Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت مولانا برہان الدین ابوالعلائی

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت مولانا برہان الدین ابوالعلائی

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    بہار میں سلسلۂ ابوالعلائیہ کی نشر و اشاعت خواجہ محمد فرہاد کے خلفا، میر سید اسد اللہ اور مولانا برہان الدین ابوالعلائی کے ذریعہ خوب ہوئی۔ یہی وہ دو بزرگ ہیں جن کا سلسلہ بہار میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکا اور کثرت کے ساتھ پروان چڑھا۔ ذیل میں خدانما حضرت مولانا برہان الدین ابوالعلائی کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے۔

    مولانا کی تاریخ پیدائش کے بارے میں زمانۂ قریب کی چند کتابیں بغیر حوالہ 1083ھ بتاتی ہیں۔ مؤلف سبعۂ صفات نے آپ کی عمر 120 برس بیان کی ہے۔ اگر مذکورہ تاریخ پیدائش کو تسلیم کیا جائے تو سالِ رحلت 1203ھ ماننا پڑے گا، لیکن یہ ہر اعتبار سے مشتبہ معلوم ہوتا ہے۔

    آپ کا مولد گوپا مؤ ضلع ہردوئی (اتر پردیش) ہے۔ شاہ کبیرؔ داناپوری تذکرۃ الکرام میں لکھتے ہیں کہ

    ’’آپ کی پیدائش کی جگہ قصبہ گوپا مؤ ہے کہ اس ہند میں پورب میں ہے‘‘۔ 671)

    آپ کے اسلاف کے بارے میں کوئی تفصیلی علم نہیں، نہ ہی اب تک کوئی معتبر نسب نامہ یا رشتۂ خاندانی دستیاب ہو سکا۔ صوفیہ میں یہ ایک عام روایت رہی ہے کہ وہ اپنی سکونت ترک کرکے تبلیغ و ارشاد کے لیے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے اور اکثر ان کے اجداد و احوال بھی پردۂ خفا میں رہ جاتے۔ مولانا برہان الدینؒ بھی اس کی روشن مثال ہیں۔

    مولانا کا نام برہان الدین اور لقب خدانما تھا۔ قاضی اسمعٰیل قدیمیؔ اس لقب کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں کہ

    ’’آپ کی نسبت آگاہی اور بے خودی کی کیفیت پر غالب تھی۔ جو بھی آپ کی صحبت کا شرف حاصل کرتا اس کی آنکھوں سے حجاب دور ہو جاتا، علم الیقین نمایاں ہوتا اور معرفتِ الٰہی نصیب ہوتی۔ اس شانِ رہنمائی کی وجہ سے صاحبانِ معرفت کی زبان پر آپ خدانما کے لقب سے مشہور ہو گئے‘‘۔ (اخبار الاولیاء)

    قاضی اسمعٰیل قدیمیؔ نے آپ کو ’’مہر سپہرِ خدا بینی، شمس بروج خلوت کزینی، رہنمائے راہ صدق و یقین‘‘ جیسے القاب سے یاد کیا۔ مولانا شاہ محمد قاسمؔ داناپوری نے ’’امام العاشقین، مرشد مشتاقین، قطب العارفین، شیخ الکاملین‘‘ کہا، جبکہ شاہ عطا حسین فانیؔ نے ’’قدوۃ العلماء، اسوۃ الفقراء، شیخ العارفین، امیر الاکملین، مخدوم المشائخین، قطب الزاہدین‘‘ جیسے عزت مآب القاب عطا کیے۔ تمام مؤلفین اور وابستگانِ سلسلہ عموماً آپ کو ’’حضرت مولانا‘‘ اور ’’خدانما‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ (اخبار الاولیاء، نجات قاسم، ص 280، کیفیت العارفین، ص 99)

    خواجہ رکن الدین عشقؔ فرماتے ہیں کہ

    برہان ضیا مرشدِ اربابِ تقی

    جو ملتے ہیں اس سے ہوتے ہیں اہلِ فنا

    ارشاد کی تعریف کروں اُس کے کیا

    کہتے ہیں ’’خدانما‘‘ جو ہیں اہلِ صفا

    شہِ برہانِ دین ہادیِ برحق

    سراپا آفتابِ نورِ مطلق

    (مثنوی عشق)

    جب آپ عاقل و بالغ ہوئے تو حصولِ علم کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس وقت ہندوستان کی مشہور علمی درسگاہ فرنگی محل (لکھنؤ) مولانا نظام الدین کی علمی مجالس سے روشن تھی۔ یہ چھوٹا سا محلہ علمِ دین کے سیکھنے اور سکھانے کا ایسا مرکز تھا کہ اسلامی دنیا میں ان کے درس و افادہ کا شہرہ تھا۔ مولانا اسی علمی حلقے میں داخل ہوئے اور علومِ ظاہری کی تحصیل کرتے رہے۔

    حکیم شعیب نیرؔ پھلواروی کے مطابق آپ ملا نظام الدین فرنگی محلی کے شاگرد تھے، لیکن بعض تحریروں میں آپ کو ان کے شاگردِ رشید ملا کمال الدین سہالوی 1175ھ) کا شاگرد بتایا گیا ہے۔ حکیم صاحب لکھتے ہیں کہ

    ’’(ملا مبین) بقیہ کتب درسیہ ملا برہان الدین حقانی، جو حضرت ملا نظام الدین سہالوی فرنگی محلی لکھنوی کے شاگرد تھے، تمام کیں‘‘۔ (اعیان وطن، ص 32)

    یہ روایت بعض پہلوؤں سے مشتبہ ہے۔ ممکن ہے کہ ملا نظام الدین نے آپ کو اپنے شاگرد ملا کمال الدین کے سپرد کیا ہو۔

    شاہ کبیر داناپوری تذکرۃ الکرام میں لکھتے ہیں کہ

    ’’اور نشو و نما اور تحصیلِ علمِ ظاہری و باطنی کی شاہجہان آباد (دہلی) میں کی‘‘۔ 671)

    مولانا رضا انصاری بھی بانی درسِ نظامی میں اس رائے کی تائید کرتے ہیں کہ ملا کمال الدین کے شاگردوں کے ذریعہ یہ سلسلہ دہلی سمیت تمام مغربی اضلاع میں پھیل گیا۔ 92)

    یوں کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے علمائے فرنگی محل سے علومِ ظاہری کی تکمیل کی۔

    علمِ ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ کی شہرت روز افزوں بڑھنے لگی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں ولی اللّٰہی خاندان کا علمی حلقہ عروج پر تھا۔ شاہ ولی اللّٰہ دہلویؒ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیزؒ دیگر علوم کے ساتھ تفسیر، حدیث اور فقہ کی تدریس میں غیر معمولی شہرت رکھتے تھے۔

    مولانا برہان الدینؒ بھی دہلی پہنچے اور درس و تدریس کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔ آپ کی درسگاہ پل بنگش کے قریب تھی اور کثیر تعداد میں شاگرد حاضر رہتے تھے۔ شاہی دربار تک آپ کے چرچے پہنچ گئے۔ حتیٰ کہ شاہی قلعے کا خواجہ سرا، جو منصبِ سہ ہزاری رکھتا تھا، بھی آپ کے تلامذہ میں شامل ہو گیا۔

    اسی دوران آپ کو تصوف کی کتب کا شوق پیدا ہوا۔ آپ نے مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی اور محی الدین ابن عربیؒ کی فصوص الحکم کا مطالعہ کیا۔ لیکن چونکہ اس وقت آپ علومِ ظاہری میں راسخ تھے، اس لیے صوفیا کے بعض احوال پر اعتراض بھی کرتے تھے۔ (ارغوان ابوالعُلا، ص 33)

    کہا جاتا ہے کہ آپ کا مدرسہ خواجہ فرہاد ابوالعلائی کی خانقاہ کے قریب تھا۔ آپ کے شاگرد و احباب جو صوفیا کے معتقد تھے، اکثر ان کے تذکرے کیا کرتے۔ ابتدا میں ان باتوں کا آپ پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔

    ایک دن شاہی قلعے کا خواجہ سرا، جو آپ کے تلامذہ میں تھا، بدمزہ ہوا۔ اس کے ایک مصاحب میر احمد علی نے ایک دن پانی کا آ بخورہ لا کر کہا: ’’یہ ایک صاحبِ دل درویش سے دَم کرایا ہے، اعتقاد کے ساتھ نوش فرمائیے‘‘۔ اس واقعہ کے بعد آپ کو اس صاحبِ دل کی زیارت کا اشتیاق پیدا ہوا۔

    بالآخر آپ نے خود خواجہ فرہاد کی خدمت میں حاضری دی۔ پہلی دو مرتبہ ملاقات نہ ہو سکی، لیکن تیسری مرتبہ جب آپ پہنچے تو بابرکت لمحہ نصیب ہوا۔ خواجہ فرہاد مراقبہ میں تھے۔ آپ محفل میں بیٹھے ہی تھے کہ خواجہ نے سر اٹھا کر فرمایا کہ

    ’’یہ کون صاحب ہیں جو ہماری محفل میں بیٹھے ہیں؟‘‘

    یہ جملہ سنتے ہی آپ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ زمین پر لوٹنے لگے اور بے ساختہ نعرے بلند ہوتے رہے۔ یہ کیفیت دو گھنٹے تک جاری رہی۔ (تذکرۃ الکرام، ص 672؛ بزم ابوالعُلا، جلد دوم، ص 108)

    بعد ازاں آپ نے خواجہ فرہاد کے دستِ حق پر بیعت کی اور اجازت و خلافت پائی۔ تاحیات آپ ان کے فرماں بردار اور فیض یافتہ رہے۔

    تذکرہ نگاروں کے مطابق آپ نے شیخ کی صحبت میں ریاضتیں اور مجاہدے کیے۔ لطائف سبعہ میں درج ہے کہ

    ’’ورزش حضرت در ذکر، در یک دم ہفت صد بار می فرمود۔ تمکینِ مراقبہ بست و ہفت روز بود تا ہنوز ز در نشست گاہ حضرت قبۂ زینت المساجد، حضراتِ اہلِ مذاق کیفیت و مزہ حاصل می شود‘‘۔

    ترجمہ: آپ کے ذکر کا کمال یہ تھا کہ ایک سانس میں اسمِ ذات سو مرتبہ فرماتے تھے۔ مراقبہ کی انتہا یہاں تک پہنچی کہ ایک بار ستائیس دن تک مسلسل مراقبہ میں رہے۔ یہ مراقبہ زینت المساجد (لکھنؤ) میں فرمایا تھا۔

    انجمؔ اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ

    ’’اور اس وقت بھی جو صاحبِ ذوق حضرات وہاں جاتے ہیں، اُن کو مراقبہ میں وہی لطف و کیفیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ صرف آپ کے تصرفاتِ باطنی کا اثر ہے جو اب تک موجود ہے۔ خصوصاً سلسلۂ ابوالعلائیہ کے حضرات بالخصوص فیضیاب ہوتے ہیں‘‘۔ (بزم ابوالعلا، جلد دوم، ص ۱۰۹)

    حلقۂ تصوف میں توجۂ عینی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ فیضان خاص طور پر سلسلۂ ابوالعلائیہ میں داخل ہے۔ پیر و مرشد کی تربیت کے بعد آپ کی کیفیت اس قدر مؤثر ہو گئی کہ جس کسی پر بھی آپ کی نظر پڑتی، وہ شرابِ وحدت سے مست ہو کر مدہوش و بے قرار ہو جاتا اور آپ کی توجہ سے پلک جھپکتے ہی اسرارِ غیبی میں مستغرق ہو جاتا۔ (بزم ابوالعلا، جلد دوم، ص ۱۰۹)

    تھوڑی ہی دنوں میں آپ کی شہرت بامِ عروج تک پہنچی۔ دہلی اور اس کے اطراف و اکناف میں آپ کا چرچا ہونے لگا۔ شہر لکھنؤ کے ایک ذی مرتبہ رئیس، جنہیں وزارت کا اعلیٰ عہدہ بھی حاصل تھا، آپ کی عزت و شہرت دیکھ کر خدمت میں عرض گزار ہوئے کہ حضور لکھنؤ تشریف لائیں اور اپنے فیضِ ظاہری و باطنی سے یہاں کے لوگوں کو مستفیض فرمائیں۔

    آپ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور دہلی سے لکھنؤ تشریف لے آئے۔ وہاں کی عوام نے آپ کا پُرجوش استقبال کیا۔ ہر خاص و عام نے خدمت میں حاضر ہو کر اپنی مراد پائی اور خوشی خوشی لوٹے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر کسی وجہ سے آپ نے شہر کی رنگینی کو ترک کر کے لکھنؤ کے قریب غیر قبائلی علاقہ بختیار نگر میں سکونت اختیار کی اور اسی زمین کو، جہاں آپ کا آستانۂ متبرکہ آج بھی مرجع خلائق ہے، رشد و ہدایت کا مستقل مرکز بنایا۔ لوگ جوق در جوق آتے اور محبت و اخوت کی تعلیم سے سرفراز ہوتے۔

    شاہ عطا حسین فانیؔ آپ کی روانگی کے متعلق لکھتے ہیں کہ

    ’’روزے مخدوم المشائخین مخاطب بمشائخ کبار کہ حسب طلب شان تشریف بردہ بودند شدہ فرمودند ہر کہ انصیبے از ما بود بردند، شما را فقیری در نصیب نیست بجز مشایخی و نمود، ما چہ کنم۔ آخر الامر از آں شہر برخاستہ، حضرت مخدوم المشائخین بقصبہ خالص پور سکونت اختیار کردند و آں مشائخ کفاف جہت خادمان آں حضرت معین ساختند۔ حضرت مخدوم المشائخین را در علمِ ظاہر و باطن تصنیف نمودند، ہر چند بہ سبب جذبہ ذاتیہ و نسبت علمیہ، جذبہ یکدم مفارقت نمی نمود، الّا بسببِ آداب شرع جذبہ گاہے اظہار نبود۔ در آخر عمر شریف از قصبہ خالص پور جای حرکت نفرموند، طالبانِ فیض از قرب و بعید رسیدہ در صحبت فیض می ربودند‘‘۔ (کیفیت العارفین، ص ۱۰۱)

    مولانا کی زندگی سراسر سیرتِ رسولؐ کے مطابق تھی۔ آپ اپنی کیفیتِ باطنی کو مخلوقِ خدا سے چھپایا کرتے۔ بظاہر نہایت رئیسانہ زندگی گزارتے تھے۔ کسی کو وہم و گمان بھی نہ ہوتا کہ آپ قطب العصر ہیں۔ پوری زندگی اس شان و شوکت سے گزری کہ رؤسا اور نوابین آپ کی جاہ و جلال کے سامنے شرمندہ ہو جاتے۔ نفیس سے نفیس لباس زیبِ تن کرتے۔ اہلِ لکھنؤ آپ کی پوشاک کے گرویدہ تھے۔ شکار کے شوقین تھے، اس کے مختلف ساز و سامان خاصی تعداد میں موجود تھے۔ حقہ نوشی کا شوق بھی رکھتے تھے اور چاندی کا حقہ استعمال کرتے۔

    الغرض! دنیا داری کی تمام اعلیٰ چیزیں آپ کے پاس موجود تھیں، مگر ان کے پردے میں آپ کے باطنی مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانا بہت دشوار تھا۔ (بزم ابوالعلا، جلد دوم، ص ۱۰۹؛ تذکرۃ الاولیائے ابوالعلائیہ، حصہ چہارم، ص ۴)

    اسی ظاہری تکلفات کے باعث حضرت شاہ عزت اللہ دو مرتبہ بیعت کے لیے حاضر ہوئے مگر رجوع نہ کر سکے اور افسوس کے ساتھ لوٹ گئے۔ بعد ازاں دوبارہ حاضر ہو کر مشرف بہ بیعت ہوئے۔

    لطائف سبعہ میں آپ کے احوال اس طرح درج ہیں کہ

    ’’بہار چمنستان تعینات، بوئے بہارستان اعتبارات، لمعۂ ضیائے خورشید حقیقت، نشائے صہبائے چمنستان طریقت، حلقۂ کمند وحدت، صید دامِ عنقائے معانی، قید سیلاب حسن غیرت، گوہر بحر عینیت، عروج نشاء دماغِ تنزیہ، اوج کیفیت عالمِ تشبیہ، خضر ہادی، سرگشتگی طنیتاں، بلا جادہ، رہ گم گشتاں، وَہُوَ مَعَکُمْ اشارت، لَا اُحْصِیٰ بشارت، امان اقالیم زمین، خاتمِ وحدت نگین، نائب رحمت للعالمین حضرت مولوی برہان الدین قدس سرہٗ از افضل الخلفاء شاہ فرہاد بودند‘‘۔

    مولانا کے ایک مرید کو ایک مجذوب کی صحبت نصیب ہو گئی۔ اس مجذوب نے عالمِ مشاہدہ میں انہیں دوزخ و جنت کی سیر کرا دی۔ اس کے بعد وہ مرید شیخ کی محفل سے غیر حاضر رہنے لگے۔ ایک روز مولانا نے ان کا حال دریافت کیا تو حاضرینِ مجلس نے ماجرا عرض کیا۔ آپ خاموش رہے۔

    شب کو اس مرید نے خواب میں دیکھا کہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل قائم ہے اور مولانا برہان الدین دست بستہ حضور کے مواجہہ شریف میں کھڑے ہیں، مگر وہ مجذوب کہیں نظر نہیں آ رہا۔ نبی کریمؐ نے مولانا کی طرف توجہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ

    ’’اللہ پاک تجھے ایسے مرید عطا فرمائے گا جو دنیا ہی میں دیدۂ دل سے اللہ کی رویت کریں گے‘‘۔

    پھر حضور نے آپ کو القاب سے سرفراز فرمایا کہ برہان الصفا، برہان الاصفیا، برہان الضیا وغیرہ۔

    صبح کو وہ مرید بیدار ہوا، مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا، خواب سنایا اور اس مجذوب سے قطع تعلق کر لیا۔ (نگار خانۂ فقر، ص ۵)

    شاعر نے کیا خوب کہا کہ

    کھویا ہی تھا مجھ کو مری دنیا طلبی نے

    کیا خوب سنبھالا ہے رسولِ عربی نے

    مولانا کی بے شمار کرامات کا ذکر بزمِ ابوالعُلا (جلد دوم)، تذکرہ سلسلۂ ابوالعُلائیہ (چہارم) وغیرہ میں ملتا ہے۔ صاحبِ اسرارِ ابوالعلا کے مطابق۔

    ’’(مولانا) بڑے صاحبِ کمال، رفیع الحال، صاحبِ تحقیق و تصدیق ہوئے ہیں۔‘‘ 145)

    مولانا کے خلفا میں خواجہ رکن الدین عشقؔ (پٹنہ سیٹی، بہار)، شاہ عزت اللہ ابوالعُلائی (بگڑ، راجستھان) اور ملا مبین پھلواروی (پٹنہ) زیادہ مشہور ہیں۔ (تذکرۃ الابرار، ص 13؛ ارغوانِ ابوالعلا، ص 37؛ اعیانِ وطن، ص 32)۔ خواجہ رکن الدین عشقؔ نے مولانا کے حالات برہان العشق نامی کتاب میں جمع کیے تھے جو اب نایاب ہے۔ (نگار خانۂ فقر، ص 5)

    مولانا کی زندگی کا ہر لمحہ مشیتِ ایزدی پر محمول تھا۔ تکلفاتِ ظاہری اور اسبابِ معیشت کے باوجود حالتِ ضعیفی میں بھی مجرد رہے، جب مرض بڑھا تو تمام اطبا کی متفقہ رائے ہوئی کہ بجز کتخدائی آپ کا علاج ممکن نہیں۔ چنانچہ عقد ہوا اور اللہ پاک نے آپ کو ایک صاحبزادہ حضرت ناصرالدین ابوالعلائی اور دو صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔ بڑی صاحبزادی کا عقد خواجہ رکن الدین عشقؔ سے ہوا اور دوسری صاحبزادی کو حضرت دانش علی کے فرزند حضرت قل احمد ابوالعلائی کے نکاح میں دیا گیا۔ (کیفیت العارفین، ص 102؛ بزمِ ابوالعُلا، جلد دوم، ص 120؛ تذکرۃ الاولیائے ابوالعُلائیہ، چہارم، ص 3)

    مولانا نے طویل عمر پائی۔ لطائف سبعہ کے مؤلف کے مطابق ان کی عمر 120 برس تھی۔ آخری وقت تک اچھی حالت میں رہے اور ایک لمحے میں جانِ جاں کو سپردِ آفریں کر گئے۔ آپ کی رحلت پر ہر خاص و عام پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ مریدان و معتقدان ہجر و نالہ میں ڈوب گئے۔ کیفیت العارفین اور تذکرۃ الابرار کے مطابق تاریخِ رحلت 15 ذی الحجہ 1179ھ، مطابق 24 مئی 1786ء ہے۔

    البتہ مؤرخین نے مختلف آرا پیش کی ہیں۔

    شاہ کبیر داناپوری نے تذکرۃ الکرام میں 1161ھ لکھی ہے۔

    رستم علی دھولپوری نے 16 ذی الحجہ 1187ھ درج کیا ہے۔

    حسن ابوالعلائی حیدرآبادی نے لطائف سبعہ اور صفات سبعہ میں 20 جمادی الاول 1203ھ کو تاریخِ وصال بتایا ہے۔

    بعد کی کتابوں نے انہی روایات میں سے کسی نہ کسی روایت کو نقل کر لیا۔

    مولانا کا مزار فائض البرہان قصبہ بختیار نگر میں واقع ہے جو لکھنؤ سے تقریباً پانچ کوس کے فاصلے پر ہے۔ یہ مزار ’’جھنڈے تلے کی درگاہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور مرجعِ خلائق ہے۔ مزارِ اقدس ایک وسیع احاطے میں واقع ہے جہاں اہلِ محلہ باہمی تعاون سے ہر سال 11 ربیع الثانی کو قل شریف کی محفل منعقد کرتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے