تبصرہ : ’’نجاتِ قاسم‘‘ کا ایک مختصر جائزہ
راقم الحروف فقیر حقیر محمد ریان ابوالعلائی داناپوری عرض دارد کہ جب اس احقر العباد کی عمر انیس برس کو پہنچی اور اپنے پلے کوئی ایسا عمل نہ پایا جو بارگاہِ بے نیاز میں پیش کرنے کے قابل ہو، شیخ سعدی شیرازی کے ان اشعار نے میرے کانوں میں غفلت کا شبہ نکالا۔
ہر دم ہر لحظہ زندگی گٹتی جارہی ہے
جب ذرا آنکھیں کھول کر دیکھا، تو معلوم ہوا کہ اب زیادہ زندگی باقی نہیں۔ تیری زندگی کے 19 برس گزر گئے اور تو ہنوز خوابِ غفلت میں ہے، اگر باقی چند دنوں سے کوئی استفادہ نہ کیا گیا، تو سواری پر ساز نہ ڈالنے والے کو سخت خجالت کا سامنا ہوگا، اسی ورطۂ حیرت میں، اللہ کی عنایت، توفیق ربانی، حضرت سیدنا امیر ابوالعلا کی محبت اور مصنف نجات قاسم کا کرم بالائے کرم میرے ہاتھ تھامے اور کہا کہ
’’بیابان حیرت میں بھٹکنے والے! اپنے پاؤں دامن قرار میں سمیٹ۔ اگرچہ یہ دنیا جائے قرار نہیں، لیکن تم اس دنیا میں سکون و قرار کے متلاشی ہو۔‘‘
تاریخ میں دیکھا جائے تو صوفیائے کرام کی کتابیں عموماً فارسی میں تھیں، خواہ ملفوظات ہوں یا مکتوبات، مثلاً خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ نظام الدین اولیا، شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری۔
ان تمام کی کتابیں فارسی میں ہیں، مگر نجاتِ قاسم اس دور میں اردو زبان میں لکھا گیا اور بہار میں اردو زبان کی اشاعت کے لیے ایک نمایاں کوشش ہے۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا سید شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری، حضرت سید شاہ عطا حسین فانیؔ، اور حضرت سید شاہ غلام نقشبند سجادہ جیسے بزرگ پیش پیش تھے۔
پروفیسر مظفر اقبال اپنی کتاب بہار میں اردو نثر کا ارتقا میں لکھتے ہیں کہ
’’قاسم داناپوری کی تصنیف نجات قاسم، مطبوعہ 1857ء، سرسید احمد خاں کی سیرت فریدیہ کے بعد اردو میں پہلی مطبوعہ سوانح عمری ہے۔‘‘
نجاتِ قاسم میں حضرت امیر ابوالعلاء کے واقعات و سوانح، کرامات اور دیگر حالات درج ہیں۔ دیگر فارسی کتب مثلاً اذکارالاحرار (حضرت شاہ لطف اللہ احراری)، انفاس العارفین (حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی)، حجت العارفین (حضرت شاہ حیات اللہ منعمی)، کیفیت العارفین المعروف بہ نسبت العاشقین (حضرت شاہ عطا حسین فانیؔ) یہ سب فارسی میں ہیں، جبکہ نجات قاسم اردو میں سب سے پہلی اور مستند جامع کتاب ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔
ولادت باسعادت حضرت امیر ابوالعلاء معہ شجرہ نسب، ترک دنیا، بیعت اور خلافت، بعض کرامات اور خوارق عادات، احوال و ارتحال حضرت محبوب و تذکرہ مزار شریف، احوال فرزندان و بعض اجل خلفا۔
نجات قاسم کی پہلی اشاعت تقریباً 166 سال قبل، 1272ھ/1856ء کو 216 صفحات پر ہوئی، کاتب محمد نیاز احمد، باہتمام شیخ رحیم بخش سوداگر، مطبع اشرف الاخبار، آگرہ۔
دوسری اشاعت 1306ھ/1889ء، 98 صفحات، مکتبہ مطبع قریشی، آگرہ، با اجازت حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری، تیسری اشاعت خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، پٹنہ، 128 صفحات، جدید ترتیب کے ساتھ۔
تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ نجاتِ قاسم اردو نثری تاریخ بہار کی اولین کتابوں میں سے ایک ہے۔ زبان کی سادگی، معنوی حسن اور ادبی جلالت کی وجہ سے یہ سلسلۂ ابوالعلائیہ کے فیوض و برکات کے حصول کا چشمۂ سیال ہے اور مسلمانان اہل سنت، خصوصاً وابستگان سلسلۂ ابوالعلائیہ کے لیے توشۂ آخرت و نجات و رحمت کا ذریعہ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.