Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت مخدومہ بی بی کمال

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت مخدومہ بی بی کمال

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    صوبۂ بہار میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کمال آباد عرف کاکو میں ہندوؤں کی آبادی تھی۔ یہاں کوئی راجہ یا بڑا زمیندار برسرِ اقتدار تھا۔ پُرانے ٹیلے اور قدیم اینٹیں جو کھدائی میں برآمد ہوتی رہیں، اس بات کی گواہی ہیں۔ بقول عطاؔ کاکوی

    ’’بہترے ٹیلے اور گڑھ اس بات کی شہادت دیتے ہیں۔ جدید مکانات کی تعمیر کے دوران قدیم عمارات کی دیواریں اور مورتیاں کثرت سے برآمد ہوئیں اور اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کے قدیم باشندے بودھ مذہب کے پیروکار رہے ہوں گے اور مہاراجہ اشوک کے زیر اثر تھے۔‘‘

    بہار میں مسلمانوں کی باضابطہ حکومت اختیار الدین محمد بن بختیار خلجی (متوفیٰ 1207ء سے 1209ء کے درمیان) کی فتوحات سے ہوئی لیکن یہ حقیقت بھی ہے کہ اس تسلط سے پہلے ہی صوبۂ بہار میں خصوصاً منیر شریف میں مسلمانوں کی آمد و شد کا سلسلہ قائم ہو چکا تھا۔ امام محمد تاج فقیہ مکی کی قیادت میں چند مجاہدوں کے ساتھ مثلاً غوث اعظم کے بھانجہ میر قطبی ابدال، رکن الدین مرغیلانی اور میر قطب سالار ربانی وغیرہ، منیر شریف پر فتح یابی کے لیے آئے۔ منیر شریف کا فاصلہ کاکو سے صرف چودہ کوس (67 کلومیٹر) ہے۔ فتح یابی کی تاریخ ’’دین محمد شد قوی‘‘ سے 576ھ (1180ء) مستخرج ہوتی ہے۔

    واضح رہے کہ شہر کاکو میں بزرگانِ باکمال کثرت سے گزرے ہیں، مثلاً حضرت مخدوم شیخ سلیمان لنگر زمین منیری ثم کاکوی، حضرت شاہ عز کاکوی ثم دہلوی، حضرت شاہ قیام الدین کاکوی، حضرت شاہ رکن الدین کاکوی، حضرت سید ابراہیم زندہ دل کاکوی، حضرت سلیمان سیاح کاکوی، حضرت شاہ مبارک کاکوی اور حضرت شاہ محمد بن درویش کاکوی قدس اللہ اسرارہم وغیرہ۔ مگر ان کے نام مشہور انعام اور زبان زدِ عام نہیں، کیونکہ اس بستی کو کئی مرتبہ آتش زدگی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے قدیم سفینہ جات تہِ خاک ہوا۔ تیرہویں صدی ہجری کے اواخر میں بقول حمدؔ کاکوی

    ’’15 ربیع الثانی 1291ھ مطابق 2 مئی 1874ء، فصلی ۱ جیٹھ بروز شنبہ، اور دوسری مرتبہ 14 ذیقعدہ 1314ھ مطابق 17 اپریل 1897ء، فصلی 30 چیت بروز شنبہ کو ایسی آگ لگی کہ ساری بستی جل گئی۔۔۔ جس سے بستی کے باشندوں کا سارا سرمایہ خاکستر ہوگیا اور کہاوت مشہور ہوئی: ’’سارا کاکو جل گیا اور بی بی کمال سوئی رہیں۔‘‘

    المختصر، صوبۂ بہار کے خطۂ کاکو کی مشہور بافاض و کرامت ولیہ زمان حضرت مخدومہ سیدہ ہدیہ المشتہر بی بی کمال کاکوی قدس اللہ تعالیٰ سرہا کی حیات کمال کے چند اہم نقوش باوصف تلاش و جستجو معلوم نہ ہوسکے، اور یہ ہم جیسوں کی غفلت ہے کہ آپ کی سوانح کو یکجا اور مکمل نہ کر پائے۔

    آپ کا اسم گرامی بی بی ہدیہ عرف بی بی کمال ہے، لقب بقول عوام الناس: ’’ہند کی رابعہ بصری۔‘‘ جائے پیدائش کے متعلق صحیح روایت دستیاب نہیں، بعض کا کہنا ہے کہ آپ کی پیدائش کاشغر (ایران) میں ہوئی۔ بقول حمدؔ کاکوی

    ’’حضرت پیر جگجوت حکومت ترک کر کے اپنی اہلیہ اور چاروں لڑکیوں کو ساتھ لے کر وطن سے باہر نکلے اور لاہور ہوتے ہوئے بہار شریف لائے۔‘‘

    تاریخ ولادت تقریباً 600ھ (1204ء) کے آس پاس ہوگی۔ آپ، مُلک کاشغر (ایران) کے فرماروا سلطان سید محمد تاج الدین کاشغری کے صاحبزادہ قاضی سید شہاب الدین پیر جگجوت متوفیٰ 666ھ کی صاحبزادی ہیں، اور والدہ بی بی نور عرف ملکہ جہاں بنت سید وجیہہ الدین نور اللہ مراقدہ ہیں۔

    حضرت شاہ عطا حسین منعمی فانیؔ نے اپنی کتاب ’’کنزالانساب‘‘ (مطبوعہ 1300ھ) میں آپ کا نسب نامہ درج کیا ہے۔

    سیدہ ہدیہ عرف بی بی کمال بنت سید شہاب الدین پیر جگجوت بن سلطان سید محمد تاج الدین کاشغری بن سید ناصر الدین بن سید یوسف بن سید حمزہ بن سید حسین بن سید قاسم بن سید موسیٰ بن سید حمزہ بن سید داؤد بن سید رکن الدین بن سید قطب الدین بن سید محمد اسحاق بن امام محمد جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی۔

    حضرت بی بی کمال کا ’’کاکو‘‘ میں آمد کا واقعہ مشہور ہے، لیکن مستند نہیں۔ بقول صاحب آثار کاکو

    ’’اور نہ عقل ہی اس کو تسلیم کرتی ہے کہ ایک خاتون کا ایسے پُر آشوب دور میں اس طرح سفر کرنا ممکن ہو۔‘‘

    اکثروں کا سوال ہے: ’’بی بی کمال کا ’’کاکو‘‘ میں تشریف آوری کب اور کیوں ہوئی؟ اور آپ کے آنے کے بعد آپ کے شوہر حضرت سلیمان لنگر زمین یہاں تشریف لائے یا آپ کے ساتھ ہی آئے؟‘‘ تاریخ کا تعین نہیں کیا جا سکتا، مگر جب آپ یہاں آئیں تو مایانے میں سوار تھیں، چار مسلمان کہّار تھے، ایک استاد شاہ محمد فرید (یہ گھوڑے پر سوار تھے)، ایک خادمہ جو ’’دائی بیگو‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی، اور ایک خادم جس کا نام فہیم کہلاتا ہے، سب کے مزارات درگاہ شریف کاکو میں موجود ہیں۔

    آپ کا نکاح حضرت امام محمد المعروف تاج فقیہ مکی کے دوسری محل سے تولد مخدوم عبد العزیز منیری کے بڑے صاحبزادے شیخ سلیمان لنگر زمین سے ہوا، جو منیر شریف کے زینتِ معلی تھے۔ بعد میں آپ زن و شوہر دونوں منیر شریف سے کوچ کر کے کاکو تشریف لائے، جن سے دو اولاد متولد ہوئی: صاحبزادہ مخدوم سید شاہ عطاء اللہ کجانواں اور دختر سیدہ بی بی دولت عرف کمال ثانی۔

    دختر بی بی دولت (مدفن: کاکو درگاہ شریف) کا نکاح مخدوم حسام الدین ہانسی ہنساروی سے ہوا، جن کے صاحبزادے مخدوم غریب حسین دھکڑ پوش مہسوی متوفیٰ 802ھ، خلیفہ شیخ علاؤالدین علاؤالحق سہروردی تھے۔ واضح رہے کہ بی بی کمال کے نواسہ (دھکڑ پوش) مخدوم سید احمد چرم پوش بہاری کے ہم عصر، ہم درس اور ہم طریقت رہے، جن کے مشہور خلیفہ صوفی ضیاؤالدین چنڈھوسی ہوئے۔ بی بی کمال کے خویش حسام الدین اور نواسہ دھکڑ پوش کا مزار مہسی میں مرجع خلائق ہے۔

    صاحبزادہ مخدوم سید شاہ عطاء اللہ کا نکاح کجانواں میں ہوا اور وہیں آخری آرام گاہ ہے۔ بقول حمدؔ کاکوی، آپ کے چھ لڑکے تھے: شفیع الدین، شمس الدین، تاج الدین، سراج الدین، صلاح الدین اور قطب الدین۔ واضح رہے کہ یہ خاندان امام محمد تاج فقیہ مکی کے ذریعہ (محلہ قدس خلیل، مکتہ المکرمہ) ہوتے ہوئے منیر شریف آیا۔ سید شاہ تاج الدین، خلف مخدوم شاہ عطاء اللہ کجانواں کے ذریعہ کاکو، کجانواں، نوآبادہ، موڑہ تالاب بہار شریف، ہوتے ہوئے آج محلہ شاہ ٹولی، داناپور شریف، پٹنہ میں خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ میں آباد و شاد ہے، جو سلیمان لنگر زمین زوجہ بی بی کمال کے فرزندان قلبی و صلبی ہیں۔ بقول جد مکرم شاہ محمد اکبرؔ ابوالعلائی داناپوری قدس سرہ:

    حضرت ہمارے جد بھی ہیں

    ہم ہیں عبد العزیز کی اولاد

    پسر خورد تھے یہ حضرت کے

    ہوئے یہ بھی منیر میں آباد

    یہ گھرانہ بڑا مکرم ہے

    اس میں عباد اس میں ہیں زہاد

    کاکو میں آکے اِن بزرگوں نے

    بعض نومسلموں کی کی امداد

    پھر بہار اور نوآبادہ ان سے بسا

    پڑی دونوں جگہ نئی بنیاد

    پھر یہ پھیلے تمام صوبہ میں

    ہر جگہ پہنچے یہ فرشتہ نزاد

    موڑے سے میرے جد یہاں آئے

    داناپور میں رہے وہ دل شاد

    (جذباتِ اکبرؔ، مطبوعہ 1333ھ، آگرہ)

    موجودہ سجادۂ آبادئی داناپور شریف حضرت حاجی شاہ سیف اللہ ابوالعلائی مدظلہ ہیں۔

    حضرت سلیمان لنگر زمین کی کوششوں سے کئی لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اپنی اہلیہ کے ہمراہ آپ قصبہ کاکو میں آباد ہوئے۔ یہاں ’’کوکا‘‘ نام کے جادوگر نے لوگوں کی زندگی برباد کر رکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی باکمال اہلیہ نے عالم غیظ میں یہ تصرف باطنی کیا، جس سے اس بستی کو اُلٹ دیا گیا۔ اس تصرف میں اتنی شدت تھی کہ اس علاقہ کی تمام زمین ہی تہہ و بالا ہو گئی، لیکن حضرت سلیمان کی موجودگی کے سبب ایسا نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا لقب ’’لنگر زمین‘‘ پڑا اور اس بستی کا نام ’’کاکو‘‘ پڑ گیا، جو ’’کوکا‘‘ کی اُلٹی ہوئی شکل ہے۔

    فیروز شاہ تغلق، جو مخدومِ جہاں کا معتقد تھا، 759ھ میں دہلی سے بہار شریف جاتے ہوئے کاکو سے گزرا۔ جس مقام پر حضرت بی بی کمال کا خام مزا تھا، وہیں پر اس کا پڑاو ہوا۔ بی بی پور کے باشندوں نے بادشاہ کو اطلاع دی کہ یہاں مخدومِ جہاں کی حقیقی خالہ یعنی بی بی کمال آسودہ خاک ہیں۔ بادشاہ نے از راہِ عقیدت حکم نامہ صادر کیا اور بہار کے حاکم کے ذریعہ 760ھ (1359ء) میں روضہ باکمال اور عیدگاہ کی تعمیر کرائی۔ درگاہ کے احاطہ میں کئی بزرگوں کے مزار ہیں، جو آفتاب ولایت تھے۔ واضح رہے کہ یہاں مخدومِ جہاں کا چلہ گاہ تھا، جو بستی والوں کے لئے اعزاز تھا۔ درگاہ شریف میں ایک سیاح رنگ کا پتھر اور روغنی اینٹ وغیرہ مشہور ہیں۔

    آپ کی رحلت کی تاریخ نہیں ملتی۔ مورخین کا قیاس ہے کہ تقریباً 690ھ (1290ء) سے 700ھ (1300ء) کے درمیان ہوگی۔ وفات کا نہ کوئی سال معلوم ہے نہ قمری ماہ، مگر زمانہ دراز سے کسی روایت کی بنیاد پر فصلی ماہ بھادو کے آخری جمعرات کو آپ کا عرس سراپاً قدس منایا جاتا ہے، جس میں کھیر کا فاتحہ مشہور ہے۔ سب آپ کی حضور میں حاضر ہو کر گلہائے عقیدت اور نذر و نیاز پیش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ خوب چل رہا ہے، بقول داد محترم شاہ اکبرؔ داناپوری

    عدم کی منزل سے ڈر نہ اکبرؔ نہ چور اس میں نہ اس میں رہزن

    ہزاروں لاکھوں ہیں آتے جاتے یہ راستہ خوب چل رہا ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے