خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور اور مجاہد ملت
اس کائنات میں بے شمار مؤقر اور معتبر شخصیات جنم لیتی ہیں اور معدوم ہو جاتی ہیں، لیکن بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے نام علمائے کرام کے درمیان داخل نصاب بن جاتے ہیں اور ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تیرہویں صدی ہجری کے وسط میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد عبدالمنان صاحب اُڑیسہ کو ایک غیر معروف شخصیت، مجاہد ملت حضرت مولانا شاہ حبیب الرحمن عباسی، سے نوازا۔
یہ خاندان اپنی دینداری، زہد و تقویٰ، علم و فضل، اور نجابت و وجاہت کے لیے مشہور ہوا۔ باوجود مال و متاع کی کثرت کے، حضرت مجاہد ملت فقیرانہ مزاج میں زندگی بسر کرتے تھے اور شریعت و طریقت، حقیقت و معرفت کے سنگم پر فائز تھے۔
صوبہ بہار کے شہر داناپور، شاہ ٹولی میں واقع خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے سجادہ نشں، حضرت شاہ ظفرسجاد ابوالعلائی (متوفیٰ 1394ھ) سے حضرت مجاہد ملت کا ربط و ضبط انتہائی گہرا تھا۔
ان کی تعلیمی آماجگاہ مدرسہ معینیہ، اجمیر معلیٰ سے لے کر آلہ آباد تک پھیلی ہوئی تھی اور زندگی کی آخری سانس تک دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ اس رفاقت میں عاشق و معشوق جیسی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔
حضرت شاہ محمد محفوظ اللہ ابوالعلائی (متوفیٰ 1418ھ)، جو کہ حضرت ظفرالمکرم کے فرزند اور جانشین تھے، کو حضرت مجاہد ملت ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھتے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ خاندان رسول کے حقیقی وارث اور آل رسول کے نام سے دل کے قریب ہیں۔
جلسہ سیرت، اپریل 1954ء : ماہ اپریل 1954ء میں آل انڈیا تبلیغ سیرت کی تحریک عظیم آباد (پٹنہ) میں سرگرم عمل تھی۔ اس تحریک کے صدر مجلس استقبالیہ سید حیدر امام بیرسٹر اور نائب صدر و ناظم نشر و اشاعت حضرت ظفرالمکرم شاہ ظفرسجاد ابوالعلائی تھے۔
جلسہ سیرت کے لیے ملک بھر سے نامور علما، مشائخ، بیرسٹرز اور علمائے کرام کی بڑی تعداد پہنچ گئی۔ جلسے میں متعدد علماء و مشائخ نے خطاب فرمایا، جن میں شامل تھے۔
حضرت مولانا عبدالحفیظ حقانی (مفتیٔ آگرہ)
حضرت مولانا شاہ رفاقت حسین اشرفی (مظفرپور)
حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز اشرفی (مبارکپور)
حضرت حکیم سید شاہ عزیز احمد ابوالعلائی (سجادہ نشین: خانقاہ ابوالعلائیہ، الہ آباد)
حضرت مولانا ارشد القادری (جمشیدپور)
حضرت مولانا مشتاق احمد نظامی (الہ آباد)
جلسہ کے دوران حضرت مجاہد ملت نے ہمیشہ عاجزی، انکساری اور شریعت و طریقت میں اپنا اعلا مقام برقرار رکھا۔ وہ نہ صرف علمی و روحانی میدان میں ممتاز تھے بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعہ حاضرین پر اخلاقی اور روحانی اثر ڈالنے والے بھی تھے۔
حضرت مجاہد ملت کی شخصیت میں علمی، روحانی اور اخلاقی فضائل کا حسین امتزاج موجود تھا۔ وہ فقیرانہ مزاج کے حامل تھے، لیکن اپنے علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں بے مثال تھے، وہ جلسوں میں ہمیشہ شریعت و طریقت دونوں کے امام کے طور پر موجود رہتے، دسترخوان پر عاجزی کے مظاہرہ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے اور سادہ زندگی بسر کرتے، لوگوں کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے اور ہر کام خود کرنے کو ترجیح دیتے، یہ تمام اوصاف ان کی عظمت، اخلاق اور روحانیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی کی رحلت 1 رجب، 1364ھ / 22 جولائی 1974ء کو ہوئی۔ اس وقت حضرت مجاہد ملت حج پر تھے اور واپسی پر خانقاہ تشریف لا کر تعزیت پیش کی۔ لوگوں نے ان کے آنسوؤں میں محبت و عقیدت دیکھی۔
یہ تعلق دنیاوی محبت نہیں بلکہ اخلاص، اخلاق اور روحانی فیوض و برکات کا پیکر تھا۔ دونوں بزرگوں نے علمی و روحانی تحریکیں چلائیں، جن کے اثرات آج بھی ملک کے مختلف حصوں میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
حضرت مجاہد ملت اور حضرت ظفرالمکرم کی محبت، عقیدت اور علمی و روحانی خدمات نہ صرف اہل سنت بلکہ پورے ملک کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی تحریکات و جلسات نے انسانیت نواز چہرہ سامنے لایا، اختلافات کو پس پشت رکھا، اور اخلاقی کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ یہ یادگار لمحات اور تعلیمات آج بھی ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.