Font by Mehr Nastaliq Web

تبصرہ : جوہرؔ نوری کی نعتیہ شاعری ’’شعاع رسالت‘‘ کی روشنی میں

ریان ابوالعلائی

تبصرہ : جوہرؔ نوری کی نعتیہ شاعری ’’شعاع رسالت‘‘ کی روشنی میں

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    نعت اردو شاعری میں ایک مقدس صنف ہے، اس میں حضرت رسول اللہ کی ذاتِ اقدس، اخلاقِ حسنہ، افعال و کردار، خصائلِ جمیلہ، علم و حکمت، شفاعتِ عظمیٰ، حسن و جمال، عفو و درگزر، عبادت و ریاضت، بارگاہِ خداوندی میں آپ کی محبوبِ بیت کو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ فخر موجودات کے حسب مراتب خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔ نعت گوئی میں شاعرانہ تخیل کو وہ آزادی حاصل نہیں جو دوسری صنف میں حاصل ہے، یہاں کمالِ عشق میں آدابِ عشق ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔

    نعت گوئی ایسا نازک فن ہے کہ اس میں ذرا سی چوک انسان کو قعرِ مذلت تک پہنچا دیتی ہے۔ اس مشکل فن کا متحمل ہر شاعر نہیں ہوسکتا۔ کچھ لوگ اس صنف میں عارضی طور پر طبع آزمائی کرتے، پھر دوسری صنف کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لحاظ سے جوہرؔ نوری صاحب قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے محض طفن طبع کے طور پر اختیار نہیں کیا بلکہ 171 صفحات پر مشتمل نعتوں کا مجموعہ بعنوان ’’شعاعِ رسالت‘‘ 2018ء میں شائع بھی کرایا۔ انہوں نے غزلیں بھی کہیں اور ایک مجموعۂ کلام ’’کرب کا سفر‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ ان کی غزلیں قاری کو متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

    جوہرؔ نوری صاحب کو اپنے ابتدائی دور سے ہی ادب سے والہانہ لگاؤ رہا ہے۔ انہوں نے 1965ء میں اردو رسالہ بعنوان ’’پرستار‘‘ داناپور سے شائع کیا، مگر سلسلہ تادیر باقی نہ رہا۔ انہوں نے اپنی ادبی سرگرمی کا ثبوت ’’بزمِ نور‘‘ قائم کر کے بھی دیا۔ ’’بزمِ نور‘‘ کے تحت پابندی سے ہر ماہ طرحی و غیر طرحی مشاعرے بھی ہوتے رہے، جن سے نوجوانوں میں ادبی ذوق پروان چڑھتا رہا۔ جوہرؔ نوری نے اپنے فکر و عمل کے ذریعے ادب سے محبت کا ثبوت دیا ہے۔

    زیرِ نظر کتاب ’’شعاعِ رسالت‘‘ جوہرؔ نوری کی رسول اللہ سے بے پناہ محبت، قلبی وابستگی اور جذباتی تعلق کا بے باکانہ اظہار ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اپنی جان اور مال سے بڑھ کر رسول اللہ سے محبت نہ کرتا ہو۔ ایک شاعر اپنے دلی احساسات و جذبات اور قلبی لگاؤ کی ترجمانی نعتیہ کلام کی صورت میں کرتا ہے، ایک مردِ مجاہد حق و باطل کی جنگ میں اپنے سر کا نذرانہ راہِ خدا میں پیش کرتا ہے، ایک مجتہد اپنے بے باک قلم کا سہارا لے کر ان باطل و فاسد خیالات کی تردید انتہائی مدلل انداز میں کرتا ہے جو غیروں کی طرف سے عالم اسلام میں در آتے ہیں، ایک مبلغِ اسلام اپنی تحریروں اور تقریروں سے رسول اللہ کے جملہ اوصاف سے قارئین و سامعین کو متعارف کراتا ہے۔ یہ تمام امور عشق رسول کے باعث ہی انجام پاتے ہیں۔

    جوہرؔ نوری کا دل بھی عشق رسول سے سرشار ہے۔ ان کے نعتیہ مجموعہ میں ان کی دلی کیفیات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ’’شعاعِ رسالت‘‘ کے مطالعے سے سرورِ کائنات کی گوناگوں صفات سے ہم متعارف ہوتے ہیں۔ جوہرؔ نوری کا یہ شعر

    شعارِ رسالت سے سارا زمانہ

    قسم ہے خدا کی منور ہوا ہے

    بہت ہی بلیغ ہے۔ اس شعر کو پڑھنے کے بعد ہمارا ذہن زمانۂ جاہلیت کی سماجی و معاشرتی برائیوں اور کفر و شرک کی لعنتوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، ساتھ ہی عہدِ جدید کی جلوہ آرائیوں میں پوشیدہ اخلاقی گراوٹ، سماجی انتشار اور انسانیت کو شرمسار کرنے والے وہ تمام افعال گریہ کا ازالہ بھی ہوتا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی حقانیت ہر زمانے میں ثابت ہوتی رہی ہے اور چراغِ مصطفیٰ کی لو تیز سے تیز تر ہوتی رہی ہے۔ حق و باطل کی مارکہ آرائی میں ہمیشہ حق کو ہی فتح نصیب ہوئی ہے اور ہم غور و فکر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیسے رسول اللہ نے رہتی دنیا تک کے لیے رشد و حیات کے چراغ روشن کیے۔

    اس مجموعے میں رسول اللہ سے محبت کی بے شمار مثالیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک امتی کو اگر خاکِ مدینہ ہاتھ لگ جائے تو وہ اسے سرمہ کے بجائے آنکھوں میں لگانا باعثِ فخر سجھتا ہے اور چہرے پر ملنا باعثِ سعادت۔ بقول شاعر

    آنکھوں میں لگا لیتے ہیں سرمہ کی جگہ اس کو

    گر خاک درِ احمد تقدیر سے مل جائے

    دوسرے شعر میں دیارِ مدینہ کو جنت پر فوقیت اس طرح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

    ہے جنت سے بڑھ کر دیارِ مدینہ

    پرستی ہے رحمت جہاں دم بدم

    دیدارِ مدینہ کی خاطر اپنی حسرت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔

    نہیں کوئی حسرت سوا اس کے دل میں

    مدینہ کو ہم اک نظر دیکھ لیتے

    مدینہ کا ذرہ بھی اہلِ دل کو خورشید سے زیادہ روشن اور تابناک نظر آتا ہے، یہاں کا صحرا بھی صاحبِ نظر کو گلستاں دکھائی دیتا ہے۔

    ہر ذرہ نگاہوں میں درخشاں سانگے ہے

    صحرا بھی مدینے کا گلستاں سانگے ہے

    واقعۂ معراج کو انہوں نے انتہائی سادہ اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے، جس سے نبی کی محبوبیت اور عظمت کا پتہ چلتا ہے۔

    بلا کر قریب اپنے معراج کی شب

    خدا خود ہوا ہم کلام اللہ اللہ

    رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھ پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ میں اللہ پاک کے ساتھ ہوتا ہوں اور وہاں کسی فرشتے کی گزر ہوسکتی ہے اور نہ کسی نبی کی، یہ شانِ محبوبیت صرف ہمارے رسول کو ہی حاصل تھی۔ جوہرؔ نوری کہتے ہیں۔

    آپ کی شان ہے کیا شان رسولِ عربی

    ہے فدا آپ پر رحمان رسولِ عربی

    جوہرؔ نوری نے بڑے حسن و خوبی کے ساتھ رسول اللہ سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے آقا کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات و معاملات کو بھی بڑی چابک دستی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ رسول اللہ کے اخلاق حسنہ، مکہ معظمہ میں پھیلی بت پرستی کے خلاف اعلان، کلمۃ الحق، کمزوروں، مسکینوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں سے بے پناہ شفقت و محبت، مدینہ منورہ کی شانِ عظمت، روضہ اقدس کے دیدار کی حسرت، روزِ محشر میں آپ کی امید، مدینے کی مٹی، گلیوں، فضاؤں، غرض وہاں کی ہر شئے سے عقیدت و محبت کا والہانہ اظہار ہمیں ان کے نعتیہ کلام میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ جوہرؔ نوری نے اپنے جذبے کے اظہار کے لیے مواد و موضوع کے مطابق ہی زبانِ خلق کا سہارا لیا ہے۔

    صفِ ماتم تھا بچھا کفر کے ایوانوں میں

    جب پتہ ان کو چلا سرکار میں آنے والے

    اذیتوں کے عوض آپ نے دعائیں دیں

    مثال ملتی نہیں آپ کی مروت کی

    جب زمیں پر وہ عالی مآب آگیا

    سارے عالم میں ایک انقلاب آگیا

    پتھروں نے جو سجدہ کیا آپ کو

    دیکھ کر بت کدوں کو حجاب آگیا

    غریبوں کا والی، یتیموں کا ہمدم

    وہ بن کر رفیقِ تمام آرہا ہے

    ’’شعاعِ رسالت‘‘ میں جہاں ہمیں حمد و نعت دیکھنے کو ملتی ہیں، وہیں انہوں نے دو سو سلام بھی کہے ہیں۔ درود و سلام حضور کے ساتھ مختص ہے۔ سلام کو بھی نعت کے ضمن میں ہی رکھنا چاہیے۔ سلام میں بھی عقیدت و محبت اور ادب و احترام کا لافانی عنصر پنہاں ہے اور یہ حضور سے والہانہ عشق اور دلی وابستگی کا جامع اظہار بھی ہے۔

    شعرائے جدید ہوں یا قدیم، نعت کہنا اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔ حضرت امیر خسروؔ سے لے کر قطب شاہی عہد کی بات کریں یا مشرقی و جنوبی ہند کی، کسی بھی عہد میں نعت گوئی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ صرف عربی و فارسی ادب ہی نہیں، ہمارا ادب بھی نعتیہ شاعری سے متمول ہے۔

    جوہرؔ نوری کی ’’شعاعِ رسالت‘‘ تقدیسی شاعری میں خاصے کی چیز ہے۔ انہوں نے اپنے نعتیہ مجموعہ میں روحانی، فکری اور قلبی تعلق کا اظہار مؤثر انداز میں کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ مجموعہ ان کی زندگی کا سرمایۂ حیات ہے۔ دو اشعار پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

    تمنا ہے کسی دن دولتِ دیدار ہو جائے

    نہیں فرقت مجھے اب ہے گوارا یا رسول اللہ

    نہ جاؤں گا مدینہ چھوڑ کے ہرگز نہ جاؤں گا

    کہ اس در کے گدا کو کیا ضرورت بادشاہت کی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے