Font by Mehr Nastaliq Web

ذکرِ خیرحضرت شاہ محمد کبیر ابوالعلائی داناپوری

ریان ابوالعلائی

ذکرِ خیرحضرت شاہ محمد کبیر ابوالعلائی داناپوری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    داناپور میں ایسی ایسی قدآور شخصیات، صاحبِ اعلیٰ اقدار و افکار، بہترین گفتار و کردار کے حامل اور قابلِ غبطہ و رشک ہستیاں پیدا ہوئیں ہیں، جن کے اوصافِ جمیلہ، خدماتِ عظیمہ، ساعی بلیغ اور اشاعتِ اسلام کی سربلندی کے لیے ان کی کوششیں باشندگانِ ملک کے لیے قابلِ فخر ہیں، انہیں بیدار معزز ہستیوں میں حضرت شاہ محمد کبیر ابوالعلائی عرفانؔ داناپوری بھی شامل ہیں۔

    حضرت شاہ محمد کبیر ابوالعلائی مذہبِ اسلام کے بےباک نقیب کی حیثیت سے عوام و خواص میں متعارف ہیں، علم و معرفت، دینی صلابت، مذہبی رنگ و بو، بالغ نظری، خوش خوئی، بردوباری اور دیگر ایسی صفتوں و خوبیوں سے آراستہ تھے، جو ان کی مقبولیتِ عامہ کی مثال ہے، بلاشبہ وہ شریعت و طریقت کے ساتھ نکتہ شناس انسان تھے، جو بیک وقت عالمِ دین، فاضلِ متین، شاعرِ باکمال، مصنفِ لاجواب اور ہمدردی جیسی صفتوں کے مالک تھے۔

    میرا خیال ہے کہ جس قدر ان کے لکھے تذکرے مقبولیت اور استفادہ کے حامل ہیں، اسی قدر ان کی شخصیت اور علوم و مراتب سے قارئین ناواقف ہیں، عام طور پر قابلِ قدر انسان کی علمی صلاحیت کو ممتازان کی تصنیف کیا کرتے ہیں، یا تو ان کے باشعور تلامذہ یا پھر ان کے مخالف، مگر حضرت موصوف کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، ان کی ذاتی شخصیت اور علم و عمل سے آگاہی کے لیے ہم چند سطریں قارئین کے نذر کرتے ہیں۔

    آپ کا پدری نسب فاتح منیر تاج العارفین حضرت امام محمد المعروف تاج فقیہ سے جا ملتا ہے۔

    محمد کبیر بن محمد وزیر بن محمد واجد بن محمد تراب الحق بن محمد طیب اللہ نقاب پوش بن محمد امین اللہ بن محمد منور اللہ بن محمد عنایت اللہ بن تاج الدین محمد بن محمد آخوند شیخ بن احمد چشتی بن محمد عبد الوہاب بن محمد عبد الغنی بن محمد عبد الملک بن محمد تاج الدین بن محمد عطا اللہ بن شیخ سلیمان لنگر زمین بن مخدوم عبدالعزیز بن امام محمد المعروف تاج فقیہ۔ (کنزالانساب، ص ۲۸۷)

    کبیر صاحب کی پیدائش ۱۸ صفر المظفر ۱۲۶۹ ھ، موافق ۳۰ نومبر ۱۸۵۲ء، شاہ ٹولی داناپور میں ہوئی، نام محمد کبیر، تاریخی نام ناظر حسن، آپ کی آمد پر حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک نے قطعۂ تاریخِ ولادت کہی ہے کہ

    در خانۂ آں و زیر من شد

    طفلے چوں کہ دلم چہ بشگفت

    ساجدؔ دل ما بخواست تاریخ

    ہاتف ہمہ ’’ناظرحسن‘‘ گفت

    ۱۲۶۹ ھ

    (تذکرۃ الکرام، ص ۷۲۹؛ تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد ۳، ص ۱۲۸)

    آپ کی پرورش و پرداخت میں آپ کے والد حضرت شاہ محمد وزیر ابوالعلائی عطاٰداناپوری نے کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آنے دی، والدین بھی خاموش طبیعت اور کم گفتار کے مالک تھے، اسی لیے اپنے صاحبزادے کو تربیتِ اعلیٰ اور شفقت و ہمدردی کے ساتھ پرورش کی، جس کی تعلیم و تربیت، نشو و نما، تہذیب و تثقیف اور اعلیٰ صفات و خصائل سے تحلیہ و تزئین میں غایت درجہ اعتناء کیا گیا۔

    یہی وجہ تھی کہ آپ کم عمری ہی سے علمی مجالس کے دلدادہ ہوئے، تقریباً ۱۰ برس کی عمر میں سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری سے بیعت ہوئی اور تصوف کے حصول کی طرف مائل ہوگئے، جب حضرت پیر و مرشد رحلت کر گئے تو ضلَع سارن میں گورنمنٹ سے الحاق شدہ مدرسہ میں عربی و انگریزی علوم کی تحصیل کی۔

    ان دنوں مولانا جمیل احمد بلگرامی، جو فرزدقؔ کے اس قصیدہ کے شارح ہیں جو حضرت امام زین العابدین کی منقبت میں لکھا تھا، سارن میں بطور مدرس تعلیم پر مامور تھے، اور انہوں نے علم حاصل کیا، علم حاصل کرنے کا جذبہ آپ میں بھرا ہوا تھا، اس لیے وہ علم کے اُس تہ تک جانا چاہتے تھے جہاں سے خزانۂ علم انہیں بڑی آسانی سے حاصل ہو سکے، کچھ برس پٹنہ یونیورسٹی سے عصریات کی تعلیم لیتے رہے، جب علومِ عصریہ و علومِ دینیہ سے فارغ ہوئے تو پھر حضرت مخدوم سجاد پاک کی صحبت اختیار کی، تصوف کو تکمیلِ دین سے تعبیر کیا گیا ہے، آپ اس کے متلاشی تھے، حضرت مخدوم کی صحبت سے فیضان و افران و اسرار متکاثر ہوئے۔

    ابھی حضرت مخدوم سے تعلیم و ارشاد کا سلسلہ جاری تھا کہ آپ کا نکاح سیّد مخدوم بخش بن سید شجاعت علی (ساکن: سائیں) کی صاحبزادی وجیہہ النساء سے سال ۲۹۰ ۱ھ، موافق ۱۸۷۳ء میں ہوا، جس پر حضرت شاہ محمد یحییٰؔ عظیم آبادی نے قطعۂ تاریخ تزویج کہا ہے کہ

    وزیر من کہ گوش شاہی خود بر فلک افراشت

    شد از نوشاہی فرزند دل بندش دلم خرم

    بسال از دواجش بندۂ یحییٰؔ نفر تاریخی

    ’’زہے نوشتہ کبیر بن وزیر‘‘ من شدہ گفتم

    ۱۲۹۰ ھ

    (تذکرۃ الکرام، ص ۷۲۹؛ تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد ۳، ص ۱۲۸)

    آپ کے تین پسر ہوئے: نوراللہ، مظہراللہ اور مجیب اللہ، مجیب اللہ کی اولاد ملک پاکستان، کینیڈا، امریکہ وغیرہ میں آباد ہیں۔

    کبیر صاحب جب علمِ ظاہری و باطنی میں کامل ہوئے تو حضرت مخدوم سجاد پاک کے طالبین و مسترشدین کی مخصوص جماعت میں ان کی شرکت ہونے لگی، شیخ کی نگاہِ عشق نے آپ کی صدق دلی اور طلبِ مولیٰ کو جان لیا اور خصوصی تربیت دے کر اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔

    ۱۲۹۲ ھ، موافق ۱۸۷۵ء میں آپ نے ملازمت اختیار کی، سرکل افسری (Circle Officer) اور مختلف عہدوں پر حکومت کی طرف سے بحال ہوتے رہے اور یہ سلسلہ ۱۳۰۸ ھ، موافق ۱۸۹۰ء تک چلا، کبیر صاحب ذاتی شخصیت، احساسِ ذمہ داری اور افسرانہ شان کی بنا پر ۱۳۰۹ ھ، موافق ۱۸۹۱ء سے مسلسل ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ (Deputy Superintendent) کے عہدے پر بھی فائز رہے اور اسی عہدے سے سُبکدوش ہوئے، خاندان کے افراد آج بھی آپ کو ڈپٹی صاحب کے نام سے یاد کرتے تھے۔ (تذکرۃ الکرام، ص ۷۲۹)

    کبیر صاحب کو لکھنے پڑھنے کا شوق ابتدائی عمر سے رہا ہے، علمی خاندان میں پرورش کی وجہ سے اپنے اعمام و اجداد کو صاحبِ تصنیف دیکھ کر ان کے اندر بھی یہ فن فطرتاً داخل ہوا اور محنتِ شاقہ کے بعد اس فن پر عبور حاصل کر لیا، خود کبیر صاحب کا قلمی نسخہ، بیاض و خطوط وغیرہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔

    اسی طرح کبیر صاحب کے والد شاہ محمد وزیر ابوالعلائی عطاٰ داناپوری بھی چند ایک کتابوں کے مصنف گزرے ہیں، جیسے: گلشنِ میلاد، شہادتینِ کبیر، حالاتِ ابومسلم خراسانی۔

    افسوس کہ ان کا سرمایۂ ریاض کس حال میں ہے اور کہاں ہے؟ یہ تو خدا ہی جانے۔ (تذکرۃ الکرام، ص ۷۲۹؛ تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد ۳، ص ۱۲۸)

    کبیر صاحب کی تصنیفات کے نام یہ ہیں۔

    تاجِ فقیہ و عقائد وجیہہ، تذکرۃ الکرام، تذکرۃ الکبیرفی اخبارالبشیر، روضۃ النور۔

    تاجِ فقیہ و عقائدِ وجیہہ: یہ علمِ فقہ اور کلام میں بکمالِ فصاحت و بلاغت، بزبان اردو عام فہم، تحشیہ وغیرہ کے ساتھ نظم کیا گیا ہے، ۴۱ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ ائرن فیکٹری (بہار) سے ۱۳۰۱ ھ، موافق ۱۸۸۴ء میں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی تقریز سعید کے ساتھ طبع ہوا۔

    تذکرۃ الکرام: اس کا موضوع تذکرہ ہے، عربی، فارسی اور انگریزی کتب و رسائل سے اہم واقعات و حکایات نقل کیے گئے ہیں تاکہ مسلمانوں کو فائدۂ عام ہو اور اہلِ اسلام کی آگہی مقصود ہو، اسلام کے تاریخی پسِ منظر سے آشنائی ہو، اس کتاب میں حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کے خلفا، صحابہ، تابعین، شہدا اور اکابرین و اولیاء اللہ کے بیشتر واقعات و اہم معلومات فراہم کیے گئے ہیں، بعض شاہانِ عظام کے احوال بھی جابجا درج ہیں، کل صفحات ۷۳۰ ہیں، اس کا پورا نام تذکرۃ الکرام یعنی تاریخ خلفائے عرب و اسلام اور ایک دوسرا نام تاریخ کبیر ہے، منشی نول کشور نے اپنے مطبع سے مسلسل پانچ اشاعت کی ہیں۔

    اشاعت اول

    اشاعت دوم

    اشاعت سوم: طبع ماہ رمضان ۱۳۱۷ ھ، موافق ماہ جنوری ۱۹۰۰ء (کانپور)

    اشاعت چہارم: طبع ماہ رجب ۱۳۳۳ ھ، موافق ماہ جون ۱۹۱۵ء (لکھنؤ)

    اشاعت پنجم: طبع ماہ رمضان ۱۳۴۲ ھ، موافق ماہ اپریل ۱۹۲۴ء (لکھنؤ)

    اس کے علاوہ اشاعت ششم: نفیس اکیڈمی (کراچی) سے ماہ محرم ۱۴۰۵ ھ، موافق ماہ اکتوبر ۱۹۸۴ء میں ہوئی تھی، واضح ہو کہ دیوانِ مزیّب کے اشتہاری صفحہ پر بھی تذکرۃ الکرام کی تشہیر ملتی ہے، حال میں آپ کے پوتوں نے مل کر اشاعت ہشتم کرائی، جس کا سالِ طبع ماہ ذیقعدہ ۱۴۲۲ ھ، موافق جنوری ۲۰۰۲ء ہے۔ (مطبع ستارۂ ہند، آگرا)

    تذکرۃ الکبیرفی اخبارالبشیر: یہ مثنوی ہے، اس میں حضرت محمد مصطفیٰ کے احوال و مقامات، نیز اوصافِ احمدی و الطافِ محمدی کو بڑے دلنشیں پیرائے میں لکھا گیا ہے، اس میں آپ کے خلفا، ائمہ، مجتہد اور بعض مخصوص اولیائے اکبار و مشائخ نقشبندیہ ابوالعلائیہ سجادیہ کے حالات شامل ہیں، یہ کتاب بزبان فارسی منظوم ہے، جس سے کبیر صاحب کے علوم و مراتب کا بھی اندازہ ہوتا ہے، ۲۰۴ صفحات پر مشتمل بخط مؤلف خانقاہ منیرمِیہ قمریہ، میتن گھاٹ میں راقم نے دیکھی ہے۔

    روضۃ النور: یہ کتاب اپنے موضوع و متنوع کے لحاظ سے بہت اہم اور نادر معلومات کا خزانہ ہے، اس میں کبیر صاحب نے اپنے شیخ مخدوم سجاد پاک کے ملفوظات جمع کیے ہیں۔

    اس میں آپ کے مرشد کے احوال و مقامات نیز فرمودات و چند نصائح شامل ہیں، تادم تحریر اس کا کوئی نسخہ موجود نہیں، مؤرخِ بےبدل اور محققِ عصر کے ساتھ کبیر صاحب قادر الکلام شاعر بھی تھے، شروع میں جب شعر کہنا شروع کیا تو اپنے والد حضرت عطاٰ کو دکھاتے، جب مزید شوق میں اضافہ ہوا تو اپنے عمِ معظم حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی صحبت اختیار کی، حضرت اکبرؔ کی استادانہ نظر نے آپ کو جلد اُس فن کا ماہر بنا دیا

    شعر و سخن کے درِیے میں آپ کا تخلص عرفان ہوا، آپ کی کلیات کا تادمِ تحریر کوئی علم نہیں، وظائف العارفین (مطبوعہ ۱۳۳۷ ھ، کانپور)، تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد ۳ (مطبوعہ ۱۳۸۷ ھ، کراچی) اور ماہنامہ گلدستۂ بہار میں چند غزلیں اور متفرق اشعار ملتے ہیں، کبیر صاحب کی احوالِ زندگی پر روشنی ان کی مختصر خودنوشت اور حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی کے خط سے پڑتی ہے، حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی نے چند غزلیں نقل کی ہیں، جسے حکیم احمد اللہ ندوی نے اپنی کتاب میں نوٹ کیا ہے۔

    لطف عشاق ہے عشق میں جل جانے سے

    عشق بازی کا مزا پوچھئے پروانے سے

    ساقیا جام سے مطلب ہے نہ میخانے سے

    ہم تو ہیں مست تری آنکھوں کے پیمانے سے

    کوچۂ عشق کی منزل بھی عجب بے ڈھب ہے

    خضر عاجز ہے اس راہ کے بتلانے سے

    ۱۲۹)

    کبیر صاحب کی زندگی کا ایک ایک پہلو روشن و تابناک ہے، وہ نام و نمود، ریا و سمہ، خودبینی اور خودستائی سے پاک و صاف تھے، تمام صفاتِ مومنانہ سے آراستہ و پیراستہ تھے، جن سے ایک مرد درویش و مقرب بارگاہِ الٰہی مزین ہوتے ہیں، ایک اچھے انسان کی شناخت بھی یہی ہے کہ وہ خلقِ خدا سے اخلاقِ کریمانہ کا مظاہرہ کرے۔

    آخری عمر میں کافی کمزور ہو گئے تھے، یہاں تک کہ ۱۳۳۰ ھ، موافق ۱۹۱۲ء میں واصلِ بحق ہوئے، مزار شاہ ٹولی کے آبائی قبرستان میں ہے۔

    کبیر صاحب فرماتے ہیں کہ

    میں وہ سوختہ جگر ہوں کہ جو ہو تا دفن بھی میں

    مری قبر کے سرہانے شجرِ چنار ہوتا

    (تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد ۳، ص ۱۲۸)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے