ذکر خیر حضرت شاہ ایوب ابدالی نیرؔ اسلام پوری
بہار کی سرزمین ہمیشہ سے مردم خیز رہی ہے۔ یہاں بے شمار علم و ادب اور فقروتصوف کی شخصیات نے جنم لیا۔ انہی میں ایک نام حضرت سید علیم الدین دانشمند گیسودراز کا ہے، جو شہر نیشاپور (ایران) سے منتقل ہوکر ہندوستان کے پرگنہ بہار شریف (ضلع نالندہ) آئے۔ انہوں نے حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ثم بہاری متوفیٰ 782ھ سے شرف نیاز حاصل کیا اور خلافت سے نوازے گئے، تبھی سے یہ خانوادہ فردوسیت کے جامہ میں بندھ گیا۔
وقت کے ساتھ، بارھویں صدی ہجری کے دوران اسی خانوادہ میں گل سرسبد حضرت شاہ ابو محمد جلیل حسنین، عرف فرزند علی فردوسی، متخلص بہ صوفی منیری (متوفیٰ 1318ھ) کا تولد ہوا۔ بہار بھی علم و ادب کا گہوارہ بن گیا۔ غالبؔ جیسے کہنہ مشق شاعر کا سہارا ملا، اور محفل سخن کا دائرہ وسیع ہوا۔ حضرت شاہ امین احمد فردوسی ثباتؔ بہاری (متوفیٰ 1321ھ) اور حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعلائی داناپوری (متوفیٰ 1327ھ) کے درمیان حضرت صوفیؔ منیری جیسے بالغ النظر شاعر باکمال جلوہ گر ہوئے۔
یہ سلسلہ یوں ہی رواں دواں رہا، اور صاحبان ذوق و شوق خوب متاثر ہوئے۔ تیرہویں صدی ہجری کے دوران یہ ستارے غروب ہوگئے، مگر خلف الصادق کا سلسلہ بڑی شان و شکوہ کے ساتھ جاری رہا۔ دو ہردل عزیز سپوت، حضرت مولانا سید شاہ عبدالقادر اسلام پوری اور حضرت سید شاہ علی فردوسی اسلام پوری، اپنی گوناگوں صلاحیت و صلابت سے چھاپ چھوڑتے رہے۔
صاحبزادہ اکبر حضرت سید شاہ عبدالقادر سے علمائے اہل سنت پر ایک عظیم اثر رہا، جن میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کی ذات ممتاز نظر آتی ہے۔ مدرسہ حنفیہ (محلہ بخشی گھاٹ، پٹنہ سیٹی) کی تحریک کے دوران بھی حضرت شاہ محمد ایوب ابدالی اسلام پوری صوبہ بہار کی علمی، دینی اور روحانی شخصیت کے مالک تھے۔
خانقاہی مزاج اور صوفیانہ خیال ان میں شروع سے موجود تھا۔ طبیعت میں نفاست تھی، جس کی جھلک ان کی شائستگی اور حسنِ سلوک میں نمایاں تھی۔ نورانی چہرہ، گندمی رنگ، موتی جیسی آنکھیں، خوبصورت جسم، شانہ پر بڑا رومال، خانقاہی کلاہ اور انگرکھا ان کی شخصیت کو مزید دیدہ زیب بناتے تھے۔
تعلیم کے لیے انہوں نے خاندان کے بزرگوں کے علاوہ حضرت مولانا مشتاق احمد بن مولانا احمد حسن کانپوری اور حضرت مولانا سخاوت حسین کاکوی سے فیض حاصل کیا، جس کی بدولت علم و عمل کے پیکر بن گئے۔ ابتدائی زندگی ہی سے مریدان و معتقدان کو درس و تدریس دیتے رہے۔
حضرت سید شاہ محمد ایوب ابدالی نے عقائد شرفی کی تشریح و توضیح بڑے سہل اور خوشنما انداز میں کی۔ ان کا اردو ترجمہ بھی منظرِ عام پر آچکا ہے، جو اپنے مرید خاص حکیم تجمل حسین (ضلع: کشن گنج) کی اصرار پر 19 فصلوں پر مشتمل ہے۔ آخری فصل میں تصوف کا تفصیلی باب ہے، جس میں فرماتے ہیں:
’’لا تَیئسُ مِن رُوح اللہ‘‘
’’اور لوگوں نے کہا ہے کہ اتنی امید اپنے خدا سے رکھنی چاہئے کہ اگر سات آسمان اور زمین بھر گناہ ہوں، تو ناامید نہ ہو، اور اگر سات آسمان و زمین کے برابر اطاعت کریں، تو نڈر نہ ہو۔‘‘
اسی طرح ’’ذکر و فکر‘‘ اور ’’احسان و تصوف‘‘ کے عنوان سے وہ نایاب رسائل کے خالق و مالک ہیں۔ زندگی کے آخری لمحے تک اپنے اسلاف کے نقوش پر گامزن رہے۔
علم و ادب کے علاوہ، شاعری میں بھی ممتاز تھے۔ ابتدا میں والد سے اصلاحِ سخن حاصل کی اور پاکیزہ و صوفیانہ اشعار کہنے کے عادی ہوئے۔ مجلس عشق و مستی میں، دوران مجلس کچھ اشعار قلمبند فرمائے۔
ساقی بیاربادہ بنام ابوالعلا
گرداں فلک بہ گردش جام ابوالعلا
مطرب نواز نغمہ جشن جلوس شاہ
آراستہ ست بزم نظام ابوالعلا
نازد بریں فلک منم زیر سایہ
ظل حضیض رفعت بام ابوالعلا
نیرؔ دمے زنور برافلاک می زند
فیضے گرفتہ از درو بام ابوالعلا
ان کے کلام میں دلی احساسات، جذبات اور ذہنی خیالات نمایاں ہیں۔ نیک صحبتوں نے انہیں وہ علم عطا کیا جس میں ادب، احترام، اللہ اور اس کے رسول کا نام ہمیشہ شامل تھا۔ زندگی کے ہر لمحے ہونٹوں پر درود و سلام رہتا۔
سلسلہ کی اشاعت کے دوران مختلف جگہوں سے حلقہ ارادت مند شامل سلسلہ ہوئے، جن میں مفتی نیپال مولانا انیس عالم قادری فردوسی، حضرت احمد رضا خان کے تلمیذ، اور حضرت سید شاہ محی الدین قادری پھلواری شریف کے مرید شامل تھے۔
علمائے اہل سنت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی روشن مثال یہ تھی کہ مذکورہ علماء کے درمیان الفت و محبت کا سنگھم پایا جاتا۔ حضرت مولانا ظفرالدین قادری بہاری، جو حضرت فاضل بریلوی کے تلمیذ و خلافت یافتہ تھے، بھی حضرت والا کی صحبت کے مشتاق رہتے اور بارہا مجلسوں میں شریک ہوتے۔ آخری عمر میں حضرت نے نماز جنازہ کی وصیت بھی حضرت مولانا سے فرمائی۔
بعد ازاں، خویش و معتقدین خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے ذریعہ وصیت کی تکمیل ہوئی اور لوگوں نے اطلاع دی کہ حضرت عظیم آباد (پٹنہ) تشریف لائے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر سید شاہ محمد طیب ابدالی کے صاحبزادے، جناب سید ولی اللہ ابدالی نے تاج الاؤلیاء حضرت سید شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری قدس سرہ کے ممتاز مرید و خلیفہ حضرت سید نثار علی ابوالعلائی اکبرآبادی پر شاعری اور شخصیت کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔
ہم تو شروع سے حضرت سید شاہ محمد ایوب ابدالی کی شخصیت کے معترف رہے، بقول نیرؔ اسلام پوری
دل تواب ہم آپ سے لگا چکے نیرؔ
آگے اللہ کی مشیت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.