Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت حسن جان ابوالعلائی شہسرامی

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت حسن جان ابوالعلائی شہسرامی

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    صوبۂ بہار میں شہسرام کو خاص درجہ حاصل ہے۔ یہاں اولیا، صوفیا اور شاہانِ زمانہ کی کثرت ہے، اور یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ شہسرام کی بلندی شیر خاں سوری (متوفیٰ 1545ء) سے ہے۔ بڑے بڑے نوابین اور شاہان زمانہ حکمرانی کرکے خاک نشین ہوئے، مگر چھوٹی سی جھونپڑیوں میں توکل علی اللہ کا نعرہ لگانے والے صوفیائے کرام کی خانقاہیں اور آستانے بلاتفریق لوگوں کے لیے مرکز عقیدت بنے۔

    اے ہما! پیش فقیری سلطنت کیا مال ہے

    بادشاہ آتے ہیں پابوس گدا کے واسطے

    صوفیائے کرام کا یہ کارنامہ آج بھی زندہ ہے، کیونکہ ان کی خانقاہیں اور آستانے بندگانِ خدا کے لیے ذریعۂ نجات ہیں۔ یہی صوفیوں کی خدمات جلیلہ ہیں کہ آج شہسرام اسلامی تعلیمات و احکامات سے روشن ہے۔ یہاں صوفیۂ شہسرام کی فہرست طویل ہے، جن میں ایسے محبوبانِ خدا شامل ہیں جن کا تعلق مجذوبیت، شہادت اور ہجرت وغیرہ سے ہے۔ بڑے بڑے صلحا، فقہا اور علما و فقرا یہاں پیدا ہوئے جنہوں نے عظیم کارنامے انجام دیے۔

    ان میں سب سے ممتاز شخصیت حضرت شاہ حسن جان نقشبندی ابوالعُلائی شہسرامی قدس اللہ سرہٗ کی ہے۔ آپ کی درویشی، اخلاق مندی اور شعروشاعری نے ایک زمانہ روشن کیا۔

    حضرت حسن جان کی پیدائش شیخ پورہ، ضلع شہسرام میں 12 رمضان، بوقت افطار، تقریباً 1272ھ میں ہوئی۔ کم سنی ہی سے آپ نے والد ماجد حضرت سید فیض بخش المعروف شاہ میاں جان (متوفیٰ 1305ھ) کی صحبت اختیار کرلی اور ان کے زیر اثر پروان چڑھتے رہے۔ جب عاقل و بالغ ہوئے تو شہر عظیم آباد آئے، جہاں حضرت خواجہ شاہ لطیف علی نقشبندی (متوفیٰ 1299ھ) کے فقر کا سکہ اپنے عروج پر تھا۔ لوگ روحانی و عرفانی تسکین کے لیے بارگاہ حضرت عشقؔ، تکیہ شریف، میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی میں حاضر ہوتے، اور حسن جان بھی اسی تمنائے شوق میں حاضر ہوئے اور یک نگاہِ فیض عارف سے فیض یاب ہوئے۔ آپ نے خواجہ لطیف علی نقشبندی کے حلقۂ غلامی میں شامل ہوکر ایک عرصہ تک صحبت اختیار کی اور فیض ظاہری و باطنی سے کامل و کامل ہوئے۔

    جگیشر پرشاد خلشؔ لکھتے ہیں:

    ’’آپ نہایت ذہین و متین، خوش دل اور خوش اخلاق شخص تھے۔۔۔ نہایت حسین و جمیل تھے، صوفی اور خدا پرست بزرگ ہونے کے علاوہ شہسرام کے نامی گرامی شاعر ہونے کا فخر بھی آپ کو حاصل ہے، جس آزادی سے اردو میں اپنی جدتِ طبع کے جوہر دکھاتے تھے اسی طرح فارسی میں بھی سمندر فکر کو سن نکل گیا تھا۔‘‘

    (فروغِ بزم، ص104)

    حضرت حسن جان نے بارگاہ حضرت عشقؔ میں بیعت کی اور روز اول ہی اجازت و خلافت سے نوازے گئے۔ صدر گلی کے کسی مولوی صاحب سے علم ظاہر حاصل کیا، اور قرآن پاک کے مختلف مقامات سے علوم حاصل کرنے کے بعد سامعین کو بڑے مسائل پر رہنمائی فراہم کی۔ حشرؔ شہسرامی رقمطراز ہیں:

    ’’جناب حسن مرحوم باضابطہ کسی درسگاہ کے فارغ التحصیل نہ تھے، محض اسی دربار کا عطیہ تھا کہ آپ کا سینہ تمام علوم ظاہری و باطنی سے معمور تھا۔‘‘

    (ماہنامہ فطرت، ستمبر 1934ء)

    حسن جان نے زیادہ تر حقیقت کے مسائل پر گفتگو کی اور خواجہ لطیف علی نقشبندی سے اجازت و خلافت حاصل کرکے شہسرام میں انسانیت و معرفت کا چراغ روشن کیا۔ آپ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے شہسرام میں خانقاہ ابوالعُلائیہ کی بنیاد رکھی اور سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعُلائیہ کی نشرواشاعت کی۔

    حضرت حسن جان کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت شاہ محمود الحسن ابوالعُلائی (متوفیٰ 1369ھ)، پھر بڑے صاحبزادے حضرت شاہ مسعود الحسن (متوفیٰ 1415ھ) اور بعد میں حضرت شاہ مفیض الحسن ابوالعُلائی (متوفیٰ 1440ھ) سجادہ نشین ہوئے۔ آج ان کے فرزند حضرت شاہ احترام الحسن علمی ابوالعُلائی سجادہ پر رونق افروز ہیں۔

    حضرت حسن جان کی خدمات کی بدولت نقشبندیہ ابوالعُلائی سلسلہ شہسرام میں عام ہوا، اور ان کے فیض سے علاقے کے اہل دین، حکایات و تابعین اور کاملین مستفید ہوئے۔ اسلام کا مینار بلند ہوا اور روزمرہ زندگی میں سنت رسول عام ہوئی۔

    حضرت حسن جان کا حلقۂ بیعت و خلافت وسیع و عریض تھا، جن میں خلفا و شاگرد شامل ہیں۔

    حضرت شاہ محمود الحسن ابوالعلائی (صاحبزادہ و جانشین )

    حضرت گل محمد شاہ ابوالعلائی (پشاور، شہسرام)

    حضرت شاہ مبارک حسین ابوالعلائی (چین پور)

    حضرت مولانا شاہ سبحان الدین ابوالعلائی (کان پور)

    حضرت میر نظام علی (شہسرام)

    حضرت مولانا عبدالقادر ابوالعلائی (گیا)

    حضرت اکبر حسن ابوالعلائی (جھارکھنڈ)

    حضرت حسنؔ جان شہسرامی نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی شعرو سخن کا شوق پیدا کیا، جو بارگاہ حضرت عشقؔ میں مزید پروان چڑھا۔ آپ اس فن میں اپنے پیر و مرشد کے شاگرد کے طور پر مکمل تربیت یافتہ تھے۔ لہٰذا، حسن جان کو نہ صرف شہسرام کے معروف صوفی ہونے کا فخر حاصل تھا بلکہ ممتاز شاعر ہونے کا بھی حق دار سمجھا جاتا تھا۔

    آپ نے ایک مدت تک اخبار ’’نورالانوار‘‘ کانپور کے مدیر اعلیٰ کے فرائض بھی انجام دیے، جس کی بدولت آپ کانپور، لکھنؤ اور دہلی جیسے شہروں میں اکثر مشاعروں میں شرکت کرتے اور اساتذۂ سخن کے روبرو اپنی غزل و شاعری پیش کرتے۔ ان مشاعروں میں جلالؔ لکھنؤی، امیرؔ مینائی اور داغؔ دہلوی کے ساتھ بھی آپ نے شرکت کی، اور اپنی شاعری سے سامعین کو محظوظ کیا۔

    حضرت حسنؔ جان کی شاعری میں حقیقت، روحانیت اور طلبِ مولیٰ کی خوشبو نمایاں تھی، جس سے محسوس ہوتا تھا کہ ان کی شاعری صرف ذوق و حسنِ کلام کی نہیں بلکہ معرفت و تصوف کی بھی عکاس ہے۔

    مزید برآں، مولانا شہاب الدین مظفر نگری ثم شہسرامی اور تاریخ شہسرام کے مصنف مولانا ابو محمد وزیر علی ابوالعُلائی مصلحؔ شہسرامی نے بھی حضرت حسنؔ جان سے صحبت اور تلمذ حاصل کی، جو ان کی علمی و ادبی شخصیت کی وسعت و کشادگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    نہ برسایا آنکھوں اک قطرۂ اشک

    حسنؔ ابر غم دل پہ چھایا بہت

    حسنؔ جان کس بلند پایہ کے شاعر تھے اس کا اندازہ اس شعر سے لگایئے۔

    حسنؔ ازل ! سمانگہ پاکباز میں

    اے نورحق دکھا دے حقیقت مجاز میں

    کہا جاتا ہے کہ اس شعر پر ناطق ؔلکھنؤی شہسرام چلے آئے تھے اور آپ کی صحبت میں مہینوں رہ کر مختلف مسائل کو حل کررہے تھے ’’خوابگاہِ خیال ‘‘میں ناطقؔ لکھنؤی نے مذکورہ شعر کی جو تشریح کی ہے وہ دراصل دیکھنے کی چیز ہے۔

    کیا سمجھے کوئی شان رسالت کو اے حسنؔ

    محمود خود نہاں تھا لباس ایاز میں

    حکیم سیداحمد اللہ ندوی آپ کی شاعرانہ عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

    ’’شاعری میں بھی اپنے پیرومرشد سے تلمذ حاصل تھا ، کان پور اور لکھنؤ کے مشاعروں میں اکثر اساتذۂ فن کی معیت میں غزلیں پڑھیں جن میں جلالؔؔ لکھنؤی،امیرؔ مینائی لکھنؤی اور داغ ؔ دہلوی خاص طور سے قابل ذکر ہیں ،ان شاعروں میں جناب حسنؔ امتیازی نگاہوں سے دیکھے گئے آپ کے کلام میں زیادہ تر حقیقت کے مسائل ہوتے ہیں‘‘ (تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد اول،ص۵۵ )

    حسنؔ جان کی شاعری کو وہ شہرت نہ مل سکی جو دوسرے بڑے شعرا کو حاصل ہوئی ان کی تصنیفات سے ایک فارسی کا مختصرکلیات اور اردو کا ضخیم دیوان غیر مطبوعہ ہے، حشرؔ شہسرامی نے آپ کی مثنوی کا بھی ذکر کیا ہے۔

    کسی بھی شاعر کو شہرت اس کی کلیات یادیوان سے ملتی ہے ، حسن ؔجان کی طرح کئی ایسے شعرا ہیں جن کی شاعری کا معیار کافی بلند ہے مگر ان کی کلیات و دیوان کا غیر مطبوعہ رہنا ا ن کی شاعرانہ عظمت پر سوالیہ نشان بن کر رہ گیا، ایسے درجنوں شعرائے بہار ہیں جن کا سرمایہ ریاض گمنامی میں ہے ہمیںاسے تلاش کرنا چاہئے اور منصۂ ظہور میں لانا چاہئے۔

    حضرت حسنؔ جان کے ہمعصر مشائخ میں

    حضرت مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی (متوفیٰ 1311ھ)

    حضرت مولانا شاہ امین احمد فردوسی بہاری (متوفیٰ 1321ھ)

    حضرت مولانا شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری (متوفیٰ 1327ھ )

    حضرت حاجی وارث علی شاہ دیویٰ (متوفیٰ 1323ھ)

    حضرت حاجی محمد شیر شاہ جی میاں پیلی بھیتی (متوفیٰ 1324ھ)

    حضرت شاہ فریدالدین احمد فردوسی منیری (متوفیٰ 1339ھ)۔

    حضرت مولانا شاہ عبدالکافی نقشبندی الہ آبادی (متوفیٰ 1350ھ)

    حضرت مولانا حفیظ الدین لطیفیؔ رحمان پوری (متوفیٰ 1333ھ)

    حضرت مولانا فصیح غازی پوری (متوفیٰ 1285ھ)

    خاص طور پر شامل تھے ان میں حضرت حسنؔ جان کو حاجی وارث علی شاہ سے بے پناہ محبت تھی وصال سے ایک روز قبل آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ ایک ندی ہے جس میں حاجی صاحب تشریف لے جا رہے ہیں یہ دیکھ کر حسنؔ جان بھی ندی میں جانے لگے مگر حاجی صاحب نے انہیں روک دیا یہ کہ کر کہ ابھی آپ کی ضرورت نہیں ہے دوسرے روز آپنے صبح اعلان کر دیا کہ حاجی وارث علی وفات پاچکے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔

    حسنؔ جان جید شاعر کے ساتھ ساتھ بلند اخلاق ، معاملہ فہم ، راست گو، حکیم الطبع، نیک نیت، منکسر المزاج، متحمل مزاج، نرم گفتار، اعلیٰ بصیرت،بلند کرداراور پرہیزگار انسان تھے۔

    حسنؔ جان کی شعری عظمت کا چرچہ خوب ہوا اس دوران کثرت سے لوگوں نے آپ کی شاگردی بھی اختیار کی ،آپ خانقاہ کبیریہ ،شہسرام کے ما تحت چلنے والا معیاری ادارہ مدرسہ کبیریہ کے مدرس بھی رہ چکے ہیں آپ کے عہد مدرسی میں اکثر طلبہ آپ سے استفادہ کرنے لگے ان میںچند شاگردان حسنؔ جان یہ ہیں ڈاکٹر مبارکؔ عظیم آبادی، ناطقؔ لکھنوی، احمدؔ اللہ ندوی، مولانا قادرؔ بخش، شمسؔ گیاوی، حفیظؔ شہسرامی، ضیاؤ الدینؔ شہسرامی، فر حتؔؔ شہسرامی، مصلحؔ شہسرامی، دانشؔ شہسرامی، مستؔ شہسرامی، مسیحؔ شہسرامی، سکندؔر شہسرامی، سلیمؔ شہسرامی، سوزاںؔ شہسرامی، نوشادؔ شہسرامی، شہابؔ شہسرامی۔

    جاننا چاہیے کہ حسنؔ جان کے والد کا نام نامی اسم گرامی حضرت فیض بخش المعروف شاہ میاں جان ہے، حسنؔ جان کو آپ سے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ، قادریہ، چشتیہ صابریہ کی اجازت حاصل تھی، حسن ؔجان نے اپنے والد کی وفات حسرت آیات پر یہ شعر کہا تھا۔

    روح نمودارشش جہت مارہمیں

    رنج و غم درد و الم آہ و قلق

    حضرت فیض بخش کا انتقال 1305ھ کو منیر شریف میں ہوا ،قبر چھوٹی درگاہ میں اُتر جانب واقع ہے آپ خلیفہ شاہ عبد العلیم لوہاروی کے اور وہ شاہ احسان علی پاک پٹنی کے اور وہ صوفی شاہ آبا دانی کے مرید و خلیفہ اور وہ صوفی میر محمد سندھی کے اور وہ صوفی شاہ محمد قریشی لاہوری کے اور وہ صوفی شاہ محمد خاں لودھی کے اور وہ بابا پیر محمدخاں لودھی کے اور وہ خواجہ آدم بنوری کے اور حضرت مجدد الف ثانی کے خلیفہ تھے۔

    حسنؔ جان ایران کے ایک معزز خانوادہ کے چشم و چراغ تھے، ایران سے مصاہرت کر کے آپ کا خاندان افغانستان اور پھر کشمیر کے راستے بنارس ہوتے ہوئے غازی پور پہونچا یہاں آپ کے جد امجد محمد الف ابن سردار حسین نے سکونت اختیار کی اور یہیں خاک نشیں ہوئے آپ کے صاحبزادے کریم بخش جنہیں خان بہادر کا لقب بھی ملا تھا غازی پور سے شہسرام کی جانب آئے اور یہیں شادی ہوئی جن سے ایک صاحبزادے حضرت فیض بخش تولد ہوے اور ان سے حسنؔ جان پیدا ہوئے۔

    حسنؔ جان کا نکاح سید امام علی کی صاحبزادی بی بی نفیسہ عرف نفیسن سے 1290ھ میں ہوا ،اس پُر مسرت موقع پر حضرت شاہ محمد یحییٰؔ ابوالعُلائی عظیم آبادی (متوفیٰ1302ھ)نے قطعہ تاریخ عقد کہاتھا ،آپ کی تین اولاد ہویں دو صاحبزادی اور ایک صاحبزادہ حضرت شاہ محمو د الحسن،پہلی صاحبزادی بی بی محمدی (منسوب سید سعادت علی ،ساکن نورن گنج،شہسرام)دوسری صاحبزادی بی بی اولیا(منسوب سید اکبر حسن بیرسٹر،ساکن نورن گنج،شہسرام،ثم گُڈا جھارکھنڈ)۔

    حسنؔ جان نے 61برس کی عمر میں 27رمضان مبارک بروز سہ شنبہ وقت مغرب 1334ھ کو اس دارفانی کو خیرآباد کہا ان کی رحلت سے اہل شہسرام ہی نہیں بلکہ شعرو سخن کا ایک بڑا طبقہ افسردہ ہوا اور جگہ جگہ تعزیتی نشست قائم ہوئی،قطع تاریخ رحلت بھی کثرت سے لکھی گئی ان میں فرحت ؔ شہسرامی،شیداؔ شہسرامی ،قمر ؔگیاوی وغیرہ قابل ذکر ہیں،حسن ؔ جان اپنی وفات سے دو روز قبل ہی قطعہ تاریخ وفات کہہ گئے تھے ۔

    قطعۂ تاریخ رحلت

    اے خدا ے دو جہاں اے واقف حال دروں

    لطف فرماعاجز بیکس نزاروہم زبوں

    ناتواں را اگر خواہی توانائی دہی

    کور چشماں راکنی بینا بحق صاد و نون

    فکر می کردم کہ دانم راز موت وزیست را

    دوش در گوشم صدا آمد زحق چوں ارغنون

    اے حسنؔ ہر گز نیابی راز موت و زندگی

    تاندانی نکتہ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلیَہِ رَاَجِعُون

    چوں سر ’د‘ ام تعلقہائے ایں عالم گست

    ’’آفتاب روح پاک از ابر جسم آمد بروں ‘‘

    -4 1334 1338ھ

    خواجہ امجد حسین نقشبندی (متوفیٰ 1336ھ) نے جب وصال کی خبر سنی تو فرمایا کہ

    ’’آفتاب حقیقت سہسرام گل شد‘‘

    1334ھ

    (تذکرہ مشائخ نقشبندیہ، ص 165)

    آپ کا مزار محلہ قاضی ٹولہ ضلع شہسرام میں ایک بڑے چبوترے پر واقع ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے