Font by Mehr Nastaliq Web

ذکرخیر حضرت شاہ مراداللہ فردوسی اثر منیری

ریان ابوالعلائی

ذکرخیر حضرت شاہ مراداللہ فردوسی اثر منیری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    منیر شریف صوبۂ بہار کی پہلی روشن گاہ ہے، جہاں اسلام کی شمع پھوٹی۔ ۵۷۶ھ میں حضرت امام محمد تاج فقیہ کا یہاں آنا اور امن و محبت، انسان دوستی کا ماحول قائم کرنا سب بارگاہ رسالت سے اشارہ تھا۔ آپ ہاشمی خانوادہ کے چشم و چراغ تھے اور آپ کا نسب حضرت زبیر ابن عبدالمطلب سے صحیح طور پر جاملتا ہے۔ آپ نے منیر شریف میں عبادت گاہیں اور خانقاہیں تعمیر کیں، بے بس و مجبور لوگوں کی فریادیں سنی، کمزوروں کا سہارا بنے، یتیموں کے ہمدرد بنے، غریبوں اور مسکینوں کا ساتھ دیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے بہار میں اسلامی فضا قائم ہوگئی۔

    خانقاہ منیر شریف کی ایک عظیم ہستی حضرت مولانا سید شاہ مراد اللہ فردوسی، متخلص بہ اثرؔ منیری، بھی عہد رفتہ میں روشن کارناموں کے ساتھ تاریخ کا حصہ بنے۔ وہ بیک وقت صوفی بزرگ، خدامست، محقق، ادیب و شاعر اور علم و عمل سے آراستہ و پیراستہ ایک عظیم شخصیت تھے۔

    شاہ مراد اللہ اپنے خاندان کی قابل فخر یادگار تھے۔ یہ خاندان علم و فضل اور درویشی کی حیثیت سے ہر زمانے میں معزز و محترم رہا ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت سیّد فریدالدین چشتی طویلہ بخش قدس سرہٗ (متوفیٰ ۸۹۷ھ) سے جاملتا ہے، اور پدری نسب کی ترتیب درج ذیل ہے۔

    مراداللہ ابن سعید الدین احمد عرف فضل حسین ابن امجد حسین ابن محمد سلطان ثانی ابن محمد بخش ابن احسان اللہ ابن امر اللہ ابن عنایت اللہ ابن مسعود ابن محبوب ابن منصور ابن مظفر ابن سلطان اکبر ابن نصیر الدین ابن معین الدین ابن فریدالدین طویلہ بخش ابن ابراہیم ابن جمال الدین ابن احمد بدایونی (والد خواجہ نظام الدین اولیا) ابن علی بخاری ابن عبداللہ ابن حسن بخاری ابن علی بخاری ابن احمد ابن عبداللہ ابن علی اصغر مدنی ابن جعفر الثانی مدنی ابن امام علی الہادی محمد نقی ابن امام جواد محمد تقی ابن امام علی رضا مشہدی ابن امام موسیٰ کاظم ابن امام جعفر صادق ابن امام محمد باقر ابن امام زین العابدین ابن امام حسین ابن امام علی مرتضیٰ ابن ابو طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔ (مخزن الانساب، ص ۱۷۳)

    آپ کی نانیہالی نسب حضرت شیخ شعیب فردوسی ابن شیخ جلال منیری ابن مخدوم عبدالعزیز منیری ابن حضرت امام محمد تاج فقیہ سے جاملتی ہے۔

    حضرت شاہ مراد اللہ فردوسی ۱۳ محرم الحرام ۱۳۳۵ھ، موافق ۳۰ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو خانقاہ منیر شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت سید شاہ سعید الدین احمد عرف شاہ فضل حسین فردوسی (متوفیٰ ۱۳۴۱ھ) خانقاہ منیر شریف کے سجادہ نشین تھے، اس لیے آپ کی پرورش و پرداخت صوفیانہ طریقے سے ہوتی رہی۔ آپ بچپن ہی سے ذہین و فطین تھے اور ہمیشہ تعلیم میں دلچسپی رکھتے تھے۔

    بہت کم عمری میں ابتدائی تعلیم شروع ہوگئی اور عام بچوں کے مقابلے میں مستعدی و تعلیمی شوق ایک طرف قدرت سے عطا تھا اور دوسری طرف والد ماجد کی موثر تربیت کا نتیجہ تھا۔ عمر چھ سات برس کی تھی کہ یتیمی کا داغ نصیب ہوا، کیونکہ والد ماجد کا انتقال ایک سخت حادثہ تھا۔ تاہم بڑے بھائی حضرت شاہ امان اللہ فردوسی (متوفیٰ ۱۳۴۶ھ) نے کبھی آپ کو یہ احساس نہ ہونے دیا اور اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کیا۔

    ۱۹۳۶ء میں آپ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ (پٹنہ) میں داخل ہوئے، جہاں مولانا سید عبدالرشید قادری اور مولانا ظفر الدین بہاری سے علوم حاصل کیے۔ بعد میں آپ اپنے بڑے بھائی شاہ ہدایت اللہ (متوفیٰ ۱۳۴۷ھ) کے ساتھ دولت پور (آرہ) گئے اور کچھ سال بعد ندوۃ العلما (لکھنؤ) کے درجہ عالم میں داخل ہوئے۔ وہاں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور مولانا محمد سعید (مفتی: ندوۃ العلما، لکھنؤ) کے شاگرد بنے۔ آپ کے ہم درس میں مولانا معین اللہ ندوی، مولانا ابوالاحسان، مولانا عبدالماجد ندوی اور مولانا محمد اویس ندوی نگرامی جیسی قابل قدر ہستیاں شامل تھیں۔ (تذکرہ مولانا عبدالرشید قادری، ص ۲۷) (از افادہ حضرت ڈاکٹر شاہ تقی الدین فردوسی منیری مدظلہ)

    آپ کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ۱۹۴۲ء میں مدرسہ عالیہ (کلکتہ) میں داخل کرایا گیا، جہاں مولانا سید عمیم الاحسان مجددی سے حدیثیں پڑھیں اور ۱۹۴۶ء میں درجہ ’’المحدثین‘‘ کے امتحان میں کامیاب ہو کر ’’ممتاز المحدثین‘‘ کے خطاب کے ساتھ وطن منیر شریف واپس آئے۔

    شاہ مراد اللہ کے کان میں بانگِ صلوٰۃ شاہ فدا حسین ابن صادق علی شعیبی شیخ پوروی نے دی تھی۔ جب آپ کو عالم کی سند ملی تو شاہ فدا حسین نے برجستہ کہا کہ

    بانگ صلوٰۃ کان میں جس کے پکار دی

    عالم بنا دیا اسے فاضل بنا دیا

    (سہ ماہی المخدوم، بہار شریف، شمارہ ۱، ص ۱۳۵)

    شاہ صاحب کا تعلیمی دور اپنے دامن میں فضل و کمال، اوصاف و محاسن، تحقیق و جستجو کا غیر معمولی خزانہ سمیٹے ہوئے تھا۔ انہوں نے علم و ادب کے حصول میں دن رات خود کو مصروف رکھا اور کتب بینی میں مستغرق رہے۔ بعض اہم فنون میں خاص دلچسپی تھی، بالخصوص علم حدیث، علم تفسیر، علم الاخلاق، تاریخ و تذکرہ اور شعر و سخن۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بڑے بڑے علما و صلحا اپنی چادر بچھائے ہوئے تھے، تو آپ نے مختصر ہی مگر مستعدانہ حصولِ علم کیا اور بحیثیت عالم دین اپنی خدمات انجام دیں۔

    حضرت شاہ مراد اللہ اثرؔ شعر و سخن کے بڑے شوقین تھے اور بچپن ہی سے غزل کہنے کا ذوق رکھتے تھے۔ پٹنہ میں نوحؔ ناروی کی صدارت میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں، جب آپ کی عمر تقریباً چودہ پندرہ برس تھی، آپ نے ایک غزل پڑھی جو حاضرین کو بے حد پسند آئی۔ نوحؔ ناروی نے پوچھا: یہ صاحبزادے کون ہیں؟ جب لوگوں نے آپ کا تعارف کرایا کہ یہ خانقاہ منیر شریف کے صاحبزادے ہیں، تو نوحؔ نے فرمایا کہ

    یہ ان کا حق ہے کہ اتنی مرصع غزل اس عمر میں پڑھی۔

    مخدومیہ اردو لائبریری (منیر شریف) کے مشاعروں میں بھی آپ اپنی غزلیں پڑھا کرتے تھے۔ آپ نے اس گلشن میں اثر اور مراد کے تخلص کے ساتھ قدم رکھا اور ادبی رہنماؤں جیسے باقرؔ عظیم آبادی، ناطقؔ لکھنوی اور یاسؔ بہاری سے مشورہ سخن لیتے تھے۔

