Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت شاہ ابومحمد ابوالعلائی للن میاں

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت شاہ ابومحمد ابوالعلائی للن میاں

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    بہار میں محبت کی فضا قائم کرنے میں صوفیائے کرام کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سابق سجادہ نشیں، عارف باللہ حضرت سید شاہ ابو محمد ابوالعلائی عرف للن میاں قدس سرہٗ بھی شامل ہیں، جنہوں نے ساری زندگی محبتوں کی تشہیر کی۔ ان کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی تھا، تاکہ جہاں تک ممکن ہو سکے معاشرے میں محبتوں کا چراغ جلا کر اس کا قرب حاصل کیا جا سکے۔ شاہ صاحب کے یہاں دکھاوا نام کی کوئی چیز نہیں تھی؛ لباس، رنگ، روپ، عبا، چغہ جیسی روایتی چیزوں سے وہ کوسوں دور تھے۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیاوی عیش و آرام پسند نہیں کرتے تھے۔

    شاہ صاحب کی زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک طویل مدت تک آپ کی زندگی امتحان و آزمائش کے ہچکولے کھاتی رہی، لیکن کس لئے؟ تخت و تاج، نام و نمود، شاہانہ زندگی کے لئے؟ نہیں! بلکہ اللہ کے نیک بندوں کی روش پر قائم رہنے اور اسے زندہ و جاوید رکھنے کے لیے ہمیشہ فکر مند رہے۔

    معرکہ سے نہیں ہٹتا کوئی عاشق پیچھے

    سرہتھیلی پہ دھرے آگے ہی بڑھتے رہنا

    (شاہ اکبرؔ داناپوری)

    آپ کی پیدائش ۱۸؍جمادی الاخر، صبحِ وقتِ اشراق، ۱۳۷۱ھ موافق ۱۵؍مارچ ۱۹۵۲ کو خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور میں ہوئی۔ نام ابومحمد اور لَلن میاں عرفیت تھا۔ شاہ صاحب بچپن ہی سے نیک نیتی، فراخدلی اور کم سخن تھے۔ چھوٹے ہو یا بڑے، سب سے ملتے جلتے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے دادا، حضرت ظفرالمکرم شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی کے زیر اثر ہوئی۔ جب باشعور ہوئے تو مدرسہ انوار العلوم (الہ آباد) میں تحصیل علم کے لیے داخل ہوئے۔

    کم عمری ہی سے آپ میں آثار ولایت اور آثار سخاوت نمودار تھے۔ سادہ مزاج تھے، نام و نمود، عیش و عشرت، عروج و اعتلا سے بعید ہو کر متانت و سنجیدگی کے ساتھ ایک عام زندگی گزارتے۔ تقویٰ و پرہیزگاری کے اعلیٰ نمونہ تھے۔ مراقبہ و مجاہدہ ان کا خاصہ تھا، اور ادوا و وظائف ان کی عادت۔ گویا آپ کی مکمل زندگی سرچشمۂ ہدایت اور منبعِ فیض ولایت تھی۔ نفسِ مجاہدہ اور محنتِ شاقہ کے ذریعہ آپ نے بہت جلد علم باطنی کی تکمیل کی۔

    سفر ہو یا حضر، شروع سے اپنے والد حضرت سید شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی قدس سرہٗ کے ہمراہ رہا کرتے۔ اس دوران آپ نے راہِ سلوک کے منازل طے فرمالیے۔ کئی چلّے اور عملیات کے عینی شاہد آج بھی موجود ہیں، جن کا بیان ہے کہ عبادت و ریاضت ان کا مشغلہ تھا۔ اوراد و اشغال اس قدر کثرت سے کرتے کہ لوگ حیرت و استعجاب میں پڑ جاتے۔ گھنٹوں مراقبہ میں رہتے۔ کہنے والوں نے کہا کہ آگرا اور متھرا میں بیشتر لوگوں کے بگڑے ہوئے کام آپ کی دعاوں کی برکت سے درست ہو گئے۔

    للن میاں کا اخلاق کافی وسیع تھا۔ گویا آپ کی مجلس میں بیٹھنے والا ہر انسان بڑا خوش نصیب تھا۔ ہر وقت ان کی مجلس بندگان خدا سے آراستہ رہتی۔ مجلس کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا، لیکن زیادہ تر نمازِ مغرب و عشاء کے بعد محفل لگتی۔ ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ رہتی، گفتگو میں نرمیت، عمل میں خلوص، مزاج میں انفعالیت، زبان میں تاثیر اور آنکھوں میں جلال کے ساتھ سراپا باکمال شخصیت تھے۔ سادہ لباس پہنتے، دکھاوا اور نام و نمود جیسی چیزوں سے پرہیز کرتے۔

    آج بھی آپ کی نسبت کے طالبین ولایت و معرفت کا ترانہ خوب الاپتے ہیں۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے قیمتی لمحات لوگوں کے لیے سرمایۂ حیات ہیں۔ شاہ صاحب کے فرمودات و ارشادات ان کی علمی اصابت کی آج دلیل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ

    آزمائے ہوئے کو آزمانا بےوقوفی ہے

    بیعت و خلافت نیز تلقینِ طریقت کل اپنے والد، زیبِ سجادۂ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ حضرت سید شاہ محفوظ اللہ قدس سرہٗ سے حاصل تھی۔ بعض اور ادوا و وظائف کی اجازت اپنے ماموں حضرت حکیم شاہ عزیز احمد ابوالعلائی سے بھی تھی۔

    لَلن میاں نیک سیرت، جوان صالح، ہنس مکھ اور معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کا سلسلۂ پدری فاتح منیر، حضرت امام محمد تاج فقیہ سے صحیح طور پر جا ملتا ہے۔ بہار میں اسلامی فضا قائم کرنے میں یہ خاندان سب سے معتبر اور معظم ہے۔ اسی طرح آپ کے نانیہال مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ (پٹنہ) کے مدرس مولانا سید عبدالرشید قادری متبحر عالم دین، فاضل و متین تھے۔ گویا آپ کا دادیہال و نانیہال دونوں علمی فیضان کا مترشح تھا۔ صبر و شکر اور متانت و سنجیدگی اس کی علامت معلوم ہوتی تھی۔

    سربلند دنیا میں اکبرؔ ہے وہی

    یار کے در پہ جو سر رگڑا کرے

    (شاہ اکبرؔ داناپوری)

    آپ کے مریدان کا حلقہ ہندوستان کے مختلف خطوں میں پایا جاتا ہے، آگرہ، گوالیار، بھنڈ، ممبئی، ارریہ، کشن گنج، پورنیہ اور پٹنہ میں، ہندوستان کے علاوہ پاکستان میں بھی آپ کے مریدین و معتقدین موجود تھے۔ آپ کی زندگی کا مقصد تصوف اور روحانیت کی تعلیم کو عام کرنا تھا۔ جن ایثار و قربانی کا تذکرہ تاریخ کی کتب میں ملتا ہے، وہ آپ کی ظاہری زندگی میں نمونۂ عمل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن کبھی بھی آپ کی ہمت و حوصلہ میں فرق نہ آیا۔ آخر کار حق کی فتح ہوئی، اور آپ آگرا اور کشن گنج برابر تشریف لے جاتے اور طویل عرصہ تک مجاہدانہ زندگی بسر کرتے۔

    زمانہ کروٹیں بدل رہا ہے، مگر صدیوں پہلے اللہ کے نیک بندے جو روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی کرنیں آج بھی درخشاں اور دلکش ہیں۔

    آپ کے والد ماجد، حضرت شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی قدس سرہٗ کی رحلت کے بعد، فاتحۂ چہلم کے موقع پر، مؤرخہ ۷؍شعبان المعظم، بروز اتوار، ۱۴۱۸ھ، موافق ۷؍دسمبر ۱۹۹۷ کو خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور میں رسم سجادگی ادا کی گئی۔ لَلن میاں خانقاہ موڑہ تالاب کی حیثیت سے اکیسویں سجادہ اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کی حیثیت سے پانچویں سجادہ نشیں تھے۔ اس موقع پر تمام خانقاہوں کے مشائخ نے دستار بندی کے فرائض انجام دیے۔ سبھوں کو آپ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملتے، آپ کی ذات سے کبھی کسی کی دل آزاری نہ ہوئی۔ امیر ہو یا غریب، گورا ہو یا کالا، عالم ہو یا جاہل، سب کی بات سنتے اور اس کا حل فرماتے۔

    آپ کی مجلس میں ہر طرح کا انسان بیٹھتا، مسلم ہو یا غیر مسلم، سب عقیدت سے آتے۔ ان میں ذرہ برابر بھی دنیا کی محبت نہیں تھی۔ وہ مستِ بادۂ الست تھے۔ ہر حال میں اللہ سے خوش اور بندوں کے درمیان خوشیاں بانٹتے تھے۔ ان کے پاس غریب بھی آتا اور امیر سے امیر بھی آتا، سب کے ساتھ یکساں برتاو کرتے۔ اونچی عمارت، بہترین لباس، لاہ و لشکر اور زیرو زبر کی ذرہ برابر بھی خواہش نہیں تھی۔ آج اس کے برعکس، ہر انسان طاقت کے نشے میں چور ہے، اور دکھاوا ہمارے معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے۔ کل جن کے بارے میں مثالیں دی جاتی تھیں، آج وہیں ان صفات سے خالی ہیں۔ اہلِ خانقاہ ہوں یا کوئی عام انسان، انسان معلوم نہیں ہوتا۔ اکثر یہ سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ خانقاہیں کن مقاصد کے حصول کے لیے وجود میں آئیں؟ خانقاہ میں کیا ہوتا تھا اور اب کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہئے؟ شاید یہ سوال انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔

    فقیری اور دنیا کی محبت

    خدا ایسی فقیری سے بچائے

    (شاہ اکبرؔ داناپوری)

    للن میاں دلائلِ الخیرات، اشغالِ سرمدی اور تکبیر عاشقاں وغیرہ کبھی ناغہ نہ کرتے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ ہم نے للن میاں کو کبھی آرام کرتے نہ دیکھا۔ رات کے آخر پہر تک مجلس سجی رہتی۔ قلتِ طعام اور قلتِ منام پر آپ کا بچپن ہی سے عمل تھا۔ آپ کی غذا بہت کم تھی، چائے کے بڑے شوقین تھے۔ خانقاہ میں آنے والے زائرین کو خود سے چائے بنا کر پلاتے۔ ان کی چائے بڑی سخت اور کڑی ہوتی، بلکہ بعض دفعہ تو کھانے اور پینے کو چائے پر موقوف کردیتے۔ اور کبھی کبھی شاہ فداؔ حسین منیری کے اشعار پڑھتے تھے۔

    چائے کا جو دشمن وہ انسان کا دشمن

    ہندو کا، مسیحی کا، مسلمان کا دشمن

    ہم اور کسی شئے کا اجارہ نہیں کرتے

    چائے کے بغیر جینا گوارا نہیں کرتے

    یہ حقہ نامہ ہے، شاہ صاحب کبھی کبھی لفظ حقہ کی جگہ چائے پڑھتے تھے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ لَلن میاں کے چہرے پر کبھی شکن نہ دیکھا، بڑی بڑی مصیبت میں بھی آپ صبر و شکر کیا کرتے۔ جب کوئی آپ سے دریافت کرتا کہ آپ اپنے لیے دعا کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے: بہتر دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے فیصلے پر خوش رہے۔ سب سے مسکرا کر ملتے۔ ہر وقت خانقاہ میں تعویذ لینے والوں کا ہجوم، چاہنے والوں کی بھیڑ، صبح سے شام تک لَلن میاں لوگوں کے درمیان گھرے رہتے۔

    آپ کی سجادگی کو صرف چار برس کا عرصہ ملا، جس میں اپنی پاکیزہ یادیں چھوڑ گئے۔ صرف ۵۲؍ برس کی عمر میں، مؤرخہ ۵؍ربیع الاول، بروز پیر، ۱۴۲۲ھ، موافق ۲۸؍مئی ۲۰۰۱ کو رحلت فرما گئے۔ مزارِ مقدس آستانہ حضرت مخدوم سجاد پاک، شاہ ٹولی، داناپور میں واقع ہے۔

    بزمِ ہستی میں ابھی آکے تو ہم بیٹھے تھے

    یوں اجل آئی کہ زانو بھی بدلنے نہ دیا

    (شاہ اکبرؔ داناپوری)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے