ذکرخیر حضرت حکیم شاہ عزیز احمد ابوالعلائی
اس عالم فانی میں کئی ہستیاں نمودار ہوتی ہیں اور پھر اپنے جلووں کے ساتھ رخصت ہو جاتی ہیں، مگر اپنی کردار، انداز و اطوار، گفتار و بیان اور اخلاق و اخلاص یہیں چھوڑ جاتی ہیں۔ انسان چلا جاتا ہے، مگر اپنی اچھائیوں سے ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔ اگر وہ تنگ ہوتا ہے تو لوگ اُس کی بُرائیاں کرکے اُسے یاد کرتے ہیں، اور اگر خوش طبع اور متحمل مزاج ہوتا ہے تو اُس کا تذکرہ کرکے خیر و برکت حاصل کرتے ہیں۔
اسی سلسلے میں عہد رفتہ کی ایک مشہور ہستی گزری ہے، جس کے اوصاف و کمالات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ آپ کی ذات سے ایک انجمن قائم تھی۔
بہت لگتا ہے جی محفل میں اُن کی
وہ اپنی ذات سے اک انجمن ہیں
جہاں بیٹھتے مجمعٔ کثیر لگ جاتا، جو کہتے اس پر داد و تحسین ملنے لگتا۔ ان کی محفل میں خاموشی اور اُداسی کی کوئی جگہ نہ تھی، غم زدہ بھی ان کی صحبت سے کھل کھلا اُٹھتا۔ اس ہستی کا نام نامی حضرت مولانا حکیم سید شاہ عزیز احمد ابوالعُلائی ہے، جن سے آج بھی ایک زمانہ روشن ہے۔
حضرت شاہ عزیز احمد کا تعلق صوبۂ بہار کے موضع کوپا، ضلع پٹنہ سے تھا۔ آپ کے جد امجد حکیم سید سعید القادری، موہلی، ضلع پٹنہ کے رہنے والے تھے۔ چونکہ عقد و مناکحت کوپا ہونے کے سبب ربط و ضبط کچھ ایسا مضبوط تھا کہ مستقل وہی کی بود و باش اختیار کر لی۔ شاہ عزیز احمد کے والد کا نام مولانا سید عبدالرشید قادری تھا، جو اپنے عہد کے ممتاز عالمِ دین اور فاضلِ متین تھے۔ آپ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی کے شاگرد رشید اور مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ (پٹنہ) کے مدرس تھے۔
آپ کی پیدائش 1925ء میں مصلح پور (پٹنہ) میں ہوئی۔ جب چار سال کے ہوئے تو مولانا سہول احمد (مدرس: مدرسہ شمس الہدیٰ، پٹنہ) نے بسم اللہ خوانی کرائی۔ فارسی کی ابتدائی تعلیم مولانا سید ابوالقاسم سے حاصل کی، پھر باقاعدہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ میں داخلہ لیا۔ عربی کی تعلیم اپنے والد مولانا عبدالرشید قادری سے حاصل کرتے رہے۔ اس درمیان آپ نے مولانا عبدالماجد، مولانا حافظ عبدالرحمن (بہار شریف)، مولانا انعام الحق (پورنیہ)، مولانا سید اقبال احمد اور مولانا سید دیانت حسین سے متوسطات پڑھیں۔
شاہ عزیز احمد بچپن ہی سے ذہین و فطین، عقل و فہیم تھے اور اپنی جماعت میں ہمیشہ ممتاز رہے۔ 1938ء میں مدرسہ ایجوکشن بورڈ (بہار) سے فوقانیہ کا امتحان دے رہے تھے، تو ممتحن نے سوال کیا، آپ نے عرض کی کہ کوئی معیاری سوال کریں یہ تو بہت معمولی ہے۔ ممتحن کو حیرت ہوئی کہ بڑا پُراعتماد طالب علم ہے، پھر دوسرا سوال کیا اور آپ نے پھر وہی جواب دھرایا۔ ممتحن نے کہا: پہلے اس سوال کا جواب تو دے دو اور آپ نے فوراً جواب دیا۔
