Font by Mehr Nastaliq Web

ذکر خیر حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    صوبۂ بہار کا خطہ مگدھ، پاٹلی پترا، راجگیر اور منیر شریف نہ صرف سیاسی برتری اور علمی شہرت کا مرکز رہا ہے بلکہ روحانی تقدس اور عظمت کے اعتبار سے بھی ہر دور میں ممتاز و بے مثال مقام رکھتا ہے۔ ہندو مت ہو یا بدھ دھرم، جین مت ہو یا کوئی دوسرا مکتبۂ فکر، ہر زمانے میں اس خطے کی خصوصیت اور اہمیت مسلم رہی ہے۔ اسلامی عظمت اور عارفانہ بصیرت کے حوالے سے بھی یہ علاقہ منفرد مقام رکھتا ہے۔

    قدیم تذکروں اور سفینوں میں درج ہے کہ مسلمانوں کی آمد ہندوستان میں دوسری صدی ہجری سے شروع ہو چکی تھی۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں صوفیائے کرام کی آمد صوبۂ بہار خصوصاً منیر شریف میں بڑھ گئی۔ سنہ 576ھ میں مجاہدینِ اسلام کا ایک عظیم قافلہ امام محمد تاج فقیہ مکی کی قیادت میں ذوقِ جہاد اور شوقِ تبلیغ کے جذبے سے سرشار ہو کر منیر شریف پہنچا۔ آپ بیت المقدس کے محلہ ’’قدس خلیل‘‘ کے رہنے والے اور حضرت زبیر بن عبدالمطلب کے صاحبزادے حضرت ابوذرؓ کی اولادِ امجاد سے تھے۔ یعنی امام محمد تاج فقیہ مکی، سرکارِ دو عالم کے چچا زاد بھائی کی نسل سے تھے۔

    آپ کے تین صاحبزادے مخدوم اسرائیل، مخدوم اسماعیل اور مخدوم عبدالعزیز منیری تھے۔ بعد میں امام محمد تاج فقیہ مکی واپس مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ واضح رہے کہ مخدوم عبدالعزیز کا خاندان داناپور میں ’’فقیروں کا خانوادہ‘‘ کہلاتا ہے۔

    آپ کا نام احمد یحییٰ اور لقب ’’شرف الدین‘‘ ہے، مگر تاریخ میں زیادہ تر ’’مخدوم الملک‘‘ اور ’’مخدوم جہاں‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کی ولادت 29 شعبان المعظم 661ھ / 1263ء کو منیر شریف میں سلطان ناصر الدین محمود کے دورِ حکومت میں ہوئی۔

    آپ کے والد ماجد حضرت مخدوم کمال الدین یحییٰ منیریؒ (وفات: 690ھ) بن مخدوم اسرائیل منیری بن امام محمد تاج فقیہ مکی تھے۔ آپ کی والدہ سیدہ بی بی رضیہ عرف ’’بڑی بوا‘‘ بنت قاضی سید شہاب الدین پیر جگجوت عظیم آبادی (وفات: 666ھ) نہایت نیک سیرت خاتون تھیں۔ اس مبارک خاندان سے اسلام کی غیر معمولی ترویج و اشاعت ہوئی۔

    مخدوم جہاں کی پرورش والدہ نے بڑے تقویٰ اور طہارت کے ساتھ کی۔ روایت ہے کہ آپ کو کبھی بے وضو دودھ نہیں پلایا گیا۔ اگر کبھی غفلت سے آپ کو اکیلا چھوڑنا پڑتا تو خود حضرت خضر آپ کی حفاظت کرتے۔

    ابتدائی تعلیم گھر پر ہی والدِ ماجد اور حضرت رکن الدین مرغینانی سے حاصل کی۔ پھر آپ کو ایک بڑے عالم دین، علامہ شرف الدین ابو توامہ بخاری جیسے کامل استاد میسر آئے۔ وہ دہلی میں مدرسہ چلاتے تھے اور ظاہر و باطن کے علوم کے ساتھ ساتھ علم کیمیا، سیمیا، ہیمیا اور علومِ تسخیر پر بھی عبور رکھتے تھے۔

    سلطان غیاث الدین بلبن نے علامہ ابو توامہ کو دہلی سے سُنارگاؤں (ڈھاکہ) جانے کا حکم دیا۔ راستے میں وہ منیر شریف ٹھہرے، جہاں مخدوم کمال الدین منیری نے ان کی خوب پذیرائی کی۔ اسی قیام کے دوران شاگرد و استاد میں قلبی تعلق قائم ہوا۔ مخدوم جہاں نے والدین کی اجازت سے استاد کے ہمراہ سُنارگاؤں کا سفر کیا اور علومِ ظاہری و باطنی کی تکمیل کی۔ 22 برس کی عمر میں آپ تصوف کے عالمی اسکالر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔

    دورانِ تعلیم آپ ایک بیماری میں مبتلا ہوئے جس کا علاج نکاح کے سوا ممکن نہ تھا۔ استاد محترم نے آپ کی صلاحیت، خاندان اور سعادت مندی دیکھتے ہوئے اپنی صاحبزادی بی بی بہو بادام کے ساتھ آپ کا نکاح کردیا۔ اس رشتے سے ایک صاحبزادے مخدوم ذکی الدین فردوسی اور دو صاحبزادیاں بی بی فاطمہ اور بی بی زہرہ پیدا ہوئیں۔

    بعد ازاں والد ماجد کے وصال کی خبر ملی تو آپ اہل و عیال کے ساتھ منیر شریف واپس تشریف لائے۔ مخدوم ذکی الدین فردوسی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بنگال میں سکونت اختیار کی۔ آپ کی ایک پوتی بی بی بارکہ بھی تھیں جن کی پرورش والدہ ماجدہ بی بی رضیہ نے کی۔

    تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ کو دل میں یہ احساس ہوا کہ پیر کامل کے بغیر معرفتِ الٰہی کی منازل طے نہیں کی جا سکتیں۔ اسی جستجو میں آپ نے دہلی کا سفر کیا، جہاں حضرت بوعلی شاہ قلندر پانی پتیؒ اور محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء دہلویؒ سے ملاقاتیں کیں۔ مگر بیعت نصیب نہ ہوئی۔

    آخرکار بڑے بھائی کی ترغیب پر آپ خواجہ نجیب الدین فردوسی دہلویؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ پہلی ہی نظر میں آپ پر روحانی ہیبت اور وجد طاری ہوا۔ خواجہ نجیب الدین فردوسی نے آپ کو سلسلۂ فردوسیہ میں بیعت فرمایا اور خلافت عطا کی۔ بیعت کے وقت انہوں نے فرمایا کہ

    ’’یہ اجازت نامہ میں نے بارہ برس قبل ہی رسولِ اکرم کے حکم سے لکھ رکھا تھا۔‘‘

    یوں آپ کو ولایت و خلافت کی نعمت حاصل ہوئی اور سلسلۂ فردوسیہ کے عظیم مجدد بنے۔

    بیعت کے بعد آپ منیر شریف واپس آئے۔ روایت ہے کہ ایک روز بارش کے دوران والدہ نے دیکھا کہ آپ صحن میں کھڑے ہیں لیکن جہاں آپ کھڑے تھے وہاں بارش کا ایک قطرہ بھی نہ گرا۔ والدہ نے عرض کیا: ’’بیٹا، تم پر بارش نہیں برس رہی!‘‘ آپ نے فرمایا کہ

    ’’ماں! جب میرا خدا مجھے اس طرح محفوظ رکھتا ہے تو آپ کیوں فکر کرتی ہیں؟‘‘

    مخدوم جہاں جب بہیا کے جنگل میں داخل ہوئے تو بارہ برس تک کسی نے آپ کی خبر نہ پائی۔ اس مدت دراز میں کیا گزرا اور کیسے ایام بیتے، یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ پھر کسی نے آپ کو راجگیر میں دیکھا، جہاں آپ تقریباً بارہ برس تک اس حال میں رہے کہ ایک درخت میں ہاتھ ڈالے حیرت و استغراق کی کیفیت میں کھڑے ہیں۔ چونٹیاں آپ کے حلق میں آتی اور جاتی رہتیں، مگر آپ کو اس کی خبر تک نہ ہوتی۔

    کچھ مدت کے بعد لوگوں نے آپ کو جنگل میں دیکھنا اور ملاقات کرنا شروع کیا۔ حضرت محبوبِ الٰہی نظام الدین اؤلیا بھی آپ سے ملاقات کے لیے آتے اور بڑی جستجو کے بعد آپ کی زیارت سے مشرف ہوتے۔ یوں رفتہ رفتہ راجگیر کے جنگل میں بھی بزرگانِ دین کا آنا جانا ہونے لگا۔

    لوگوں کی خواہش تھی کہ مخدوم جہاں بہار شریف میں قیام فرمائیں تاکہ عامۃ الناس کو رشد و ہدایت کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کا فیض بھی ملے۔ چنانچہ آپ جمعہ کی نماز کے لیے بہار شریف تشریف لاتے رہے۔ جب یہ شہرہ ہوا کہ آپ کا قیام بہار شریف میں ہے تو لوگ جوق در جوق آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور دور دور سے طالبانِ حق آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے لگے۔

    یہ دیکھ کر حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے اپنے پاکیزہ مال سے ایک خانقاہ کی بنیاد ڈالی اور عرض کیا کہ

    ’’حضور! اس مسندِ سجادہ پر بیٹھنے کی زحمت فرمائیں۔‘‘

    خانقاہ کے ساتھ ایک حجرہ بھی تعمیر ہوا، جہاں آپ نے عبادت و ریاضت کے کئی چلے کاٹے۔ کچھ عرصہ بعد جب سلطان محمد تغلق کو یہ خبر پہنچی کہ مخدوم جہاں، جو برسوں جنگل میں رہ کر خلق سے کنارہ کش تھے، اب شہر میں آتے اور لوگوں سے ملاقات فرماتے ہیں، تو اس نے بھی خاص التفات فرمایا۔ چنانچہ مخدوم کے لیے خانقاہ تعمیر کی گئی، راجگیر کو فقیروں کے وظیفہ کے لیے مقرر کیا گیا اور ایک بلغاری جائے نماز بطور تحفہ ارسال کی گئی۔ یہ تمام انتظامات بہار کے گورنر مجد الملک کے ذریعہ تکمیل کو پہنچے۔

    مخدوم جہاں کے مکتوبات تصوف و عرفان کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ آپ نے اپنے مریدوں اور مسترشدین کی تکمیل کے لیے مکتوبات کے ذریعہ رہنمائی فرمائی۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں آپ کی شخصیت بے مثال ہے۔ کئی برسوں پر محیط آپ کی فرست ہزار سے زائد تصانیف پر مشتمل ہے، مگر حوادثِ زمانہ کے باعث سب باقی نہ رہ سکیں۔ جو کتابیں آج بھی موجود اور مشہور ہیں، وہ یہ ہیں:

    مکتوبات صدی / دوصدی، مکتوبات بست و ہشت، ملفوظ: اسباب النجاۃ، معرفۃ العصباۃ، بحر المعانی، مونس المریدین، ملفوظ الصفر، راحت القلوب، گنج لایفنا، تحفۂ غیبی، فوائد الغیبی، خوانِ پُر نعمت، معز المعانی، معدن المعانی، کنز المعانی، مخ المعانی، رسالہ فوائد رکنی، فوائد المریدین، اورادِ خورد، رسالہ مکیہ، عقائد شرفی، ارشادات شرفی، رسالہ وصول الی اللہ، رسالہ در بدایت حال، ارشاد الطالبین، ارشاد السالکین، اجوبہ اسولہ کلاں / خورد، شرح آداب المریدین۔

    فنِ شاعری میں آپ تخلص شرفاؔ فرماتے تھے۔ اگرچہ آپ کے مستقل اشعار یکجا نہیں ملتے، تاہم ایک بیاض جو مخدوم سے منسوب ہے، ماہنامہ فطرت، راجگیر (1934ء) میں ’’بیاض مخدوم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی، جس میں کثرت سے اشعار ملتے ہیں۔ چند اشعار درج ذیل ہیں۔

    منم آں کز توئی بینم وصالے

    زہے خوش اتفاقے طرفہ حالے

    گدائے را ازیں خوشتر چہ باشد

    کہ یابد بیش سلطانے بحالے

    ہنوزم نیست باور کیں خیال است

    مگر در خواب می‌بینم حیالے

    مگر من در بہشتم زانکہ دنیا

    ندارد ایں چنیں صاحب جمالے

    عوام میں آپ کے ہندی دوہے اور فقرے بھی زبان زد تھے، مثلاً

    شرفاؔ بھٹکا مت پھرے چت مت کرے اُداس

    سائیں بسے سر پر میں کہ حصوں پھولن میں باس

    مخدوم جہاں کے مریدوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بتائی جاتی ہے۔ آپ کے چند مشہور شاگردان و خلفا یہ ہیں۔

    مولانا سید مظفر بلخی فردوسی 788ھ)، مخدوم حسین نوشہ توحید فردوسی بہاری، مولانا زین بدر عربی فردوسی، قاضی شمس الدین فردوسی (حاکم چوسہ)، مولانا نصیر الدین فردوسی جونپوری، مولانا تقی الدین فردوسی اودھی، قاضی شرف الدین فردوسی، مولانا شہاب الدین فردوسی ناگوری، قاضی صدر الدین فردوسی، خواجہ حافظ جلال الدین فردوسی، قاضی ظفرالدین فردوسی ظفر آبادی، مخدوم سید منہاج الدین راستی فردوسی پھلواروی، مخدوم سید لطیف الدین چشتی قلندری موڑوی، سید وحید الدین چلہ کش، مخدوم شیخ ذکی الدین فردوسی۔

    مخدوم الملک نے 5 شوال المکرم کی صبح نماز کے بعد ہی سفرِ آخرت کی تیاری شروع فرما دی۔ اور 6 شوال 782ھ، بروز جمعرات، نمازِ عشاء کے وقت اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ تاریخِ وصال ’’پُر شرف‘‘ ہے۔ کل عمر 121 برس ہوئی۔

    آپ کا مزار مبارک بہار شریف کی بڑی درگاہ میں واقع ہے۔ قبر مبارک اونچی ہے اور اس سے متصل آپ کی والدہ ماجدہ کی قبر ہے، آپ کے بعد جانشین حضرت مولانا مظفر بلخی ہوئے۔ ہر سال آپ کا عرس 6 شوال کو بہار شریف میں منعقد ہوتا ہے، جو ایک عظیم اجتماع کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ دور دور سے عقیدت مند زائرین حاضر ہوتے ہیں، مرادیں پاتے ہیں اور دامنِ فیض سے بہرہ ور ہو کر واپس جاتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے