تذکرہ حضرت شاہ نورالرحمٰن لعل
عظیم آباد اپنی علمی و روحانی کمالات کے ساتھ تہذیب و تمدن اور ثقافت و قوانین، رسم و رواج، صلاحیتوں اور بے شمار خصوصیات کے لیے ہر دور میں نمایاں کردار ادا کرتا آرہا ہے، یہاں سیکڑوں نوابین و رؤسا کی بند پڑی کوٹھیاں آج بھی عظیم آباد میں غربت و افلاس کی تصویر بنی ہوئ ہیں، انہیں میں ایک کشمیری کوٹھی بھی ہے جہاں عظیم آباد کے ممتاز رئیس حضرت حافظ شاہ نورالرحمٰن عرف لعل تا عمر مقیم رہے، یہ تحریر شاہ لعل پر ایک سرسری خاکہ ہے۔
آپ حضرت شاہ تبارک حسین کے چھوٹے فرزند اور عظیم آباد میں اپنے رسوخ و نفوذ کے لیے جانے جاتے ہیں، 1286ھ کو اپنی نانیہال موضع ڈیانواں میں پیدا ہوۓ اور وہیں نشو و نما بھی پائی، صغرِ سنی ہی سے صوم و صلوٰۃ کے پابند رہے اور اُسی زمانے میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ فریضۂ حج میں شریک ہوئے، شاہ لعل نیک مزاج، نرم دل، کم سخن اور خوش آواز تھے۔
آپ والدہ کی طرف سے قاضی خاندان کے چشم و چراغ تھے، آپ کے نانا قاضی قاسم علی (شائستہ آباد، متصل کاکو) اپنے اطراف کے مشہور وکیل اور صاحبِ ثروت و دولت مند شخص تھے، شاہ لعل کے یہاں فقر و تصوف تو خاندانی وراثت میں ملی تھی اور ثروت و دولت اپنے نانا اور سسرال سے ملی، آپ کے والد کا ناقص نسب جو اب تک مجھے مل سکا وہ یہاں نقل کر دیتا ہوں، سید نورالحمٰن بن سید تبارک حسین بن سید تیم اللہ بن سید اہل اللہ بن سید حبیب اللہ بن عطاؤاللہ بن سید عبدالرحمٰن بن سید عبدالحئی بن سید فیروز۔
آپ دو بھائی اور ایک بہن تھے، بڑے سید شاہ مبارک حسین مبارک پھر آپ خود اور چھوٹی ہمشیرہ جن کا عقد خسرو پور کے مولانا سید حسن سے ہوا، ان سے سید آل حسن ہوئے اور ان سے سید حسن عرف چھبو بسمل عظیم آبادی ہوئے، یہ سب صاحبِ اولاد اور جاہ و منصب تھے۔ (آثارِ کاکو، ص155)
بدرالحسن عمادی لکھتے ہیں کہ
’’شاہ لال صاحب خود بھی اچھا گاتے تھے اور بڑے خوش آواز تھے، انہوں نے مکہ کے مدرسہ میں قرآن کی قرات کی تعلیم پائی تھی، اس پر سے خوش آواز تھے اور خود جامع زیب خوبصورت اور پیسے والے تھے‘‘ (یادگارِ روزگار، ص460)
ولیؔ کاکوی مصوری کے تعلق سے رقمطراز ہیں کہ
’’آپ نہایت خوش جمال، خوش اخلاق اور خوش لباس تھے، مصوری و نقاشی سے خاص ذوق تھا، فنِ قرات سے بھی واقفیت رکھتے تھے اور قرآن پاک خوش الحان سے پڑھتے تھے، تفنن طبع کے طور پر کبھی کبھی اشعار بھی کہہ لیتے تھے، مولانا وحید سے اصلاح لی تھی‘‘ (ماہنامہ نگار کراچی، ص19، مارچ، 1954ء)
شاہ لعل کو پرانی تصویریں جمع کرنے کا بھی شوق تھا، اس سلسلے میں شادؔ عظیم آبادی اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ
’’مرزا نثار مہدی ایک مصور تھے وہ مر گئے ان کے پاس جو ذخیرہ فوٹو کا تھا وہ سب شاہ لال صاحب نے خرید لیا تھا، سنتا ہوں کہ ہمارے حضرت کا ایک فوٹو اس ذخیرہ میں ہے، چنانچہ میرے باپ کا تو فوٹو آگیا ہے، شاہ لال مر گئے ان کا ایک رشید بیٹا خلیل الرحمٰن بی،اے میرا دلدادہ شاگرد ہے، دیہات سے آجائے تو ڈنڈھواؤں ورنہ بتا بتا کر مصور سے خاکہ بنواؤں‘‘ (مکتوباتِ شادؔ، ص192)
شروع شروع میں وحیدؔ الہ آبادی سے اصلاح لی، یہ وہ عہد تھا جب بہار میں وحید الہ آبادی کا آنا جانا تھا، زیادہ تر شعرا ان کے ہی شاگرد رہے، ان میں حضرت شاہ اکبر داناپوری سب سے کامیاب شاگرد ہوئے، وحید کی شاگردی کی تصدیق حضرت شاہ اکبر داناپوری نے اپنے دیوان جذبات اکبر میں بھی کیا ہے، اس کے علاوہ حمد کاکوی، ولی کاکوی، احمداللہ ندوی وغیرہ نے بھی اپنے اپنے تذکروں میں لکھ ڈالا ہے، شاہ لعل بعد میں حضرت شاہ اکبر داناپوری کی صحبت میں بیٹھے اور اس فن میں باضابطہ کمال حاصل کیا، بقول حمدؔ کاکوی کہ ’’کلام بہت مختصر تھا وہ بھی ضائع ہوگیا‘‘ آپ کا قیام مستقلًا پٹنہ کے کشمیری کوٹھی میں رہا، کبھی کبھی ڈیانواں میں بھی مقیم رہتے، لوگوں کے اصرار سے آنریری مجسٹریٹ کا عہدہ قبول کیا اور صادق پور کے پنچ عدالت میں اس خدمت کو انجام دیتے رہے، اپنے آبائی وطن کاکو سے بڑی اُلفت رہی، پروفیسر احمداللہ ندوی رقمطراز ہیں کہ
’’آپ کا گھرانہ بہت خوشحال تھا، بڑی زمینداری کے آپ مالک تھے‘‘ (تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد پنجم، ص 97)
والد ماجد حضرت شاہ تبارک حسین کے عرس میں اکثر تشریف لے جاتے، حضرت مخدومہ کمال (کاکو) کی درگاہ کی مرمت اور تعمیر میں نقد امداد بھی دیتے، گرچہ کہیں بیعت نہیں لی مگر طبیعت فقر کی طرف شروع سے مائل تھی، خاندان کا ماحول علم و عرفان سے مزین تھا، آپ کے والد تک خانقاہ داری اور سجادگی بحال تھی، یہاں کا عرس 16 صفر کو بڑے دھوم دھام کے ساتھ ہوتا تھا، مزاروں پر چادر چڑھائی جاتی، غربا میں کھانے اور کپڑے تقسیم کیے جاتے، چراغاں ہوتا، میٹھی ٹکریاں تقسیم ہوتی، افسوس یہ اب صرف تاریخ کا ایک حصہ ہے جسے ہم افسردگی کے ساتھ یہاں نقل کر سکتے، حضرت شاہ تبارک حسین کی رحلت کے بعد تو مکمل طور پر یہ خاندان پٹنہ اور اس کے مضافات میں آآ کر بسنے لگا، عطا کاکوی کا کہنا ہے کہ
’’خدا بخش لائبریری میں ایسے مخطوطات بھی ملے ہیں جو شاہ لعل کے بزرگوں کی خانقاہ سے نقل کیے گئے ہیں جیسے شیخ سعدی کی گلستاں اور بوستاں، حافظ شیرازی کا دیوان‘‘
بقول بدرالحسن عمادی ’’شاہ لعل کی پہلی شادی پٹنہ سیٹی میں ہوئی جو زیادہ دنوں تک چل نہ سکی‘‘ جبکہ دوسری شادی بتاریخ 25 رجب 1302ھ کو مولانا سید آل احمد کی لڑکی سے ہوئی، بارات ڈیانواں سے شاہ کی املی آئی جہاں سید آل احمد مقیم تھے، ان سے چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہوئیں، بڑے شاہ عبدالرحمٰن جن کا نکاح خان بہادر شاہ محی الدین کمال عظیم آبادی کی بڑی لڑکی سے ہوئی، دوسرے شاہ فضل الرحمٰن ہوئے جن کی شادی کٹرا بٹوا میں ہوئی، تیسرے حافظ شاہ عبدالمنان اور چھوٹے لڑکے شاہ خلیل الرحمٰن یہ شادؔ عظیم آبادی کے شاگرد تھے، تین لڑکیوں میں بڑی لڑکی کی شادی کڑا بٹوا میں سید عبدالرشید سے ہوئی، دوسری اور تیسری لڑکی کی شادی یکے بعد دیگرے حاجی صدیق عالم (رئیس : پنجورہ) سے ہوتی گئی، سوائے شاہ فضل الرحمٰن کہ سب صاحبِ اولاد ہوئے۔
بدرالحسن عمادی لکھتے ہیں کہ
’’شاہ لال صاحب شاہ تبارک حسین صاحب ڈیانواں کے بیٹے تھے اور شاہ مبارک حسین کے بھائی تھے اور سید میاں نوادہ کے سالے تھے اور مولوی آل صاحب ساکن روحالی کے داماد تھے، خان بہادر شاہ کمال صاحب کے چچا تھے، عجب خوبی کے آدمی تھے، بڑے نیک دل سیرت، خوبصورت، پابند مذہب، خوش عقیدہ، حاجی مخیر نوجوان رئیس تھے، ان کی اولاد زکور و اناث موجود ہے، پنجورہ سدن بابو کے خاندن میں دو لڑکیا بیاہی ہیں، عبدالرحمٰن ان کے لڑکے شاہ کمال صاحب خان بہادر کے داماد ہیں، خلیل الرحمٰن ایک لڑکے ہیں ان کی شادی کٹرہ میں ہوئی تھی، منان میاں ایک لڑکے ہیں وہ نہال میاں سملہ کے داماد ہیں، شاہ لال مرحوم کی ساس راقم کے والد ماجد کی اپنی چچیری بہن تھیں، یہ سب لڑکے خوش اخلاق اور پُر تمیز ہیں، مالی حالت کچھ خراب ہوگئی ہے وہ حیثیت نہیں رہی جو شاہ لال مرحوم کے وقت میں تھی بفضلہ خوش حال ہیں اور سب پڑھے لکھے خواندہ ہیں، شاہ تبارک حسین کا خاندان بڑا فیض بخش خاندان ہے، ہزاروں آدمیوں کو اس خاندان سے فیض پہنچا ہے اور اب تک پہنچ رہا ہے، اس خاندان میں مروت اور سخاوت بچہ بچہ میں ہے، یہ خاص صفت خدا نے اس خاندان میں دیا ہے، شاہ لال مرحوم اپنی زندگی بہت اچھی گذار گئے اور بال بچوں کو بھی تکلیف سے نہیں چھوڑا اس عقد (آپ نے دوسرا عقد کیا تھا) کے بعد کچھ قرض دار ہوگئے تھے اس گھر کے بنانے میں ان کا اپنا گھر کچھ مصیبت میں آ گرا تھا، الحمداللہ خدانے سنبھال رکھا ہے‘‘ (یادگارِ روزگار، ص463)
شاہ نورالرحمٰن لعل ایک اچھے خاندان کے ساتھ اخلاق کے بلند مقام پر فائز رہے، چھوٹا ہو یا بڑا سب آپ کے مداح ہوتے، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے مشائخ سے بڑی محبت فرماتے، حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری کے اخلاق و اخلاص کے ساتھ اُن کی صوفیانہ و عارفانہ شاعری کے دلدادہ تھے، درجنوں مشاعروں کی محفل اپنے دولت کدے پے سجاتے اور تمام شعرا کو دعوت دیتے، حضرت شاہ اکبر داناپوری ’’اشرف التواریخ‘‘(جلد اول، ص 539) پہ رقمطراز ہیں کہ
’’میرے مسلمان بھائیوں تم اپنی شرافت نسب اور شرافت مذہب کی طرف خیال کرو دیکھو! تم میں اکثر اولاد رسول علیہ السلام ہیں اُن کے بدن کے خون میں حضرت خاتم الانبیا محبوب خدا کا خون ہے افسوس ہزار افسوس کہ وہ اپنے پاک خون میں شراب سی ناپاک شے کو ملا رہے ہیں اور پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بدن میں رسول اللہ کا خون ہے، آفریں ہے اور ہزار آفریں برادرِ والا شان سید شاہ مبارک حسین رضوی اور سید شاہ نورالرحمٰن رضوی عرف سید شاہ لال سلمہااللہ تعالیٰ پر ہزارہا روپیہ اِن حضرات نے خرچ کیے اور راہِ خدا میں خرچ کیے اور نواجوان کا بھی مجمع ان کی بزم میں رہا مگر اس مردار کو (یعنی شراب) کبھی اس کا موقع نہ ملا کہ سلام کے واسطے بھی ان کے سامنے حاضر ہو، یہ جناب سید شاہ تبارک حسین رضوی کاکوی رحمۃ اللہ علیہ کے تقویٰ کا اثر تھا وہ بڑے متقی تھے جس خاندان کے تھے اُس کی آب و تاب دنیا کو دکھا دی، خداۓ تعالیٰ شانہ اُن کے نبیرہ سید شاہ محمد کمال مداللہ عمرہ کو بھی وہ دن دکھانے والا ہے کہ اپنے دادا کی طرح متقی ہوجائیں گے مجھے اپنے اللہ سے امید ہے برادر عزیز سید شاہ لال سلمہ اللہ نے ایسا قلب پایا ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ کا عطیہ خاص معلوم ہوتا ہے، اخلاق نہایت وسیع آدابِ سنن کی پابندی نماز کا انتظام اور فقط انتظام ہی نہیں بلکہ حضور قلب کے ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم میں احکام الٰہی کی بجا آوری بھی شریک داد و دہش مخفی طریقہ سے یہاں تک کہ خدام کو بھی اُس کی خبر نہیں ہوتی یہ حالات نوجوانی کے ہیں وہ زمانہ جو خاص اللہ تعالیٰ شانہ کے فضل و کرم کا ہوتا ہے یعنی زمانہ پیری اس میں نہیں معلوم یہ سعادت مندی ان کو اُس وقت کس مقام پر پہنچائے گی، اللہ تعالیٰ شانہ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے، آمین ثم آمین ایک نوجوان سعادت مند اِس عظیم آباد میں اور بھی ہیں اسلاف کے یادگار قاضی عبدالوحید مداللہ عمرہ سرمایۂ ثروت ہاتھ میں وافر اور اس کے ساتھ نیکیوں میں شریک برائیوں سے متنفر اور استعداد علمی کافی الحمداللہ علی احسانہ‘‘
اسی کتاب میں آپ دوسری جگہ صفحہ 595 پر آپ کو تلقین کر رہے ہیں کہ
’’اس مقام پر میں اپنے برادر عزیز سید شاہ نورالرحمٰن عرف شاہ لعل سلمہ ربہ اور نور چشم محمد محسن مدعمرہ اور اپنے برادرانِ طریقت کو مخاطب کرتا ہوں کہ وہ سمجھیں اور دنیا کو نقش بر ہوا جانیں اور اُن کو اس امر میں فکر کرنا چاہیے کہ سکندر نے دنیا کو کس حالت میں چھوڑا اور حکما اور اہل علم نے اُس کی موت کے نتائج کو اپنی گہربار تقریروں سے کتنا پُراثر کر کے دکھایا ہے، سکندر بھی ایک بادشاہ تھا جیسے اور بادشاہ تھے مگر حکما کی صحبت نے اُسے فائدہ پہنچایا کہ شاید و باید لیکن صرف ہم تو حضور پُرنور قبلۂ عالم و عالمیان محبوبِ خدا حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی تشریف آوری اور تشریف بری پر نظر ڈالنی چاہیے کہ دنیا کی حالت کیا تھی اور اُسے آپ نے کیا کردیا، ان شااللہ تعالیٰ یہ وقائق اس کے دوسرے نصف حصے(جلد دوم) میں جس میں بالکل حضور ہی کا ذکر شریف ہوگا تحریر ہوں گے‘‘
آپ اچھے شعر کہا کرتے تھے مگر اس فن کو مستقل مزاجی سے نہیں کیا جب دل مایوس ہوتا تو کچھ لکھ لیتے، کافی تلاش و جستجو کے بعد چند کلام فراہم ہوسکے، نمونۂ کلام یہ ہے۔
مسکین ہوں غریب مصیبت زدہ ہوں میں
لائی ہے مجھ غریب کو حاجت وطن سے دور
رباعی
غم جن کا ہمیں کبھی گوارا نہ ہوا
مشکل میں کبھی اُن کا سہارا نہ ہوا
رونا اِسی بات کا ہم کو اے نورؔ
ہم سب کے ہوئے کوئی ہمارا نہ ہوا
(تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد پنجم، ص98)
رباعی
اے بندہ نواز بندہ پرور تو ہے
قادر ہے توانا ہے تونگر تو ہے
کرتا نہیں رزق تو خطا پر بھی بند
الطاف میں ماں باپ سے بڑھ کر تو ہے
(ماہنامہ نگار کراچی، ص19، مارچ 1954ء)
حضرت شاہ اکبر داناپوری کے پہلے دیوان ’’تجلیاتِ عشق‘‘(صفحہ 500) میں آپ کا ’’قطعۂ تاریخِ دیوان‘‘ شامل اشاعت جسے یہاں نقل کیا جاتا ہے، جن الفاظ و مراتب کا استعمال کیا گیا ہے پہلے وہ ملاحظہ ہو۔
’’قطعۂ تاریخِ چکیدۂ قلم، جواہرِ رقم، شاہبازِ اوجِ نازک بیانی، بلبلِ گلشنِ سخن دانی، شاعرِ خوش مقال، رنگین خیال، سراپا شوکت و اقبال، رئیسِ عالی منزلت والا شان، جناب حاجی سید شاہ نورالرحمٰن عرف شاہ لال صاحب متخلص بہ نورؔ عظیم آبادی دام اقبالہم‘‘
میرے قبلہ محمد اکبر شاہ
ہے وطن اُن کا خاص داناپور
سیدی ذی نسب ہیں وہ واللہ
آپ کا خاندان ہے مشہور
خاکسار شعاری ہے اُن کا
خلق کا اُن کا جابجا مذکور
شاہ محسن ہیں اُن کے نورِ نظر
پاک طینت ہیں اور اہلِ شعور
فضل تیرا مدام ان پر ہو
بہرِ روحِ نبی خدائے غفور
نورِ دل کا جبینِ روشن سے
ہے نمایاں برنگِ جلوۂ طور
ان کی توصیف جو کروں تحریر
میرا اے شاہ لال کیا مقدور
اہلِ دل شاعرِ حقیقت گو
ہیں وہ لاریب باکمال ضرور
پاک و شستہ زبانِ حضرت ہے
ٹھیک کانٹے کی تول وزنِ سجور
نذر یہ قطعہ ہے قیول جو ہو
اُن کے اخلاق سے نہیں کچھ دور
اکبرآباد میں بآب و تاب
چھپ کے شائع ہوا کلامِ حضور
فکرِ تاریخ طبع تھی مجھ کو
آئی یہ کان میں صدائے حور
لکھ دے اے نورؔ سال ہجری میں
از سرِ جلوہ ’’جان باغِ نورؔ‘‘
1316ھ
اسی طرح حضرت شاہ اکبر داناپوری کے دوسرے دیوان ’’جذباتِ اکبر‘‘(صفحہ 64) میں بھی آپ کا قطعہ شامل ہے۔
’’قطعۂ تاریخ از نتیجۂ فکر سید شاہ محمد نورالرحمٰن عرف سید شاہ لعل صاحب متخلص بہ نور شاگرد مولوی وحیدالدین مرحوم الہ آبادی، پٹنہ عظیم آباد، کشمیری کوٹھی‘‘
شاگرد وحید، اکبر خوش گفتار
خود ان کے کلام پر فصاحت ہے نثار
یہ مصرع سال طبع لکھ دو تم نورؔ
دیوان ہے ’بحرِ معرفت‘ کا اے یار
1329ھ
’’قطعۂ تاریخِ دیوان‘‘
بیاں ہو مجھ سے کیا تعریف اُن کی
بڑا رتبہ بڑی ہے شانِ اکبر
وحیدِ عصر تھے فن سخن میں
خوشا رنگِ گل، بستانِ اکبر
مشامِ روح کو تھی راحت افزا
ہوائے گوشۂ دامانِ اکبر
غرض چھپتا ہے پھر دیوان اُن کا
ہے جس سے منکشف عرفانِ اکبر
لکھو از روئے کوشش نورؔ تاریخ
ہے’بحرِ معرفت‘ دیوانِ اکبر
1329ھ
اس کے علاوہ حضرت شاہ اکبر داناپوری کے 14 اشعار پر مشتمل ایک منظوم خط مؤرخہ 16 ربیع الاول 1324ھ کا عکس خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے کتب خانہ میں موجود ہے، چند اشعار ملاحظہ ہو۔
’’جناب بھائی صاحب، مکرم برادرِ محترم زاداللہ عمرہ، سلامِ اکبر قبول ہو۔
جواب خط کا نہ پہنچا کمالِ حسرت ہے
مری مصیبتوں میں سے یہی اک مصیبت ہے
غزل بھی لکھ چکا ہوں وہ کیا معلوم پہنچی
وہ بے ٹکٹ کا تھا خط اس پر ایسی آفت ہے
مشاعرہ کا خط بھی آگیا تھا پاس مرے
خراب طرح تھی ایسی زمیں سے نفرت ہے
مسودہ گر پاس اب نہیں اس کا
کمالِ رنجِ ہے اس کی مری ندامت ہے
دعائے نور پر اب خط تمام کرتا ہوں
سلامتی ہے ہمارے لیے وہ سلامت ہے
خدا کے نور سے تا حشر اس کا دل روشن
نام نورِ نبی، نورانی اس کی صورت ہے
یہ خط بھی جاتا ہے بیرنگ عفو و تقصیر
کچھ آج کل یہی موقع ہے اور حالت ہے
شاہ نورالرحمٰن 21 جمادی الثانی 1335ھ موافق 14 اپریل 1917ء کو اپنے سکونتی مکان کشمیری کوٹھی، پٹنہ میں انتقال کیا اور آستانہ حضرت شہاب الدین پیر جگجوت کے احاطہ میں دفن ہوئے، مادہ ہائے تاریخ وفات یہ ہیں۔
’’مقیم جنت الفردوس او شد‘‘
1335ھ
’’حشر او بادا بخیر‘‘
1335ھ
کسی زمانے میں آپ کے نام سے ایک اوریجنل پوسٹ کارڈ بھی شائع ہوا تھا جس پر آپ کی ایک فل سائز کی تصویر چھپی تھی، آپ کے انتقال پر خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، فتوحہ کے سجادہ نشیں حکیم شاہ غلام شرف الدین بلخی (متوفیٰ 1356ھ) اپنے روز نامچہ میں لکھتے ہیں کہ
’’18 اپریل بدھ کو خط سے معلوم ہوا کہ حبیب و شفیقِ قلبی شاہ لال صاحب مرحوم نے 21 جمادی الثانی دن گذار کر کہ شب یکشنبہ کو 8 بجے انتقال کیا، دوسرے دن (اتوار) کو جیٹھلی کچی درگاہ میں دفن ہوئے، افسوس ایسا لاجواب اٹھ گیا، برادری پرست کم لوگ ہوتے ہیں، ہم سے قلبی تعلق تھا، سخت صدمہ دل کو ہوا، اللہ جوارِ رحمت میں جگہ دے‘'
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.