ذکر خیر حکیم شاہ عبدالعظیم ابوالعلائی داناپوری
آپ کا تعلق مدن پور، ضلع اورنگ آباد کے ساداتِ عظام کے اس معزز خانوادے سے تھا، جو اپنی دینی و روحانی خدمات کے سبب ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے والد، حضرت سیّد شاہ عبدالحکیم ابوالعلائی، نہایت صالح، پاک طینت اور نیک سیرت انسان تھے۔ وہ اپنے خاندان کے مہکتے ہوئے چراغ اور حسنِ تربیت میں باکمال تھے۔
جب ذی علم و شعور ہوئے تو بزرگانِ دین کی صحبت اختیار کی اور رفتہ رفتہ روحانیت کی طرف مائل ہوتے گئے۔ اس زمانے میں مدن پور میں حضرت مخدوم شاہ سجاد پاکؒ کا فیضانِ صحبت عام تھا، چنانچہ شاہ عبدالحکیم صاحب بھی ان کی مجلس کے مشتاق ٹھہرے۔ رفتہ رفتہ دل سے دل ملا اور فیضِ صحبت نے اپنا اثر دکھایا۔ بیعت کے بعد تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ ہی عرصے بعد آپ کا نکاح حضرت مخدوم شاہ سجاد پاکؒ کی صاحبزادی، بی بی خیرالنساء سے ہوا۔
رفتہ رفتہ یہ خاندان مدن پور سے محلہ شاہ ٹولی، داناپور آ بسا۔ اس گھرانے کے دو صاحبزادگان، سید عبدالعظیم اور سید عبدالعلیم، اپنے حسنِ اخلاق اور روحانی نسبت سے خاندانی شناخت بنے۔ دونوں حضرات نے اپنے والد ماجد کی طرح خانوادۂ سجادیہ سے وابستگی قائم رکھی اور اس کی عظمت و رفعت کو مزید جِلا بخشی۔
حکیم عبدالعظیم ابوالعلائی کی ولادت 1270ھ/1853ء میں ہوئی۔ آغازِ عمر ہی سے آپ کے مزاج میں نرمی، گفتار میں وقار اور قلتِ کلام کی صفت نمایاں تھی۔ صحبتِ صوفیہ پر کامل اعتماد رکھتے تھے۔ ابتدا میں عصری تعلیم حاصل کی، پھر مزید تعلیم کے لیے اپنے بزرگ حضرت شاہ اکبر ابوالعلائی داناپوری کی صحبت اختیار کی۔ اس پاکیزہ مجلس نے آپ کو شعر و شاعری کے گلشن میں بھی نکھارا۔ آپ مشاعروں میں کثرت سے شرکت کرتے اور ہمیشہ اپنی شیروانی کی جیب میں سفید کاغذ پر لکھا ہوا کلامِ اکبرؔ ساتھ رکھتے۔
آپ نے بھی والد کی روش پر چلتے ہوئے حضرت مخدوم سجاد پاکؒ کے جانشین و صاحبزادے حضرت شاہ اکبر داناپوری سے بیعت کی اور ان سے اجازت و خلافت پائی۔ اسی طرح اوراد و وظائف کی اجازت حضرت شاہ محمد محسن ابوالعلائی داناپوری سے حاصل کی۔ مخدوم سجاد پاکؒ کے سالانہ عرسِ مبارک پر آپ کی پیش قدمی اور سرگرمی نمایاں ہوا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ عرس پاک کے موقع پر سجادہ نشیں حضرت شاہ محمد محسن نے آپ کی شخصیت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’آپ کی صورت و سیرت کا کیا کہنا، اس انگرکھے میں بڑے وجیہ معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
اس پر بے ساختہ آپ نے ان کی پیشانی چومتے ہوئے کہا کہ
’’یہ سب کچھ آپ کے گھرانے کے طفیل میں ہے۔‘‘
آپ کا ایک ردیف وار دیوان بھی موجود ہے، جس میں آپ کی شاعرانہ بصیرت جھلکتی ہے، آپ کا ایک مشہور شعر ہے کہ
کس نے کہا آ کر کہ اخترؔ مر گیا
غم نہ کیجیے مری جاں، ہے یہ خبر بازار کی
آپ کو حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی سے خاص انسیت تھی۔ حکیم صاحب اکثر اپنے پیر کے نبیرہ کی خوشی کی خاطر وقت صرف کرتے اور روزانہ متعین وقت خانقاہ سجادیہ کی مجالس میں گزارتے۔
فنِ طب سے آپ کو فطری رغبت تھی۔ ابتدا ہی سے حکمت کے میدان میں دلچسپی رکھتے اور جلد ہی ایک ماہر طبیب کی حیثیت اختیار کر لی۔ آپ کا مطب محلہ شاہ ٹولی کی شاہراہ پر نہایت مشہور تھا۔ عنفوانِ شباب میں جب حضرت شاہ ظفر سجاد کو بھی حکمت کا شوق پیدا ہوا، تو وہ آپ کے ساتھ مطب میں وقت گزارتے اور کئی نسخے آپ کی صحبت کے فیضان سے مکمل کیا کرتے۔
آخر کار 78 برس کی عمر میں یہ درخشندہ چراغ بجھ گیا۔ تاریخِ وصال شب بارہ بجے، بروز پنجشنبہ 30 ربیع الثانی 1348ھ مطابق 3 اکتوبر 1929ء ہے۔ آپ محلہ شاہ ٹولی ہی میں وصال فرما گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.