Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیرحضرت مولانا شاہ ہلال احمد قادری

ریان ابوالعلائی

ذکر خیرحضرت مولانا شاہ ہلال احمد قادری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ یہاں کی عظمت و رفعت سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔ پھلواری شریف، جسے بزرگوں کی اصطلاح میں جنت نشاں کہا جاتا ہے، کئی صدیوں سے آباد و شاد ہے۔ ابتدائی دور میں یہ جگہ فوجیوں کا مسکن ہوا کرتی تھی، لیکن روحانی و عرفانی تعلیم کا آغاز اور مستقل اسلامی آبادی کی بنیاد حضرت سید منہاج الدین راستی (متوفیٰ 787ھ) نے رکھی۔ آپ حضرت مخدوم جہاں کے تربیت یافتہ تھے۔

    اس خدمت کو بعد میں حضرت عماد الدین قلندر (متوفیٰ 1124ھ)، حضرت پیر مجیب اللہ قادری (متوفیٰ 1191ھ)، حضرت مولانا شاہ عبدالمغنی قادری منعمی (متوفیٰ 1233ھ) اور حضرت مولانا شاہ عبدالغنی منعمی (متوفیٰ 1272ھ) نے اپنے اپنے عہد میں نہایت خوبی سے آگے بڑھایا۔ تب سے یہ جگہ دعوت و توحید کا علمبردار بنی۔ باطنی تعلیم کے ساتھ ساتھ ظاہری علوم کا چرچا بھی رہا۔ رفتہ رفتہ اولیائے پھلواری نے اس قصبے کو تصوف کا جامہ پہنایا اور دینی و تبلیغی سلسلوں کو وسعت دی، جس کے نتیجے میں عوام کو بڑا فضل و شرف حاصل ہوا اور شریعت و طریقت کا ایک مینار روشن ہوا۔ فقرا ہوں یا علما، سبھی کو یہاں سے گہری انسیت رہی ہے۔

    خانقاہِ مجیبیہ سے کئی ہستیوں نے جنم لیا ہے، جن میں حضرت نعمت اللہ قادری، حضرت ابوالحسن فردؔ، حضرت علی حبیب قادری نصرؔ، مولانا شاہ محی الدین قادری، مولانا شاہ امان اللہ قادری اور مولانا شاہ عون احمد قادری خصوصی طور پر شمار کیے جاتے ہیں۔ انہی میں عہدِ رفتہ کی ایک عظیم ہستی، جید عالمِ دین، فاضلِ متین، مصنف، ادیب و شاعر، شفیق مدرس، شیریں بیان مقرر، محقق اور صوبۂ بہار کی ایک متحرک شخصیت، مبلغِ اسلام حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری مجیبی نور اللہ مرقدہٗ بھی ہیں، جو اپنی گوناگوں خصوصیات کے حامل تھے: نہایت خوش اخلاق، مہمان نواز، متواضع و منکسر المزاج اور دیرینہ روایات کے امین۔

    آپ کا تعلیمی دور اپنے دامن میں فضل و کمال، اوصاف و محاسن اور تحقیق و جستجو کا غیر معمولی خزانہ سمیٹے ہوئے تھا۔ آپ نے علم و ادب کے حصول میں شب و روز محنت کی۔ کتب بینی فطرت میں شامل تھی۔ بعض اہم فنون کی طرف طبیعت خاص طور پر مائل تھی، بالخصوص علمِ حدیث، علمِ تفسیر، علم الاخلاق اور تاریخ و تذکرہ سے بے حد دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ نے بڑے بڑے علما و صلحا کی صحبتوں سے بھی فیض اٹھایا۔ شاہ ہلال احمد قادری منفرد واعظ، بہترین مصنف اور خانقاہِ مجیبیہ پھلواری شریف کے ترجمان اور نمائندۂ خاص تھے۔

    اس سلسلے میں مولانا عبداللہ عباس ندوی کا بیان نہایت قابلِ توجہ ہے۔

    ’’عزیز گرامی مولوی شاہ ہلال احمد سلمہٗ اللہ اپنے جواں مرگ والد مولانا شاہ عین احمد مرحوم کی یادگار، اپنے جدِ امجد امام المتقین مولانا شاہ نظام الدین کی آغوشِ تربیت کا نمونہ ہیں، اپنے چچا مولانا شاہ امان اللہ قادری قدس سرہٗ کے دست گرفتہ اور مجاز ہیں۔ لکھنے کا ذوق فطری بھی ہے اور اکتسابی بھی۔‘‘ (سیرتِ پیر مجیب، ص 2)

    شاہ ہلال احمد قادری اپنے والد شاہ عین احمد (پیدائش 1349ھ وفات 1381ھ) کے فرزندِ ارجمند، مولانا شاہ نظام الدین قادری ابن مولانا شاہ بدالدین قادری کے نبیرہ، مولانا شاہ قمر الدین قادری کے نواسے اور مولانا شاہ امان اللہ قادری و مولانا شاہ عون احمد قادری کے برادر زادے تھے۔

    حکیم شعیب احمد پھلواروی آپ کے والد ماجد شاہ عین احمد صاحب سے متعلق رقم طراز ہیں کہ

    ’’عین احمد سلمہٗ تاریخِ ولادت 8 رمضان 1349ھ، تحصیلِ علوم میں مشغول ہیں۔ اپنے والد مولانا محمد نظام الدین سلمہٗ اور برادر عمزاد مولانا شاہ امان اللہ اور برادرِ حقیقی مولوی عون احمد سلمہٗ و مولوی محبوب عالم صاحب سے درسیات پڑھ رہے ہیں۔ اللہ جلد تکمیل کراوے۔ 1369ھ میں اپنے والد ماجد کی معیت میں حج و زیارتِ روضۂ انور سے متمتع ہوئے۔‘‘ (اعیانِ وطن، ص 106)

    مولانا شاہ ہلال احمد قادری کے جدِ امجد حضرت مولانا شاہ نظام الدین قادری سے راقم السطور کے جدِ امجد حضرت مولانا شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی داناپوری (متوفیٰ 1394ھ) کے نہایت دیرینہ اور روحانی تعلقات تھے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اہلِ خانقاہِ مجیبیہ اور خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ کے روابط بڑے قدیم ہیں۔

    حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی داناپوری فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ مواجہۂ اقدس کے پاس آنکھ لگ گئی۔ اسی حالت میں دیکھا کہ مولانا شاہ عون احمد صاحب کے والد ماجد حضرت شاہ نظام الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور فرمایا کہ ’’شاہ صاحب! عون بابو کو دیکھا ہے؟‘‘ تھوڑی دیر بعد جب آنکھ کھلی تو مولانا شاہ عون احمد صاحب سے اس خواب کا تذکرہ کیا اور کہا کہ آپ کے والد بزرگوار آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس پر مولانا شاہ عون احمد صاحب خوب روئے۔ اس طرح ہمارے جدامجد کا تعلق حضرت شاہ نظام الدین احمد سے روحانی اور عرفانی تھا۔

    مولانا شاہ عون احمد قادری نے ماہنامہ المجیب (ستمبر 1963ء) میں ’’آستانۂ نبوت و برزخِ کبریٰ‘‘ کے عنوان سے اپنے سفر کی روداد قلم بند کی ہے کہ

    ’’اللہ کے فضل سے اس سفر میں جن حضرات کی محبت و رفاقت حاصل ہوئی، ان میں ہر ایک اپنی جگہ باکمال تھا۔ جناب شاہ ظفر سجاد صاحب ابوالعُلائی داناپوری جیسے نیک سیرت اور اہلِ دل کی رفاقت اگر حاصل تھی تو حرمِ نبوی میں نماز اور جماعتِ اولیٰ، اللہ اکبر! کیا کہنا اس کا الحمد للہ الخ‘‘

    (از افادہ حضرت شاہ خالد امام ابوالعُلائی مدظلہٗ)

    مولانا شاہ ہلال احمد قادری، راقم کے جدِ امجد حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی عارفانہ شاعری کے بڑے مداح تھے۔ حضرت اکبرؔ کے صد سالہ عرس کے موقع پر ہونے والے سیمینار میں آپ کا مقالہ ’’کلامِ اکبر کا عارفانہ پہلو ’جذباتِ اکبرؔ‘ کی روشنی میں‘‘ بہت کامیاب اور پسند کیا گیا تھا۔ آپ کو حضرت اکبرؔ کے کئی اشعار زبانی یاد تھے، خاص طور پر وحدت الوجود کی شاعری کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ حضرت اکبرؔ کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ

    ’’اہلِ تصوف کے یہاں وحدت الوجود ایک معرکۃ الآرا مسئلہ ہے۔ صوفی شعرا نے اپنے اشعار میں وحدت الوجود کے مضامین خوب بیان کیے ہیں۔ چنانچہ فارسی شاعری میں وحدت الوجود کے مضامین سب سے زیادہ ہیں کیونکہ متقدمین و متاخرین صوفیا کی شاعری فارسی زبان میں ہی زیادہ ہے۔ اردو شاعری کا دامن وحدت الوجود کے مضامین سے خالی رہا ہے۔ اس کی وجہ جو بھی ہو، حقیقت یہی ہے۔ اس موضوع پر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے بہت اشعار ہیں اور یہ مضمون وہ نہایت عمدگی سے نظم کرتے ہیں۔ ’’ساقی نامہ‘‘ میں وحدت الوجود پر ان کے اشعار پڑھنے کے لائق ہیں۔‘‘ (انوارِ اکبری)

    مولانا شاہ ہلال احمد صاحب کی ذات نے خانقاہی انداز و اطوار کو شہرت بخشی۔ خانقاہی ماحول کے ساتھ ساتھ مدرسہ و افتا کے وقار میں بھی کبھی کمی نہ آنے دی۔ آپ ایک معتبر عالمِ دین، فاضلِ متین اور صوفی صافی بزرگ تھے۔ دوسری طرف سماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے اور مختلف تنظیموں و تحریکوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ آپ تعلقات نبھانے میں کمال رکھتے تھے، ہر چھوٹے بڑے سے ملاقات کرتے اور اپنے عمدہ اخلاق کی بدولت بہت جلد ان کے قریب ہو جاتے۔ اپنے علم و عمل، تقویٰ و پرہیزگاری، عاجزی و انکساری میں اپنے اسلاف کے سچے پیروکار اور ان کی روایتوں کے امین تھے۔

    وہ ایک زندہ دل انسان تھے؛ متنوع اوصاف و کمالات کے مالک۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ اپنے علم و عمل سے انہوں نے بے شمار لوگوں کو فیض پہنچایا۔ وہ بظاہر فردِ واحد تھے لیکن حقیقت میں ایک انجمن کی مانند تھے، جن کے سینے میں انیک دلوں کی دھڑکنیں، ہاتھوں میں کئی کارکنوں کی قوت، دماغ میں سیکڑوں اذہان کی صلاحیت اور عمل میں بے شمار نیک انسانوں کی خوبیاں جمع تھیں۔ وہ ملت کے درد مند اور قدیم روایات کے امین تھے۔

    مولانا شاہ ہلال احمد خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ

    ’’پہلی بار عاجز نے تصنیف و تالیف کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ اس کو اپنی زندگی کی وہ حسین و مبارک ساعتیں یاد آ رہی ہیں جو وقت کے ایک ولی کامل کی آغوشِ محبت اور سایۂ عاطفت میں گزری تھیں۔ اس عہدِ رفتہ کی یاد آ رہی ہے جب یہ عاجز شفقتِ پدری سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوا تو مشیتِ الٰہی نے اپنی رحمت سے اس کی پرورش و پرداخت کے لیے بہترین آغوش منتخب کی، یعنی یہ عاجز اپنے جدامجد امام الاتقیاء حضرت مولانا سید شاہ نظام الدین قادری قدس سرہٗ کے زیرِ سایہ پل کر جوان ہوا۔ بچپن سے جوانی تک ان کی شفقت و توجہ کا مرکز رہا۔ انہوں نے اس کی اُن تمام محرومیوں اور نارسائیوں کے ازالے کی پوری کوشش فرمائی جو ان کے نہ ہونے سے شاید اس کا مقدر ہوتیں۔ ان کی غیر معمولی محبت و شفقت نے اس کو اپنی زندگی کے اس عظیم خلاء (یتیمی) کا کبھی احساس نہ ہونے دیا۔ آج راقم الحروف کو جو کچھ حاصل ہے وہ انہی کا فیض ہے۔ علمی و تصنیفی میدان میں راقم کی ہر کامیابی ان کی یاد دلاتی رہے گی کیونکہ اس کی ذات کی تعمیر انہی کی مرہونِ منت ہے۔‘‘ (سوانح حضرت شاہ امان اللہ قادری، ص 14)

    آپ حلقۂ علم و ادب اور اربابِ فکر و دانش کے مابین ایک نمایاں شناخت رکھتے تھے۔ بزرگوں کی روایات اور خانقاہی نظام کے امین و پاسبان بن کر تاحیات تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ کے جانے کا غم یقیناً بہت بڑا ہے۔ جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی، اہلِ خانہ، وابستگانِ سلسلہ اور علمی و ادبی حلقوں میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ اور کیوں نہ دوڑتی؟ آج کے اس مادیت زدہ دور میں آپ جیسی شخصیت کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ آپ کے قلم سے مختلف موضوعات پر علمی شہ پارے وجود میں آئے۔ درجنوں مقالے اور مضامین اہم موضوعات پر شائع ہوتے رہے۔

    ابتدائی عہد ہی سے تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور یہ سلسلہ تاحال جاری رہا۔ ان کا شمار کرنا اس مختصر تحریر میں دشوار ہے۔ آپ کا قلم فقہ و حدیث کے موضوعات پر بھی روانی سے چلتا تھا، لیکن بزرگانِ دین کے احوال و مقامات قلم بند کرنے میں آپ کو خاص مہارت حاصل تھی۔ خانقاہِ مجیبیہ کے مفصل حالات بھی آپ ہی نے تحریر فرمائے۔ سہ ماہی المجیب میں آپ کے مضامین کثرت سے شائع ہوتے رہے۔ چند مشہور تصانیف یہ ہیں۔

    سوانح حضرت مولانا شاہ امان اللہ قادری، سیرتِ پیر مجیب (بانی خانقاہ مجیبیہ)، خانوادہ حضرت سیدہ زینب، القول السدید، یزید حقیقت کے آئینے میں، نغمات الانس فی مجالس القدس (مرتب)۔

    آپ کا یوں رخصت ہو جانا کسی ایک کڑی کے ٹوٹنے کے مترادف نہیں بلکہ کئی کڑیوں کے بکھرنے کے برابر ہے۔ آپ ایک طرف حکمت کی قدیم اور مضبوط ترین کڑی تھے تو دوسری طرف روحانیت اور خانقاہیت کے سلسلے میں بھی نہایت مستحکم کڑی تھے۔ اس پر بس نہیں، بلکہ آپ دینی علوم کے حصول اور ان کے اشاعت کے سچے جذبے کے حامل، نظامی طریقۂ تدریس کی بھی ایک بامعنی اور اہم کڑی تھے۔

    خد کو یاد کر اکبرؔ سحر قریب ہے اب

    نہیں ہے عمر کا کچھ اعتبار اُٹھ کر بیٹھ

    (شاہ اکبرؔ داناپوری)

    آپ بزرگوں اور خانقاہوں کے تربیت یافتہ اور صحبت یافتہ تھے۔ اسی لیے آپ کے ظاہر و باطن میں کوئی تضاد نہ تھا۔ آپ کا ظاہر، آپ کے باطن کا آئینہ دار تھا، اللہ پاک سے دعا ہے کہ حضرت کے درجات بلند فرمائے اور متعلقین کو صبرِ جمیل عطا کرے۔

    خدا کی حضوری میں دل جا رہا ہے

    یہ مرنا ہے اس کا مزا آ رہا ہے

    تڑپنے لگیں عاشقوں کی جو روحیں

    یہ کیا نغمہ روح الامیں گا رہا ہے

    عدم کا مسافر بتانا نہیں کچھ

    کہاں سے یہ آیا کہاں جا رہا ہے

    (شاہ اکبرؔ داناپوری)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے