ذکر خیر حضرت شاہ عبدالجلیل اشرفی
کاکو بستی بہت قدیم ہے۔ بہار میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہاں ہنود کی آبادی تھی اور یہاں کوئی راجا یا بڑا زمیندار برسراِاقتدار تھا۔ پرانے ٹیلے اور اگلے وقتوں کی اینٹیں جو کھدائی میں برآمد ہوتی رہیں، اس بات کی شاہد ہیں۔ یہ جگہ حضرت شیخ سلیمان لنگر زمین اور ان کی اہلیہ حضرت مخدومہ بی بی کمال کی آمد سے رشد و ہدایت کا منبع بنی۔ بہار کی چند تاریخی مقامات میں کاکو صفِ اوّل پر ہے۔ یہاں کی عظمت و رفعت، مقام و مرتبہ اور تذکرے کے بغیر بہار کی صوفیانہ تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔
حضرت شاہ عبدالجلیل اشرفی کا مولد و مسکن کاکو ہے، محمد اسماعیل کے فرزند رشید تھے۔ بچپن ہی سے مجذوب تھے، پھر زمانۂ کہولت میں صحت یابی ملی تو بیتھو شریف میں حضرت مخدوم درویش اشرف کی درگاہ پر معتکف ہوئے۔ اس دوران درگاہ کے معروف سجادہ نشیں حضرت شاہ چاند اشرفی سے سلسلۂ چشتیہ میں بیعت ہوئی اور پھر دن رات اپنے پیر و مرشد کی خدمت کرنے لگے۔ جب آپ میں کچھ بزرگی کے آثار نمایاں ہوئے تو شاہ چاند اشرفی نے اجازت و خلافت سے نواز کر کاکو کی طرف جانے کا حکم دیا، اور یوں کاکو میں خانقاہِ جلیلیہ کی بنیاد پڑی۔
شاہ عبدالجلیل اشرفی اپنے عہد کے مشہور صوفی و صافی بزرگ گزرے۔ اپنے پیر و مرشد کے حکم کے مطابق یہاں تبلیغ، رشد و ہدایت کا سلسلہ قائم کیا اور نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ دین کی خدمت کرتے رہے۔ انہیں پان کا بہت شوق تھا اور ہر وقت اگلدان پان سے بھرا رہتا۔ کاکو اور اس کے قرب و جوار کے علاوہ کلکتہ میں بھی آپ کے مریدین پائے جاتے تھے، جہاں ہر سال آپ دورہ کرتے۔ خانقاہ میں سالانہ تین محفل منعقد ہوتی، اور ذکرِ الٰہی کے وقت آپ عجیب کیفیت میں رہتے۔ اکثر و بیشتر صوفیائے کرام کی درگاہوں پر مجاہدہ و مراقبہ کرتے، آگرا میں کئی برس تک قیام رہا اور نعمتِ باطنی سے فیضیاب ہوتے رہے۔
پاکیزہ اخلاق اور عمدہ مزاج کے مالک تھے۔ مریدان و معتقدان کا سلسلہ خوب تھا۔ تعویذ لینے والوں کا روزانہ ہجوم تھا۔ کاکو بستی میں فاتحہ کے لیے آپ ہی کو بلایا جاتا تھا۔ کچھ قدیم لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب قرآن پڑھتے تو ان کا بدن تھرتھرا رہا ہوتا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی ہستی کو چھپایا، کیفیت سے بالکل معمور تھے۔ دکھاوے کی نماز، ریا، خوداعتنائی وغیرہ سے کوسوں دور تھے۔ ان کی محفل میں بیٹھنے والا کچھ نہ کچھ سیکھ کر ہی اٹھتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اپنی محافل میں تین قوال بلاتے تھے: نظام قوال، بشارت قوال اور الفو قوال۔ الفو قوال اس وقت نوجوانوں کا پسندیدہ قوال تھا۔ خانقاہ میں حاضرین کی تواضع کھچڑی اور خانقاہی چائے سے کی جاتی۔ عارفانہ کلام کے شوقین تھے، خاص طور پر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا کلام۔
اے بے نیاز مالک، مالک ہے نام تیرا
جو بنے آئینہ وہ تیرا تماشہ دیکھے
بےحد پسند کرتے اور اس پر انہیں کیفیت بھی آتی تھی۔ اس وقت کے معروف عالم دین مولانا سید سخاوت حسین کاکوی آپ کے دیرینہ احباب میں شامل تھے۔ سماع سے انہیں احتراز تھا، مگر آپ کی صحبت نے مولانا کو سماع بالمزامیر کا عادی بنا دیا۔ دونوں بزرگوں میں خوب اتحاد و اتفاق رہا۔
حسنؔ اشرفی کے چند اشعار شاہ جلیل کی شان میں سنیں اور لطف لیجیے۔
دردِ دل کی دوا ہیں شاہ جلیل
حسرت و مدعا ہیں شاہ جلیل
جس پہ ہستی نثار ہو جائے
ایسی دلکش ادا ہیں شاہ جلیل
جن سے روشن ہے کائنات میری
وہ منور دیا ہیں شاہ جلیل
جن سے کھل جائے ہر دل کی کلی
سچ ایسی ہوا ہیں شاہ جلیل
حسنؔ اشرفی کیوں نہ ہو فدا ان پر
وعدہ اے باوفا ہیں شاہ جلیل
آخَرِ عمر میں خانقاہ کے بیرونی برآمدے میں ایک پلنگ پر لیٹے رہتے اور یہاں روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ تاریخِ رحلت ۴ صفر المظفر ۱۳۶۳ھ ہے۔ آستانہ حضرت ابراہیم زندہ دل (سید ٹولہ) کے احاطہ میں دفن ہوئے۔
شاہ عبدالجلیل کے صاحبزادگان تقسیم کے بعد پاکستان میں جا بسے۔ ان کی رحلت کے بعد آپ کے فرزندوں نے جب سجادگی سنبھالنے سے انکار کیا، تب باہمی مشورے سے شاہ کرامت حسین سجادہ نشین ہوئے۔ انہیں بیعت حضرت چاند اشرفی سے تھی اور تعلیم و تربیت شاہ عبدالجلیل سے رہی۔ کرامت حسین ایک اچھے تیراک تھے، حقہ پیتے ہوئے تیراکی کا مظاہرہ کرتے، کشتی کے داؤ بھی خوب جانتے تھے، لاٹھی اور گتکا کھیلنے کے سب گُڑ انہیں معلوم تھے۔
آبائی گھر ہرلانتول تھا۔ سجادگی کے بعد مستقل کاکو میں رہنے لگے۔ اپنے مرشد کے بالکل عملی نمونہ تھے، سادگی کے ساتھ پوری زندگی گزار دی۔ کہا جاتا ہے شریعت کے سخت پابند تھے، تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ راستہ چلتے وقت اپنی نظروں کو نیچے کر لیا کرتے۔ ایک دفعہ راستے میں تھکان کی وجہ سے کسی داروغہ کے مکان کی دیوار پر چند لمحے کے لیے ٹیک لگا لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ایک داروغہ کا ناجائز مکان تھا، لہٰذا آپ خانقاہ پہنچ کر سات مرتبہ مٹی سے اپنے ہاتھ صاف کیے، پھر سونگھے اور پھر صاف کیے یہاں تک کہ اُس کی مہک چلی گئی۔
تاریخِ رحلت ۲۴ ذی الحجہ ۱۳۹۲ھ ہے۔ ان کے خسر کا نام کمال الدین عرف کمو میاں تھا۔ شاہ کرامت کے چار صاحبزادے تھے، علی حسن اشرفی، غلام حسین وارثی، حاجی اشرف اور زندانی اشرف۔ بڑے صاحبزادے شاہ علی حسن اشرفی خانقاہِ جلیلیہ کے سجادہ نشین ہوئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.