Font by Mehr Nastaliq Web

مقدمہ : ’’شرف البیاض‘‘ ایک تاریخی کارنامہ

ریان ابوالعلائی

مقدمہ : ’’شرف البیاض‘‘ ایک تاریخی کارنامہ

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    شرف البیاض حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے مکتوبات و ملفوظات اور تصنیفات میں استعمال ہونے والے اشعار کا مجموعہ ہے، جسے محترمی و معظمی جناب معلی القاب سیّد شاہ عابد علی شرفی الفردوسی صاحب نے بڑی مشقت و جانفشانی کے ساتھ جمع فرمایا ہے۔

    حضرت مخدوم جہاں کی تبحر علمی سے کون واقفیت نہیں رکھتا؟ ہر شخص آپ کی علمی صلابت کا قائل ہے، مخدوم کی تصنیفات ایک عالم کو سیراب کرتی چلی آرہی ہیں۔ ان کے مکتوبات، تصوف میں ایک معرکۃ الآرا سرمایہ ہے، معدن المعانی، جس کو بحر ذخار اور دریائے نا پید کنار کہنا غلط نہیں۔ شرح آداب المریدین جو آج بھی مشائخ کی رہبری کرتی نظر آتی ہے، شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ

    ’’حضرت مخدوم کے فضائل و مناقب محتاج بیان نہیں، آپ کی تصنیفات بہت عالی ہیں‘‘ (اخبارالاخیار)

    حضرت مخدوم جہاں اپنی علمی صلاحیت کی بنا پر عالم اسلام میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ اولیائے کاملین ان کی تصنیفات کو ہمیشہ اپنے مطالعہ میں رکھا ہے۔ چراغِ دہلی خواجہ نصیر الدین محمود، جہانیاں جہاں گشت مخدوم جلال الدین بخاری اور مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں نے بھی آپ کے مضامین کا اعتراف کیا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر بھی مکتوبات صدی کو اپنے مطالعہ میں رکھا کرتے تھے۔ مخدوم اپنی تصنیفات عالی میں جا بجا فارسی اشعار بھی تحریر فرمائے ہیں۔ ان کی تحریر کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ اپنے مضمون میں برمحل اشعار کا استعمال کثرت سے کرتے تھے۔ ان میں رومیؔ، سعدیؔ، حافظؔ، عراقیؔ، جامیؔ، عطارؔ جیسے عالمی شہرت یافتہ شعرا کے اشعار شامل تھے۔

    مخدوم شعر و سخن سے ایک خاص قسم کی الفت رکھتے تھے۔ ان کی کوشش اور محنت کی اہمیت اس وقت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نے محض شعر سنانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی تصنیفات میں ایسے اشعار کا انتخاب کیا جس کا تعلق سیدھا قلب و روح سے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے اور غور و فکر کی نگاہ سے کام لیا جائے تو ہر شخص کو حضرت مخدوم کی سعی بلیغ کی داد دینی پڑے گی۔

    جب کسی کو ناکامیابی پر ناکامیابی ہوتی ہے تو اس کا دل اس کی ہمت کی طرح ٹوٹ جاتا ہے اور تمام دنیا اس کو یاس و حسرت کی وجہ سے اندھیری معلوم ہوتی ہے۔ اس وقت شاعر ہی اس کے زخم پر پھول بنتا ہے اور یوں تسلی دیتا ہے کہ

    ہاں مشو نومید چوں واقف نہ اے از سر غیب

    باشد اندر پردہ بازیہائے پنہاں غم مخور

    (حافظ)

    اور جب اس کے دل کو ذرا دھارس ہوتی ہے تو شاعر پھر اس کو کامیابی کی دل فریب صورتیں دکھا کر کامیابی کی راہ چلاتا ہے اور اپنی معجز بیانی سے اس قومی نا خدا کے رگ و پے میں جد و جہد کی ایسی روح پھونک دیتا ہے کہ وہ کامیاب و کامران ہو جاتا ہے۔

    شعر کی جو عظمت و قدر دنیا میں کی گئی وہ روزِ روشن کی طرح روشن ہے۔ جلال الدین رومی کے کلام کو لوگوں نے فارسی زبان کا قرآن کہا، یوروپ کے آزاد خیال لوگ شیکسپیئر کے ڈرامے کو انجیل مقدس سے زیادہ مفید سمجھتے ہیں۔ دراصل شاعر جادۂ طریقت و راہِ حقیقت کے راہ چلنے والوں کو اس کے نفس کی چوریوں سے تنبیہ کرتا ہے۔ حضرت مخدوم فرماتے ہیں کہ

    شرفا! گور ڈران نس اندھیاری رات

    واں نہ پوچھے کون تمہاری جات

    ترجمہ: اے شرفا! قبر کی اندھیری رات میں ذات پات نہیں پوچھی جائے گی۔

    حضرت مخدوم کی اس قدیم ہندی نما اردو کی اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے عہد میں کیسی زبان بولی جاتی تھی۔ نیز بہار کے عوام میں قدیم اردو کس نوعیت کی تھی۔ واضح ہو کہ یہ وہی عہد ہے جو حضرت ابو الحسن امیر خسروؔ کا عہد تھا۔

    شرفا صرف مائل کہیں درد کچھ نہ بسائے

    گرد چھوٹیں دربار کی سو درد دور ہو جائے

    اسی طرح مکتوبات صدی (مکتوب نمبر ۷۳) میں ہے کہ

    شرف زنار و تسبیحت یکے شد

    تو خواہی خواجہ شو خواہی غلامے

    مذکورہ اشعار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت مخدوم، شرفا تخلص کیا کرتے تھے۔ انھوں نے فارسی و ہندی نما اردو دونوں زبانوں میں اشعار کہے ہیں۔

    حضرت مخدوم جہاں کی تصنیفات کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ مثلاً آنکھ کے درد کے لیے آپ کا یہ نسخہ بہت مشہور ہوا۔

    لودھ پھٹکری مردا سنگ

    ہلدی زیرہ ایک ایک ٹنگ

    افیم چنے بھر مرچیں چار

    کراؤ برابر تھوتھا ڈار

    پوست کے پانی میں پوٹری کرے

    نین کا بھید تُرتے ہرے

    دیگر:

    دس چار کچھ گم آوے

    آٹھ پانچ پہل مانگے آوے

    تین گیارہ بہجے راج

    نو سو سترہ کرے اکاج

    مخدوم کے مرید و مجاز حضرت مولانا مظفر بلخی نے بھی اس طرح کے اشعار کہے ہیں۔

    حضرت مخدوم جہاں کے علمی کارناموں کا دائرہ کافی وسیع و عریض ہے۔ پچھلے آٹھ دہائیوں سے مخدوم کی تصنیفات، ملفوظات و مکتوبات، ادعیات و وظائف اور سلسلۂ فردوسیہ کا ایک بڑا ذخیرہ حضرت سیّد شاہ محمد ابراہیم حسین فردوسی اور ان کے اسلاف و اخلاف خوش دلی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں مخدوم جہاں اور ان کے سلسلے کی زیادہ تر کتابیں اسی خانوادے کی محنت و مشقت کا ثمرہ ہیں کہ اردو زبان میں ترجمہ ہو کر منصۂ ظہور میں آ سکیں۔

    حضرت شاہ ابراہیم حسین فردوسی اور ان کے بعد ان کے دونوں لائق فرزند پروفیسر سید شاہ نعیم الدین قادری اور حکیم سید شاہ قسیم الدین شرفی نے مکتوبات صدی / دو صدی کا ترجمہ کیا جس کی خاصی شہرت ہوئی۔ اب حکیم سید شاہ قسیم الدین شرفی کے بڑے صاحبزادے مرشد گرامی حضرت مولانا ڈاکٹر سید شاہ علی ارشد شرفی البلخی رحمۃ اللہ علیہ اس خدمت کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں، عمر کے اس پڑاو پر بھی پہنچ کر تقابل نسخہ، ترجمہ، تحقیق اور نظر ثانی تک خود ہی تن تنہا انجام دیتے ہیں۔

    مخدوم جہاں سے ان کو ایسی انسیت ہے کہ خود ان کا تحقیقی مقالہ اب تک غیر مطبوعہ ہے۔ میں نے بارہا ان سے دریافت کیا کہ اسے شائع کرادیں تو آپ اپنے والد ماجد کے اس قول کو دہرائے ہیں کہ

    ’’اگر میری کتاب شائع ہوگی تو مصنف کی دنیا میں بس ایک نام کا اضافہ ہوگا اور مخدوم کی کسی کتاب کا ترجمہ ہو کر عوام و خواص تک پہنچے گی تو مخدوم کے غلاموں میں سرخروئی عطا ہوگی۔‘‘

    اس جملے کے بعد اب کوئی جملہ لکھنا باقی نہیں رہتا۔ دو درجن سے زیادہ اب تک آپ کا ترجمہ منصۂ ظہور پر آچکا ہے۔

    اب یہاں حضرت شاہ محمد ابراہیم حسین فردوسی اور ان کے خاندان کی خدمات کی ایک فہرست ملاحظہ ہو:

    نمبر کتاب کا نام مصنف/مؤلف/جامع مترجم/مرتب

    1 ترجمہ مکتوبات دو صدی حضرت مخدوم جہاں پروفیسر شاہ نعیم الدین قادری

    2 ترجمہ مکتوبات دو صدی حضرت مخدوم جہاں حکیم شاہ قسیم الدین احمد شرفی

    3 ترجمہ مکتوبات بست و ہشت حضرت مخدوم جہاں مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    4 ترجمہ جوابی مکتوب حضرت مخدوم جہاں حکیم شاہ قسیم الدین احمد شرفی

    5 ترجمہ عقیدۂ شرفی حضرت مخدوم جہاں حکیم شاہ قسیم الدین احمد شرفی

    6 ترجمہ عقیدۂ شرفی (ہندی) حضرت مخدوم جہاں مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    7 ترجمہ شرح آداب المریدین حضرت مخدوم جہاں حکیم شاہ قسیم الدین احمد شرفی

    8 ترجمہ فوائد رکنی حضرت مخدوم جہاں مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    9 ترجمہ ارشادالسالکین حضرت مخدوم جہاں مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    10 ترجمہ ارشادالطالبین حضرت مخدوم جہاں مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    11 ترجمہ فوائدالمریدین حضرت مخدوم جہاں حکیم شاہ قسیم الدین احمد شرفی

    12 ترجمہ فوائدالمریدین (ہندی) حضرت مخدوم جہاں شاہ عابد علی شرفی الفردوسی

    13 ترجمہ معدن المعانی (ملفوظ) حضرت مخدوم جہاں حکیم شاہ قسیم الدین احمد شرفی

    14 ترجمہ مونس المریدین (ملفوظ) حضرت مخدوم جہاں حکیم شاہ قسیم الدین احمد شرفی

    15 ترجمہ ملفوظ الصفر (ملفوظ) حضرت مخدوم جہاں مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    16 ترجمہ خوان پُرنعمت (ملفوظ) حضرت مخدوم جہاں مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    17 ترجمہ اوراد خورد حضرت مخدوم جہاں مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    18 ترجمہ اوراد خورد (ہندی) حضرت مخدوم جہاں شاہ عابد علی شرفی الفردوسی

    19 ترجمہ مکتوبات مخدوم حسین حضرت مخدوم حسین نوشۂ توحید حکیم شاہ قسیم الدین و مولانا شاہ علی ارشد

    20 ترجمہ اوراد دہ فصلی حضرت مخدوم حسین نوشۂ توحید مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    21 ترجمہ گنج لایخفیٰ (ملفوظ) حضرت مخدوم حسین نوشۂ توحید مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    22 ترجمہ مونس القلوب (ملفوظ) حضرت شیخ احمد لنگر دریا بلخی مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    23 ترجمہ وصیت نامہ خواجہ نجیب الدین بنام مخدوم جہاں مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    24 ترجمہ ضیاالقلوب (ملفوظ) حضرت مخدوم احمد چرم پوش مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    25 ترجمہ مناقب الاصفیا حضرت مخدوم شعیب فردوسی پروفیسر شاہ نعیم الدین قادری

    26 ترجمہ مناقب الاصفیا حضرت مخدوم شعیب فردوسی مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    27 ترجمہ تحقیقات المعانی و مطلوب المبارک (ملفوظ) حضرت شیخ آموں فردوسی مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    28 ترجمہ تفسیر زاہدی (سورۂ فاتحہ) حضرت ابونصر احمد امام زاہد مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    29 ترجمہ الاصول العشرہ حضرت نجم الدین کبریٰ مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    30 ترجمہ عینیہ یا تازیانۂ سلوک احمد امام غزالی بنام عین القضا ہمدانی مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    31 ترجمہ مخزن الانساب سید کریم الدین علوی مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    32 شرف الانساب مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی —

    33 گنجینۂ فردوس شاہ عابد علی شرفی الفردوسی —

    34 ضیاالاصفیا (جلد اول تا دہم) شاہ عابد علی شرفی الفردوسی —

    35 ترجمہ لطائف المعانی حضرت مخدوم حسین نوشۂ توحید مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    36 ترجمہ گل فردوسی شاہ امین احمد فردوسی حکیم شاہ قسیم الدین احمد

    37 ترجمہ فوائد رکنی (ہندی) حضرت مخدوم جہاں شاہ عابد علی شرفی الفردوسی

    38 ترجمہ معدن المعانی (ہندی) حضرت مخدوم جہاں شاہ عابد علی شرفی الفردوسی

    39 بہار شریف کے فارسی گو صوفی شعرا (تحقیقی مقالہ) — مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    40 حیات و آثار جناب حضور شاہ امین احمد فردوسی (تحقیقی مقالہ) — مولانا شاہ علی ارشد شرفی البلخی

    41 شرف البیاض — شاہ عابد علی شرفی الفردوسی

    42 شاہ قسیم الدین احمد سوال و جواب کے آئینہ میں — شاہ عابد علی شرفی الفردوسی

    43 مزاراتِ بہار شریف — شاہ عابد علی شرفی الفردوسی

    44 رفیق الحج — شاہ عابد علی شرفی الفردوسی

    45 بیاض قسیمؔ — شاہ احمد غزالی فردوسی

    مندرجہ بالا علمی کاموں کے علاوہ حضرت شاہ محمد ابراہیم حسین فردوسی اور اُن کے اسلاف و اخلاف نے حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری، حضرت مولانا مظفر شمس بلخی فردوسی، حضرت مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی فردوسی، حضرت مخدوم حسن دائم جشن بلخی فردوسی، حضرت مخدوم شعیب فردوسی، حضرت مخدوم احمد لنگر دریا بلخی فردوسی، حضرت مولانا آموں فردوسی، حضرت جناب حضور شاہ امین احمد فردوسی و دیگر اکابر صوفیائے کرام کے مخطوطات و مطبوعات کی تحصیل و تحفیظ میں بھی اپنی قیمتی زندگی وقف کردی اور قیمتی وراثت کو محفوظ کرنا اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنایا، جو آج سلسلۂ فردوسیہ کی عظیم خدمات سمجھی جا رہی ہیں۔

    واضح ہو کہ اس خاندان نے نہ صرف سلسلۂ فردوسیہ کے بزرگوں کے علمی کاموں کی حفاظت کی بلکہ دیگر بزرگوں جیسے حضرت نجم الدین کبریٰ، حضرت عین القضاۃ ہمدانی، حضرت امام احمد غزالی اور حضرت مخدوم احمد چرم پوش وغیرہ کے علمی و روحانی سرمائے کو بھی لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔

    جناب عابد علی شرفی صاحب بھی اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں، حکیم سید شاہ قسیم الدین شرفی کے صاحبزادے اور مولانا سید شاہ علی ارشد شرفی کے برادر اصغر ہیں۔ شرف البیاض کا قرعہ آپ ہی کے نام نکلا ہے، یہ گیارہ برس کا سرمایۂ ریاض ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ بقول حمدؔ کاکوی

    سلسلہ اس کار کھو میرے عزیز و دائم

    یاد رکھو یہ میرے بعد ہے وصیت میری

    شرف البیاض کو بڑی محنت اور لگن سے مرتب کیا گیا ہے، اس میں تقریباً چار ہزار مختلف شعراء کے اشعار شامل ہیں۔ اشعار کے سامنے مخدوم کی کتاب کا حوالہ اور اس کی کیفیت بھی لکھی گئی ہے۔

    وللہ! جناب عابد علی صاحب نے بڑی عمدہ خدمت علم و ادب انجام دی ہے، یہ انہی کا کام تھا جو انھوں نے کر دیا، ورنہ یہ مشکل مرحلہ تھا۔ یہ کام بڑی عرق ریزی کا تھا۔ آپ نے اپنی پیرانہ سالی اور گوناگوں مشاغل کے باوجود اسے جس حسن و صحت کے ساتھ ترتیب دیا ہے وہ آپ کے ادبی خروش و انہماک، نیز مسلسل دلچسپی و شغف کے ساتھ ساتھ آپ کے عزم جواں سال کا زندہ جاوید ثبوت ہے۔

    یہ ادبی سرمایہ اور تاریخی دستاویز ہے۔ سخنوروں کی تاریخ جب بھی مرتب کی جائے گی یا محقق کو ضرورت ہوگی تو وہ جناب عابد علی صاحب کی اس خدمت سے ضرور استفادہ کریں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے