Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیرحضرت ڈاکٹر شاہ تقی الدین فردوسی منیری

ریان ابوالعلائی

ذکر خیرحضرت ڈاکٹر شاہ تقی الدین فردوسی منیری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    پندرہویں صدی ہجری میں صوبۂ بہار کو یہ شرف حاصل ہوا کہ یہاں کی مٹی سے کثیر تعداد میں صاحبان علم و دانش نمودار ہوئے، جن کے علم و تفقہ اور مسائل و معاملات کا ایک زمانہ قائل رہا۔ دینی معاملات ہوں یا دینی معلومات، ہر فن کے افراد یہاں سر فہرست نظر آتے ہیں۔

    بہار کی مٹی ہمیشہ دنیاِ علم و ادب کو کچھ نہ کچھ عطا کرتی رہی ہے، جس کی روشنی نہ صرف ملک ہندوستان بلکہ پڑوسی ممالک اور عرب دنیا تک پہنچی۔ اہل بہار کو یہ فخر حاصل ہے کہ ہمارے وطن میں باکمال علما اور شخصیات گزر چکی ہیں۔ اس سلسلے میں ’’معاصرین‘‘ پر یہ تحریر حضرت ڈاکٹر مولانا سید شاہ تقی الدین فردوسی منیری کی شخصیت سے منسوب ہے۔

    خانقاہ منیر شریف سے کون واقفیت نہیں رکھتا، ہر ایک یہاں کی عظمت و تقدس کا قائل ہے۔ سرزمین بہار میں اسلام کی روشنی اسی خطّہ ارض سے پھیلی۔ بیشتر علما، صوفیا، شعرا، ادبا، نقبا، اُمرا اور داعی اسلام کے علاوہ، عارف باللہ حضرت مخدوم شیخ کمال الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ (متوفیٰ 690ھ) جیسی مایۂ ناز ہستی کا مرقد و مسکن یہی پاکیزہ زمین ہے۔

    حضرت مولانا شاہ تقی الدین فردوسی اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ حضرت سید شاہ عنایت اللہ فردوسی (سجادہ نشین: خانقاہ منیر شریف) کے فرزند ارجمند اور مرید و خلیفہ ہیں۔ سلسلۂ نسب حضرت سید فریدالدین چشتی طویلہ بخش سے جاملتا ہے، اور پدری نسب کچھ یوں ہے۔

    تقی الدین ابن عنایت اللہ ابن فضل حسین ابن امجد حسین ابن محمد سلطان ابن محمد بخش ابن احسان اللہ ابن امر اللہ ابن عنایت اللہ ابن مسعود ابن محبوب ابن منصور ابن مظفر ابن سلطان اکبر ابن نصیر الدین ابن معین الدین ابن فریدالدین طویلہ بخش ابن ابراہیم ابن جمال الدین ابن احمد بدایونی ابن علی بخاری ابن عبداللہ ابن حسن ابن علی ابن احمد ابن عبداللہ ابن علی اصغر مدنی ابن جعفر الثانی ابن امام علی الہادی ابن امام جواد محمد تقی ابن امام علی رضا ابن امام جعفر صادق ابن امام باقر ابن امام زین العابدین ابن امام حسین ابن امام علی مرتضیٰ ابن ابو طالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم۔ (مخزن الانساب)

    ڈاکٹر شاہ تقی صاحب جولائی 1943ء میں ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت والد بزرگوار حضرت شاہ عنایت اللہ فردوسی اور عمی محترم حضرت شاہ مراد اللہ فردوسی کے زیر سایہ ہوئی، جو بذات خود ایک بہترین صوفی صافی بزرگ تھے۔ والد کی نگرانی میں آپ کی تعلیم کی ابتدا مدرسہ مخدومیہ (منیر شریف) سے ہوئی۔ مزید حصول علم کے لیے مدرسہ اسلامیہ (موتیہاری) کا رخ کیا۔

    سال 1954ء میں آپ نے دارالعلوم ندوۃ العلما (لکھنؤ) میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ کو کھیل کود میں کم رغبت تھی، باتونی، بدخصلت اور بداطوار لڑکوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا، لیکن اپنی ذہانت اور علمیت کے سبب تمام ساتھیوں میں مقبول اور عزیز تھے۔ مدرسہ میں فرصت کے اوقات کتب بینی میں مشغول رہنا، پڑھائی کے وقت اساتذہ کی باتوں پر توجہ دینا، یہ سب آپ کی طالب علمی کی نمایاں خصوصیات تھیں۔

    مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی جیسی مایۂ ناز ہستی آپ کو نہ صرف نسبت خانقاہ منیر شریف کی وجہ سے بلکہ ذاتی دینی ذوق و شوق اور اصابت دینی کی وجہ سے بھی عزیز رکھتے تھے۔ تعلیم کے دوران ہی سے آپ نے جامعہ کے طلبہ کے لیے پندرہ روزہ ’’الرائد‘‘ میں لکھنا شروع کیا۔

    جب طلب علم کا شوق بڑھا تو 1962ء میں الجامعۃ الاسلامیہ (مدینہ منورہ) میں داخل ہوئے اور خوب ذوق و شوق کے ساتھ علم حاصل کیا۔ دیگر عالمی اداروں سے بھی اکتساب علم کیا، جن میں جامعۃ الازہر شریف (قاہرہ)، جامعۃ القاہرہ، جامعہ عین شمس (قاہرہ) وغیرہ شامل ہیں۔

    شاہ تقی صاحب نے سال 1995ء میں عربی زبان میں ’’القضایا المعاصرۃ فی فتاویٰ علماء مسلمی الشرق الاوسط‘‘ کے عنوان سے تقریباً 700 صفحات پر مشتمل جامعۃ السلفیہ (بنارس) سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی، جس کے لیے علمی حلقے میں داد و تحسین سے نوازے گئے۔

    آپ کا زیادہ حصہ عرب ممالک میں گذرا۔ قاہرہ اور دمّام میں علم سکھایا، عرب جمہوریہ مصر اور مملکت سعودی عرب کے علاوہ کنگ فیصل یونیورسٹی (دمّام)، مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ)، ہمدرد یونیورسٹی (دہلی)، دارالعلوم ندوۃ العلما (لکھنؤ)، جامعۃ الصالحات (رام پور)، پٹنہ یونیورسٹی (پٹنہ) اور جامعہ السید احمد شہید (ملیح آباد، لکھنؤ) میں آپ کے لکچرز ہوتے رہے۔ دمّام کے مشہور میگزین ’فاکس‘ میں بحیثیت عربی اور اردو سیکشن بھی خدمات انجام دیں۔

    طالب علمی کے عہد سے ہی آپ ایک پختہ اور دوراندیش انسان، حکمت و دانائی کے شہسوار اور اسرار و رموز کے رازداں ہیں۔ علم و ادب میں آپ کی مہارت کی بنا پر دنیا بھر کی علمی و دینی شخصیات آپ کے قائل ہیں۔ مسائل جدیدہ پر آپ کی گرفت مضبوط ہے اور ماضی میں اسی موضوع پر تحریریں شائع ہو چکی ہیں۔

    ڈاکٹر شاہ تقی صاحب علم حدیث، علم فقہ و مسائل شرعیہ میں مہارت رکھتے ہیں، جبکہ شعرو ادب سے بھی گہرا تعلق ہے۔ بیشتر کتب و رسائل آپ کی قلمی خدمات کی روشن دلیل ہیں، جن میں سواے ایک رسالہ کے سب غیر مطبوعہ ہیں۔

    آپ کے کلام سے چند اشعار تعلیم و تربیت کے حوالے سے۔

    بچوں کو حُب پیمبر سکھلایئے

    شیر خدا کی سیرت اطہر سنایئے

    تصویر باری کو گھروں پر لگایئے

    اس طرح یوم دسمبر منایئے

    ’’قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہیں‘‘

    یہ نقش اپنے لوح پر سجایئے

    تعلیم کی شمع ہی حقیقت میں ہے شمع

    اس شمع بے مثال کو گھر گھر جلایئے

    شاہ تقی صاحب اردو و عربی زبان میں ماہر ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی مادری زبان پر توجہ دینی چاہئے۔ وہ ایک بہترین انسان، مہمان نواز، سادہ مزاج، کم گفتار، شیریں بیان، دین دار اور عالی وقار شخصیت کے حامل ہیں۔

    صوبۂ بہار میں آپ کی ذات مغتنم ہے اور ہر دور میں اہل خانقاہ نے ایسے جواہرات قوم کو نذر کیے ہیں جن سے بہار کی عظمت و رفعت میں بلندی حاصل ہوئی۔ آج بھی آپ ضعیف العمری کے باوجود تبلیغ دین و تعمیر اسلام میں مصروف ہیں اور بیشتر علمی مجالس کی سرپرستی فرمارہے ہیں۔ چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں پر مہربان ہیں۔ اللہ پاک ایسی شخصیات کو زندہ و تابندہ رکھے اور دین متین کی خدمت کا جذبہ اور ولولہ ان کے ذریعہ خوب سے خوب پیدا کرے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے