تبصرہ : ’’حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری حیات و خدمات‘‘ پر اک طائرانہ نظر

تبصرہ : ’’حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری حیات و خدمات‘‘ پر اک طائرانہ نظر
ریان ابوالعلائی
MORE BYریان ابوالعلائی
زیر نظر کتاب ’’حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری شطاری حیات و خدمات‘‘ محبی و مکرمی مولانا محمد محسن خاں زادِ محبتہ کی تصنیف لطیف ہے۔ زمانہ طفلی ہی سے غوث گوالیاری اور خواجہ خانون قدس اسرارہم کے کارنامے اپنے بزرگوں سے سنتا آرہا ہوں، کیونکہ شہر گوالیار کو قدیم زمانے سے صوفیائے کرام کے مسکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ راقم کا طریقہ ابوالعلائیہ شہر گوالیار کے قرب و جوار میں خوب پھلا اور پھولا، جس کی رمق آج بھی باقی ہے۔
آمد برسرِ مطلب، جناب محسن خاں نے ’’حضرت شاہ غوث گوالیاری حیات و خدمات‘‘ کے عنوان سے آپ کی شخصیت کے تمام تر پہلؤوں کو منصۂ ظہور پر لانے کی سعی پیہم کی ہے، جس کے لیے وہ ہر مکتبہ فکر و نظر سے مبارکباد کے قابل ہیں۔ مذکورہ کتاب اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے فی زمانہ کمیاب نظر آتی ہے۔
عمر گزری آپ کی رحلت کو، مگر چھوڑے ہوئے قلمی سرمایہ، ریاض اور مسترشدوں کی طویل فہرست سے انسانیت نواز چہرہ اور امن و شانتی کی وجہ سے آج بھی ممتاز نظر آتی ہے۔ شہر گوالیار کو جو نسبت آپ کی ذات سے حاصل ہوئی ہے، وہ شاید ہی کسی دوسرے بزرگ سے حاصل ہو۔ مطالعہ کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مؤلف نے جس کمال محنت سے حضرت کے تمام تر اوصاف و کمالات کو سمیٹنے کی کوشش کی، وہ ناقابل فراموش ہے۔ الفاظ کا عمدہ استعمال اور اسلوب کا خاص خیال رکھا گیا ہے، جگہ جگہ ماخذ و منابع سے کتاب کی اہمیت اور مؤلف کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو رہا ہے۔
کتاب مختصر ہے مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے جامع ہے۔ موصوف نے تقریباً چالیس سُرخیاں لگائی ہیں۔ ابتدا میں سلسلۂ شطاریہ کا پس منظر اور اس کی خصوصیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، حضرت کی مکمل سیرت و کردار کے علاوہ ہمایوں، شیر شاہ سوری وغیرہ سے عقیدتمندانہ تعلقات کو بھی مختصراً شامل کیا گیا ہے۔ مریدین، مسترشدین، معتقدین اور قلمی بیاض کے ساتھ افعال و اقوال نیز سجادگانِ ذیشان غوث گوالیاری کا خاکہ بھی انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔
واضح ہو کہ مؤلف نے حضرت کی سوانح کے ساتھ ہی ساتھ شاہانِ زمانہ پر بھی قلم اُٹھایا، جو تاریخ کا ایک ذریں باب ہے۔ جب بھی آپ کی سیرت و سوانح کو روشناس کرایا جائے گا، تب تک ان شاہوں کے فرامین اور شقیں بہت سندی طور پر بیان کی جاتی رہیں گی۔
اس کتاب میں عطاء محمد خاں المشتہر بہ تان سین جی، جو فن موسیقی میں بے نظیر ہیں، کا خاکہ بڑا دل نواز اور دل گداز لگا۔ تان سین کے حیات سے باخبر ہونے کے لیے مذکورہ کتاب مطالعہ ضرور کریں۔ یقین جانیے مؤلف نے کس قدر تحقیق و تدقیق کے کن کن مراحل و مقامات سے گزر کر مواد کو یکجا کیا اور اپنے مقصد میں کامیاب و کامران ہوئے۔ ورنہ کم علم کی یہ سوچ ہمیشہ قائم رہتی کہ ‘‘Mia'n Tanseen is a Hindu Religious’’۔
جیسا کہ مؤلف کی عبارت سے ظاہر ہو رہا ہے:
’’اکثر و بیشتر لوگ میاں تان سین کو غیر مسلم تصور کرتے ہیں، شاہ غوث علیہ الرحمہ کی سیرت کا مطالعہ سے پہلے راقم کا بھی یہی گمان تھا، مگر فی الحقیقت تان سین نہ صرف فیضانِ اسلام سے مشرف ہوئے بلکہ سیدنا غوث گوالیاری کے مرید بھی تھے۔‘‘
الغرض: جب حضرت شاہ غوث گوالیاری نے اپنے طالبوں کو بڑے انہماک و ارتاز کے ساتھ تعلیم و تربیت اور تلقین سے نوازا، جس کی جھلک شہر گوالیار اور گجرات کی آب و ہوا میں آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ سیاسی استواری ہو یا معاشی خوشحالی، ہمیشہ صوفیائے کرام کا خاصان و عامیان کے درمیان غلبہ و دبدبہ رہا، بلکہ ایسی خاک و پاک ہستی کے قدم ناز میں شاہانِ زمانہ بھی افتخار محسوس کرتے ہیں۔
المختصر: کتاب اپنے موضوع کے اعتبار و ارزش سے بے نظیر معلوم ہوئی۔ 104 صفحات پر محیط یہ جناب کی پہلی کاوش ہے۔ قلم کی نوخیزی اور زبان کی روانی اصول و لوازم کے پیرو ہے۔ مؤلف کو ڈاکٹر مسعود احمد مظہری کے چھوڑے ہوئے ’’حیات غوث گوالیاری‘‘ کے علمی نقوش کو پوری کرنے کی اُمنگ ہمیشہ سے دل میں رہی۔
مجھ ناشاد کے بس کی بات نہیں کہ ایسی جامع شخصیت پر تبصرہ کروں۔ جب کتاب پر پہلی نظر پڑی تو بڑی جاذب نظر معلوم ہوئی، رفتہ رفتہ اشتیاق میں اضافہ ہوا اور امید بر آئی۔ مؤلف کتاب ہذا محبی و مکرمی مولانا محمد محسن خاں صاحب سے بڑے دیرینہ تعلقات رکھتے ہیں۔ موصوف ہمارے ہم درس تقریباً تین برس تک تعلیمی سلسلہ ساتھ ساتھ رہا، اس لیے شروع سے واقف رہا۔ ابتدائی مراحل ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق و ذوق رہا اور مطالعہ حرزِ جان رہا۔
سیاسی معاملات ہوں یا صوفیانہ غرض، ادیان و مذاہب پر بھی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بیتے ہوئے شب و روز، زندگی کے خوش نصیب لمحات میں سے ایک ہیں۔ موصوف مشرباً قادری ہیں اور شہر گوالیار ان کا مسکن ہے، جو مجھ ناشاد کا شروع سے یہاں کی خاک سے رشتہ رہا ہے۔
مولیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے قلم کو زور بخشے اور پھر ایسے ہی کوئی علمی تحریر سے روشناس کراتے رہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.