    غزلوں اور منقبت کے علاوہ آپ نے قطعہ تاریخ بھی نکالے، جن میں چند شائع شدہ قطعہ تاریخ یہ ہیں:

    وفات حضرت سید احتشام الدین مشرقیؔ منیری (متوفیٰ 1343ھ)

    وفات حضرت سید شاہ امان اللہ فردوسی منیری (متوفیٰ 1346ھ)

    وفات حضرت سید شاہ ہدایت اللہ منیری (متوفیٰ 1347ھ)

    وفات حضرت مولوی سید مرتضیٰؔ منیری (متوفی 1381ھ)

    طبع ’’آثارِ منیر‘‘ (سال طبع 1367ھ)

    سفر حج حضرت شاہ عزیز احمد ابوالعلائی (سال 1970ء)

    آپ نے زیادہ تر غزلیں، حمد و نعت کہی۔ آپ کے حمد و نعت اور غزل کے چند متفرق اشعار ملاحظہ ہوں۔

    حمد پاک

    ہے گلشن جہاں کی یارب بہار تو ہی

    ہر پھول ہر کلی میں ہے لالہ زارتو ہی

    قدرت ہے تیری ظاہر ہر شاخ ہر شجر سے

    ہر بیچ ہر ثمر میںہے آشکار تو ہی

    کعبہ ہو یاکلیسا سب میں جھلک ہے تیری

    ہے شیخ و برہمن کے دل کی پکارتو ہی

    جلووں سے تیرے تاباں ہیں شش جہات عالم

    ہے چاند اور سورج میں تابدار تو ہی

    منصور کی صدا میں پنہا تھاتو ہی یارب

    سرمد کی بھی زباں پر تھاہم باربار توہی

    تیرے سوا نہیں ہے ہم بیکسوں کاوالی

    ہے اخیار ہم ہیں باختیار توہی

    ہم ہیں تیر بھکاری توہے ہماراداتا

    مونس ہماراتو ہے اور غمگسار توہی

    ہم مبتلا ئے غم ہیں محو غم والم ہیں

    ہے مضطرب دلوں کا صبروقرار توہی

    تیرے ہی آسرے پر ہے یہ مرادؔ بیکس

    جاری ہے اس کے لب پر لیل ونہار توہی

    نعت پاک

    میری جاں آپ پہ قربان رسول عربی

    سرورِ دیں شہ ذی شان رسول عربی

    زیست کا ہے یہی سامان رسول عربی

    میرے ہاتھوں میں ہے دامان رسول عربی

    چشم رحمت کا اشارہ مری جان ہوجائے

    ہوں بہت بے سرو سامن رسول عربی

    آپ کے روضۂ اقدس کی زیارت کرلوں

    میرے دل میں ہے یہ ارمان رسول عربی

    مجھ کو للہ بلا لیجیے طیبہ میں شہا

    ہند میں ہوں میں پریشان رسول عربی

    آپ کی ذات ہے کونین کی جب عقدہ کشا

    مشکلیں ہوں مری آسان رسول عربی

    ہے مرادؔ آپ کے بندوں میں جو ادنیٰ بندہ

    آپ ہی کاہے یہ احسان رسول عربی

    دیگر

    خوشا نصب کہ میں آگیا مدینے میں

    شگفتہ غنچۂ دل ہوگیا مدینے میں

    جو سنتے آئے تھے صد شکر میں نے دیکھ لیا

    بہار لُٹ رہی ہے فضا مدینے میں

    اس لئے تو تڑپتا تھا ہند میں کب سے

    نثار آپ کے میں آگیا مدینے میں

    وہ صبح جس کے یہ فضائے بہشت ہے صدقے

    یہ شام ہے کہ ہے نورِخدا مدینے میں

    شفاعت آپ کی اس کے لئے یقنی ہے

    مری طرح جوکوئی آگیا مدینے میں

    بھلا مرادؔ سے ہوشرح رازِ دل کیوں کر

    کہے یہ کیا کہ ملا اس کو کیا مدینے میں

    دیگر

    الٰہی دکھاجلوہ ہائے مدینہ

    سما جائے دل میں ضیائے مدینہ

    بہار جناں جس پہ ہوجائے صدقے

    عجب دل رُبا ہے فضائے مدینہ

    مرا مضطرب دل سکون پارہاہے

    چلی آرہی ہوائے مدینہ

    نہیں چاہتا کچھ سوائے مدینہ

    مری جاںہو نام احمد پہ صدقے مدینہ

    دم مرگ اپنی تمنا یہی ہے

    ہوں پیش نظر جلوہ ہائے مدینہ

    خدا دن وہ لائے کہ یثرب کو جائیں

    مرادؔ ہم بھی بن کر گدائے مدینہ

    حضرت اثرؔ منیری کے چند متفرق غزلوں کے چند اشعارملاحظہ ہو۔

    درد دل اشک کی روانی ہے

    اب یہ سامان زندگانی ہے

    زندگی ہے حساب کی مدت

    آپ سمجھتے ہیں جاودانی ہے

    ایسی ہستی کا اعتبار ہے کیا

    جس کاہر نقش فانی ہے

    چین ملتا نہیں کسی صورت

    کی عجب طور زندگانی ہے

    آج توبہ کی خیر ہو یارب

    بارہ شیشے ہیںارغوانی ہے

    درد دل کیوںنہ ہو عزیز اثرؔ

    یہ کسی دوت کی نشانی ہے

    (گل صد رنگ، ص 93)

    دیگر

    یاد اُن کی ہے دل ناکام میں

    ہے یہی صہبا ہمارے جام میں

    زلف جاناں میں ہے جب سے دل اسی

    کٹ رہی ہے زندگی آرام میں

    خوگر رنج و الم جب ہوچکا

    اب سکوں کیسادل ناکام میں

    ماسواسے ہم نے آنکھیں پھیر لیں

    تھی کششِ ایسی کسی کے نام میں

    آخری دم ہے لبوں پر جان ہے

    کچھ سنیں گے آپ صبح و شام میں

    زندگی کی تلخیاں ہم کیا کہیں

    کٹ رہی ہے، رنج میں آلام میں

    ڈھونڈتے ہو آہ کیا دل کو اثرؔ

    وہ تو جابیٹھاکسی کے دام میں

    (گل صد رنگ،ص 93)

    دیگر

    ڈھونڈتے ہیں آپ پیری میں جوانی کی امنگ

    پھول میں خوشبو کہاں رہتی ہے مرجھانے کے بعد

    انہیں حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری (متوفیٰ 782ھ) سے بے پناہ عقیدت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کی شان میں نہ صرف غزلیں کہی بلکہ مقالے بھی لکھے۔ ان کی غزل آج بھی قوال حضرات گاتے ہیں، تو دل محو ہو جاتا ہے۔ حقیقتاً، انہیں حضرت مخدوم جہاں سے حقیقی عشق تھا۔

    ہے نورِ نگاہِ شہِ یحییٰ شرف الدین

    ملجا مرا ماویٰ مرا آقا شرف الدین

    اک چشمِ کرم مجھ پہ خدا را شرف الدین

    میں جاؤں کدھر ہوکے تمہارا شرف الدین

    اِس نام کی عزت کو کوئی مجھ سے تو پوچھے

    واللہ عجب نام ہے پیارا شرف الدین

    یہ نام ملائک کے بھی تو وردِ زباں ہے

    میں ہی نہیں کہتا ہوں فقط یا شرف الدین

    گردن میں مری طو غلامی ہے ازل سے

    میں بندہ ہوں، میں بندہ تمہارا شرف الدین

    فکر غم کونین سے آزاد ہوا میں

    رشتہ ترے دامن سے جو باندھا شرف الدین

    اک جُرعہ نگاہوں سے پلادیجئے مجھ کو

    مدت سے ہوں اس جام کا پیاسا شرف الدین

    گرتوں کو اٹھایا ہے بہت آپ نے آقا

    دے دیجئے مجھ کو بھی سہارا شرف الدین

    دیکھا نہیں جاتے ہوئے محروم کسی کو

    در پر ترے جو عجز سے آیا شرف الدین

    ہنگامِ اجل سامنے ہو مرقدِ انور

    اور وردِ زباں پر ہو مری یا شرف الدین

    ملتا ہے سکوں دل کو مراد اپنے اسی سے

    لے لیتا ہوں جو نام دل آرا شرف الدین

    حضرت شاہ صاحب تصنیف و تالیف کا گہرا شوق و ذوق رکھتے تھے، انہیں تحقیق و تدقیق سے گہری دلچسپی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے خوب تگ و دو کی، قدیم و جدید رسائل کی ورق گردانی کی، مطبوعات و مخطوطات کا جائزہ لیا، بستی بستی جاکر بوڑھے پُرانے لوگوں سے معلومات اکھٹا کرکے تحقیق کے ترازو پر تول کر تب کہیں جاکر ’’آثارِ منیر‘‘ (مطبوعہ اول 1948ء، مطبوعہ دوم 2010ء) اور ’’تذکرہ شعرائے منیر‘‘ (مطبوعہ 1988ء) مستند ماخذ کے ساتھ شائع ہوا۔ آپ کا یہ ادبی کارنامہ بہار کی ادبی دنیا میں قیمتی اضافہ ہے۔

    شاہ مراد اللہ کی ان دو کتب کے علاوہ مختلف رسائل میں مثلاً ماہنامہ بہار کی خبریں (پٹنہ)، ماہنامہ اقلیت (پٹنہ) اور آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن (پٹنہ) وغیرہ میں مضامین بھی شائع و ذرائع ہوتے رہے۔ قیاس اغلب ہے کہ آپ آخری وقت میں کسی کتاب کی تصنیف میں مشغول تھے جو تشنۂ طبع ہے۔ شاہ مراد اللہ فردوسی کی نثری اور منظوم خدمات کو یکجا کرنے کی اشد ضرورت ہے چونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو بہار میں آج بھی اپنی نمایاں شان رکھتے ہیں۔

    15؍ مارچ 1950ء میں آپ کی تقرری بحیثیت ہیڈ مولوی بلدیوا ہائی اسکول (داناپور) ہوئی۔ چند مہینے کے بعد 16؍ جنوری 1951ء میں آپ کا تبادلہ منیر ہائی اسکول (منیر شریف) میں بحیثیت ہیڈ (صدر) مولوی ہوئے۔ اس درمیان آپ کے تلامذہ کثیر تعداد میں ہوئے۔ اس زمانے میں داناپور اور منیر شریف کے اکثر طلبہ اردو اور دینیات میں آپ ہی کے شاگرد ہوا کرتے تھے، مگر آپ نے کبھی اپنے شاگردوں کو تم یا تو کہہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ آپ ہی کہا کرتے۔

    آپ پان کے شوقین تھے، صدری کی جیب میں پان رکھے رہتے، خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ مکرمی شاہ عمران خالد فہمی صاحب کے مطابق ان کی صحبت میں بیٹھنے والا بڑا خوش نصیب ہوتا تھا۔ وہ چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں پر مہربانیاں کرتے تھے، انہیں پردے کے پیچھے رہنا پسند تھا اور ہمیشہ اپنی ہستی کو چھپائے رکھا۔ ہر حال میں مستِ بادۂ الست رہتے، جتنا وہ بڑے بوڑھوں سے قریب تھے اتنا ہی نوجوانوں سے بھی قریب تر تھے۔ دل جوئی کے لیے کبھی کبھار محافل میں بھی چلے جاتے اور فرماتے:

    ’’دیکھو بھائی! انسان کی پہچان اس کی اخلاق سے ہوتی ہے۔‘‘

    منیر شریف کی ملازمت کے دوران جامع مسجد منیر کی نماز جمعہ کی امامت کا بوجھ بھی ان پر پڑا، جس کی مسافت اسکول سے ایک میل سے کم نہیں تھی۔ ہر جمعہ کو پابندی کے ساتھ نماز جمعہ کے لیے اسکول سے وقفہ نماز کی فرصت میں آتے اور پھر واپس اسکول وقت پر پہنچ جاتے۔ اسکول جانے آنے کا یہ سلسلہ مشقت بھرا تھا مگر تا عمر اسے خوش اسلوبی اور پابندی سے نبھاتے رہے۔

    30؍ ستمبر 1986ء کو آپ منیر ہائی اسکول سے سبکدوش ہوئے تو پھر مستقل خانقاہ منیر شریف کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ آپ اپنے منجھلے بھائی حضرت شاہ عنایت اللہ کے ہمیشہ ہم نوا رہے، خانقاہی امور میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے اور تمام ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ آپ کے بھائی صاحب نے ہمیشہ آپ کو چھوٹے میاں سے مخاطب کیا، دونوں بھائیوں میں شیروشکر تھا۔

    شاہ مراد اللہ نے بنگلہ دیش اور پاکستان تک کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ 1961ء میں اپنے منجھلے بھائی حضرت شاہ عنایت اللہ فردوسی اور خالہ (دختر شاہ محمد صادق شعیبی بن باسط علی شعیبی) کے ہمراہ حج بیت اللہ کے شرف سے بھی مشرف ہوئے۔ واپسی کے موقع پر شمسؔ منیری نے یہ رباعی پڑھی تھی۔

    کعبے میں سوال جب لگائے ہوں گے

    احباب ضرور یاد آئے ہوں گے

    مٹھی میں یہ کیا ہے لایئے ہاتھ ادھر

    منہ مانگی مراد آپ پائے ہوں گے

    (تذکرہ شعرائے منیر ،ص 112)

    اس مبارک سفر کی واپسی پر مولانا محمد یوسفؔ عظیم آبادی نے بھی قطعہ تاریخ کہاتھا ملاحظہ ہو

    خلیل اللہ کی سنت ہے حج کعبہ بیت اللہ

    مسلسل اس زمانہ سے ہے جاری سلسلہ حج کا

    بروئے نص مقرر حج بھی ہے اک رکن اسلامی

    مسلماں وہ ادھورا ہے جو رہ جائے بلا حج کا

    ان احکام صریحی نے مراد اللہ عنایت کو

    بفضل ربِّ ابراہیم بخشا حوصلہ حج کا

    اگر چہ نیک بندے دونوں ہی اللہ والے ہیں

    ضرورت تھی مگر اس کی کہ پڑ جائے جلا حج کا

    محمد مصطفیٰ کے عاشقان زار ہیں دونوں

    نہ کیوں رکھتے دلوں میں اشتیاق و ولولہ حج کا

    بہ حج ہونے مشرف ان کے یوں تاریخ کہہ یوسفؔ

    ’’ہو فی الدارین خیرایہ صلہ حج کا‘‘

    1380ھ

    (طرزِ سخن، ص139)

    شاہ مراداللہ اپنے عہد کے نامور عالم دین، فاضل متین اور صاحب صدق و یقین بزرگ تھے، ان کی علمی جلالت کا ہر کوئی قائل تھا، مذہبی دنیامیں آپ کی ہستی گوہر آبدار کی مانند تھی اور ان کے حلقہ احباب میں بڑی بڑی ہستیاں شامل تھیں، جن میں چند نام یہ ہیں۔

    حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی (سجادہ نشین: خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور)

    حضرت مولانا سید شاہ محمد اسمعیل ابوالعُلائی روحؔ کاکوی (نائب صدر المدرسین: مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ، پٹنہ)

    حضرت مولانا سید شاہ عون احمد قادری (خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف)

    حکیم پروفیسر سید احمد اللہ ندوی (صدر شعبۂ اردو: جامعہ طبیہ شرقیہ، کراچی)

    آپ کا پہلا عقد خاندان ہی میں سید شاہ غلام حسنین صاحب (منیر شریف) کی بڑی صاحبزادی وارث فاطمہ عرف اخترن سے ہوا، مگر یہ خاتون چند ہی مہینوں میں رحلت کر گئیں، لہٰذا دوسرا عقد 1955ء میں حضرت شاہ محمد الیاس فردوسی یاسؔ بہاری (متوفیٰ 1380ھ) کی چوتھی صاحبزادی شاہدہ فردوسی سے ہوا، جن سے سات صاحبزادیاں ہوئیں:

    عزیز فاطمہ (منسوب سید امان اللہ ابن سید سُبحان اللہ، داناپور)

    حفصہ خاتون (منسوب حاجی سید سرفراز احمد ابن سید امام الدین، منیر شریف)

    ثروت فردوس عرف شرف جہاں (منسوب سید جمیل احمد ابن سید منظر حسن، ناسِک)

    عائشہ فردوس (منسوب قیصر حسنین اکبر، ابن سید مظفر حسین اکبر، کراچی)

    بشریٰ مرحومہ (منسوب سید اعجاز احمد ابن سید یوسف احمد، بہار شریف)

    ازرا (منسوب محسن امام ابن حسین امام، دیگھا)

    اکبرشائرہ فردوسی (منسوب سید پرویز انور ابن حاجی سید عبدالمقیت، کلکتہ)

    آپ کا انتقال 24؍ ذیقعدہ جمعہ 1414ھ، مطابق 6؍مئی 1994ء کو طویل علالت کے بعد ہوا، نماز جنازہ دوسرے روز، سنیچر کو صبح 10:30 بجے چھوٹی درگاہ کے احاطہ میں آپ کے برادرزادہ حضرت شاہ نورالدین فردوسی پیارے صاحب (سجادہ نشین: خانقاہ منیر شریف) نے پڑھائی، آپ حضرت مخدوم دولت کے احاطہ میں حضرت شاہ عنایت اللہ کے بغل میں سپرد خاک ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے