ذکر خیر خواجہ امجد حسین نقشبندی
ہندوستان میں خانقاہیں اور بارگاہیں کثرت سے وجود میں آئیں، جہاں شب و روز بندگانِ خدا کو تعلیم و تلقین دی جاتی رہی۔ ان متبرک خانقاہوں میں بعض ایسی بھی تھیں جو بالکل متانت و سنجیدگی اور سادگی و سخاوت کا مجسمہ ثابت ہوئیں، جہاں روحانیت اور معرفت کا خاص خیال رکھا جاتا۔ ان مقدس بارگاہوں میں بارگاہِ عشقؔ کو امتیازی شان حاصل ہے۔ تقریباً ڈھائی صدی سے متواتر بارگاہِ عشقؔ کا فیضان عام ہوتا رہا۔ یہاں توجہ عینی کے ساتھ توجہ قلب کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ علم ظاہر سے زیادہ علم باطن کی طرف توجہ دینا یہاں کا خاصہ ہے۔ علمائے زمانہ ہوں یا شاہانہ زمانہ، ہر ایک یہاں عقیدت سے سلام و نیاز پیش کرتا ہے۔ امام العاشقین خواجہ رکن الدین عشق (متوفیٰ 1203ھ) کی طرح اس بارگاہ کے سجادگانِ ذیشان بھی بیشتر اوصاف و کمالات کے مالک ہوئے ہیں، لہٰذا چہارم سجادہ نشین خواجہ شاہ امجد حسین نقشبندی ابوالعُلائی، جو اپنی علمی و عملی صلابت کے لحاظ سے معاصر مشائخ میں سرفراز و بے نیاز تھے، ان کا ذکر خیر اس جگہ کیا جاتا ہے۔
خواجہ امجد حسین نقشبندی کی پیدائش 1263ھ موافق 1847 کو بارگاہِ عشق میں ہوئی۔ اس موقع پر یحییٰ عظیم آبادی نے قطعہ کہا ہے۔
’’قطعۂ تاریخ ولادت پسر برادرم شاہ لطیف علی عرف میانجان صاحب نقشبندی ابوالعُلائی سلمہٗ اللہ تعالیٰ
خدا بخشید فرزند نرینہ بوالارتبۂ فخر اب و جد
میانجان آنکہ بر اسرار عرفان کما ے اطلاع و علم دارد
چو از دل خواستم تاریخ میلاد ندا آمد کہ بر خوردار احمد
۱۲۶۶ھ
آیۃ قرآنی : المال والبنون زینت الحیاۃ الدنیا‘‘
۱۲۶۶ھ
(کنزالتواریخ، ص ۱۵)
آپ کے والد ماجد خواجہ شاہ لطیف علی نقشبندی ابوالعلائی (متوفیٰ 1299ھ) نے مراقبہ کے بعد آپ کا نام ’’امجد حسین‘‘ رکھا۔ آپ کا بچپن فی ناز و نعم میں گزرا۔ خواجہ لطیف علی جیسی معزز ہستی کے زیر اثر آپ کی تربیت ہونے لگی اور رفتہ رفتہ تعلیم کی طرف رغبت ہوئی۔ پہلے پہل خانقاہ میں ہی دیگر بزرگوں کے ذریعہ تعلیم دی جانے لگی۔ جب آپ تھوڑا عاقل و بالغ ہوئے تو مزید علمائے کرام و فضلا کی طرف متوجہ ہوئے۔
صاحب ’تذکرۃ الصالحین‘ لکھتے ہیں کہ
’’جب سن شعور کو پہنچے تو تحصیل علم ظاہری جناب مولوی کمال صاحب اور مولانا سعید صاحب و حکیم غلام علی صاحب سے کی اور علوم باطنی کی تکمیل اپنے والد ماجد قدس سرہٗ سے حاصل کی‘‘ (ص 68)
اور بہت جلد آپ علم ظاہری میں کمال حاصل کر گئے۔ ’’ہدایہ‘‘ اور ’’وقایہ‘‘ جیسی کتاب مستطاب کے آپ مستقل حافظ ہو چکے تھے۔ علم فقہ کے بعد آپ کی طبیعت فن حدیث کی طرف مائل ہوئی اور بہت جلد اپنے کمال ذہن سے اس علم میں بھی واقفیت حاصل کر لی۔ خواجہ آپ کا موروثی لقب ’’امیر میاں‘‘ عرفیت ہے۔ آپ کے والد محترم خواجہ لطیف علی اور جد مکرم خواجہ لطف علی صاحب کرامت بزرگ گزرے ہیں جن کی ولایت پر ایک زمانہ شاہد ہے۔ خواجہ شاہ نظیر حسین اور خواجہ شاہ وجیہہ حسین یہ دونوں آپ سے چھوٹے بھائی تھے، اور آپ بھائیوں میں سب سے بڑے اور نیک فعال تھے۔
خواجہ امجد حسین کا پدری نسب ان کے بیاض سے یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ آپ کا پدری نسب نامہ خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی صاحبزادی اور خواجہ رکن الدین عشق کی صاحبزادی سے بہت صحیح طور پر جاملتا ہے کہ
امجد حسین ابن لطیف علی ابن لطف علی (نواسہ حضرت عشق) ابن محمد محسن علی ابن آفتاب علی ابن وجیہہ الدین ابن محمد ی خاں غازی ابن محمد شریف ابن محمد لطیف ابن محمد منیر (نواسہ خواجہ نقشبند) ابن علاؤالدین عطار ابن محمد بخاری۔
علمِ ظاہر سے جب فارغ ہوئے تو علمِ باطن کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے والد کے ذریعہ جلد نعمتِ باطنی سے فیضیاب ہو کر کامیاب و کامران ہوئے۔ خواجہ لطیف علی نقشبندی اپنی رحلت سے قبل محفلِ لطیف میں آپ کو سلسلۂ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں بیعت کرکے اجازت و خلافت سے نواز کر اپنی زندگی میں اپنا جانشین نامزد کر چکے تھے، لہٰذا والدِ ماجد کے بعد 1299ھ/1882ء کو بارگاہِ حضرت عشق، تکیہ شریف، میتن گھاٹ، پٹنہ سیٹی کے سجادہ نشین ہوئے۔
آپ کو اپنے خسر معظم اور خانقاہ منیر شریف کے سجادہ نشین حضرت سید شاہ امجد حسین منیری (متوفیٰ 1302ھ) سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔ چنانچہ ’’تذکرۃ الصالحین‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ
’’اجازت و خلافت طریقہ نقشبندیہ ابوالعلائیہ سہروردیہ وغیرہ سے مشرف ہو کر بحکم اجازت پیر، منیر شریف میں اپنے خسر جناب سید شاہ امجد حسین قدس سرہٗ سے اجازت و خلافت چہاردہ خانوادہ حاصل کیا‘‘ (ص68)
خواجہ امجد حسین اپنے سلسلۂ نسب اور سلسلۂ طریقت کے حوالے سے ’’جلوۂ عشق‘‘ پر ایک قیمتی تقریظ لکھی ہے۔ یہ کتاب وحیدؔ الہ آبادی کے شاگرد باقرؔ عظیم آبادی کی ہے، ص 27 کی عبارت ملاحظہ ہو۔
’’خواجہ علاؤالدین عطار قدس سرہٗ خلیفۂ معظم خواجۂ خواجگان خواجہ بہاؤالدین نقشبند قدس سرہٗ کے تھے، حضرت سیدنا شیخ المشائخ امام الطریقہ والشریفہ نقشبند قدس سرہٗ کو صرف ایک صاحبزادی تھی۔ ان کو خواجہ علاؤالدین عطار کے ساتھ حضرت ممدوح نے فرمایا تھا، چنانچہ انہیں صاحبزادی سے اولاد جاری ہوئی اور نسبت فرزندیت کی بھی اس فقیر (امجد حسین) کو بوجہ خواجہ علاؤالدین عطار قدس سرہٗ کے حضرت نقشبند قدس سرہٗ سے ہے، اسی لئے بیعت بھی اسی سلسلۂ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ ممدوح کے وقت سے اس فقیر تک ہم لوگوں کو ہوتی آئی ہے‘‘ (کیمیائے دل، ص 27، مطبوعہ 1318ھ، پٹنہ)
آپ کی علمی لیاقت بے نظیر تھی۔ عقدۂ لایخل بھی بڑی آسانی سے حل کر لیتے۔ مثنوی مولانا روم کا درس باضابطہ بارگاہِ عشق میں دیا کرتے تھے، جس میں اہلِ علم کا مجمع رہتا، دور دور سے لوگ آپ کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ آپ فنائیت کے اس مقام پر کھڑے تھے جہاں سے بقا باللہ کا دروازہ قریب تھا۔ اسرار و رموز اور حقائق و معرفت کو اس طرح خوش اسلوبی سے منکشف کرتے کہ طالب حیرت و استعجاب میں پڑ کر اپنی غلامی پر عش عش کرتا۔ آپ کی مجلس بڑی متبرک ثابت ہوتی، کثرت سے لوگ آتے اور من کی مراد پاکر بخوشی واپس جاتے۔ بعنوان عنایتِ الٰہی، کچھ ایسی استعداد تھی کہ طالبانِ حق کو برابر درسِ کلامِ اللہ شریف و مثنوی سے مستفید فرماتے رہے۔ (تذکرۃ الصالحین، ص 68)
تمناؔ عمادی پھلواروی کہتے تھے کہ
’’حضرت کو قرآن و حدیث پر مکمل علم حاصل تھا‘‘۔
مستجاب الدعواۃ اور صاحب استقامت بزرگ ہوئے، بے شمار کرامتیں آپ کی ذات سے ظہور میں آئیں، جسے تحریر میں لانا ناشد کے بس کی بات نہیں۔ آپ کے طالبین، سالکین اور شایقین ہر وقت اپنے علم کی پیاس بھجاتے رہتے۔ اللہ پاک نے آپ کو کمالِ علم و عمل سے نوازا تھا کہ جس فن کی جانب میلان ہوتا، اس میں اچھا درک فرمالیا کرتے۔ اس طرح آپ کی ذات سرچشمۂ ہدایت اور مَنبعِ فیوض ولایت ہوئی۔ (تذکرۃ الصالحین، ص 68)
خواجہ امجد حسین کے تعلقات معاصر علما و مشائخ میں نہایت دلنشین تھے۔ بلند اخلاق، پاکیزہ طبیعت اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ حسنِ صورت، حسنِ سیرت کے ساتھ حسنِ اخلاق بھی تھے۔ مہد سے لحد تک آپ کی زندگی اتباعِ رسول ﷺ کا نمونہ تھی۔ بیشتر مشائخ سے آپ کا خاندانی رشتہ رہا ہے۔ خانقاہ معظم حضرت مخدوم جہاں بہار شریف کے سجادہ نشین حضرت شاہ امین احمد فردوسی (متوفیٰ 1321ھ) آپ کے ہمشیرِ زوج ہوئے، خانقاہ منیر شریف کے سجادہ نشین حضرت شاہ امجد حسین فردوسی (متوفیٰ 1302ھ) آپ کے خسر محترم ہوئے۔ اسی رشتہ سے خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشین حضرت شاہ محمد محسن ابوالعلائی (متوفیٰ 1364ھ) آپ کے رفیقِ مکرم اور عزیز محترم ہوئے۔ اسی طرح یہ سلسلہ کافی وسیع و عریض ہوتا چلا گیا۔
مشہور صوفی حضرت شاہ اکبر ابوالعلائی داناپوری (متوفیٰ 1327ھ) سے بھی آپ کے تعلقات قدیمانہ تھے۔ حضرت عشقؔ کے عرسِ پاک کے مبارک موقع پر آپ اپنے صاحبزادے حضرت شاہ محسنؔ داناپوری کے ہمراہ داناپور سے بذریعہ کشتی تشریف لاتے، بلکہ کبھی کبھی تو عرس سے دو یا تین روز قبل ساز و سامان کے ساتھ قیام کرتے اور مجلسِ سماع پُرتکلف انداز میں منعقد کیا کرتے۔
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری اپنی کتاب مستطاب ’’نذرمحبوب‘‘ میں آپ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ
’’عزیز باتمیز سعید کونین خواجہ شاہ امجد حسین عرف امیر میاں سلمہٗ اللہ تعالیٰ
یہ سعید ازلی جناب برادر معظم خواجہ لطیف علی عرف شاہ میاں جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین تکیہ حضرت عشقؔ کے فرزند رشید ہیں۔ اپنے والد ماجد کے بعد اب یہی صاحبزادہ رونق افروز سجادہ ہیں۔ نیک بختی اور سعادت مندی آپ کے ضمیر میں ہے، بدوشعور سے آثار نیک ان کے چہرے سے پائے جاتے ہیں، ماشاء اللہ اپنے معمولات اور تعلیم و ارشادات میں مستقیم الحالت ہیں۔ آپ کے دو بھائی (خواجہ نظیر حسین، خواجہ وجیہہ حسین) اور بھی ہیں، اللہ تعالیٰ شانہٗ ان کو اپنے برادر معظم کی طرح نیک بخت و سعادت مند فرماوے، آمین‘‘ (ص30)
شعرو شاعری کا بھی شوق رکھتے تھے، کم کہتے تھے مگر جب بھی کہا، خوب کہا۔ جس کا اکثر حصہ غیر مطبوعہ ہے۔ آپ کی ایک فارسی مناجات بھی ملتی ہے جس میں تخلص ’’حسنؔ‘‘ ہے۔
الٰہی سربسر غفلت پناہم
عنایت کن زخود آگاہ راہم
الٰہی شام کفرم صبح گرداں
عطا کن چشم بینا جان ایماں
زمینم راز لطف آسماں کن
دلم فارغ زبندہ ایں و آں کن
دلم دہ حسن پرور تاب و مہتاب
کہ ہر ذرہ نماید جلوۂ ناب
بہ حسنؔ تو بود مشقم دوبالا
زِنم چوں نعرہ مستان تلالا
شعری سرمایہ کی طرح نثری کارنامہ بھی شاندار ہے۔ باقرؔ عظیم آبادی کی کتاب ’’کیمیائے دل‘‘ پر دو تقریظ شامل ہیں۔ پہلی تقریظ جناب حضور شاہ امین احمد فردوسی کی ہے، اور دوسری تقریظ آپ کی بزبان فارسی تقریباً 60 صفحات پر محیط ایک گراں قدر تحریر ہے۔ اس کتاب کی اشاعت قاضی عبدالوحید فردوسی نے اپنے مطبع حنفیہ محلہ لودی کٹرہ، پٹنہ سٹی سے کی۔ حضرت شاہ محمد یحییٰؔ ابوالعلائی عظیم آبادی (متوفیٰ 1302ھ) کی ’’فتوحات شوق‘‘ پر بھی بزبان فارسی چار صفحات پر ایک قیمتی تقریظ لکھی گئی ہے۔
جب آپ عاقل و بالغ ہوئے تو آپ کا عقد خانقاہ منیر شریف کے سجادہ نشین حضرت شاہ امجد حسین فردوسی (متوفیٰ 1302ھ) کی بڑی صاحبزادی ماجد النسا عرف شرفاً سے سال 1289ھ میں ہوا۔ اس موقع پر یحییٰ عظیم آبادی نے قطعۂ تاریخ کہا ہے۔
’’تاریخ تحریر رقعۂ تقرر شادی کدخدائی برخوردار خواجہ امجد حسین مدعمرہٗ از طرف برادرم خواجہ شاہ لطیف علی صاحب بنام شاہ امجد حسین صاحب امیر ۔ محررۂ پتہ و یکم محرم قطعہ کہ در آقرآں رقعہ نوشتہ شد متصم قبول استدعا۔
مطبوع طبع فیض عام یہ ہے
۱۲۸۹ھ
دیگر
نشست باہمہ تمکین بمسند اب و جد
جوان صالح امجد کہ تخم نیک کشت
جناب شاہ میاں جان مقام و مسند خود
حوالہ کرد بآن خوش صفات نیک سرشت
دبیر خامۂ فرسال جانشین او
نشاندہ والدہ او جاے خود و را بنوست‘‘
۱۲۸۹ھ
(کنزالتواریخ، ص ۱۵۳)
کریم الدین میردادی لکھتے ہیں کہ
’’دختر اولین حضرت سید شاہ امجد حسین مرحوم از جناب شاہ امیر صاحب سجادہ حضرت رکن الدین عشق علیہ الرحمۃ منسوب بودند و صاحب اولاد اندند‘‘ (ص 425)
یہ بزرگ حضرت سید محمد سلطان چشتی کے صاحبزادے اور خانقاہ منیر شریف کے سجادہ نشین حضرت شاہ قطب الدین فردوسی (متوفیٰ 1281ھ) کے خویش محترم تھے۔ اس طرح خواجہ امجد حسین نقشبندی اور حضرت امجد حسین فردوسی خویش اور خُسر ہوئے۔ دونوں میں بڑی محبت و انسیت تھی۔ بڑوں کی روایت ہے کہ منیر شریف کی اکثر روایات خواجہ امجد حسین کے عقد کے بعد بارگاہ حضرت عشقؔ میں قائم ہوئیں۔ بارگاہ عشق میں محفل سماع کا ایک خاص مقام ہے۔ اکثر مقامات پر اس نے محفل سماع کی چھاپ چھوڑ رکھی ہے۔ یہاں کہنا ہے کہ علم زبان سے نکلے تو وہ قال ہے اور اگر قلب سے نکلے تو وہ حال ہے۔
’’آگیا صاحبان قال کو حال‘‘
(شاہ اکبرؔ داناپوری)
خواجہ امجد حسین کی اہلیہ کے بطن سے پانچ اولاد ہوئیں، تین پسر اور دو دختر۔ بڑے فرزند خواجہ ابوالحسن جوانی کی عمر میں فوت ہوئے اور اپنے نانیہال چھوٹی درگاہ منیر شریف میں دفن ہوئے۔ دوسرے فرزند خواجہ حمید الدین نقشبندی اپنے والد کے بعد مسند رشد و ہدایت پر متمکن ہوئے اور ایک زمانہ آپ سے فیضیاب ہوا۔ تیسرے فرزند خواجہ ابوالحسین نقشبندی بھی اپنے والد کی طرح عمدہ اخلاق کے مالک تھے۔ ان کا سلسلہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں وسیع ہوا۔ ان کی آخری آرام گاہ میر پور (ڈھاکہ) ہے۔ شعرو شاعری سے کافی رغبت تھی۔ ضیاءؔ تخلص کرتے، کم کہتے مگر عمدہ کہتے تھے۔ بیعت و خلافت اپنے والد سے حاصل کی اور تعلیم و تلقین اپنے برادر معظم خواجہ حمید الدین نقشبندی سے پائی۔
آپ کی پیدائش پر بھی شاہ یحییٰ عظیم آبادی نے قطعہ کہا ہے کہ
’’قطعۂ تاریخ ولادت ابن الابن برادرم خواجہ لطیف علی عرف شاہ میاں جان صاحب پسر خواجہ امجد حسین عرف امیر مرزا سلمھم اللہ تعالیٰ
میانجان شاہ اقلیم فنا و وحدت و عرفاں
کہ دارد خانقاہ شق اللہ فیض خود آباد
بفرزندش کہ نام نیک او امجد حسین آمد
خدا پور سعادت مند بخشید و دلم شد شاد
رقم زد کلک یحییٰؔ مصرع برجستۂ تاریخ
بآن فرزند فرزند جگر بندی مبارک باد
۱۲۹۴ھ
دیگر
امیر ابن شاہ لطیف الطبیعت
جوان رشید سعادت مجسم
نرینہ پسر کردش ایزد عنایت
دل اقربا گشت مسرور و خرم
ازیں بمثردہ چوں گل شگفتیم و تاریخ
بباغ لطیف علی گل نو شتم
۱۲۹۴ھ
دیگر
یافت فرزندی برادر زادہ ام
ہم چوگل بشگفتم از فرط خوشی
از سرالہام تاریخ لطیف
گفت دل فرزند فرزند اخی
۱۲۹۴ھ
دیگر
میرے بھائی کا پیارا پوتا
راحت و روح و دل و جاں ہے یہ
کہو تاریخ ولادت یحییٰؔ
نوگل باغ میاں جان ہے یہ
۱۲۹۴ھ
(کنزالتواریخ، ص۱۹۰)
دو صاحبزادی میں پہلی دختر بی بی منیبہ کا عقد آپ کے خاص مرید و مجاز حضرت شاہ شعیب نقشبندی ہلسوی سے ہوا۔ یہ بزرگ بھی ہلسہ سے پٹنہ سٹی آئے اور یہاں سے مصاہرت کرکے بنگلہ دیش چلے گئے اور رشد و ہدایت کا سلسلہ وہاں قائم کیا۔ دوسری دختر بی بی زہرہ حضرت متین سے منسوب ہوئیں۔
حلقۂ مریدان کافی وسیع تھا۔ موجودہ بنگلہ دیش کا مکمل علاقہ آپ کے فیضان سے مستفید تھا۔ ہر ایک آپ کی عزت و حرمت کا قائل تھا، چاہے امیر ہو یا غریب، کالے ہوں یا گورے، عالم ہوں یا جاہل۔ بڑے بڑے نوابین و رؤسا بھی حلقۂ یاران میں شامل تھے، جیسے نواب عتیق اللہ خاں (ڈھاکہ)، نواب سمیع اللہ خاں (ڈھاکہ)، نواب سلیم اللہ خاں (ڈھاکہ) وغیرہ۔ سلسلے کی عظیم نعمت ہر ایک پر منکشف نہیں کی جاتی، بلکہ جو اس نعمت کا استحقاق رکھتا اسے نعمائے باطنی سے فیضیاب کرکے اجازت و خلافت سے نوازا جاتا ہے۔ چند خلفا کے نام درج ہیں۔
خواجہ ابوالحسن نقشبندی (صاحبزادہ اکبر)
خواجہ حمید الدین نقشبندی (صاحبزادہ دوم و جانشین)
خواجہ ابوالحسین نقشبندی (صاحبزادہ و سوم)
حضرت شعیب نقشبندی (خویش)
زندگی کا مکمل لمحہ آپ نے تبلیغ و ارشاد میں وقف کیا، یہاں تک کہ جب ضعیف طاری ہوا، پھر بھی اپنے معمولات میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔ معمول اور آبائی روایت کے بڑے پابند تھے۔ 22 ذیقعدہ بروز جمعہ 1336ھ، موافق 30 اگست 1918ء کو بوقت بعد عصر بارگاہ عشق میں اپنے سفر کو تمام کیا۔ نماز جنازہ آپ کے فرزند دلبند و جانشین خواجہ حمید الدین نقشبندی نے پڑھائی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.