1938ء میں فوقانیہ پاس کرتے ہی آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس حادثہ نے شاہ صاحب کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ کچھ عرصہ بعد، 1943ء میں آپ اپنے خال محترم حضرت سید شاہ عبدالحلیم اکبری ابوالعُلائی (متوفی 1369ھ) کے پاس خانقاہ الہ آباد چلے گئے اور ماموں نے آپ کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ چنانچہ الہ آباد میں شاہ عزیز احمد کی حصولِ تعلیم کے نئے سلسلے قائم ہوئے۔ اولاً فوقانیہ کی بنیاد پر طبیہ کالج (الہ آباد) میں داخلہ لے کر طب و حکمت کی طرف مائل ہوئے۔ اس دوران مفتی نظام الدین (الہ آباد)، مولانا عبدالقدوس (گیا) اور مولانا نعیم الدین سے حدیث و فقہ کی بعض کتب کا دورہ کیا۔
1947ء میں امتیازی نمبروں کے ساتھ (Bachelor of Indian Medicine and Surgery) کی سند حاصل کی اور خانقاہ الہ آباد میں مطب قائم کیا۔ مگر خانقاہی ماحول نے پریکٹس کو زیادہ دنوں تک برقرار رکھنے نہ دیا۔ اس دوران آپ نے (Indian Army Medical Corps) کی سند بریلی سے حاصل کی، پھر دہرا دون میں دو سال رہ کر 1949ء میں فزیوتھراپی کا کورس مکمل کیا اور پھر بریلی جاکر انڈین آرمی ہسپتال سے وابستہ ہوکر طب و جراحت کے فرائض انجام دیے۔
1948ء میں آپ کے ماموں شاہ عبدالحلیم اکبری نے اپنی چھوٹی صاحبزادی حمیدہ خاتون سے عقد کر لیا، جن سے ایک فرزند حضرت عمی المکرم ڈاکٹر سید شاہ شمیم احمد گوہرؔ صاحب ہوئے۔ آپ کی زوجہ 1949ء میں رحلت کر گئیں، جس کے بعد مئی 1950ء میں آپ کا عقد ثانی خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور کے سجادہ نشین اور حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے پوتے حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعُلائی کی صاحبزادی جہاں گیرہ خاتون عرف ننہی سے ہوا، جن سے کوئی اولاد نہیں۔
1949ء میں حضرت شاہ عبدالحلیم اکبری نے آپ کو سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعُلائیہ میں بیعت کرکے جملہ اجازت و خلافت سے نوازا اور اپنا جانشین نامزد کر دیا۔
12 مارچ 1950ء کو خانقاہ ابوالعُلائیہ (الہ آباد) میں حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعُلائی کی سرپرستی میں رسم سجادہ نشینی بڑے تذک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوئی۔ اس موقع پر اعزازؔ الہ آبادی نے قطعہ تاریخ بھی تحریر کیا۔ (ذکر خیر حضور عزیز العلما، ص156)
شاہ عزیز احمد دینی، اخلاقی اور روحانی خدمات کی ایک تاریخ مرتب کرنے اور کشف و کرامات کے بے شمار تجلیاں روشن کرنے میں منہمک رہے، انہوں نے اپنے اسلاف کا کارنامہ ایک بار پھر الہ آباد میں روشن کیا۔ آپ نے اپنی محنت و ریاضت سے بہت جلد نعمت باطنی بھی حاصل کی۔ آپ کو اپنے خال و خسر حضرت شاہ عبدالحلیم اکبری کے علاوہ حضرت شاہ ابوالحسنات فردوسی (بہار شریف) اور حضرت ڈاکٹر شاہ طیب ابدالی (اسلام پور) سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔ بعض اوراد و وظائف کی اجازت حضرت مولانا شاہ ظفر سجاد ابوالعُلائی (سجادہ نشیں: خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، داناپور)، حضرت شاہ ظفر اکبری ابوالعُلائی (کڑا) اور حضرت مفتی ظہور حسامی (مانک پور) سے بھی حاصل تھی۔
شاہ عزیز احمد صاحب اپنے پیر و مرشد اور مرشدان طریقت کا بے پناہ عزت و احترام بجا لاتے تھے اور لوگوں کو بھی ہدایت کرتے تھے کہ اپنے پیر کی تعظیم کریں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔
’’پیر طریقت کی بیعت میں ہمیشہ صدق و صفا اور محبت بے ریا میں رہنا چاہیے، اسی میں صلاح و فلاح ہے‘‘ (عظمتِ مرشدان، ص14)
آپ دو مرتبہ حج بیت اللہ کے شرف سے مشرف ہوئے، پہلی مرتبہ 1958ء میں اور دوسری مرتبہ 1970ء میں۔
شاہ عزیز احمد کو طویل مذہبی خدمات اور عظیم اخلاقی کارکردگی و فرائض کے اعتراف و تائید میں 1981ء میں حکومت ہند نے ممبر آف دی ڈی اےریو سی سی نارڈن ریلوے الہ آباد کے اعزاز سے نوازا۔ 1989ء میں پریاگ راج ٹائمز کی جانب سے اپنی تیسری سالگرہ کے موقع پر مان پتر (اعزاز نامہ) پیش کیا گیا۔ مئی 1982ء میں کل ہند تعلیمی کانفرنس کے موقع پر جامعہ اشرفیہ (مبارک پور) کا سنگ بنیاد رکھنے والوں میں آپ خصوصی طور پر شریک تھے۔ 1985ء سے پٹنہ، مظفر پور، گیا وغیرہ میں گورنمنٹ طبی کالج کے آخری سال کے وائوا اگزامینر رہے۔ 1996ء کے بعد مسلسل علالت و نقاہت کے سبب منظوری قبول کرنے سے معذور ہوگئے۔ 2003ء میں دائرہ حضرت شاہ اجمل (الہ آباد) کے صدر دروازے کی بنیاد آپ نے رکھی۔
آپ آل انڈیا تبلیغ سیرت کمیٹی کے نائب صدر اور بزم خدام ابوالعُلائی (آگرہ) کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ شاہ صاحب درجنوں تنظیم و تحریک سے منسلک رہے، سینکڑوں سیمینار و اجلاس میں بطور خصوصی مقرر ملک بھر میں مدعو کیے جاتے تھے۔ اہل سنت کے علاوہ شیعہ حضرات بھی آپ کو خصوصی مقرر کے طور پر بلاتے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو سے ایک زمانے تک آپ کی تقریریں نشر ہوتی رہیں۔ سیر و سیاحت کے شوقین تھے، ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش کا دورہ بھی کرتے تھے۔
شاہ عزیز احمد ایک بہترین عالم دین، حکیم و طبیب، جید صوفی، ذوق سخن، خوش مزاج اور ایک ممتاز مقرر تھے۔ ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں آپ کی تقریر نہ ہوئی ہو۔ ہر طبقہ آپ کو شوق سے سنتا تھا۔ مذہبی جلسوں کے علاوہ شاعروں کی محفل، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے درمیان جہاں بھی آپ کھڑے ہوئے، وہی محفل کی جان بن جاتے۔ آپ کی خطابت کے قصے آج بھی بوڑھے و پرانے لوگ دہراتے ہیں۔
آپ کا انداز صوفیانہ تھا، اپنی تقریر میں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا کوئی شعر ضرور پڑھاکرتے تھے۔ فصیح و بلیغ زبان کے باوجود سادہ الفاظ استعمال کرتے تاکہ ہر کوئی آپ کی گفتگو سمجھ سکے۔ کوئی بھی موضوع یا محفل ہو، شاہ صاحب اپنی گفتار و انداز سے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے تھے۔
مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ)، طبیہ کالج (پٹنہ، الہ آباد) وغیرہ میں طلبہ کے درمیان بھی آپ بڑی خوبصورت گفتگو فرماتے تھے اور محاوروں پر بھی تقریریں کیں۔
مولانا مشتاق احمد نظامی لکھتے ہیں کہ
’’لوگوں نے انہیں صرف جھاڑ پھونک کرنے والا درویش سمجھا تھا، مگر شاہ صاحب کی علمی و روحانی بیانات نے عوام تو عوام، علما کو بھی متحیر کر دیا۔‘‘
(ماہنامہ پاسبان، الہ آباد)
خانقاہی محفل ہو یا مذہبی مجلس یا کسی قسم کی میٹنگ، شاہ عزیز احمد اگر پہنچ جاتے تو محفل کی رونق خود بخود نظر آنے لگتی۔ وہ نفاست پسند اور نہایت نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ 1970ء کے آس پاس کسی نواب کے یہاں دعوت میں تشریف لے جانے پر انہوں نے ویٹر کو ٹیپ میں 100 روپے کا نوٹ دے دیا۔ لال رنگ سے انہیں سخت نفرت تھی۔ جب کسی سے کچھ منگواتے تو واپسی پر بچا ہوا پیسہ ہرگز نہیں لیتے تھے، خواہ کتنی ہی رقم ہو۔
شاہ صاحب کے پاس نورتن بھی تھے۔ ایک مرتبہ کچھ لوگ پٹنہ سے الہ آباد آئے اور کہا کہ سنا ہے آپ کے پاس نورتن ہیں، تو ہمیں ان سے بات کرنی ہے۔ نورتن میں سے ایک صاحب آئے، اور لوگوں نے کہا کہ شاہ صاحب، الہ آباد کے امرود بڑے اچھے ہوتے ہیں۔ فوراً جواب ملا: جی! پٹنہ جاتے وقت بیج لیتے ہوئے جائیں گے۔
شاہ صاحب میں دکھاوا نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ لباس کے شوقین تھے، دن میں سفید اور شب میں رنگ برنگے کپڑے پہنتے تھے۔ ان کے دامن کے کور پر چھینٹ لگے یہ انہیں منظور نہیں اور ہر وقت تڑک بھڑک والے کپڑے پہنتے، شیروانی ایسی کہ نواب صاحب بھی شرما جائیں، جوتے ایسے کہ شاہانِ زمانہ بھی حسرت کریں۔ دوپلیہ کامدار ٹوپی اور شانہ پر خانقاہی رومال ہوتا۔ کبھی کسی شخص سے مرعوب نہیں ہوئے، وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم تک آئے، مگر ہمیشہ اپنی جانماز پر بیٹھے رہے۔
چاہے امیر ہو یا غریب، گورا ہو یا کالا، ہندو ہو یا مسلم، ہر طرح کے افراد ان کی صحبت میں بیٹھ سکتے تھے، مگر شاہ صاحب ہمیشہ اہل دل کا احترام کرتے اور ان کی توقیر بجا لاتے۔ کسی ضرورت مند کی مدد ایسے کرتے کہ کسی کو خبر نہ ہوتی، اور کبھی کبھی ضرورت بیان کرنے سے پہلے ہی پریشانی دور کر دیتے۔ بڑے بڑے درگاہ کے گدی نشین بھی ان کی شخصیت کے زیر اثر ہوتے۔
اپنے خاندان میں سب کے دل عزیز تھے۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کے زیب سجادہ اور حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے نبیراہ حضرت حاجی شاہ سیف اللہ ابوالعُلائی مدظلہٗ سترہ سال شاہ صاحب کی خدمت میں رہے اور تعلیم و تربیت پائی۔ میرے والد، ڈاکٹر سید شاہ ابو طاہر ابوالعُلائی صاحب بھی میٹرک سے پی۔ایچ۔ڈی تک شاہ صاحب کی خدمت میں رہے، کیونکہ رشتہ کے اعتبار سے وہ ان کے بھانجے تھے، اس لئے کم عمری سے ہی بے حد نوازشات کے مستحق ہوئے۔
شاہ صاحب حاضر جوابی اور بذلہ سنجی میں اپنی مثال آپ تھے۔ سامنے وقت کا بادشاہ ہو یا بڑا حاضر جواب، شاہ عزیز احمد صاحب کی حاضر جوابی اس پر فوقیت لے جاتی تھی۔ ایک مرتبہ آپ حقہ پی رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور سوال کیا: اے حضرت، قوالی سننا حلال ہے یا حرام؟ تو آپ نے فرمایا: حلالیوں کے حلال ہے۔
اصول کے پابند تھے، اپنے اسلاف کے نقش و عمل پر چلتے اور فقہا کی راہ پر گامزن رہتے۔ عبادت و ریاضت سے عشق تھا، خاص طور پر نماز فجر، عصر اور عشا کے بعد طویل وظیفہ خوانی کرتے۔ ہمیشہ تین بجے جانماز پر بیٹھ جاتے اور فجر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر قیام فرماتے۔ زمانہ بدلا، لوگ بدلے، مگر شاہ عزیز احمد صاحب کا انداز ہرگز نہ بدلا، خواہ سفر ہو یا حضر، وہ روایات قائم رکھتے۔
شاہ عزیز احمد خانقاہ حلیمیہ ابوالعُلائیہ، الہ آباد کے معروف سجادہ نشیں تھے۔ ان کی ذات سے خانقاہ کی نشاطِ ثانیہ ہوئی، ذکر و فکر کی محفل قائم ہوئی، ملفوظات و ارشادات اور تبلیغ اسلام کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا، اور حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا فیضان عام ہوا۔ مشائخ ابوالعُلائیہ سجادیہ اکبریہ محسنیہ کا سلسلہ شہرتِ کامل حاصل ہوا، اور الہ آباد کی علمی و روحانی فضا برقرار رہی۔
شاہ صاحب کی خانقاہ ہر وقت کھلی رہتی، جہاں بلا امتیاز مذہب و ملت انسان آتے اور فیض حاصل کرتے۔ روزانہ خانقاہ کی نشست میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ، عیسائی اور ہندو بھی شوق سے بیٹھتے اور علم و روحانیت سیکھتے۔ شاہ صاحب ہمیشہ توکل علی اللہ رہے، کبھی مال و دولت کو جمع نہ کیا، جو رہا اسے دوسروں کو دے دیا۔ مہمان نواز تھے اور کسی سائل کو بغیر طعام و قیام لوٹایا نہ، ہر شخص کی خیروخبر دریافت کرتے اور پریشان حال کی پریشانی دور کرتے۔
حقہ کے شوقین تھے اور طرح طرح کے نفیس حقے استعمال کرتے۔ ٹوٹی ہوئی چٹائی پر پورا دن بیٹھے رہتے اور چاروں جانب شہر الہ آباد کی معزز و محتشم ہستیاں موجود رہتیں۔ ان کا مزاج اور طرز زندگی سب سے الگ تھا، اور وہ اہل اللہ میں سے تھے۔ گفتگو میں بھی ایک چاشنی ہوتی، اور محفل سماع کے دلدادہ تھے، جب کیفیت آتی تو حال بھی ظاہر کرتے۔
حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری، حضرت سیدنا امیر ابوالعلا، حضرت مخدوم سجاد پاک اور حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے عرس میں کبھی غافل نہ رہے، پوری زندگی ان میں شرکت کرتے اور اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار فرماتے۔ شاہ عزیز احمد باغ و بہار شخص تھے، جہاں بیٹھتے مردہ دلوں میں روح پھونک دیتے۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعُلائیہ (داناپور) اور درگاہ حضرت شاہ ارزاں (پٹنہ) میں آپ کی محفل ہر وقت جمتی تھی۔ مریدین و معتقدین کا حلقہ بہار، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں پھیلا ہوا تھا۔
آپ کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ جو بھی ایک بار ملاقات کرتا، ان کے اعلیٰ کردار، خداداد ذہانت اور بلند اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ زاہدوں کی محفل ہو یا رندانِ بلانوش کا جھرمٹ، خانقاہوں کی محفل ہو یا ان کی اپنی محفل، جہاں پہنچتے طنز و مزاح، بذلہ سنجی، ظرافت و لطائف اور چٹکلوں کے پھول برساکر محفل کو خوشگوار بنا دیتے۔
شاہ عزیز احمد 80 برس کی عمر میں 22 شعبان المعظم 1426ھ، موافق 27 ستمبر 2005ء، سہ شنبہ بعد نماز ظہر اپنی خانقاہ میں رحلت فرما گئے۔ دوسرے روز 10 بجے دن نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں شہر الہ آباد کا ہر فرد سڑک پر نم آنکھوں کے ساتھ موجود تھا۔ ہندو، مسلم، ہر کوئی بے بسی کے آنسو بہا رہا تھا۔ خانقاہ کے صحن میں تدفین عمل میں آئی۔
روشن اسی چراغ سے میرا مزار ہو
عشقِ ابو تراب سے دل داغدار ہو
(شاہ اکبرؔ داناپوری)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.