Font by Mehr Nastaliq Web

گوالیار سے بھنڈ اور بھنڈ سے گوالیار تک

ریان ابوالعلائی

گوالیار سے بھنڈ اور بھنڈ سے گوالیار تک

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    ہندوستان کا ہر شہر اپنے اندر ان گنت تاریخی قصے، کہانیاں اور آثار سمیٹے ہوئے ہے۔ جہاں بھی جائیں، ایک نایاب قصہ، روایت یا نشانی ضرور ملتی ہے۔ مستند واقعات کے ساتھ ساتھ یہاں Mythology کا بھی گہرا دخل ہے، اس لیے ہر کہانی پر غور و فکر اور چھانٹ پرکھ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کا اثر دنیا پر کتنا ہے، کہنا مشکل ہے، مگر ہندوستان میں بعض قصے ایسے شدت و حدت سے سنائے جاتے ہیں کہ سامع اسے حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔

    آج تاریخ ۲۷ نومبر ۲۰۲۱ء ہے۔ ہم دہلی سے ریل کے ذریعے گوالیار پہنچے، اور اسٹیشن پر خلیل احمد نے ہمارا استقبال کیا، جو ہمارے حضرت کے سلسلے میں داخل اور بے حد محبتی ہیں۔ فوراً وہ ہمیں گاڑی پر بٹھا کر اپنے مکان لے گئے۔ تھوڑے وقفہ آرام اور خورد و نوش کے بعد، ان کے چھوٹے صاحبزادے کے ساتھ سیر پر نکلے۔

    سب سے پہلے ہم قلعہ کی طرف بڑھے۔ یہ قلعہ ہماری فرودگاہ سے بہت قریب ہے اور چند منٹوں میں پہنچ گئے۔ قلعے کے اوپری حصے تک پہنچنے کے لیے بڑی ہمت اور جذبے کی ضرورت تھی، کیونکہ یہ زمین سے تقریباً ۳۰۰ سے ۵۰۰ میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ ابھی سفر تازہ تھا، اس لیے فوراً اللہ کا نام لے کر چڑھ گئے۔ لشتم پشتم اوپر پہنچا، کچھ وقفہ دیوار کا سہارا لیتے ہوئے تازہ سانسیں لیں، اور پھر آگے بڑھے۔

    یہ قلعہ راجپوت حکمران مان سنگھ تومر نے بنایا تھا، جو ۱۴۸۶ء میں تخت نشیں ہوا۔ اس قلعے پر لودی حکومت، خاندانِ غلاماں، مغلیہ حکومت، برطانوی حکومت اور سندھیا خاندان نے نمایاں عمارتیں تعمیر کرائی ہیں۔

    کہتے ہیں کہ شہر گوالیار کے درمیانی حصے میں چھ کلومیٹر اونچا گوپ اَچل نامی ایک پربت ہے، جس پر گوالیار قلعہ قائم ہے۔ شمالی علاقہ کیتوراج سورج سین جب شکار کے لیے نکلا تو اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور گوپ اَچل پربت پر پہنچا، جہاں رشی گوالی پا سے اس کی ملاقات ہوئی۔ رشی کے کہنے پر راجہ نے پربت پر غسل کیا، جس سے اس کے جذام کے عارضے سے نجات ملی۔ راجہ نے پربت کے چاروں جانب احاطے کی دیوار اور پختہ حوض بنایا، جو سورج کنڈ کے نام سے مشہور ہے۔ رشی گوالی پا نے راجہ سورج سین کو سورج پال کا نام دیا اور فرمایا کہ جب تک تیرے وارثان میں پال لفظ رہے گا، گاتیری حکومت قائم رہے گی۔

    راجہ سورج پال نے رشی گوالی پا کے نام پر اس علاقے کا نام گوالی اَر رکھا۔ ہندی میں اَر کے معنی گوشہ ہیں، یعنی گوالی کا علاقہ۔ یوں گوالیار کا نام گوالیّر کے طور پر مشہور ہوا، اور ہندی رسم الخط میں گوالیّر لکھا جاتا ہے، جبکہ اردو میں گوالیار لکھا جاتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ یہاں ۸۴ پال راجاؤں نے حکومت کی۔ ۱۰۲۱ میں محمود غزنوی نے گوالیار کو اپنے محاصرے میں لے لیا، اور اس وقت کے راجہ کیرتی پال نے محمود غزنوی سے صلح کرلی۔ اس عہد سے گوالیار میں مسلمان بستے ہوئے ملے اور اسی وقت سے یہاں ملی جلی زبان کے چلن کی ابتدا ہوئی۔ ۱۱۹۲ میں محمد غوری نے بھی گوالیار پر قبضہ کیا، مگر راجہ سارنگ دیو نے سخت مقابلے کے بعد محمد غوری سے سمجھوتہ کر لیا۔ بعد میں قطب الدین ایبک نے شمس الدین التمش کو گوالیار قلعہ کا امیر مقرر کیا۔

    تذکرہ بابری میں ظہیر الدین بابر کے گوالیار آنے کا ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے نظام مندر اور گوجری محل کی خوبصورتی اور وہاں رکھے مجسمے کا جائزہ لیا، مجسمہ سازی، سنگ تراشی اور صنّاعی کی بے حد تعریف کی، مگر برہنہ بُت دیکھنا انہیں پسند نہ آیا۔ سوری سلطنت کا آخری بادشاہ عادل شاہ سوری گوالیار کو راجدھانی بنانا چاہتا تھا۔ اسے موسیقی کا خاص شغف تھا، اور گوالیار میں اس نے اس فن کو فروغ دیا۔ اس کے دربار میں بابارام داس، گوپال اور تان سین گلوکار شامل تھے۔

    ہم قلعے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص سرخ لباس پہنے راون ہتھّا لیے راجستھانی دھن بنا رہا تھا۔ آنے جانے والے رک کر اسے سنتے اور چند روپے اس کی جھولی میں ڈال دیتے۔ ہمیں اس کا فن بہت اچھا لگا۔ تھوڑے وقفہ سن کر ہم آگے بڑھے اور ۸۰ کھمبوں والی باؤلی میں داخل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ یہ پہلے شِوامندر تھا، جسے جہاںگیر نے قیدخانے میں تبدیل کر دیا، اور اس کے متصل ایک باؤلی بھی ہے، جس میں تھوڑی سی جگہ چہل قدمی کے لیے چھوڑی گئی ہے۔

    یہ قلعہ ہندوستانی اور ایرانی تعمیر کا بہترین مرقع ہے، جہاں مان سنگھ تومر کے علاوہ مغلیہ حکومت کی تعمیرات کا بھی ایک بڑا حصہ موجود ہے۔ ہم دیوانِ عام کی طرف بڑھے، یہ وسیع و عریض پیمانے پر تعمیر شدہ قیمتی عمارت ہے، جسے بلواہی مٹی اور نیلے پیلے رنگ سے رنگا گیا ہے۔ دیواروں پر مختلف جانوروں کی تصویریں بنی ہیں، اور قلعے سے پورا شہر واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔

    انگریزی حکومت کے عہد میں یہ عمارت مقدوش ہوئی، تو انیسویں صدی میں سندھیا خاندان نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ اس کے علاوہ مان مندر، سورج کنڈ، گنگولا تل، جوہر کنڈ، کرن محل، تیلی کا مندر، گرودوارہ، شہسترباہو مندر، داتابندی چھور، ہاتھی پول، وِکرم محل، چھتری آف بھیم سنگھ رانا، جہاںگیر محل، فوج کیمپ اور جیل خانہ بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔

    اب یہ قلعہ قلعہ کم اور قیدخانہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ خاموش پڑا یہ قلعہ اپنی حسرت پر سربسجود ہے۔ اس کا اکثر حصہ زیرزمین ہو چکا ہے، بڑے بڑے مکان جو اس کی زینت بڑھاتے تھے وہ مقدوش ہوچکے ہیں، اور دور دور تک میدان ہی میدان ہے۔

    کہتے ہیں کہ جہاںگیر نے مجدد الف ثانی، شیخ احمد سرہندی کو اسی قلعے میں قید کیا تھا۔ دو تین گھنٹے کی سیر کے بعد ہم ہاتھی دروازہ کی طرف سے باہر نکلے۔

    عصربعد سیدھے موتی مسجد کی طرف بڑھے۔ اب مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ مسجد دو مینارہ ہے، باہر ایک خوشنما باغ اور کچھ لمبی کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ موسم خوشگوار اور فضا معطر تھی۔ یہ مسجد لبِ شاہراہ اسٹیشن سے قریب ہے اور اپنی قطع کی عمدہ مثال ہے۔ مادھوراؤ سندھیا کے عہد میں سید احمد شفیع نے تعمیر کرائی۔ صدروازہ پر درج عبارت اور قطعہ کچھ یوں ہے۔

    مسجد احمد شفیع

    لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ

    ہیں سری سرکار مادھو راؤ عالی جاہ نبیل

    جب اسے بنوا چکے تب صدا آئی جلیل

    موتی مسجد موتیوں والے نے بنوادی جمیل

    شکل کیا ہی اچھی ہوئی ہے عکس تعمیرِ خلیل

    اندرونی حصے میں مضطرؔ خیرآبادی کا قطعہ درج ہے۔

    سری سرکار مادھو راؤ نے اس کی بنا ڈالی

    کسی خلق نہ دربار عالی جاہ کہنی ہے

    سنِ تعمیر اس کا میں نے یہ موزوں کیا مضطرؔ

    کہ ایں مسجد کو دنیا عکس بیت اللہ کہتی ہے

    واقعی یہ مسجد دلکش منظر پیش کر رہی تھی۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم اپنی فرودگاہ پر واپس آئے۔ کچھ لوگ ملنے کے لیے آئے، اور جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کے پوتے آئے ہیں تو بڑی عقیدت سے پیش آئے۔ پرانے قصے اور واقعات کی چھانٹ پرکھ ہوئی، اور بعض ضروری معلومات بھی ان تک پہنچائی گئیں۔ چائے چل رہی تھی اور رات کے ۱۲ بج رہے تھے کہ ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ انہیں کل صبح بھنڈ جانا ہے، تو وہ لوگ اٹھ کر چل دیے۔

    آج ۲۸ نومبر، اتوار کا دن تھا۔ صبح فارغ ہو کر ہم بھنڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں ایک بڑے بزرگ حضرت سبحان علی کا آستانہ ہے۔ کہتے ہیں کہ خواجہ معین الدین چشتی کے دور سے کچھ لوگ یہاں قیام پذیر ہوئے۔ یہاں آپ کے علاوہ تقریباً بائیس شہدا کے مزارات ہیں، جن کی دیکھ بھال حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی اور ان کے خاندان کے افراد کرتے چلے آ رہے ہیں۔

    حضرت کے چھوٹے صاحبزادے، حضرت شاہ نصر سجاد ابوالعلائی، اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ مختلف گاؤں اور محلے کی سیر کے بعد ہم بھنڈ کے مؤ بازار واقع بس اسٹینڈ پہنچے۔ چوراہے مختلف رنگ برنگ کے ساز و سامان سے چمک رہے تھے۔ چھوٹے بڑے، بچے بچیاں سب بازار کی رونق دیکھنے جمع تھے۔ مولانا جلال الدین رومیؔ اور امیر خسروؔ کا کلام قوال پڑھ رہے تھے۔ میوہ، حلوہ اور پراٹھے کی دکانیں گھی اور تیل میں لبالب تھیں۔

    جہاں دیکھیں، وہاں لوگ عرس کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ ہمیں لینے کے لیے پہلے سے کھڑے تھے۔ سلام وکلام کے بعد جھٹ پٹ ہمارا سامان لیا گیا اور بڑے ادب سے آستانہ کی طرف جانے کا اشارہ کیا گیا۔ حضرت سبحان علی کا آستانہ مؤ کے صدر بازار چوراہے پر واقع ہے، جہاں حضرت شاہ نصر سجاد ابوالعلائی ہماری راہ دیکھ رہے تھے۔ تسلیمات کے بعد انہوں نے سفر کی مختصر روداد سنائی۔

    بات چیت کے دوران لوگ چائے اور مٹھائیاں لے آئے۔ ہم نے تھوڑی مٹھائیاں لی اور لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ اب یہاں عرس کی تیاریاں جاری تھیں، اور لوگ انتظامی امور میں مصروف تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد محفلِ سماع شروع ہوئی۔ قوال نے سراجؔ اورنگ آبادی کی غزل چھیڑی۔ تھوڑی دیر محفل چلی، پھر بستی کے اندر ٹیلے پر محفل گرم ہوئی۔ شاہ نیاز احمد بریلوی کا کلام بھی پڑھا گیا اور چادر کی رسم شروع ہوئی:

    خواجہ خواجگاں کی چادر ہے

    قوال بستی سے آستانہ کی طرف چل پڑے۔ نماز کے بعد صندل پوشی کی رسم ادا کی گئی، اور بستی کے تمام افراد اس رسم میں موجود تھے۔ فاتحہ کے بعد حجرے میں گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہا۔ عشاق کی نماز کے بعد محفلِ تذکیر شروع ہوئی۔ چند لوگوں نے نعت خوانی کی، اور آخر میں راقم نے تقریر کی۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد سلام و دعا پر محفل ختم ہوئی۔ سامعین داد و تحسین دینے لگے اور سب ایک دوسرے سے کہتے۔

    ہم نے صوفیائے کرام کے حوالے سے یہ گفتگو تو سنی ہی نہیں

    ہم نے اپنے نفس کو جھٹ سے مارا اور کہا کہ: میں اپنے کلام کو بہتر نہیں سمجھتا، یہ سب بزرگوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ تھوڑی دیر بعد محفل گرم ہوئی اور غزل گانے والے نے بہترین غزل سنائی۔ سفر کی تھکان اور دن بھر کی مصروفیت نے دستک دی، اور ہم نے آرام کیا۔

    آج ۲۹ نومبر، پیر کا دن ہے۔ کل سے زیادہ چہل پہل ہے۔ لوگوں کا آنا جانا، ہم آہمی، قوالوں کی دھن اور بازاروں کی رونق میں تین گونا اضافہ ہوا۔ اشراق کے وقت سے محفل شروع ہوئی۔ آگرے، سنبھل اور ناگپور کے قوالوں نے ایسی دھن بنائی کہ ہر بچہ، جوان اور بوڑھا دل ہی دل میں جھوم رہا تھا۔ محفل میں جب حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا کلام

    اے آگرے والے

    پڑھا گیا تو گویا محفل میں قیامت برپا ہو گئی۔ ہر سامع جو بیٹھا تھا، چند لمحوں کے لیے کھڑا ہو گیا۔ قبلِ ظہرت تک محفل گرم رہی۔ فاتحہ کا وقت آیا تو لوگ آستانہ کے چاروں جانب جمع ہوگئے۔ دعا کا سلسلہ شروع ہوا، امن و امان اور خیر سگالی کی دعائیں مانگی گئیں۔ ہر شخص اپنا دامنِ مراد پھیلائے، آنسوؤں سے فریاد کر رہا تھا۔ نوجوان روزگار کی بھیک مانگ رہے تھے، مائیں نیک اولاد کی تمنائیں ظاہر کر رہی تھیں، باپ اپنی بیٹیوں کی سلامتی اور تحفظ کی دعائیں مانگ رہا تھا، اور بچے ہر ایک کی صدا پر آمین کی رٹ لگا رہے تھے۔

    اب ایسے پُرفتن دور میں دعاؤں کا سہارا ہی رہ گیا ہے۔ ہمارے ملک میں فرقہ پرستی کی آگ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کی سات سو سالہ شان و شوکت کا عظیم پرچم خطرے کی راہ پر ڈگمگا رہا ہے۔ ایسے دور میں خدا کے علاوہ کس کے سامنے جھولی پھیلائی جائے؟ حفیظ جالندھری یاد آ رہے ہیں کہ

    کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا

    کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا

    آج چوتھا دن ہے۔ دوپہر کے وقت نامعلوم حضرت شہید کے مزار پر فاتحہ اور نذر و نیاز کا اہتمام ہوا۔ اس کے بعد بستی کے چند مکانات پر محفل کا سلسلہ شروع ہوا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے ہم ہر ایک کے یہاں گئے، اور لوگوں نے بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ اب ہم آستانہ کے حجرے میں آرام کر رہے ہیں، ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، اور طرح طرح کی باتیں، ماضی کے جھروکوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے یادیں تازہ کی جا رہی ہیں۔ آج کی نشست بھی بے حد بہترین رہی، اور ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ مورینا کے مکھیا تشریف لائے اور بڑی خندہ پشانی سے ملاقات ہوئی۔

    آج ۱؍ دسمبر کی صبح روانگی ہے۔ فجر کی نماز کے بعد ہم بھنڈ سے گوالیار پہنچے۔ چونکہ ریل شام کو تھی، اس لیے وقت پورا بھرپور گزرا۔ ہم جامع مسجد کی طرف نکلے، جو عالم گیر بادشاہ کے عہد میں معتمد خان نے تعمیر کرائی۔ صدر دروازہ پر درج عبارت کچھ یوں ہے۔

    الصلوٰۃ جاالمسجدالافی المسجد

    دراواں شاہ عالم گیر عادل دین پناہ

    معتمد خان یافت چوں توفیق با خود رفیق

    حاصل ایں جاہ وایں حمّام وہم ایں حجرہا

    وقف شد بر خدمتہ مسجد بے مان و نوا

    خواہم از شان و از حکام عادل روزگار

    تانیایا لید دست از خالص بہرِ خدا

    باد دائم یارب ایں مسجد بفضل اہلِ دہر

    تابود گیتی و مہرو ماہ وہم ارض و سما

    کِز فروغِ عدل او عالم پذیرفتہ ضیا

    ساخت ایں مسجدمقدس رازصدقِ دل بنا

    اندرداخل ہونے پر درمیانی دروازے کی بلندی پر یہ عبارت اور قطعہ درج ہیں۔

    افضل الذکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

    در زمانِ شاہِ عالم گیر آن کہ

    بردہ فیض از لطف عامش بفریق

    آں شہنشاہی کہ پیشِ جوداو

    بحر در آبِ حیا باشد غریق

    معتمد خان مصدر نورِ یقیں

    شد بفضلِ حق جو توفیقِ رفیق

    کرد برپا مسجدی عالی اساس

    رو طلب کن وضعش از فلزِ دقیق

    سالِ تاریخ بنائش خواستم

    پیردانش گفت کالبیت العتیق

    یہ جامع مسجد گوالیار کی سب سے قیمتی اور تاریخی مساجد میں سے ایک ہے۔ درمیان میں حوض ہے، چاروں طرف بہترین پھول لگے ہیں، اور محراب پر قرآنی آیات کندہ ہیں۔

    ظہر کی نماز کے بعد ہم حضرت عبدالغفور عرف باباکپور کے آستانہ کی طرف بڑھے۔ یہ بزرگ حضرت بدیع الدین مدار کے سلسلے سے وابستہ گوالیار کے متقدم صوفیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ فاضلؔ اکبرآبادی نے انہیں مجذوب لکھا ہے اور سالِ وصال ۹۷۹ھ بتایاہے۔ اندر داخل ہونے پر دائیں جانب حضرت صوفی عبداللہ، بائیں جانب حضرت مراد علی اور حضرت امان اللہ شہباز کا مزار ہے، یہ سب حضرت عبدالغفور کے مرید و مجاز ہیں۔ جگہ کشادہ ہے، اور چاروں جانب بڑے بڑے کمرے اور دالان بنے ہوئے ہیں۔

    یہاں جاننا ضروری ہے کہ شمشیر خان بھی کی تعمیر کردہ مسجد بھی آباد ہے۔ یہ گوالیار کے رئیس اور فوج کے بریگیڈیر رہ چکے ہیں۔ حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری سے نہایت درجہ اعتقاد رکھتے ہیں، اور اپنی صاحبزادی کے ہمراہ ہمیشہ ملاقات کرنے آتے۔ معمول کے مطابق خاموشی سے دو تین گھنٹے بیٹھ کر رخصت ہو جاتے۔ گوالیار اور ہمارے بزرگوں کے قصے اتنے ہیں کہ اگر لکھنا شروع کروں تو گویا ایک مستقل رسالہ تیار ہو جائے۔

    اب ہم حضرت شاہ محمد غوث شطاری کی طرف بڑھے۔ اپنے بڑوں سے ہم نے آپ کے قصے سنے ہیں۔ نہایت کشادہ باغ کے درمیان آپ کا پُرشکو آستانہ جلوہ بکھیر رہا ہے۔ یہ مقبرہ افغانی اور گوالیاری تعمیرسازی کے امتزاج کا خوبصورت نمونہ ہے۔ پتھروں میں تراشے گئے نقش و نگار اور پتھر کی خوبصورت جالیوں نے اسے اپنی مثال آپ بنا دیا ہے۔ اس فن کا دوسرا حصہ بہار کی ریاست پٹنہ میں واقع منیر شریف میں حضرت دولت منیری کا مقبرہ ہے، جسے ابراہیم کانکر نے بنوایا تھا۔ یہ بزرگ عبدالرحیم خان خانان کے پیر و مرشد ہیں۔

    پہنچتے ہی نماز کا وقت ہوا، اذان دی گئی اور لوگ مجھے آگے کر دیا۔ اب ان بیچاروں کو کیا پتہ کہ ہر عبا، چوغہ والا صاحبِ منصب نہیں ہوتا! خیر، ہم نے فاتحہ پڑھی اور باغ کا لطف اٹھایا۔ باہری حصے میں درجنوں مزارات ہیں، جن کے متعلق کہا گیا کہ بعض اندرونی قبریں حضرت کے خاندان کے افراد کی ہیں۔ چند قدم کے فاصلے پر آپ کی والدہ بھی آرام فرما رہی ہیں۔ زیارت کرتے کرتے شام کا وقت ہوگیا۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ، بلبلوں کی سحرانگیز آوازیں، اور درختوں کی تازگی، ساتھ ہلکی سی بارش کے اثرات نے گویا ہمیں جنت کا منظر دکھا دیا۔

    یہیں حضرت کے پائیں تھوڑے فاصلے پر تان سین اور ان کے صاحبزادے بھی آرام فرما رہے ہیں۔ ہندوستان میں موسیقی اور اس کے چاہنے والوں کے لیے تان سین ایک بڑا نام ہے، جو بادشاہ محمد اکبر کے نورتنوں میں سے ایک تھے۔ آخر عہد میں، حسبِ وصیت حضرت کی صحبت میں رہنے لگے اور یہاں دفن ہوئے۔

    اب ہم سیدھے خواجہ سعید الدین احمد خان او چشتی کی درگاہ کی طرف بڑھے۔ سامنے ایک بڑا صدروازہ ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہی ایک چھوٹے سے دروازے میں سر جھکائے اندر گئے۔ یہ حلقہ کافی وسیع و عریض ہے، اور چاروں طرف درجنوں قبریں ہیں۔ ہم نے یہاں فاتحہ پڑھی۔

    سخائے خواجہ خانوں کا ہے تذکرہ گھر گھر

    کوئی خالی نہیں جاتا ہے اس دربار میں آکر

    (ناظرؔ)

    یہ بزرگ مان سنگھ تومر کے عہدِ حکومت میں گوالیار آئے، خانقاہ قائم کی، اور معرفت و وحدانیت کی تلقین فرمائی۔ یہاں ہمارے شیخِ اجل خواجہ ابوالبرکات ابوالعلائی کی صاحبزادی کی قبر اور بندگی شاہ نظام نارنولوی کے والد خواجہ اللہ داد، برادر مکرم خواجہ محمد اسمعیل کے علاوہ یہاں کے سجادگان بندگی شیخ احمد اور بندگی شیخ محی الدین اور اہلیہ وغیرہ کا مزار ہے۔ خواجہ خانون کے مزار کے دائرے میں وہ خود اور ان کی اہلیہ بھی آرام فرما ہیں۔ روزے پر فارسی کے ۲۲ اشعار درج ہیں۔ یہاں باؤلی بھی ہے، مگر اب بند ہے۔ چار پانچ کمرے اور سماع خانہ کے علاوہ مسجد اور وضوخانہ بھی آباد ہیں۔ کچھ وقفے یہاں بیٹھ کر گزارے، اور متولی راشد صاحب سے ملاقات ہوئی، جو اب ضعیف ہوچکے ہیں۔

    اب ہم سیدھے فقیر منزل کی طرف بڑھے، جہاں حضرت علی غمگینؔ کا مزار اور خانقاہ ہے۔ مرزا غالبؔ ان کے بڑے معتقد تھے۔ قادری نسبت کے علاوہ خواجہ ابوالبرکات ابوالعلائی کے مجاز بھی ہیں۔ یہی رنگ ہمیں یہاں کھینچ لایا۔ یہ جگہ پہاڑی پر واقع ہے، اور مختلف طرز کے درجنوں پائے موجود ہیں۔ اوپر چوٹی پر ایک حجرہ ہے جہاں آپ کا مزار فائض البرکات ہے۔ ہم نے فاتحہ پڑھ کر حضرت علی غمگین کے پرپوتے سے ملاقات کی۔ یہ بزرگ بھی اب کافی ضعیف ہوچکے ہیں۔ گفتگو طویل ہوئی۔ ہمارے ساتھی جو ساتھ آئے ہیں، وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ

    ریل کا وقت ہو چکا ہے، پر یہاں تو گفتگو ختم ہی نہیں ہوتی

    چند ایک گھنٹے بعد ہم یہاں سے نکل کر سیدھے حضرت گوالیار اسٹیشن پہنچے۔ وقت کے مطابق ہماری گاڑی جاچکی تھی، مگر بعد میں پتا چلا کہ دہلی جانے والی گاڑی ایک گھنٹے کی تاخیر سے آئے گی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے