ذکر خیر حضرت مخدوم حسین دھکڑپوش
بہار و بنگال کے اؤلیا صوفیا میں زیادہ تر سہروردی سلسلے سے وابستہ ہیں، فاتح منیر حضرت امام محمد تاج فقیہ اور ان کے پوتے مخدوم کمال الدین احمد یحییٰ منیری، نیز ان کے خسر معظم حضرت سید شہاب الدین پیر جگجوت، سب سہروردی سلسلے کے پیروکار تھے۔ دوسری طرف حضرت پیر جگجوت کے نواسے مخدوم احمد چرم پوش اور مخدومہ بی بی کمال (کاکو) کے پوتے حضرت مخدوم حسین دھکڑ پوش بھی شیخ سلیمان سہروردی کے مرید و خلیفہ ہوئے، جس کا تذکرہ مونس القلوب میں ملتا ہے۔
مخدوم حسین غریب دھکڑ پوش بہار و بنگال کے متقدمین صوفیہ میں شامل ہیں۔ آپ حضرت شیخ حسام الدین کے بڑے صاحبزادے اور حضرت بی بی دولت (دختر مخدومہ بی بی کمال) کے بطن سے تھے۔ نیز حضرت مخدوم جہاں کے ہمجد زبیری الہاشمی بھی ہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ ان کا خاندان امام تاج فقیہ کے ہمراہ منیر آیا اور پھر یہی بود و باش اختیار کر لیا۔
ان کا نسب نامہ پدری یوں ملتا ہے۔
حسین ابن شیخ حسام الدین ابن شیخ اسماعیل ابن شیخ اسحاق ابن شیخ دانیال ابن شیخ نصیر الدین ابن شیخ عبدالواحدابن شیخ ابو بکر ابن شیخ ابوا لیث ابن شیخ ابو سہمہ ابن شیخ ابوالدین ابن شیخ ابو سعید ابن حضرت زبیر ابن عبدالمطلب ابن ہاشم۔ (تجلیات انوار،ص۳۱۱)
والد حضرت حسام الدین کی طرف سے مخدوم حسین ایک عالمانہ خاندان کے چشم و چراغ تھے، جبکہ والدہ بی بی دولت عرف کمال ثانی اپنے وقت کی مشہور ولیہ کاملہ تھیں۔ حکیم شعیب پھلواروی رقمطراز ہیں کہ
ہنگام طفولیت سے وہ عبادات و طاعات میں مشغول تھے۔ والدہ کی تربیت اور کثرت عبادات و ریاضات سے ان میں کیفیت جذبی پیدا ہوئی۔ والد نے انہیں خالہ زاد بھائی حضرت مخدوم شرف جہاں بہاری کے حضور پیش کیا تاکہ ان کی جذبی کیفیت سلوک سے سدھاری جائے۔
اسی واقعہ کو قاضی شہ بن خطاب بہاری نے مونس القلوب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
حضرت شیخ احمد چرم پوش اور حضرت شیخ حسین مہسوی رحمہ اللہ، حضرت شیخ سلیمان سہروردی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت ان کے پاس کپڑا نہیں تھا، شیخ سلیمان نے انہیں آٹھ چیتل (سکے) دیے اور فرمایا کہ اس سے اپنے لیے ستر پوشی کا انتظام کریں۔ شیخ حسین نے دھکڑ خریدا اور شیخ احمد نے چرم لے کر آئے، جس پر شیخ سلیمان نے فرمایا، مبارک ہو، یہی کافی ہے۔
بعد ازاں، دونوں بزرگ شیخ سلیمان مہسوی سے سلسلۂ سہروردی میں بیعت اور مجاز مطلق ہوئے۔ مخدوم حسین کا سلسلۂ طریقت یوں ہے۔
مخدوم حسین → شیخ سلیمان مہسوی → شیخ تقی الدین سہروردی مہسوی → شیخ احمد دمشقی → شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی۔ (تجلیات انوار، ص۳۱۱)
قاضی شہ بن خطاب فرماتے ہیں کہ شیخ سلیمان مہسوی نے علما کے مشکل سوالات کا ایک بچے کے ذریعے جواب دلوایا، جس کے بعد سب کو مرید کیا گیا۔ شیخ سلیمان کے انتقال کے بعد شیخ تقی الدین کے صاحبزادگان نے ان کو اپنے والد کے مقبرے میں دفن کرنے سے روک دیا، لیکن بعد میں اجازت دے دی گئی۔
مخدوم حسین تعلیم و تربیت کے بعد اپنے پیران عظام کی آماجگاہ کو مرکز رشدوہدایت بنایا۔ اس زمانے میں بنگال کے راجہ گنیش کے مظالم کی چکی زور و شور سے چل رہی تھی، اور ان کے صاحبزادے (مخدوم شاہ حسین) شہید ہوئے۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر نے مخدوم حسین کو خطوط کے ذریعے حمایت اور یقین دلایا۔
مخدوم حسین صاحب کشف و کرامت کے حامل تھے۔ مونس القلوب میں ایک کرامت یوں بیان ہوئی ہے۔
شیخ حسین حالت مسافرت میں نماز فجر کے لیے وضو کے پانی کا انتظام کرتے۔ جب پانی نہ ملا، انہوں نے پاؤں پٹکا اور اللہ کے حکم سے چشمہ نمودار ہوا، جس سے وضو کیا اور نماز ادا کی۔ مخالفین بھی تائب ہوئے۔
ان کی درگاہ کے بارے میں قاضی شہ بن خطاب فرماتے ہیں کہ
حضرت شیخ حسین مہسوی کی قبر چہار دیواری کے اندر ہے، زیادہ تر وقت بند رہتا ہے، صرف جمعہ یا شام میں یا صاحبِ عزت بزرگ زیارت کے لیے آتے ہیں تو دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔
مخدوم حسین طفولیت ہی سے عبادت و ریاضت کے شغفین تھے، اور صحرا میں طویل عبادات کرتے۔ آپ کے خلفا میں صوفی ضیاؤالدین چنڈھوسی (متوفی 870ھ)، شیخ سیف الدین سہروردی، اور شیخ فخرالدین سہروردی شامل ہیں۔
تاریخ رحلت 10 صفر المظفر 802ھ / 1399ء ہے اور مزار مبارک پیرانِ عظام کے پاس، موضع مہسون، ضلع دیناج پور، بنگال۔ (تجلیات انوار، ص۳۱۱)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.