Font by Mehr Nastaliq Web

ذکرخیر حضرت شاہ احمد حسین چشتی شیخ پوروی

ریان ابوالعلائی

ذکرخیر حضرت شاہ احمد حسین چشتی شیخ پوروی

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    شیخ پورہ خرد چشتیوں کی قدیم آماجگاہ ہے، مگر یہاں قادری، سہروردی اور ابوالعلائی بزرگ بھی آرام فرما ہیں، تذکرے اور تاریخ کے حوالے سے یہ جگہ حضرت تاج محمود حقانی قدس اللہ سرہٗ (تاریخ وصال 14 جمادی الاخر) سے عبارت ہے، نویں صدی ہجری میں حضرت خواجہ سید عبداللہ چشتی قدس سرہٗ بھکر (پنجاب، پاکستان) سے بغرضِ رشد و ہدایت شیخ پورہ خرد میں قیام فرمائے، کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی قدس سرہٗ کی اولاد میں ہیں۔

    آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے کہ

    خواجہ سید عبداللہ ابن خواجہ سید اسد اللہ ابن خواجہ برہان الدین ابن خواجہ عبدالرحمن ابن خواجہ محمد جان ابن خواجہ سمعان ثانی ابن خواجہ منصور ابن خواجہ قطب الدین چشتی مودودی ابن خواجہ ناصرالدین ابویوسف ابن خواجہ محمد سمعان ابن خواجہ ابوجعفر ابراہیم ابن خواجہ ابو عبداللہ محمد ابن خواجہ ابو محمد ابن خواجہ عبداللہ علی اکبر ابن خواجہ حسن اصغر ابن سید نقی ابن محمد تقی ابن امام علی رضا ابن امام موسیٰ کاظم ابن امام جعفر صادق ابن امام محمد باقر ابن امام زین العابدین ابن امام حسین ابن علی مرتضیٰ۔ (مخزن الانساب، ص ۵۵)

    حضرت خواجہ عبداللہ چشتی کو بیعت و خلافت اپنے والد خواجہ اسد اللہ چشتی سے حاصل تھی اور انہیں حضرت راجا بن تقی چشتی سے، اور انہیں حضرت شیخ پیارہ سے، اور انہیں حضرت سید محمد گیسو دراز بندہ نواز سے حاصل تھی۔ (بیاض شاہ سجاد جعفری بہاری، ص ۲۷۵)

    صوبۂ بہار میں یہ خانوادہ سلسلۂ طریقت کے ساتھ ساتھ آل و اولاد میں ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔

    مجھ سابھی صحیح النسب اکبرؔ کوئی کیا کم ہے

    سلسلہ اپنا کسی زلف سے جا ملتا ہے

    (حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری)

    خواجہ عبداللہ چشتی قدس سرہٗ کے بعد خانوادۂ مودودیہ کو حضرت تاج محمود حقانی قدس سرہٗ سے خوب شہرت و عظمت ملی، دور دور تک رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری ہوا، اللہ والوں کا پلہ بھاری ہوا، بے دینوں کا منہ کالا ہوا، اس طرح خانوادۂ مودودیہ تصوف کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہا۔

    خانقاہ چشتیہ مودودیہ، شیخ پورہ خرد بہار کی ان معتبر چشتی خانقاہوں میں سے ایک ہے، جس نے تربیت و تزکیۂ نفس کے ساتھ خدمتِ خلق کا جذبہ اور ولولہ پیدا کیا۔

    اس خانقاہ میں یکے بعد دیگرے کئی مقدس ہستیاں سجادہ پر جلوس افروز ہوئیں، مگر ان میں حضرت سید شاہ احمد ؔ حسین چشتی قدس سرہٗ کا نام نمایاں طور پر شامل ہے، جنہوں نے خانقاہ چشتیہ مودودیہ کی نشاۃ ثانیہ کا کارنامہ انجام دیا۔

    دولت و ثروت، رسوخ و نفوذ، شاہی فرامین اور سجادہ نشینی تو پہلے سے چلی آ رہی تھی، لیکن اس کے ساتھ علم و دانش، عقل و فہم اور رشد و ہدایت حضرت شاہ احمد حسین کا خاصہ رہا۔

    آپ ہی کے ذریعہ سے خانقاہ چشتیہ مودودیہ کی تاریخ، مریدان و معتقدان، مسترشدان اور قلمی بیاض و سفینہ جات کے ساتھ افعال و اقوال نیز تذکرۂ سجادگان ذیشان و نسب نامہ والاشان کا خاکہ بھی ظاہر ہوا۔(روح سخن، ص ۱۳)

    حضرت شاہ احمدؔ حسین 1272 ھ میں پیدا ہوئے اور 14 ربیع الاول 1341 ھ میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے، اس دوران آپ نے مختلف کارنامے انجام دیے۔

    آپ سادات حسینی ہیں، سلسلہ نسب پدری حضرت خواجہ عبداللہ چشتی سے اس طرح ملتا ہے کہ

    احمد حسین ابن شجاعت حسین ابن فخرالدین حسین ابن رحمان حسین ابن خواجہ ملیح ابن خواجہ فصیح ابن خواجہ عنایت اللہ ابن خواجہ تاج الدین محمود حقانی ابن خواجہ قطب الدین ثانی ابن خواجہ عبداللہ چشتی۔ (مخزن الانساب، ص ۵۶)

    آپ کا ذکر خیر حضرت شاہ حسین الدین احمد منعمی (متوفی 1358 ھ) نے کیفیت العارفین کے ضمیمہ میں تحریر فرمایا ہے کہ

    ’’آپ بچپن سے اپنے خالو حضرت سید شاہ عطا حسین قدس سرہٗ کے یہاں پرورش پائی، چونکہ آپ کے والد ماجد سید شجاعت حسین ابن سید شاہ فخرالدین حسین کو اپنے والد ماجد سے بیعت کا اتفاق نہ ہوا تھا، اور حضرت سید شاہ عطا حسین قدس سرہٗ کو آپ کے آبائی سلسلہ کی اجازت آپ کے والد سے تھی، اس لیے آپ انہیں سے مرید ہوئے اور اپنے لڑکے سید شاہ احمد حسین کو کم سنی میں آپ کے سپرد کیا، آپ نے علم ظاہری کی تحصیل حضرت مولوی سید شاہ ظہور الدین حسین سے کی، بعد حصول علمِ ظاہر اپنے خالو حضرت سید شاہ عطا حسین قدس سرہٗ سے مرید ہوئے اور اپنے آبائی سلسلہ و نیز منعمیہ سلاسل کی اجازت و ماذون ہو کر خلافت سے بھی سرفراز ہوئے، حضرت ہی کے زمانہ میں اپنے آبائی سلسلہ کی سجادگی پر متمکن ہوئے اور فیض بخشی کرنے لگے، آپ کے فیض کا عام چرچا ہوا، خصوصاً ضلع ہزاری باغ میں ایک خلقت آپ کے حلقہ بگوش ہو کر آپ سے مرید ہوئی۔

    آپ کے دو صاحبزادے سید شاہ سلطان احمد و سید شاہ محمد قاسم ہیں، اپنے والد کے انتقال کے وقت دونوں کم سن تھے، اس لیے اُن سے بیعت کا اتفاق نہیں ہوا، بدین وجہ دونوں صاحبزادے پھلواری شریف میں فیاض العالمین حضرت سید شاہ بدرالدین رحمۃ اللہ علیہ، سجادہ نشین خانقاہ مجیبیہ، سے مرید ہوئے۔‘‘ (ضمیمہ کیفیت العارفین، ص ۱۹)

    آپ اپنے والد حضرت شاہ شجاعت حسین (متوفی 1308 ھ) کے حکم پر حضرت شاہ عطا حسین فانیؔ (متوفی 1311 ھ) سے سلسلۂ چشتیہ منعمیہ میں بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت سے نوازے گئے، انہیں جملہ اوراد و وظائف، مثلاً دلائل الخیرات، حزب البحراور، سورہ مزمل با مؤکل بروایت مخدوم حسن علی منعمی کی اجازت بھی پہنچی، اس کے علاوہ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری (متوفی 1327 ھ) سے چند اعمال و وظائف کی اجازت بھی ملی۔

    آپ جید عالم دین، شریں خطیب اور پُرکشش لب و لہجے کے مالک تھے، بیشتر کرامات کا ظہور بھی آپ کی ذات سے ہوتا رہا۔

    حلقۂ مریدین و معتقدین بھی کافی و وافی تھا، بعض حضرات کو آپ سے اجازت و خلافت بھی ملی، اور وہ یہ ہیں۔

    حضرت سید شاہ سبحان احمد چشتی (صاحبزادہ اکبر)

    حضرت سید شاہ سلطان احمد چشتی (صاحبزادے و جانشین)

    حضرت سید شاہ قاسم احمد چشتی (صاحبزادہ اصغر)

    حضرت سید شاہ حسین الدین احمد منعمی (رام ساگر، گیا)

    حضرت سید شاہ شمس الضحیٰ چشتی (رجہت، نوادہ)

    آپ کا انتقال 14 ربیع الاول 1341 ھ میں، تقریباً ستر سال کی عمر میں ہوا، سید اسیرالدین احمد اسیرؔ بازید پوری نے قطعہ تاریخ رحلت لکھی ہے کہ

    شاہ احمد حسین نیک صفات

    زیں جہاں رفت سوئے رب جلیل

    سال رحلت اسیرؔ ہافت گفت

    قدوۃ العارفین شاہ جمیل

    1341 ھ

    حضرت شاہ احمد حسین چشتی عالم دین، فاضل متین اور صاحبِ یقین بزرگ ہیں، ان کی طبیعت پر شعر و شاعری کا اثر خوب تھا کہ

    دل بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

    پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کرنے لگے، غزل، رباعی، قصیدہ، قطعہ، مناجات اور نعت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالیں آپ سے روشن ہیں۔

    آپ کے اشعار وارداتِ قلبی کے ترجمان ہیں، اشعار میں فکر کی نازگی، خیالات کی پاکیزگی عیاں ہے۔ شاعری کے لیے تشبیہ و استعارہ کی اہمیت بھی ان پر واضح تھی۔ اچھی تشبیہیں استعمال کرتے تھے، مگر اس فن میں زیادہ دلچسپی نہیں لی اور یہ سلسلہ کسی موڑ پر تھم سا گیا۔

    چند اشعار نمونہ کے طور پر پیشِ خدمت ہیں۔

    مناجات

    یا الٰہی نیک رستہ پر چلا

    کر ہمارا دین و دنیا میں بھلا

    دین احمد پر مجھے رکنا مقیم

    تو بتا ہم کو صراط مستقیم

    وقت مرنے کے مجھے لیا بچا

    اے مرے مالک برائے انبیا

    اور عذاب قبر سے مجھ کو بچا

    اے مرے خالق برائے اولیا

    اور مصنف اس کا احمدؔ اے خدا

    بخش اس کو تو برج مصطفیٰ

    قصیدہ

    جمال دِلرُبا اپنا دیکھا دو یارسول اللہ

    براہ لطف کچھ مژدہ سنادو یارسول اللہ

    کریں جس دم سوال آ کر فرشتہ قبر میں مرے

    زباں میری نہ ہو خاموش اس دم یارسول اللہ

    خدایا اک نظر مجھ کو دیکھا تو مدینہ کو

    میں بھولا ہوں مجھے رستہ بتادو یارسول اللہ

    نہیں جز آپ کے کوئی ہمارا روز محشر میں

    گناہیں اب خداسے بخشوادو یارسول اللہ

    بہت کی فکر اے احمدؔ وے کیا فائدہ دیکھا

    کہیں اس کو وسیلہ سے لگادو یارسول اللہ

    نہیں اٹھیے گا غم میرے جگر سے روز محشر تک

    طفیل پنجتن اس کو مٹادو یارسول اللہ

    کہاں مجھ کو توقع ہے کہ بخشے جائیں گے ہم بھی

    حشر کہ صدمہ سے مجھ کو بچا لو یارسول اللہ

    قطعہ

    میں ڈوبا ہوں محبت میں تمہارے یارسول اللہ

    میری حالت نہیں تم سے چھپی ہے یارسول اللہ

    میں صابر اور شاکر اور صادق ہوں

    محبت میں تمہارے یارسول اللہ

    میں بہت حیراں ہوں آلودگی سے اپنے

    بھروسہ ہے مجھے ہردم تمہارا یارسول اللہ

    نہیں ڈر ہے نکیر اور منکر کا

    جو ڈر ہے تو ہے تمہارا یارسول اللہ

    بقیہ کلام ’’کلام احمدی‘‘ میں موجود ہے۔

    ایک صوفی کے لیے شاعری وقت گزارنے کا ایک ذریعہ ہے جو اس کے خیالات اور افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے دل میں لگی ہوئی آگ کو گلنار بنانے کا کام اسی فن کا ہے۔

    الغرض احمدؔ شیخ پوروی اپنے عہد میں نالندہ کے معروف شعرا سے اگر آگے نہیں جاتے تو بہت پیچھے بھی نہیں ہیں، یہ اور بات ہے کہ

    خدا کی دَین ہے انسان کا مشہور ہونا

    (شادؔ عظیم آبادی)

    شعر و سخن کی طرح آپ کو تصنیف و تالیف سے بھی گہرا شوق تھا۔ آپ کے متعدد رسالے ہیں جو غیر مطبوعہ ہیں، ان رسائل میں قابل ذکر ہیں۔

    یادگار احمدی، کلام احمدی، مجربات احمدی، قوانین نقشیات، گنجینۂ ادعیات احمدی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے