Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیرحضرت شاہ فریدالدین احمد چشتی کاکوی

ریان ابوالعلائی

ذکر خیرحضرت شاہ فریدالدین احمد چشتی کاکوی

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    کمال آباد المعروف کاکو اپنی قدامت اور ہدایت و لیاقت کے اعتبار سے ہمیشہ ممتاز رہی ہے۔ یہاں مشہور ولیہ حضرت مخدومہ بی بی ہدیہ المعروف کمال قدس سرہا کا آستانہ متبرکہ ملک بھر میں مشہور ہے۔ کثرت سے بندگان خدا اس دیار میں آکر من کی مراد پاکر خوشی کے ساتھ واپس جاتے ہیں۔ یہ جگہ حضرت بی بی کمال کی دامن محبت میں آباد و شاداب ہے۔

    اس قصبہ کاکو کے اول بزرگ حضرت شیخ سلیمان لنگرزمین ابن مخدوم شیخ عبدالعزیز منیری ابن فاتح بہار، حضرت امام محمد تاج فقیہ، حضرت بی بی کمال کے شوہر اور حضرت مخدوم جہاں کے عمی المکرم ہیں۔ یہاں بیشتر اولیاء و اصفیاء کی مقدس جماعت قدیم عہد سے موجود ہے۔ قدیم عہد میں سلسلۂ قادریہ فردوسیہ کے علاوہ سلسلۂ چشتیہ اور ابوالعلائیہ کا زور بھی خوب رہا۔ ولایت و ہدایت، کرامت و معرفت، لیاقت و صلابت اور تحقیق و تدقیق کے ہر شعبۂ حیات سے اس کا تعلق رہا ہے۔ اس کی عظمت و بلندی سے متعلق تمام مکتب فکر کے دانشور متفق ہیں۔ بلکہ کسی زمانے میں یہ جگہ عظیم آباد (پٹنہ) کا مرکز و محور ہوا کرتی تھی۔

    گیارہویں صدی ہجری کے اواخر میں حضرت مولانا سید شاہ عبدالغنی مجددی قدس سرہ (متوفیٰ 1146ھ) صاحب ولایت و معرفت کے بزرگ گزرے ہیں۔ آپ کی کرامت اور علوم و رتبت آج بھی زبان زد عام ہیں۔ آپ نے اپنی نانیہال موضع ’کاکو‘ کو مسکن بنا کر تبلیغ، رشد و ہدایت کا کام انجام دیا۔ آپ کی اولاد میں ایک صوفی صافی بزرگ حضرت شاہ فریدالدین چشتی چودہویں صدی ہجری کے مقبول زمانہ بزرگ گزرے ہیں۔ آپ نے کاکو میں خانقاہ کی بنیاد رکھی اور بندگان خدا میں اللہ کی عبادت اور بندوں کی خدمت کا جذبہ بیدار کیا۔ خانقاہ فریدیہ واحد قدیم جگہ ہے جو آج بھی کاکو میں زمینی سطح پر موجود ہے، ورنہ دیگر کے حالات و کمالات آج صرف کتب و رسائل میں محفوظ ہیں۔

    شاہ فریدالدین احمد کی پیدائش 7 رمضان المبارک 1300ھ، موافق 11 جولائی 1882ء کو اپنی نانیہال مفتی گنج، ضلع جہان آباد میں ہوئی۔ نام فریدالدین اور تاریخی نام ’محمد فضل رحمن‘ ہے۔ آپ کے والد ماجد محمد حمید الدین ایک بلند خیال اور پاک طینت انسان تھے۔ گورنمنٹ ملازمت کے بعد بالکل خانہ نشیں ہوگئے۔ آپ کی محل اولیٰ لاولد انتقال کرگئی، اس لیے دوسرا نکاح حقیقی ہم زلف میر افضل حسین (مفتی گنج) کی لڑکی مسماۃ عزیز النساء سے ہوا، مگر چند برس بعد اختلاج قلب میں مبتلا رہ کر 29 ذی الحجہ 1307ھ کو رحلت کر گئے۔ اس وجہ سے فرزند فریدالدین احمد کا کم سنی میں زیادہ وقت اپنی نانیہال میں گزرا۔

    آپ کے خال محترم سید محی الدین آپ کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔ آغاز سے کم سخن اور عمدہ مزاج کے مالک تھے۔ خاندان کے مقتدر بزرگوں سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے اور روحانیت و عرفانیت کی جانب اعلیٰ ذوق رکھتے۔ تاریخ و تذکرہ کے دلداہ تھے۔ اس طرح ایک عرصہ بعد آپ کا ذاتی کتب خانہ لوگوں کے لیے سیر بخش ہوا۔ صاحب ’آثار کاکو‘ آپ کی علم دوستی کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ

    ’’اور اسی طرح برادرم سید شاہ فریدالدین کو بھی کتابوں کا بڑا ذوق تھا اور انہوں نے بھی شعرا کے دوّاوین و کلیات نیز بزرگان دین کے احوال و آثار پر جو کتابیں تھیں، اس کا اچھا خاصہ ذخیرہ تھا‘‘

    عالم شباب ہی سے آپ کے مزاج میں صحو و سکر غالب رہا۔ دل میں مذہبی جوش و ولولہ بدرجۂ اتم تھا۔ طبیعت میں عشق و محبت کا سوز و گداز، چہرہ پر حلم، زبان میں حلاوت اور نرمی نے تسخیر عالم کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ گفتگو بڑی پرکشش ہوتی، جو ایک مرتبہ محفل لطیف میں بیٹھتا وہ آپ کی باتوں کا دلدادہ بن جاتا۔ سخاوت و فیاضی کا یہ عالم تھا کہ جو بھی طلب کرتا، آپ دے دیتے، نہ کبھی روپیہ کی خوشی ہوتی اور نہ غم، سب کچھ لوگوں پر صرف کردیتے۔ فراخدلی اور سخاوت آپ کا پسندیدہ عمل تھا۔ آخر وقت میں قناعت کو اپنا زیور بنایا۔ مزاج میں نفاست پسندی، خوش شائستگی اور متانت و سنجیدگی تھی، گویا آپ کا مکمل انداز و اطوار سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق تھا۔

    آپ آغاز سے روحانیت کی جانب مائل رہے، جگہ جگہ دینی محافل میں کثرت کے ساتھ جاتے۔ یہاں تک کہ ایک روز آپ کو محفل میں جناب حضور حضرت سید شاہ امین احمد فردوسی شوقؔ (سجادہ نشین: خانقاہ معظم حضرت مخدوم جہاں، بہار شریف) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ نگاہ شیخ میں ایسی تاثیر دیکھی کہ بالکل اس عشق میں قیدہو کر رہ گئے۔ زندگی کے بدلتے ہوئے سفر کے ساتھ بے چینی و بے قراری بڑھنے لگی۔ ایک روز خانقاہ معظم (بہار شریف) کا رخ کیا اور مرید ہونے کی درخواست ظاہر کی۔ جناب حضور نے فرمایا:

    ’’آپ میں چشتیت کی بو آتی ہے‘‘

    سال 1316ھ (1898ء) میں سلسلۂ چشتیہ میں بیعت کر کے اپنے لائق و فائق صاحبزادے حضرت سید شاہ وصی احمد فردوسی عرف براتی (متوفیٰ 1352ھ) کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے تصوف کی تعلیم سلسلۂ ابوالعلائیہ کے نصاب پر مکمل حاصل کی۔ تعلیم و ارشاد کا سلسلہ کئی دنوں تک قائم رہا، یہاں تک کہ نعماے باطنی سے مشرف ہو کر اجازت و خلافت سے نوازے گئے۔ مرشد کریم کے حکم سے کاکو میں رشد و ہدایت کا سلسلہ قائم کیا اور بندگان خدا کو تعلیم و اخلاق کا درس دینے پر مامور ہوئے۔

    آپ میں عاجزی و فروتنی خوب تھی۔ زیادہ تر افراد کو سلسلۂ چشتیہ میں بیعت کرتے۔ حلقۂ مریدان، معتقدان اور متوسلان جہان آباد، گیا اور اطراف میں کثرت سے پایا جاتا۔

    ابتدائی عمر سے حضرت مخدومہ بی بی کمال کی طرف طبیعت مائل رہی۔ آستانۂ کمال کے اطراف و اکناف میں کبھی جوتیاں نہیں پہنتے، ہمیشہ انکساری اور خاکساری کے ساتھ حاضر ہو کر اپنی غلامی کا ثبوت پیش کرتے۔ غایت درجہ کی نسبت و عظمت آپ میں پائی جاتی۔ کبھی آستانۂ کمال میں جلوس نہیں کرتے، ہمیشہ قیام کی حالت میں رہتے۔ حضرت مخدوم جہاں سے کمال محبت تھی۔ حضور مشائخ چشتیہ کے حضرت سیدنا امیر ابوالعلاء قدس سرہٗ (متوفیٰ 1061ھ) سے بھی باکمال نسبت تھی۔

    تعلیم و تربیت کے دوران ایسا نشہ چڑھا کہ وطن سے دور اکبرآباد المشہور بہ آگرہ آئے اور حضرت سید شاہ محمد محسن ابوالعلائی داناپوری (سجادہ نشین: خانقاہ سجادیہ، داناپور) کی رفاقت میں کئی روز آستانہ متبرکہ میں مراقبہ کیا۔

    آپ کا پہلا نکاح اپنے خال محترم سید محی الدین (مفتی گنج) کی صاحبزادی مسماۃ بی بی زینب سے ہوا۔ موصوفہ نیک خصلت کی پاکیزہ خاتون تھیں، عفت و پارسائی اور انداز اطوار میں بے مثل تھیں۔ زندگی نے زیادہ وفا نہ کی، اس لیے 1336ھ میں جاں بحق ہوئیں۔ مولانا حافظ عبدالسبحان صاحب (مرید و تلمیذ حضرت نورمحمد دہلوی) نے تاریخ وصال اس مصرع سے نکالی۔

    ’’جنت الفردوس مقام ابدی شد‘‘ (1336ھ)

    محل اولیٰ سے ایک دختر (منسوب سید منظور الرحمن اخترؔ کاکوی خلف سید شاہ غفورالرحمن ابوالعلائی حمدؔ کاکوی) اور ایک صاحبزادہ جناب سید شاہ غلام منعِم المعروف ولی الحق چشتی پیدا ہوئے۔ ان کا عقد موضع کوپا (ضلع پٹنہ) میں ہوا، مگر اولاد نہ ہوئی۔ واضح ہے کہ آپ کو بیعت، اجازت و خلافت حضرت شاہ وصی احمد فردوسی سے ہے۔

    محل اولیٰ کی رحلت کے بعد دوسرا عقد 1343ھ (1924ء) میں سید عظیم الدین (میرداد، بہار شریف) کی لڑکی مسماۃ بی بی شکور، نیک سیرت اور اخلاق مند عورت سے ہوا۔ آپ کو بیعت سلسلۂ فردوسیہ میں حضرت شاہ ابوالحسنات فردوسی سے حاصل ہوئی۔ پیرپرست اور خدا رسیدہ خاتون تھیں۔ آپ کا وصال 11 ذیقعدہ کو ہوا۔ اِن سے دو صاحبزادے پیدا ہوئے: سید شاہ غلام معین الدین چشتی اور سمیع احمد (یہ لڑکا کم سنی میں فوت ہو گیا)۔

    زندگی کی آخری عمر تک آپ اپنے معاملات خود انجام دیتے رہے۔ ضعف کی وجہ سے زیادہ وقت حجرہ میں گزرتا، بالکل اپنے والد کی طرح خانہ نشیں ہوگئے۔ جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے تو کیفیت تبدیل ہونی شروع ہوئی اور 74 برس کی عمر میں شبِ جمعہ، 1 بجے، 20 ربیع الثانی 1374ھ، موافق 15 دسمبر 1954ء کو اپنے حجرہ میں راہی ملک بقا ہوئے۔ لہٰذا آپ اپنے جدامجد حضرت شاہ عبدالغنی چشتی کے مزار مقدس کے پاس دفن ہوئے۔ سید غلام معین الدین بلخی عاصیؔ (ساکن دیگھا، داناپور) نے ’آہ پیر طریقت اُٹھ گیا‘ سے (1374ھ) برآمد کیا ہے۔

    اس طرح آپ کے خویش محترم منظور الرحمن اخترؔ کاکوی بھی کئی قطعۂ تاریخ رحلت رقم کر چکے ہیں، جو خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔ اس شعر سے تاریخ وصال ظاہر ہو رہی ہے۔

    سید واصل بحق شاہ فرید جنتی

    ’’نزد بنی واصفیا شاہ فرید جنتی‘‘ (1374ھ)

    آپ کا عرس خانقاہ فریدیہ، محلہ شاہ ٹولی، کاکو میں اہتمام و انصرام کے ساتھ ہر سال انجام پاتا ہے، وابستگان فریدیہ اطراف و جوانب سے حاضر ہو کر سلام و نیاز پیش کرتے ہیں، اور خلوص نیت کے ساتھ من کی مراد پاکر واپس جاتے ہیں۔

    آپ کی رحلت کے بعد بڑے صاحبزادے حضرت شاہ ولی الحق چشتی (تاریخ رحلت: 12 ذی قعدہ، بروز شنبہ 1417ھ) جانشین ہوئے۔ چونکہ لاولد تھے، اس لیے اپنی زندگی میں اپنے چھوٹے بھائی حضرت شاہ غلام معین الدین چشتی (تاریخ رحلت: 26 ذی الحجہ 1400ھ) کو سجادگی پر مامور کر دیا۔ موجودہ سجادہ نشین آپ کے بڑے صاحبزادے جناب سید شاہ علی احمد چشتی صاحب ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے