Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر شاہ عبدالحلیم ابوالعلائی اکبری

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر شاہ عبدالحلیم ابوالعلائی اکبری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    ہلسہ، صوبۂ بہار کا ایک مشہور قبائلی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ دیہی و شہری زندگی کا امتزاج رکھتا ہے۔ حضرت سید شاہ عبدالحلیم ابوالعُلائی الاکبری کا تعلق جیتی نگر سے تھا۔ آپ کی پیدائش سید عبدالمجید صاحب کے یہاں ہوئی، جہاں کسی قسم کی کوئی زحمت نہیں تھی۔ کثرتِ مال اور جائیداد کی وجہ سے قصبہ میں ان کی خاصی شہرت تھی۔ دولت و شہرت کے علاوہ آپ خصّالِ خیر سے بھی متصف تھے۔

    شاہ عبدالحلیم کے تین بھائی بہن تھے: بڑے خود، منجھلے شاہ عبدالحکیم اور چھوٹی کنیز فاطمہ (منسوب مولانا سید عبدالرشید قادری)۔

    واضح رہے کہ ہلسہ میں حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا تبلیغی دورہ بھی رہ چکا تھا، اس لیے یہاں کے علما و رؤسا کثرت سے آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے۔ چنانچہ شاہ عبدالحلیم ابوالعلائی بھی آغازِ جوانی میں سلسلہ میں شامل ہوئے۔ اِس طرح دل آپ کا ملتا گیا اور کام عشق کا ہوتا گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب مال و متاع میں کمی واقع ہوئی تو دل برداشتہ ہو کر سبزی باغ (پٹنہ) میں تجارت شروع کی۔ ابھی دل مغموم ہی تھا کہ ادھر الہ آباد میں عارف باللہ حاجی شاہ عبداللہ ابوالعلائی داغِ مفارقت دے چکے تھے۔ علاقے میں رشد و ہدایت کی شمع خاموش ہو چکی تھی، مگر لوگوں کے دلوں میں حسنِ عقیدت اور عشق و محبت کے چراغ جلتے رہے۔

    ایسی صورت میں اس علاقے کا ہر شخص اپنے نئے روحانی پیشوا کی تلاش میں تھا۔ ادھر آپ ہلسہ سے پٹنہ تجارت کے سلسلے میں پریشان تھے، مگر دل میں روحانیت کی شمع روشن تھی۔ کچھ ہی روز بعد حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے صاحبزادے اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کے سجادہ نشیں حضرت شاہ محسنؔ داناپوری کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ حاجی صاحب کی جگہ کس کو بٹھایا جائے۔ ادھر شاہ عبدالحلیم صاحب بے چین و پریشان تھے کہ یکایک حضرت شاہ محسنؔ داناپوری نے آپ کو اجازت و خلافت سے نواز کر حاجی صاحب کی جگہ پر بٹھا دیا۔

    لیکن منافقین، جو ہر قوم میں ہوتے ہیں، آپ کی راہ میں روڑے اٹکانے لگے۔ تاہم آپ اپنے کام میں لگے رہے۔

    اکبرؔ نہ جائے ہاتھ سے سر رشتۂ خیال

    دیکھ! اپنے کام سے تو لگا رہ، جدا نہ ہو

    (شاہ اکبرؔ داناپوری)

    دھیرے دھیرے مخالفین خود بخود رام ہوگئے اور سب آپ کے غلام ہوگئے۔ حضرت شاہ ظفرسجاد ابوالعُلائی اپنے والد حضرت شاہ محسنؔ داناپوری کی قیمتی باتیں اپنی کتاب میں یوں لکھتے ہیں کہ

    ’’سنو! اور گوشِ دل سنو، باقی باللہ حاجی شاہ عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب آستانہ سے خانقاہ سجادیہ کی خدمت کے لیے مامور ہو کر رونق افروز الہ آباد ہوئے، تو جاں نثاروں نے نعرۂ مسرت بلند کیا، شاد ہوئے۔ مخالفین نے کینۂ دیرینہ کا اظہار کیا، برباد ہوئے۔ بعینہ یہی صورت شاہ عبداللہ صاحب کے وصال کے بعد پیش آئی۔ یعنی شیطان نے منافقین کو فتنہ و فساد کی جھلک دکھلائی، خانقاہ پر قبضۂ مخالفانہ کے منصوبے باندھے گئے، مگر آنّاً فانّاً سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے گئے۔ یعنی میں نے برادر طریقت شاہ عبدالحلیم صاحب اکبری ابوالعُلائی کو اپنا مجاز بنا کر حاجی شاہ عبداللہ صاحب کا جانشین نامزد کیا۔ اُن نام و نمود کے بندوں کی جھولیوں کو خاکِ مذلت سے بھر دیا، خدا کے فضل و کرم سے جملہ برادرانِ طریقت و عزیزانِ قلبی سب کے سب میرے جاں نثار ہیں اور مریدین و متوسلین حاجی شاہ عبداللہ صاحب و شاہ عبدالحلیم صاحب میرے ہوا خواہ ہیں۔‘‘ (تذکرۃ الابرار، ص ۹۳)

    شاہ عبدالحلیم صاحب حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے مرید تھے۔ اپنے پیر سے انہیں بے حد عقیدت و محبت تھی۔ اپنی خدمت میں برابر حاضر رہتے تھے، لہٰذا حضرت شاہ محسنؔ داناپوری نے آپ کی ثابت قدمی اور ہمت و استقلال کو دیکھ کر اجازت و خلافت سے نوازا۔ آپ نے طرزِ صوفیا پر عمل کرتے ہوئے ایک انجان اور بے‌آشنا شہر کی طرف غریب الوطن بننے کا عزم کیا۔

    عبادت و ریاضت اور اورادو و وظائف کے علاوہ پاسِ انفاس کے بھی عامل تھے۔ سارے اطمینان کو خیرباد کہا اور جذبۂ خدمات کی چادر لپیٹے ہوئے تن تنہا الہ آباد آئے اور سلسلۂ رشد و ہدایت کو مزید آگے بڑھایا۔ تعمیری کام بھی آپ کے عہد میں ہوئے، جس سے زائرین کو قیام و طعام کے لیے کافی آسانی پیدا ہوئی۔

    کچھ ہی مدت میں آپ کی اہلیہ بھی یہاں آئیں۔ اولادِ ذکور نہ تھی، اللہ پاک نے چند لڑکیوں سے نوازا، جو آپ کی زندگی ہی میں یکے بعد دیگرے فوت ہوگئیں، سوائے ایک کے۔ کافی عرصہ تنہائی کی زندگی گزاری، کھانے پینے کی زحمت اُٹھائی، مگر صبر و توکل کی عظمتوں پر کبھی آنچ نہ آنے دی۔ رفتہ رفتہ مریدان و معتقدان کا حلقہ نہایت وسیع ہوا اور شہر الہ آباد کی معزز ہستیاں آپ کی طرف راغب ہوئیں۔

    آپ کے روزانہ کا معمول تھا کہ اپنے پیر حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے دیوانِ تجلیاتِ عشق اور جذباتِ اکبر سے تبرکاً چند اشعار ضرور پڑھتے۔ جب آخر عمر میں آنکھ سے معذور ہوگئے تو اپنے بھانجہ سید خلیل احمد صاحب سے پڑھواتے اور کیفیت سے معمور رہتے۔ پیر کا عرس کبھی ناغہ نہیں کیا، ہر حال میں داناپور پہنچتے۔ آندھی ہو یا طوفان، آگرا اور داناپور کے عرس میں ضرور شریک رہتے۔ ایک مرتبہ تو داناپور اسٹیشن سے خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ پیدل ہی چلے آئے۔

    حافظ سید محمد اسحٰق لکھتے ہیں کہ

    ’’میں مولوی ولی محمد صاحب عطار بہادر گنج کا ممنون ہوں، جنہوں نے مجھے بتایا کہ شاہ محمد اکبر کے بڑے لڑکے (شاہ محسنؔ داناپوری) کے ایک خلیفہ محلہ چک نیا حجرہ، شہر الہ آباد میں رہتے ہیں۔ ان کا نام شاہ عبدالحلیم ہے۔ ان کے پاس شاہ صاحب (شاہ اکبرؔ داناپوری) کے دونوں دیوان ہیں۔ چنانچہ میں ان سے ملا، بڑے اخلاق سے پیش آئے۔ سیرت کا کیا کہنا، صورت سے بھی ان کی بزرگی ٹپکتی ہے۔‘‘ (صد سالہ تاریخ کٹر، مع مختصر حالات اکابر، ص ۵۱)

    آپ کا یہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرید نے آپ کے لیے کھیر کی دعوت دی۔ آپ نے خوب کھیر کھائی اور صاحبِ خانہ سے کہا کہ اگر اور ہے تو وہ بھی لے آؤ۔ ذائقہ دار کھیر بنی، لیکن آپ کے رخصت کے بعد جب گھر والوں نے کھیر چکھی تو حیران رہ گئے، یعنی کھیر میں چینی کی جگہ نمک پڑ گیا تھا۔ اس طرح آپ دوسروں کے عیب پر پردہ ڈال دیتے تاکہ اس کی شرمندگی نہ ہو اور اس کی بڑائی ظاہر کر دیتے۔ یقناً یہ اوصاف و کمالات نشانِ مردِ مومن ہیں۔

    شاہ عبدالحلیم صاحب اردو و فارسی اچھی جانتے تھے۔ طبیعت کو فرحت بخشنے کے لیے شعر و شاعری سے بھی وابستہ تھے۔ تذکرۃ الابرار کی اشاعت پر آپ کے چند اشعار مناقب میں موجود ہیں۔

    ’’قطعۂ تاریخ طبع از نتیجۂ فکر جناب سید شاہ عبدالحلیم صاحب اکبری ابوالعلائی ہلسوی عظیم آبادی‘‘

    یہ مقدس کتاب ہے بے شک

    یہ ہے لاریب تحفۃ الابرار

    ہے جنابِ ظفر کی یہ تصنیف

    ہے انہیں کا یہ گلشن بے خار

    ہے بزرگوں کا تذکرہ اس میں

    یہ رسالہ ہے مطلع الانوار

    ہے سراپا بہار یہ گلشن

    صفحہ صفحہ ہے غیرتِ گلزار

    طبع موزوں نے سال طبع حلیمؔ

    فکر کرکے لکھا یہ آخر کار

    ہے دعائیہ مصرعۂ تاریخ

    ہو پسندیدہ ’’گلشن بے خار‘‘

    ۱۳۵۹ھ

    شاہ عبدالحلیم صاحب تقریباً ۲۵ برس تک ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ جب ضعیفی نے زور پکڑا تو جسم نڈھال ہوگیا، آنکھوں کی روشنائی بھی ماند پڑ گئی تھی۔ اسی کیفیت میں آپ کا انتقال ۱۰ ربیع الثانی ۱۳۶۹ھ، یکشنبہ ایک بجے شب، موافق ۲۹ جنوری ۱۹۵۰ کو ہوا۔ دوسرے روز خانقاہ میں حاجی صاحب کے متصل تدفین عمل میں آئی۔ اعزازؔ الہ آبادی نے قطعۂ تاریخِ رحلت کہا ہے۔

    رونقِ بیتِ بہشت، حسنِ رخ بے نظیر

    مایۂ صد زیب و زیں، زیرش نور قدم

    طرفہ تربیں یادگار از پئے سن وفات

    ’’جلوۂ عبدالحلیم زینت باغِ ارم‘‘

    ۱۹۵۰

    شاہ عبدالحلیم ابوالعلائی کے بعد ان کے بھانجہ اور داماد حکیم شاہ عزیز احمد ابوالعلائی صاحب آپ کے جانشین ہوئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے