ذکر خیر حضرت مخدوم احمد چرم پوش تیغ برہنہ
بہار شریف کی عظمت و وقار ہندوستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ خواہ ہندو ہوں یا مسلمان، بودھ دھرم یا جین مذہب والے، سبھی اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ سلسلہ چشتیہ کے ساتھ ساتھ سلسلہ سہروردیہ کی ترویج و اشاعت بھی خانوادہ تاج فقیہ کے بعد صوبہ بہار میں خوب سے خوب ہوئی۔ حضرت پیر جگجوت (متوفیٰ 666ھ) اور حضرت شیخ کمال الدین یحییٰ منیری (متوفیٰ 690ھ) کے بعد حضرت مخدوم احمد چرم پوش تیغ برہَنہ بہاری (متوفیٰ 776ھ) سہروردی بزرگوں میں مشہور ہوئے۔
بہار شریف (محلہ انبیر) میں آپ کی خانقاہ عالم پناہ، رشد و ہدایت، اور خاص طور پر فیضانِ سہروردیہ کے لیے نمایاں ہے۔ صوفیوں کی طرح بادشاہان عظام، جیسے فیروز شاہ تُغلق، بھی آپ کی خانقاہ میں عقیدت مندانہ طور پر حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی عالمانہ حیثیت اور شاعرانہ وقار کے ساتھ صوفیانہ مزاج بھی ورثے میں پائے جاتے تھے۔ آپ خدوخال میں حسن و جمال کے مالک اور فریفتہ بے مثال تھے، جبکہ آپ کی شخصیت میں جاہ و جلال کی جھلک آج بھی درگاہ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ روزانہ اپنی من کی مراد پاکر واپس جانے والوں کی ان گنت تعداد اور بلا مذہب و ملت حاضری کی نیت ایک منفرد منظر پیش کرتی تھی۔
حضرت مخدوم احمد چرم پوش بہاری کی تاریخ ولادت متحقق نہیں ہے، لیکن 657ھ/1259ء کو پیدا ہوئے۔ جائے پیدائش میں اختلاف ہے: بعض کے نزدیک ہمدان (ایران) میں، اور بعض کے نزدیک جیٹھلی میں۔ تاہم، نو برس کی عمر میں جیٹھلی میں واقع ایک واقعہ اور نانا حضرت پیر جگجوت کی آغوش محبت میں ابتدائی زندگی گزارنے کی وجہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیدائش جیٹھلی (عالم پور، ضلع پٹنہ) میں ہوئی اور بعد میں والدین نے ہمدان (ایران) کا رخ کیا۔
آپ کے والد محترم، سلطان سید موسیٰ ہمدانی ثم بہاری (مدفن: عمادپور، بہار شریف)، ہمدان کی معزز اور محتشم ہستیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ابتدائی زندگی میں عیش و عشرت کے مزاج کو پسند نہ آنے کے بعد انہوں نے ترک وطن کر کے خسر معظم کی صحبت اختیار کی۔ آپ نانا حضرت پیر جگجوت کی دختر ثانی، سیدہ بی بی حبیبہ (مدفن: درگاہ انبیر شریف)، کی نورِ نظر تھیں۔ دو بھائی، سید محمد اور سید محمود، ہمدان (ایران) میں آسودہ خاک ہیں۔ والد کی طرف سے آپ ساداتِ کاظمی (امام موسیٰ کاظم سے) اور والدہ کی طرف سے ساداتِ جعفری (سید محمد اسماعیل، خلف امام جعفر صادق) میں شمار کیے جاتے ہیں، یعنی آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ جہاں یہ خاندان متبرک آسودہ خاک ہے، وہاں فیض اور برکت موجود ہے۔
حضرت سید شاہ عطا حسین فانیؔ داناپوری ثم گیاوی (متوفیٰ 1311ھ) اپنی کتاب کنزالانساب میں آپ کا پدری نسب تحریر فرماتے ہیں کہ
سید احمدبن سید موسیٰ بن سید مبارک بن سید خِضر بن سید ابراہیم بن سید اسماعیل بن سید سلیمان بن سید عبدالکریم بن سید عبدالشکور بن سید نعمت اللہ بن سید عبد المجید بن سید عبدالرحیم بن سید اسحاق بن سید احمد بن سید محمود بن سید اسماعیل بن سید عبدالرحمن بن سید قاسم بن سید نور بن سید یوسف بن سید رکن الدین بن سید علاؤالدین بن سید یحییٰ بن سید زکریا بن سید قریشی بن سید عمر بن سید عبداللہ بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام باقربن امام زین العابدین بن امام حسین بن امام علی بن ابی طالب۔
حضرت شاہ غفورالرحمن حمدؔ کاکوی (متوفیٰ 1357ھ) اپنی کتاب آثار کاکو میں آپ کا مادری نسب یوں رقم کرتے ہیں کہ
سید احمد بن سیدہ بی بی حَبیبہ بنت سید شہاب الدین پیرجگجوت بن سیدتاج الدین بن سید احمد بن سید ناصر الدین بن سید یوسف بن سید حسن بن سید قاسم بن سید موسیٰ بن سید حمزہ بن سید داؤد بن سید رکن الدین بن سید قطب الدین بن سید اسحاق بن سید اسماعیل بن امام جعفر صادق بن امام باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن امام مولی علی بن ابی طالب۔
آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے نانا حضرت پیر جگجوت کی آغوش محبت میں حاصل کی۔ مزید حصول علم کے لیے اپنی خالہ حضرت مخدومہ بی بی کمال کاکوی کے نواسہ، مخدوم شاہ غریب حسین ڈھکڑپوش مہسوی (متوفیٰ 802ھ)، کے ہمراہ حضرت شیخ توقی الدین سہروردی مہسوی کے مرید و مجاز، حضرت شیخ سلیمان سہروردی مہسوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ظاہراً و باطناً تعلیم مکمل کی۔
آپ بہت جلد علوم متداولہ میں یگانہ عصر ہوئے۔ رفتہ رفتہ آپ کی تعلیم سے لوگ تذکیہ نفس اور تصفیہ قلب کی تلقین کرنے لگے، دین کی تبلیغ اور تصوف کے اسرار، محبت کا درس، اور انسان کو انسان بنانے کی عاجزانہ ترکیب سے باخبر ہوئے۔
سلسلہ سہروردیہ سے آپ کو زمانہ طفلی ہی سے عقیدت تھی، کیونکہ نانا محترم بھی اسی سلسلہ کے شہرہ آفاق بزرگ تھے۔ بیعت و خلافت آپ کو شیخ سلیمان مہسوی کے مرید و مجاز، حضرت علاؤالدین علاؤالحق سہروردی سے حاصل ہوئی۔ بقول آثارِ شرف
’’نسب شریفش بہ امام الرضا علیہ التحیۃ و الثنامی رسد و سلسلہ بیعت حضرت ایشاں بایں تفصیل ہو: اخذ الطریقہ عن الشیخ علاؤالدین علاؤالحق سہروردی و ہو عن شیخ سلیمان مہسوی و ہو عن شیخ تقی الدین سہروردی و ہو عن شاہِ دمشقی و ہو عن شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی۔‘‘
در حقیقت، اس سلسلہ کی ترویج و اشاعت حضرت پیر جگجوت کے بعد زیادہ تر آپ ہی کے ذریعہ صوبہ بہار و گرد و نواح میں ہوئی۔ اس سلسلہ کی اجازت و خلافت کئی واسطوں سے خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ (داناپور) میں منتقل ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ آپ کے مریدین و محبین میں حضرت سید شمس بلخی (مدفن: درگاہ انبیر شریف)، حضرت حسن پیارے، حضرت شیخ علاؤالدین علی بن ابراہیم الصوفی، اور صاحبزادگان میں حضرت سید سراج الدین احمد و حضرت سید تاج الدین احمد (مدفون: درگاہ انبیر شریف) قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم شامل ہیں۔
جامع مونس القلوب (91 مجلس) میں تحریر ہے۔
’’حضرت شیخ احمد چرم پوش اور حضرت شیخ حسین مہسوی رحمہما اللہ حضرت شیخ سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُس وقت دونوں بزرگوں کے پاس کپڑا نہیں تھا۔ حضرت شیخ نے دونوں کو آٹھ چیتل دیے اور فرمایا کہ اس رقم سے دونوں اپنے لیے ستر پوشی کا انتظام کریں۔ دونوں بزرگان حضرت شیخ سلیمان کے پاس اٹھ کر باہر آئے اور سوچنے لگے کہ اتنی کم رقم میں کپڑے کیسے ہو سکتے ہیں؟ شیخ حسین نے دھکڑ خرید لیا اور شیخ احمد نے چمڑا لے لیا۔ جب وہ حضرت شیخ سلیمان کے پاس آئے، حضرت نے فرمایا: مبارک ہو، یہ کافی ہے۔‘‘
اسی روز سے آپ چرم پوش کے لقب سے یاد کیے جانے لگے۔
اکثر مؤرخین کے خیال کے مطابق آپ کی طبیعت بادشاہیت سے دور ہوکر للٰہیت کی جانب مائل ہوئی۔ آپ نے ترکِ وطن کیا اور خشکی کی راہ اختیار کرتے ہوئے وسطِ ایشیا سے تبت (چائنا) کا رخ کیا۔ وہاں کا ماحول عصبیت میں ڈوبا ہوا تھا، مطلق العنان راجا بے حس اور بدظن تھا اور جبراً آپ سے ٹکراؤ کے لیے تیار ہوا۔ ایک طرف لاتعداد فوج و سپہ سالار، دوسری طرف تنہا مردِ خدا، لیکن آپ قہاری کیفیت میں تھے۔ جہاد کی نیت کرتے ہوئے اپنی انگلی سے اشارہ کرتے اور بے دینوں کے سر قلم ہوتے جاتے۔ اسی وقت سے آپ تیغ برہنہ کے لقب سے مشہور ہوئے۔
آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ سیر و سیاحت اور تبلیغ دین میں گزرا۔ آپ نے ہمدان (ایران) کی سرزمین کو انوارِ ہدایت سے روشن کیا، تبت کی سنگلاخ وادیوں میں بے شمار فوج و سپہ سالار کو اثرِ الہی سے مالا مال کیا، اور آخرکار ہند کی جانب صوبہ بہار میں ضلع نالندہ، بہار شریف کو اپنی قیام گاہ بنایا۔ وہاں پہلے سے آپ کے خالہ زاد بھائی حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ تشریف رکھتے تھے، اور آپ نے اسے عزت و فیض کا مرکز بنایا۔
طالب علموں کی طلب بھڑتی گئی اور معرفت کا جام لوگوں میں تقسیم ہوتا رہا۔ بقول تذکرۃ الکرام
’’آپ بڑے عارف کامل تھے، بے شمار کرامتوں کے حامل، عوام و خواص میں مقبول تھے۔‘‘
صاحب سلسلہ اللالی نے آپ کی بزرگی و خدمات کو منظومانہ طور پر فارسی میں رقم فرمایا۔ شاہ محمد نور سہروردی بہاری (سجادہ نشیں: درگاہ مخدوم احمد چرم پوش بہاری) نے اپنی کتاب تذکرہ مخدوم سید سلطان شاہ احمد چرم پوش میں تحریر کیا کہ بہار شریف آنے کے بعد آپ کی شادی ہوئی۔ آپ کے دو صاحبزادے تھے: دیوان شاہ سراج الدین احمد اور دیوان شاہ تاج الدین احمد۔ حضرت مخدوم نے دونوں کی تعلیم و تربیت کی اور پھر شادی کی۔ شاہ سراج الدین احمد کے فرزند سید شاہ عبدالرحمن اور شاہ تاج الدین احمد کی دختر نیک اختر بی بی واسعہ کے درمیان شادی ہوئی، اور اسی کے ذریعے مخدوم کا سلسلہ نسب جاری رہا۔
واضح رہے کہ سید محمد اعلیٰ عرف شاہ بڑھ، سید رکن الدین ابوالفتح عرف منجھن، سید محمود، سید نصیر الدین احمد شیر دست، سید حبیب اللہ، سید محبوب اللہ، سید محبوب ثانی، سید محمد، سید سراج الدین ثانی، سید نوراللہ، سید مجیب اللہ، سید اعلیٰ اصغر، سید محمد وغیرہ تک یہ سلسلہ آج بھی بحسن و خوبی جاری و ساری ہے۔
شعر و شاعری کا چمن تقریباً ہر دور میں سبز و شاداب رہا، اور فارسی شعر و ادب کا سب سے زیادہ تاثر ہندوستان میں محسوس کیا گیا۔ مولانا سید شاہ علی ارشد شرفی البلخی دام ظلہ کے مطابق مخدوم احمد چرم پوش بہار شریف سب سے پہلے صاحبِ دیوان بزرگ ہیں۔ ان کے دیوان کے نسخے کا ذکر کچھ یوں ہے:
3 رمضان 1322ھ کا مخطوطہ، 263 صفحات، 306 غزلیں، 3074 اشعار، کاتب: مولوی عبدالرحمن خان بڑاکری۔
یکم شعبان 1295ھ کا نسخہ، کاتب: شیام نرائن، محلہ حبیب پورا، بہار شریف۔
اصل دیوان کا نام دیوان احمدی ہے۔ علاوہ ازیں، ایک ملفوظ ضیاء القلوب بزبان فارسی آپ کے مرید شیخ علاؤ الدین علی بن ابراہیم الصوفی نے جمع کیا، 58 صفحات، 9 باب پر مشتمل۔ اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر مولانا سید شاہ علی ارشد شرفی فردوسی نے 1438ھ میں مع حواشی شائع کیا۔
سوانح مخدوم پہلے بھی رسالہ کی شکل میں فرزندان مخدوم شائع کرتے رہے۔ جناب سید غلام السیدین ناوکؔ حمزہ پوری مرحوم نے منقبت مخدوم نذر کی، جس میں دو اشعار درج ہیں کہ
داغ شکوہِ خسروی تیغ برہنہ فقیر
رشک حریر و پرنیاں ملبوس چرم پوش کا
مخدومی کیجئے قبول یہ نذر ناوکؔ حقیر
حق تو یہ ہے کہ منقبت کا حق ادا نہ ہوسکا
آپ کا وصال 26 صفر المظفر 776ھ، مطابق 6 اگست 1374ء، بعمر 118 برس بہار شریف میں ہوا۔ جامع مونس القلوب (69 مجلس) میں رقم ہے کہ
’’جب حضرت مخدوم شیخ احمد چرم پوش نے رحلت فرمائی، حضرت مخدوم جہاں بھی وہاں موجود تھے۔ حضرت کی قبر کے لیے زمین کھودی گئی، وہاں انگشت نکلی۔ اسی وجہ سے حضرت مخدوم جہاں نے اپنے لیے شہر سے باہر کی زمین پسند فرمائی جہاں آبادی نہیں تھی۔‘‘
آپ کی رحلت کی قطعہ تاریخ مخدوم یگانہ سے 776ھ برآمد ہوتی ہے۔ ہر سال آپ کا عرس سراپا قدس درگاہ انبیر شریف میں منعقد ہوتا ہے، اور دور دور سے حاجتمند اپنی حاجت روائی کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔
آستانہ منورہ میں سید شمس بلخی اور فرزندان و سجادگان چرمپوشیہ آسودہ خاک ہیں۔ فقیر بے توقیر جب اس آشیان ملائک میں حاضری دیتا ہے تو دل کی آرزو حقیقت میں بدل جاتی ہے۔ اس سلسلہ کی روشنی اسی گرد و نواح سے آج بھی جاری ہے۔
بقول حضرت شاہ اکبر داناپوری
مجھ سا بھی صحیح النسب اکبرؔ کوئی کیا کم ہے
سلسلہ اپنا کسی زلف سے جا ملتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.