعلقات کے تحت آپ کی تمام تصنیفات کان پور سے طبع ہوئی۔
آپ کا وصال بعارضۂ تپ 10 جمادی الثانی، پنجشنبہ، بوقت عشا، 1351ھ موافق 11 اکتوبر 1932ء کو کُمہیا میں ہوا اور وہیں آپ کا آستانہ حاجت روائے خلق ہے۔
بقاکسی کو نہیں اس جہانِ فانی میں
رہے گاہم میں سے کیا کوئی جب نبی نہ رہے؟
(سیردا)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.