تذکرہ حضرت شاہ مبارک حسین مبارکؔ
عظیم آباد میں رؤسا، شعرا، حکما، علما، صلحا اور صوفیا کی ایک طویل جماعت رہی ہے جنہوں نے اس سرزمین کو اپنی علم و عرفاں سے روشن کر دکھایا ہے، ان میں زیادہ تر وہ ہستیاں شامل ہیں جنہوں نے بہار کے دوسرے خطے سے ہجرت کرکے عظیم آباد میں اپنے کمالات کے جوہر دکھائے، ان میں ایک خانوادہ حضرت سیّد عبدالرحمٰن سیودہوی کا بھی ہے جو تیرھویں صدی ہجری کے اواخر میں عظیم آباد میں قیام کرتا ہے، ان میں اک نمایاں نام حضرت سیّد شاہ مبارک حسین مبارک ہیں۔
آپ حضرت شاہ محمد تبارک حسین کے نخستین اور جانشیں ہیں، اپنی سخاوت سیر چشمی، مروت اور راست گفتاری میں اپنی نظیر آپ تھے، رئیسانہ زندگی بسر کی اور لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور داد و دہش میں بے انتہا دولت صرف کی، آپ رؤسائے عظیم آباد میں ممتاز حیثیت رکھتے، اپنے سخی اور جوّاد ہونے کا اپنے ہی ایک شعر میں اشارہ کیا ہے۔
گھر بھی لُٹ جائے تو نہیں پرواہ
کچھ عجب حال ہے سخی کا حال
حکیم احمداللہ ندوی رقمطراز ہیں کہ
’’اپنے وقت کے رئیسِ اعظم تھے اور بڑے کر و فر سے زندگی بسر کی، آپ کا وہ زمانہ تھا جبکہ عظیم آباد میں شعر و شاعری کا آخری دور بڑے شباب پر تھا، شاد کے ہمعصر اور مولانا وحیدؔ الہ آبادی کے شاگرد تھے، غزلیں گلدستوں میں چھپی تھیں‘‘(تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد چہارم، ص118)
آپ کی پیدائش 11 صفرالمظفر، چہار شنبہ 1269ھ کو اپنی نانیہال شائستہ آباد (ارول) میں ہوئی، نام حبیب الرحمٰن، تاریخی نام ’’خیرات محبوب‘‘ اور عرفی نام مبارک حسین ہے، آپ والدہ کی طرف سے قاضی خاندان کے چشم و چراغ تھے، آپ کے نانا قاضی قاسم علی (شائستہ آباد) اپنے اطراف کے مشہور وکیل اور صاحبِ ثروت و دولت مند شخص تھے، مبارک کے یہاں فقر و تصوف تو خاندانی وراثت میں ملی تھی اور ثروت و دولت اپنے نانا اور سسرال سے پائی، آپ کے والد کا ناقص نسب جو اب تک راقم کو مل سکا وہ یہاں نقل کر دیتا ہوں، سید مبارک حسین بن سید تبارک حسین بن سید تیم اللہ بن سید اہل اللہ بن سید حبیب اللہ بن عطاؤاللہ بن سید عبدالرحمٰن بن سید عبدالحئی بن سید فیروز۔
کہتے ہیں کہ آپ کا خانوادہ آٹھ پشتوں سے کاکو میں سکونت پذیر ہے، بقول حمدؔ کاکوی
جد اعلیٰ تھے کاکو کے داماد
آٹھ پشتوں سے ہوں یہیں آباد
آپ دو بھائی اور ایک بہن تھے، بڑے آپ خود، چھوٹے شاہ نورالرحمٰن لعل اور چھوٹی ہمشیرہ جن کا عقد خسرو پور کے مولانا سید حسن سے ہوا، ان سے بیرسٹر سید آلِ حسن ہوئے اور ان سے بسمل عظیم آبادی ہوئے، یہ سب صاحبِ اولاد اور جاہ و منصب تھے۔ (آثارِ کاکو، ص155)
شاہ مبارک کا زیادہ تر قیام پٹنہ سیٹی کے لودی کٹرہ میں رہا، ڈیانواں اور کاکو سے اُن کو بڑی محبت رہی، کاکو کا کوئی بھی باشندہ ملنے جاتا تو بڑے خلوص سے پیش آتے اور والہانہ طور پر اُس سے سرگرمِ گفتگو رہتے، اسی طرح اپنے آبائی وطن موضع سیودھا سے بھی انہیں بڑی محبت رہی، اپنے جد امجد حضرت سیّد تیم اللہ کی طرح آپ کو بھی گھوڑوں کا بہت شوق تھا، اسپِ رانی بھی کرتے اور گھوڑوں کی شناخت میں بھی بڑا درک رکھتے، بزرگوں سے بڑی عقیدت رکھتے۔
حمد کاکوی لکھتے ہیں کہ
’’ایک روز آپ نے راقم الحروف اور جناب شاہ مودود صاحب (ساکن : خسروپور) کے سامنے بڑے جوش و وجد کے عالم میں فرمایا کہ رات خواب میں گنجِ شکر حضرت بابا فرید نے میری بیعت لے لی‘‘(آثارِ کاکو، ص165)
آپ کی شادی مولانا محمد احسن (رئیسِ ڈیانواں) کی صاحبزادی بی بی کبریٰ (نواسی شیخ احمداللہ، رئیس لودی کٹرہ) سے 25 صفرالمظفر 1289ھ میں ہوئی، حمد کاکوی لکھتے ہیں کہ
’’بارات بڑے تزک و احتشام کے ساتھ ڈیانواں سے پٹنہ آئی، راقم الحروف اپنی کم سنی میں بارات میں شریک تھا‘‘(آثارِ کاکو، ص164)
شادؔ عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ
’’شیخ صاحب (برکت اللہ) عنفوانِ شباب میں نواب سید کاظم علی خاں کے مختار اور نہایت ہونہار و جوہر قابلِ بزرگ تھے، اس وقت حکام مسلمان امیروں کا بہت کچھ خیال و لحاظ کرتے تھے، چنانچہ نواب صاحب کی سعی سے حکام نے سند وکالت سرکاری بھی دے دی تھی، رفتہ رفتہ شیخ صاحب اپنی قابلیت سے مرجع اہل شہر ہوگئے، وکالت میں بہت دولت جمع کی بڑے صاحب زادہ۔۔۔ اور دوسرے محل سے منشی محمد امیر مرحوم تھے، جب پیرانہ سالی کے سبب سے وکالت کی اور حج کو تشریف لے جانے لگے تو کل املاک اپنے بڑے صاحبزادہ کو لکھ دی، سفر حج سے واپس آئے تو اسی گھر میں قیام کیا اور نہایت وقار و عزت کے ساتھ آخر عمر تک بسر کی، شیخ کی ایک ہی صاحبزادی تھیں جن کی شادی مولوی محمد احسن مرحوم بن مولوی گوہر علی مرحوم سے ہوئی، یہ صاحبزادی صرف ایک صاحبزادی چھوڑ کر رحلت کر گئی جن کی شادی شاہ مبارک حسین صاحب رئیس و زمیندار متوطن ڈیانواں سے ہوئی، یہ خاندان پٹنہ میں نامی ہے، اب شاہ صاحب ممدوح کے لائق و قابلِ و رشید صاحبزادے خان بہادر سید شاہ کمال صاحب ہیں‘‘(شاد کی کہانی، ص 29)
آپ کے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھیں، بڑے صاحبزادے سیّد شاہ محمد محی الدین کمالؔ اور چھوٹے سیّد شاہ معین الدین جلالؔ اور ایک صاحبزادی جن کی شادی آپ کے ہمشیر زادہ بیرسٹر آلِ حسن سے ہوئی جن کے فرزند بسملؔ عظیم آبادی ہوئے۔
حضرت شاہ یحییٰ عظیم آبادی نے آپ کے صاحبزادے کے ختنہ سے متعلق یوں لکھا ہے۔
’’قطعۂ تاریخِ ختنۂ پسران سید شاہ مبارک حسین صاحب خلف شاہ تبارک حسین صاحب‘‘
سید پاک کہ در نام خو شش
آمدہ لفظ مبارک بحسین
دارد از فضل خداوند کریم
دو پسر راحت جان نورالعین
آخر ماہ صفر کرد ادا
سنت ختنہ ہر دو اخوین
سالِ تاریخ چو جستم زسر وش
بانگ زو ختنۂ طفلان بازین
(کنزالتواریخ، ص261)
مبارک کی اہلیہ نے شادی کے چند سال بعد ہی 13 ربیع الاول 1296ھ کو ڈیانواں میں انتقال کیا اور اپنی والدہ کی قبر کے پہلو میں دفن ہوئیں، حمدؔ کاکوی رقمطراز ہیں کہ
’’جس وقت جنازہ زنانہ مکان سے باہر آیا تو ایک کہرام برپا تھا، اُسی ماتمی ہنگامے میں میر مہدی حسین حناؔ (کرائے پر سرائے) نے برجستہ یہ مصرع موزوں کیا۔
’’شدہ برپا قیامت کبری‘‘
1297ھ‘‘(آثارِ کاکو، ص166)
اس مصرع سے ایک عدد کی زیادتی کے ساتھ تاریخِ وفات ظاہر ہوتی ہے، حضرت شاہ یحییٰؔ عظیم آبادی بھی رقمطراز ہیں کہ
’’رباعی مشتمل بر تاریخِ وفات اہلیہ شاہ مبارک حسین صاحب‘‘
مرگ اہل مبارک والا جاہ
جائے افسوس ہست اناللہ
تاریخ مطابق حقیقت اینست
’’ویرانی خانۂ مبارک صد آہ‘‘
1296ھ
(کنزالتواریخ، ص 238)
اہلیہ کی وفات کے بعد آپ نے پھر رشتۂ ازواج سے خود کو وابستہ نہیں کیا۔
حمدؔ کاکوی لکھتے ہیں کہ
’’مبارک حسین مبارک کو شاعری سے بڑی دلچسپی تھی، طبیعت رسا پائی تھی، وحیدؔ الہ آبادی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا، کلام بہت پاکیزہ اور دلکش ہوتا، فارسی تحریر بھی بامحاورہ اور دلچسپ ہوتی تھی، رئیسانہ شان و شکوہ کے ساتھ حدرجہ منکسرالمزاج اور نیک طبع تھے‘‘(آثارِ کاکو، ص164)
عبدالعزیز حیراںؔ عظیم آبادی کے سفینہ میں ’’شاہ مبارک صاحب شاگرد مولانا وحیدؔ‘‘کے نام کی سرخی کے ساتھ چند اشعار درج ہیں ملاحظہ ہو۔
آرزو سر میں تو رہتی نہ قدم بوسی کی
مٹ ہی جانا تھا تو نفس کفِ پا کیوں نہ ہوئے
بیکسی پر جو غریبوں کی انہیں جلنا تھا
داغِ دل شمعِ مزار غربا کیوں نہ ہوئے
دیگر
جو شام شبِ وصل جانے کی سوجھی
ابھی کیا نہ ہوگا سحر ہوتے ہوتے
وہ تا شام آنے کو فرما گئے ہیں
یہاں ختم ہیں دو پہر ہوتے ہوتے
دیگر
وہ جو اس جشنِ خسروی میں نہیں
لاکھ ساماں ہیں دل کسی میں نہیں
ہنس کے بھی دیکھا رو کے بھی دیکھا
جو مزا غم میں ہے خوشی میں نہیں
کسی بدلی ہے اس چمن کی ہوا
پھول میں رنگ، بُو کلی میں نہیں
دیگر
میں پہلے دل کو سمجھتا تھا کچھ پناہ میں ہے
جو چشمِ یار میں ہے عین قتل گاہ میں ہے
دیگر
نہ وہ جلسہ، نہ وہ صحبت، نہ وہ یاروں کی محفل ہے
مرا عیشِ گذشتہ آج افسانے میں داخل ہے
دیگر
قدم تو دیر میں شانِ حرم نگاہ میں ہے
میں اور راہ میں ہوں فکر اور راہ میں ہے
دیگر
اس کی طلب میں صورتِ ریگ رواں رہے
یوں ہی خراب ھال رہے ہم جہاں رہے
دیگر
منہ سے جو انساں کہے اُس کا تو کچھ رکھے لحاظ
قول کا تو پاس ہو انساں کو ایسا دل تو ہو
دیگر
وہ جو نامور تھے زمانے میں، کہیں ذکر سن لو فسانے میں
مجھے دیر ہوگی بتانے میں، یہی نام ہے کہ نشاں نہیں
دیگر
نظر جب دیکھ کر تجھ کو تری عقل سے آتی ہے
تو کیا آنکھوں میں پا بوشی کو حسرت دل سے آتی ہے
دیگر
اس کی خوشبو کے جو خواہاں تھے صبا کیوں نہ ہوئے
طالبِ بوسۂ رخ زلفِ دوتا کیوں نہ ہوئے
(تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد چہارم، ص 119، ماہنامہ نگار کراچی، ص 19، مارچ 1954ء، آثارِ کاکو، ص 168)
شاہ مبارکؔ شعر و شاعری کی محافل اکثر منعقد کرتے تھے بعض دفعہ تو دوسروں کی محفل میں شریک ہوکر اسے رنگ و نور سے سجاتے، شاعری سے انہیں فطری لگاؤ تھا، ابتدا میں وحیدؔ الہ آبادی کے شاگر ہوئے، بعد میں وحیدؔ نے آپ کو اپنے باوقار شاگرد حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کے حوالہ کردیا ہو، مبارکؔ کی غزلوں کو دیکھ کر یہ آسانی سے کہا جاتا ہے کہ آپ وہبی شاعر تھے، قدرت نے انہیں جذبۂ صادقہ کا سوز و گداز اور فکر و تخیل کی بلند پروازی عطا کی تھی ان میں جذبے کا سوز، فکر کی رسائی، تاثیر اور ترنم ملتی ہے، بقول عطاؔ کاکوی
’’مبارک عظیم آبادی کم کہتے تھے مگر کلام دل پذیر ہوتا تھا‘‘(آثارِ کاکو، ص167)
گلدستۂ بہار (جلد1، نمبر11، صفحہ 10، مطبوعہ 1883ء) میں آپ کی ایک غزل اس عنوان سے چھپی ہوئی ملتی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کی صحبت سے بھی مستفیض ہوئے۔
’’غزل جناب سیّد مبارک حسین صاحب مبارکؔ شاگرد جناب شاہ محمد اکبر صاحب داناپوری‘‘
جفا و جور نہ کر مجھ پے ہر زماں صیّاد
نہیں یہ طرزِ مدارات میماں صاد
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری نے وحیدؔ الہ آبادی کی رحلت پر قطعۂ تاریخ کہا تھا جس میں آپ کو وحید کا شاگرد بتایا ہے۔
گشت تصویر الم شاہ مبارک از رنج
شاہ لعل است ازیں حادثہ خیلے مضطر
(جذبات اکبرؔ، ص40)
باقرؔ عظیم آبادی نے بھی ’’کیمیائے دل‘‘ میں آپ کو وحید کا شاگرد لکھا ہے۔
وہ سید مبارک حسین سخی
کہ ہوتے ہیں اس ڈھب کے کم آدمی
(ص 19)
عزیزالدین بلخی نے ’’تاریخِ شعرائے بہار‘‘ نے آپ کو وحیدؔ کا شاگرد قرار دیا، دو شعر بھی نقل کیے ہیں، ملاحظہ ہو۔
لوگ کہتے تھے ہوا کا بھی گذر جس میں نہیں
عاشقوں کی اُسی کوچے میں تو کثرت نکلی
کھل گئیں دل پہ جو باتیں تری عیاری کی
میں محبت جسے سمجھا تھا عداوت نکلی
(ص149)
ولیؔ کاکوی مبارک کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ
’’آپ کو مولانا وحیدؔ سے تلمذ تھا، طبیعت شاعرانہ تھی۔۔۔ اور شعر و سخن سے ہمیشہ دلچسپی لی، مشاعروں میں نہایت شان سے غزل پڑھتے تھے، آخر عمر میں شاعری ترک کرچکے تھے، سخن سنجی کے ساتھ سخن فہمی آپ میں تھی، افسوس کے سارا کلام ضائع ہوگیا میں نے ہوش سنھالا تو ایک چھوٹی سی نامکمل بیاض آپ کے پاس دیکھی جس میں حافظے کی مدد سے کچھ غزلیں آپ نے لکھوائی تھیں، اس میں بعض اشعار مرے ہی قلم سے آپ نے لکھوائے تھے، یہ بیاض چوری ہوگئی‘‘(ماہنامہ نگار کراچی، ص19، مارچ 1954ء)
بدرالدین احمد بدر بھی ایسا ہی لکھتے ہیں کہ
’’۔۔۔سب سے بڑا حلقہ وحید الہ آبادی کے شاگردوں کا تھا جس میں شاہ مبارک حسین مبارک، شاہ محمد اکبر داناپوری اور میر محمد باقر ممتاز حیثیت رکھتے تھے‘‘( حقیقت بھی کہانی بھی، ص502)
آپ کا کلیات آپ کی زندگی ہی میں کسی طرح ضائع ہوگیا تھا، یاد داشت سے ایک بیاض تیار کی گئی تھی لیکن وہ بھی چوری ہوگئی، جتنے اشعار راقم کو مل سکے وہ یہاں نقل کر دئیے گئے ہیں۔
حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری سے مبارک کو بڑی عقیدت تھی، برابر خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کی محافل میں شرکت کرتے، پٹنہ میں جب نیچریوں کے خلاف آوازیں اٹھ رہی تھیں تو مبارک ان میں بڑے پیش پیش رہے، آپ کی فرمائش پر حضرت اکبرؔ نے خدا کے وجود پر اک رسالہ ’’خدا کی قدرت‘‘ نامی تحریر فرمایا، اسی کتاب کے ابتدا میں آپ کا ایک شعر تحریر فرماتے ہیں کہ
’’بموجب قول برادرم سیّد شاہ مبارک حسین مبارکؔ تخلص عظیم آبادی، رئیسِ اعظم، پٹنہ‘‘
سمجھ سکتا ہے کوئی کس میں کیا صنعت خدا کی ہے
حقیقت پر نظر معنی کی صورت آشنا کی ہے
(خدا کی صورت، ص 3)
آستانہ حضرت مخدومہ بی بی کمال کی مرمت پر ہزاروں روہے خرچ کرتے، اسی تعلق سے حضرت شاہ اکبر داناپوری ’’اشرف التواریخ‘‘(جلد اول، ص 539) میں رقمطراز ہیں کہ
’’میرے مسلمان بھائیوں تم اپنی شرافت نسب اور شرافت مذہب کی طرف خیال کرو دیکھو! تم میں اکثر اولاد رسول علیہ السلام ہیں اُن کے بدن کے خون میں حضرت خاتم الانبیا محبوب خدا کا خون ہے افسوس ہزار افسوس کہ وہ اپنے پاک خون میں شراب سی ناپاک شے کو ملا رہے ہیں اور پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بدن میں رسول اللہ کا خون ہے، آفریں ہے اور ہزار آفریں برادرِ والا شان سید شاہ مبارک حسین رضوی اور سید شاہ نورالرحمٰن رضوی عرف سید شاہ لال سلمہااللہ تعالیٰ پر ہزارہا روپیہ اِن حضرات نے خرچ کیے اور راہِ خدا میں خرچ کیے اور نواجوان کا بھی مجمع ان کی بزم میں رہا مگر اس مردار کو (یعنی شراب) کبھی اس کا موقع نہ ملا کہ سلام کے واسطے بھی ان کے سامنے حاضر ہو، یہ جناب سید شاہ تبارک حسین رضوی کاکوی رحمۃ اللہ علیہ کے تقویٰ کا اثر تھا وہ بڑے متقی تھے جس خاندان کے تھے اُس کی آب و تاب دنیا کو دکھا دی، خداۓ تعالیٰ شانہ اُن کے نبیرہ سید شاہ محمد کمال مداللہ عمرہ کو بھی وہ دن دکھانے والا ہے کہ اپنے دادا کی طرح متقی ہوجائیں گے مجھے اپنے اللہ سے امید ہے برادر عزیز سید شاہ لال سلمہ اللہ نے ایسا قلب پایا ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ کا عطیہ خاص معلوم ہوتا ہے، اخلاق نہایت وسیع آدابِ سنن کی پابندی نماز کا انتظام اور فقط انتظام ہی نہیں بلکہ حضور قلب کے ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم میں احکام الٰہی کی بجا آوری بھی شریک داد و دہش مخفی طریقہ سے یہاں تک کہ خدام کو بھی اُس کی خبر نہیں ہوتی یہ حالات نوجوانی کے ہیں وہ زمانہ جو خاص اللہ تعالیٰ شانہ کے فضل و کرم کا ہوتا ہے یعنی زمانہ پیری اس میں نہیں معلوم یہ سعادت مندی ان کو اُس وقت کس مقام پر پہنچائے گی، اللہ تعالیٰ شانہ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے، آمین ثم آمین ایک نوجوان سعادت مند اِس عظیم آباد میں اور بھی ہیں اسلاف کے یادگار قاضی عبدالوحید مداللہ عمرہ سرمایۂ ثروت ہاتھ میں وافر اور اس کے ساتھ نیکیوں میں شریک برائیوں سے متنفر اور استعداد علمی کافی الحمداللہ علی احسانہ‘‘
آخر عمر میں قوی بہت مضمحل ہوگئے تھے مگر تیز فہمی کا یہ عالم تھا کہ محض آواز بلکہ پاؤں کی چاپ سن کر لوگوں کو شناخت کر لیتے تھے، حمدؔ کاکوی لکھتے ہیں کہ
’’ایک بار راقم الحروف ملنے گیا، جب رخصت ہونے لگا تو آپ نے برجستہ یہ شعر موزوں کرکے فرمایا کہ
آج تو مل کے بہر حال! چلے جاتے ہیں
یہ تو فرمائیے پھر کب یہ زیارت ہوگی
راقم الحروف نے بھی فی البدیہہ جواب دیا۔
زندگی ہے تو پھر آ جائیں گے ان شاءاللہ
آپ کے روئے مبارک کی زیارت ہوگی
(آثارِ کاکو، ص167)
ولیؔ کاکوی رقمطراز ہیں کہ
’’متیابند کی وجہ سے بینائی سے بھی محروم ہوگئے تھے لیکن دماغ آخر وقت تک کام کرتا رہا، آخر عمر میں شاعری ترک کر چکے تھے‘‘(ماہنامہ نگار کراچی، ص19، مارچ 1954ء)
اسی مرض میں 19جمادی الثانی 1341ھ کو لودی کٹرہ میں انتقال فرمایا، آپ کی دلی خواہش تھی کہ کاکو میں والد کے پہلو میں دفن کیا جائے مگر خمیر جیٹھلی کی تھی لہذا آستانہ حضرت شہاب الدین پیر جگجوت کے حلقہ میں آسودۂ خاک ہوئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.