تبصرہ : ’’بہار میں رثائی ادب آغاز وارتقا‘‘
ابھی کچھ مہینے قبل، سلطان آزاد صاحب کی ایک نئی کتاب ’’بہار میں رثائی ادب- آغاز و ارتقا‘‘ موصول ہوئی، جو اپنے موضوع کے اعتبار اور معیار سے گراں قدر ہے۔ موصوف نے نہایت تلاش و تحقیق کے بعد یہ قیمتی سرمایہ تیار کیا ہے۔ ۱۵۲؍ صفحات کی کتاب کو آزاد نے چار ادوار میں تقسیم کر دیا ہے۔ آغاز اور ابتدائی دور سے پہلے بہار میں رثائی ادب پر نہایت مدلل، تحقیقی اور معلوماتی گفتگو کی گئی ہے، جیسے کہ بہار میں رثائی ادب کی تاریخ، دانشوروں اور راویوں کی آرا، سلسلۂ آغاز، صوفیائے کرام کا حصہ، اس صنف میں جدت اور ندرت پیدا کرنے کی ابتدا، مرزا دبیر کی تقلید، پھلواری شریف کے صوفی شعرا کی مرثیہ نگاری کی ابتدا، رثائی ادب کی مطبوعہ کتابوں کی فہرست اور کچھ قلمی نسخوں کا بھی تذکرہ۔
کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف اور خانقاہ عمادیہ، منگل تالاب میں اس عنوان سے متعلق بعض نسخے پائے جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آزاد کے اس علمی شاہکار کو دیکھنے والے ضرور دیکھیں گے اور پڑھنے والے ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔
اس کے بعد آزاد نے بہار کی رثائی ادب کو سمجھنے کے لیے تحقیقی اعتبار سے بالترتیب چار ادوار قائم کیے ہیں، تاکہ ارتقائی منزل تک آسانی سے پہنچا جا سکے:
(۱) آغاز اور ابتدائی دور
(۲) تعمیری دور
(۳) ارتقائی دور
(۴) جدید دور
آغاز اور ابتدائی دور میں زیادہ تر صوفی شعرا کا تذکرہ ہے، جس میں آیت اللہ جوہریؔ، نورالحق طپاںؔ، راسخؔ عظیم آبادی، ظہورؔ عمادی، فردؔ پھلواروی وغیرہ نمایاں ہیں۔
آزادؔ نے اپنی کتاب کا آغاز آیت اللہ جوہریؔ سے کیا ہے۔ یہ سوداؔ کے معاصر اور پھلواری شریف کے معروف فارسی گو شاعر ہیں۔ ایک بند بطور نمونہ مراثی، جس میں مقامی زبان کا بھی استعمال ہے، ملاحظہ ہو:
اکبر ہمرا راج دلارا
اکبر ہمرے نینوں کا تارا
ہائے مدے ہمرا اکبر پیارا
تو ہے کس نے مارا بن میں
(اسی کتاب سے)
اب تعمیری دور کا تذکرہ ہے، جس میں فضل حق آزادؔ، صفیرؔ بلگرامی، شادؔ عظیم آبادی، حامدؔ عظیم آبادی، بدرالدین احمد بدرؔ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ عہد بہار میں مرثیہ کی ترقی کے لیے نہایت سازگار ثابت ہوا، ارتقائی منزلیں طے کیں، زبان صاف ہوئی، بہترین کہنے کا رواج چل پڑا اور عظیم آباد دبستان کہلایا۔
تیسرا مرحلہ، ارتقائی دور، کا آغاز ہوتا ہے، جس میں احسنؔ رضوی داناپوری، عطاؔ کاکوی، جمیلؔ مظہری، نادمؔ بلخی وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ دور بھی رثائی ادب کے لیے بڑا قیمتی رہا ہے، خاص طور پر احسنؔ رضوی داناپوری اس فن میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔
آخری دور، دور جدیدیت، کا ہے، جب وقت کی کمی اور مصروفیت زیادہ ہے۔ اب اس صنف میں بہت کم کہنے والے ہیں۔ آزاد نے گوہرؔ شیخ پوروی، متینؔ عمادی، حسن نواب حسنؔ وغیرہ کو دور جدید کا شاعر قرار دیا ہے۔ چار ادوار کے تحت کل ترانوے (۹۳) رثائی شعرا کی بازیافت کی گئی ہے، جو قابل قدر ہے۔
امید قوی ہے کہ دبستان کی طرح رثائی ادب سے بھی لوگ استفادہ کریں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.