تذکرہ خان بہادر شاہ محمد کمال عظیم آبادی
آپ شاہ مبارک حسین مبارکؔ کے بڑے صاحبزادے اور شاہ نورالرحمٰن عرف لعل کے بھتیجے ہیں، عظیم آباد کا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو خان بہادر شاہ محمد کمالؔ کی شخصیت اور ان کے کارنامے سے واقف نہ ہو، لودی کٹرہ میں کمال روڈ اور شاہ کمال کی مسجد اب آپ کی آخری یادگار ہے۔
آپ کی پیدائش ۵؍ جمادی الاول ۱۲۹۰ھ بمکان شیخ احمد اللہ رئیسِ لودی کٹرہ نانیہال ہوئی، شیخ صاحب آپ کے نانا کے والد تھے، پیدائش کی تاریخ میر مہدی حسین حناؔ نے مصرعۂ ذیل سے نکالی ہے۔
’’ازگلستانِ مبارک گل اول شدہ بیں‘‘
۱۲۹۰ھ
ابتدائی تعلیم پر نانا شیخ احمداللہ ہی کے زیرِ نگرانی ہوئی، حضرت شاہ غفورالرحمٰن حمدؔ کاکوی رقمطراز ہیں کہ
’’راقم الحروف کے ہم جد ہونے کے علاوہ آپ میرے دودھ شریک بھائی بھی تھے، جب آپ کی ولادت ہوئی تو میری والدہ نے اپنے آغوش میں لے کر آپ کو دودھ پلایا تھا، آپ میرا بہت ادب اور لحاظ کرتے تھے اور اپنے حقیقی بھائی سے کم نہیں سمجھتے‘‘(آثارِ کاکو، ص؍۱۷۴)
آپ کی شادی بڑی تذک و احتشام سے بتاریخ ۲۰؍ رجب المرجب ۱۳۰۹ھ حافظ سیّد محمد یوسف علی (نتول) کی چھوٹی صاحبزادی سے ہوئی، دولت کی فراوانی سے بڑے عیش و عشرت سے زندگی گزاری، داد و دہش اور سخاوت میں اپنی نظیر آپ تھے، حکام رس اور ہر دل عزیز رہے، خان بہادر کے خطاب سے سرفراز ہوئے اور میونسپل کمشنر بھی رہے، عظیم آباد میں بڑے کرّ و فر اور نام و نمود کے ساتھ زندگی گزاری، آخر میں صوم و صلوٰۃ کے سخت پابند ہوئے اور فریضۂ حج بھی ادا کیا تھا، آپ کے نانا مولوی محمد احسن بن مولوی گوہر علی رئیسِ ڈیّانواں بڑے سخی اور جواد تھے، یہ سخاوت آپ نے انہی سے پائی، آپ کے دادا حضرت شاہ تبارک حسین صاحبِ فقر و تمنا تھے، سیر چشمی، اوالوالعزمی اور خیرِخیرات کا ورثہ اُن سے ملا، شیخ اسد اللہ جو آپ کی نانی کے والد تھے انہوں نے دوسری شادی قاضی اسد علی (دولت پور) کی بیٹی سے کی تھی، اُن سے کوئی اولاد نہیں، انہوں نے اپنی ساری ساری جائیداد آپ ہی کے نام لکھ دی، الغرض دولت قدم چومتی تھی اور آپ قدموں سے ٹھکراتے رہے، عیش کوشی کے ساتھ داد و دہش کی بھی گرم بازاری تھی، فراخ دلی اور سیر چشمی طبیعت کا خامہ تھی، بزرگوں کے ساتھ بڑی عقیدت تھی، شاہ غفورالرحمٰن حمدؔ کاکوی رقمطراز ہیں کہ
’’حضرت پیر جگجوت کے سالانہ قل کے موقع پر آپ کی طرف سے بڑا چھا انتظام ہوتا تھا، اپنے دادا حضرت شاہ تبارک حسین کے سالانہ عرس بتاریخ ۷؍صفر کے موقع پر چراغاں ہوتا، طعام داری ہوتی، غریبوں کو کپڑے تقسیم ہوتے، یہ سب اخراجات بڑے حوصلہ اور عقیدت سے کرتے، اپنے وطن اصلی کاکو سے بڑی الفت و محبت تھی، اکثر تشریف لاتے تھے، درگاہ حضرت مخدومہ بی بی کمال بہت بے مرمت ہوگئی تھی اندر کا حلقہ مزار دیگر عمارت مثلاً مسافر خانہ اپنے صرفِ خاص سے بنوایا‘‘(آثارِ کاکو، ص؍۱۷۴)
بدرالحسن عمادی لکھتے ہیں کہ
’’ان(شاہ تبارک حسین )کی پوری قرابت داریاں ڈیّانواں والوں سے ہیں، اُن کے بیٹے شاہ مبارک حسین تھے، شاہ مبارک حسین مولوی احسن صاحب ڈیّانواں کے داماد تھے، مولوی احسن صاحب شیخ احمد اللہ ولد شیخ برکت اللہ کے داماد تھے، خان بہادر شاہ محمد کمالؔ و شاہ محمد جلالؔ مولوی احسن صاحب کے ناتی تھے، مولوی ولی الحق، مولوی احسن صاحب کے بیٹے ہنوز موجود ہیں، شاہ کمال صاحب کے خالہ حکیم نصیر صاحب بانکی پورکی اہلیہ ہیں، شاہ کمال خان بہادر کے لڑکے مولوی رفیع وکیل ہیں، یہ چھیدی میاں ولد مولوی عبد السبحان مرحوم کے داماد تھے، اولاد ہے، بی بی کا انتقال ہوگیا، دوسرے لڑکے ہیں اور شاہ لال میاں کے لڑکے عبدالرحمٰن میاں ایک داماد ہیں، شاہ کمال صاحب مولوی یوسف صاحب نتول کے داماد ہیں اور منظر میاں نتول کے بہنوئی ہیں، شاہ لال صاحب ان کے چچا تھے جن کا مفصل حال جدا گانہ موجود ہے اور شاہ جلال و شاہ اقبال کا بھی حال لکھا ہے، ان لوگوں کی قرابت اُس میں ملے گی، سیّد میاں نوادہ شاہ مبارک حسین و شاہ لال میاں کے بہنوئی تھے، ان کے بیٹے مسٹر آلِ حسن مرحوم تھے، یہ خان بہادر کے بہنوئی تھے اور ان کے بیٹے بنو میاں و جھبو میاں جو تھے ہرداس بیگھا میں جاکر مقیم ہوئے ہیں، سیّد میاں کے ایک بیٹے مظہر میاں تھے جو نوادہ میں رہتے تھے اور وہ رئیسہ میں ا میر حیدر وکیل کے داماد تھے، یہ لوگ جوان ہی میں مرگئے، ہرداس بیگہ میں ایک بھانجہ شاہ کمال خان بہادر کے زندہ ہیں، ایک لڑکے سیّد میاں کے ہنوز نوادہ میں زندہ ہیں جن کا نام بوجہ عدم آمد و رفت راقم کو یاد نہیں آتا ہے، غالباً عمرو میاں ہے، شاہ کمال خان بہادر کی زندگی بڑی عیش و عشرت کی گذری، انہوں نے لاکھوں لاکھ روپے خود صرف کیے، اچھا کھایا اچھا پہنا اچھی عزت حاصل کی، نہایت سچے آدمی ہیں، رندانہ زندگی بسر کرکے آخر عمر میں حج کیا اور مرید ہوگئے‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۶۱۷)
شاہ کمال لودی کٹرہ کے زمیندار، پٹنہ مینوسپلٹی کے کمشنر، بانکی پور انڈپنٹنڈ برانچ کے آنریری مجسٹریٹ، سیٹی ہاسپٹل کمیٹی، صدر لوکل بورڈ، سوسائیٹی اف کرلی انیملس اور وٹنری ہاسپٹل کے ممبر رہے۔
آپ کے تعلق سے ایک کتابچہ انگریزی زبان میں Testimonials of Syed Shah Mohammad Kmala کے عنوان سے 1903 میں The Behar Herlad Press, Bankipore سے طبع ہوئی، ولیؔ کاکوی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’۱۳۲۸ھ میں خان بہادر کے خطاب سے سرفراز ہوئے، آنریری مجسٹریٹ بھی تھے، تیس ہزار سالانہ آمدنی کی جائیداد والد سے ملی تھی، ساری دولت عیش و عشرت کی نذر ہوگئی، جوانی میں حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی سے انہیں بیعت حاصل ہوئی تھی، مولانا شاہ احمد میاں سے خلافت بھی ملی تھی، ابتدائے شباب میں مولانا وحیدؔ کے شاگرد ہوئے، مولانا کے انتقال کے وقت ان کی عمر صرف اُنیس سال کی تھی، آخر عمر میں تمام منہیات سے تائب ہوکر صوم و صلوۃ کے بڑے پابند ہوگئے تھے اور اذکار و اشغال میں مصروف رہتے تھے‘‘(ماہنامہ نگار، کراچی، ص؍۱۹،مارچ،۱۹۵۴ء)
عالمِ شباب ہی میں حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی سے شرفِ بیعت حاصل کیا اور مولانا شاہ احمد میاں سے اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے، کمالؔ کے عہدِشباب میں شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی کو لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ آپ کے مرید میں دنیا طلبی ہے، وہ عیش و عشرت کے دلدادہ ہیں اس پر مولانا نے بلند آواز میں فرمایا کہ
’’کمال میرا کمال ہے، اُسے اُسی حالت میں رہنے دو‘‘
اسی طرح حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری بھی آپ کی نوجوانی کے دنوں میں رقمطراز ہیں کہ
’’خدائے تعالیٰ شانہ اُن کے نبیرہ سیّد شاہ محمد کمال مداللہ عمرہٗ کو بھی وہ دن دکھانے والاہے کہ اپنے دادا کی طرح متقی ہوجائیں گے، مجھے اپنے اللہ سے امید ہے‘‘(اشرف التواریخ، جلد اول،ص؍ ۵۳۹)
اس کا اثر یہ ہوا کہ آخر وقت میں شاہ کمال اوراد و اشغال کی طرف بالکل مائل ہوگئے، یہاں تک اپنا ہر ایک لمحہ ذکروفکر میں گذارنے لگے اور پھر کبھی گھر سے باہر نہ نکلے۔
آپ نے لودی کٹرہ میں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی جہاں تعلیم کا بھی خاص نظم تھا، بیشتر طلبا اس مسجد سے علمِ دین حاصل کرتے تھے۔(یادگارِ روزگار)
کمالؔ عظیم آبادی شعری دنیاکے علاوہ علمائے اہل سنت کے درمیان بلند مقام رکھتے تھے، فتاویٰ رضویہ، جلد پنجم میں ایک استفتا مؤرخہ ۲۱؍ربیع الثانی ۱۳۱۶ھ بمقام لودی کٹرہ، پٹنہ آپ کا موجود ہے، تحریک ردِّ ندوہ میں آپ کی شمولیت اور پیش قدمی و سرگرمی سرِفہرست رہی، تمامی انتظامی و انصرامی امور کی آپ پاسداری کر رہے تھے یہاں تک کہ ہروہ چیز جو تحریک کو درپیش تھی وہ آپ کی ہمدردی اور نیک نیتی سے فراہم ہوگئی، قاضی عبدالوحید فردوسی آپ کے لائق فائق احباب میں سے تھے بلکہ آپ کے والد مبارکؔ اور عمی نورؔ، برادر محترم حمدؔ، برادرِ عزیز لطف الرحمٰن وغیرہ بھی اس تحریک میں شریک تھے۔
قاضی عبدالوحید فردوسی مراۃ الندوہ میں لکھتے ہیں کہ
’’دوسرے روز کہ یکم شعبان ۱۳۱۴ھ کی تھی بعد نماز ظہر جناب سیّد شاہ محمد کمالؔ صاحب رئیس بانی نشان عظیم آباد کے مبارک باغ میں مجلسِ وعظ قرار پائی‘‘
اسی رسالہ کے دوسرے صفحہ پر رقمطراز ہیں کہ
’’اور بتاریخ یکم شعبان المعظم ۱۳۱۴ھ روز سہ شنبہ دن کو جناب حضرات راس الرؤسا سیّد شاہ مبارک حسین کے باغ میں مجلسِ وعظ قرار دی گئی۔۔۔ اور ایک دوسرے روزکے وعظ میں جناب سیّد شاہ محمد کمالؔ صاحب کا باغ آدمیوں سے بھر گیا، اُس روز کے وعظ نے اور ہی تاثیر دکھائی‘‘(ص؍۵۸)
قاضی عبدالوحید فردوسی اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ کو یہ پسند آیا کہ ۲۵؍ ماہ محرم ۱۳۱۵ھ کو بمکان باغ امیر کبیر جلیل القدر سیّد شاہ محمد کمال صاحب حنفی قادری فضل رحمانی سلمہٗ الوہاب کے اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا‘‘(تحفہ حنفیہ، جمادی الاول، ۱۳۱۵ھ، ص ۹ تا ۱۲)
اسی طرح قاضی صاحب ’’دربارِ حق و ہدایت‘‘ میں بھی جگہ جگہ شاہ کمال کا ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں کہ
’’شب سہ شنبہ بعد مغرب جناب شاہ کمال صاحب کی مسجد میں جلسہ وعظ منعقد ہوا، مولانا محب احمد صاحب نے تین گھنٹہ تقریر فرمائی اگر چہ شب کا وقت تھا اور اعلان بھی نہیں کیا گیا تھا مگر پھر بھی مسجد شائقین سے بھر گئی۔۔۔۔۔۲۹؍شعبان روزسہ شنبہ۸؍بجےدن بجےجناب شیخ میاں جان صاحب شیشہ گر کےمکان پرمجلس منعقدہوئی۔۔۔۔اس جلسے کے لیے عالی ہمت والا مرتبت جناب سیّد شاہ کمال کا مبارک باغ تجویز کیا گیا۔۔۔۔معزز نوجوان سیّد شاہ محمد کمال صاحب رئیس اعظم و آنریری مجسٹریٹ پٹنہ نے اپنی علو ہمتی سے بڑی اعانت فرمائی دیگر معززین کو اس کا شریک و معاون بنایا‘‘
اس تحریک میں جن حضرات نے مہمانوں کے واسطے مکانات عنایت فرمائے ان میں زیادہ تر کاکوی صاحبان تھے، مثلاً شاہ مبارک حسین مبارکؔ، شاہ نورالرحمٰن عرف لعل، شاہ محمد کمالؔ، شاہ محمد اقبال بن محمد جلال اور مدرسہ نعمانیہ کے منتظم شاہ عزیزالرحمٰن کاکوی تھے۔
باشندگانِ کاکو کی رائے مراۃ الندوہ میں درج ہے، ملاحظہ ہو۔
’’ندوہ بھی پیر نیچرکے کانفرنس کا بچہ ہے‘‘(شاہ محمد زکریا قادری)
’’ندوہ کی ضلالت مخالف باہمی اہلِ سنت سے خود روشن ہے‘‘(شاہ عزیزالرحمٰن)
’’میں ندوہ کا مخالف ہوں‘‘(شاہ مبارک حسین مبارکؔ)
’’ندوہ کا تخالف شرع و سنت سے ثابت ہے‘‘(شاہ غفورالرحمٰن حمدؔ)
’’ندوہ سر تا پا ضلالت ہے‘‘(شاہ لطف الرحمٰن)
’’ندوہ کے بطلان پر ادلہ ٔاربعہ شرعیہ شاہد ہیں‘‘(شیخ عبدالرحمٰن )
’’ہم ندوہ کے شریک نہیں ہوسکتے بلکہ اس کا مخالف ہوں‘‘(شاہ محمدجلالؔ)
’’ہم ندوہ کے شریک نہیں ہوسکتے بلکہ اس کا مخالف ہوں‘‘(آلِ حسن خسرو پوری)
(مراۃ الندوہ، ص؍۴۰؍۵۹)
کمال کو شاعری کا شوق شروع سے رہا، اپنے والد ماجد کی طرح وحیدؔ الہ آبادی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا، صاحبِ دیوان شاعر تھے، آپ کا مرتب کردہ دیوان ضائع ہوگیا، بیاض میں چند غزلیں مرتب ملیں، مشاعروں کی محفل میں آپ کی شمولیت یقینی ہوتی، شاہ غفورالرحمٰن حمدؔ کاکوی لکھتے ہیں کہ
’’دیوان مرتب تھا طبع نہ ہو سکا، مشاعروں میں شریک ہوتے تھے، کلکتہ کے مشاعروں میں بھی شرکت کی تھی، گلدستوں میں کلام ملتا ہے‘‘(آثارِ کاکو، ص۱۶۵)
کلام دل پذیر ہوتا، کم کہتے مگر جو کہتے وہ عمدہ اور لاجواب ہوتا، آپ کے صاحبزادے شاہ رفیع الدین نے حکیم احمداللہ ندوی کے خط کے جواب میں لکھتے ہیں کہ
’’محترمی، تسلیم! آپ کا کارڈ ملا، یاد دہانی کا شکریہ، ہمارے پاس چوں کہ کلام موجود نہ تھا، دیوان مرتب شدہ غائب ہوگیا، ایک بیاض تھی جو عطاؤالرحمٰن سلمہٗ لے گئے، اس میں کچھ غزلیں تھیں، اس میں سے چند کو لکھ کر بھیج رہا ہوں‘‘(تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد چہارم، ص؍۷۵)
کمال کے جو اشاعر مجھے مل سکے وہ نقل کر دیتا ہوں۔
حشر میں دیکھا جو آمادۂ فریاد مجھے
ہنس کے بولے کہ ترے ہاتھ ہے عزت میری
دیگر
آفت ہے طلب اے دلِ ناشاد کسی کی
سب کچھ کرے انسان نہ کرے یاد کسی کی
دیگر
وہ زلف مشکِ بو کیا جانے کیا ہے
تری خوشبو صبا کیا جانے کیا ہے
دیگر
ہم تو اے دردنہ منّت کش درماںہوں گے
اور ہی ہوں گے جو شرمندۂ احسان ہوں گے
سرجدا ہوگا تو ہم ہوں گے سُبک دوش کمالؔ
دہنِ زخم سے قاتل کے ثنا خواں ہوں گے
دیگر
حال بیتابئی دل آپ میں آلوں تو کہوں
تھام لوں دل کو طبیعت کو سنبھالوں تو کہوں
دیگر
مجھ کو اتنا نہ ستا تو بھی تو رخصت ہو گی
تجھ کو بھی اے شبِ فرقت کبھی فرقت ہوگی
دیگر
نام میرا زمیں پہ لکھ لکھ کر
وہ مٹاتے ہیں نقشِ پا کی طرح
دیگر
اس کا ہے کیا علاج بتا دے تو چشمِ شوق
دیکھا جو اُن کو حسرتِ دیدار بڑھ گئی
دیگر
تیر ی محفل میں ہے ساقی اک زمانہ فیضیاب
ہم ابھی خالی لیے بیٹھے ہیں ساغر ہاتھ میں
دیگر
ہمیشہ وہ ستمگر بے سبب بھی
ستم کرتا رہا کوئی نہ کوئی
دیگر
یہ دیکھ کر انقلابِ دوراں الٰہی کیوں کر نہ میں ہوں حیراں
وہی ہوئے میرے دشمنِ جاں امید بھی جن سے دوستی کی
(تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد چہارم، ص؍۷۵)
بسملؔ عظیم آبادی شاہ کمال کے اپنے بھانجے ہوتے ہیں، کمال کی محفل کا تذکرہ بسملؔ کی تحریر سے لگائیے، وہ اپنے ایک مضمون بنام ’’پرندوں کے شوقین‘‘ میں آپ کی محفل کا تذکرہ تفصیل سے کرتے ہیں کہ
’’میرے ماموں جان قبلہ خان بہادر سیّد شاہ محی الدین عرف شاہ کمال مرحوم کے یہاں کسی تقریب کے سلسلے میں محفل ہوئی، سجاوٹ کایہ کمال تھا کہ جس رنگ کا شامیانہ تھا اسی رنگ کے جھاڑفانوس اور قندیلیں اسی رنگ کی قالین ،مسندیں یہاں تک کہ گویوں اور سازندوں کے لباس بھی اسی رنگ کے ،سب رؤسا ئے شہر جمع ہیں، کچھ کے ساتھ خدمت گار کے ہاتھوں میں تہی میں لپٹے ہوئے بلبل کے پنجڑے اور ہر پنجڑے پر موتی کے ہار پڑے ہوئے، پنجڑے قرینے سے شامیانے کے ستونوں میں ٹانگ دیئے گئے، آدھی رات کا وقت محفل اپنے شباب پر تھی، رقص نقطۂ عروج پر تھا،نغمے فضا میں جادوجگارہے تھے،سب ہی جھوم رہے تھے کہ یکایک ایک بلبل بولااور بولتا چلا گیا اور پھر تو سب ہی بلبلوں نے ایک ساتھ بولنا شروع کردیا، نغموں کا مقابلہ شروع ہوگیا، ایک سماں بندھ گیا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہر پنجڑے سے سُریلی تانوں کا فورا ہ چھوٹ رہا ہو، رقص جہاں تھا وہیں تھم گیا، گھنگھرؤں نے چپ سادھ لیا، گیتوں نے دم توڑ دیا، طبلہ دم بخود رہ گیا، سارنگی کو سکتہ لگ گیا، سارا مجمع بلبلوں کے نغموں میں اس طرح ڈوبا کہ پتّا بھی نہ چل سکا کہ رات ڈھل چکی ہے، جب بلبلوں کا ملکوتی نغمہ تھما تو سارے مجمع پر سکتہ طاری تھا، ہر شخص کھویاکھویا ادھ کھلی آنکھوں سے ایک دوسرے کا منہ تک رہا تھا اور پلکیں جھپک رہا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے سبھوں نے جاگتے میں کوئی خواب دیکھ لیا ہو اور جب ہوش آیا تو واہ واہ اور سبحان اللہ کے نعروں سے محفل گونج گئی، بلبل والوں کی تعریف ہو رہی تھی، شاہ کمال صاحب مرحوم نے میرے چچا زاد بھائی شاہ اقبال صاحب مرحوم کو پکا ر کے کہادیکھو !تمہارا بلبل گرم ہوگیا ہے اس کو بادام کھلاؤ، نہیں تو کلیجہ پھٹ جائے گا، دو روز کے بعد سچ مچ اقبال بھیّا مرحوم کے بلبل کا کلیجہ پھٹ گیا اور وہ مرگیا، سبحان اللہ کیا محفلیں تھیں، کیا شوقین لوگ تھے اور کیا دانست تھی‘‘(حکایتِ ہستی ص؍۳۱)
افسوس کے ساتھ شاہ کمال کی اولاد کو وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب کمال کی دولت کا سارا سرمایہ خاکستر ہوگیا، لودی کٹرہ کیا پٹنہ کا ہر شخص جس کا قدر داں تھا افسوس کہ آج لودی کٹرہ کے افراد بھی اس انسان سے واقف نہیں، کمال نے جو شہرت کمائی وہ ان کے خاندان کے کسی افراد نے نہیں کمائی، خان بہادر جیسا دمدار خطاب بھی انہیں اس لیے دئیے گئے تاکہ یہ خطاب آپ کے نام جڑ سکے اور اس کی شان بڑھ سکے، نقی احمد ارشادؔ آپ کے مکانات پر حسرت بھرے انداز میں یوں تبصرہ کرتے ہیں ۔
’’شاہ کمال کے سب ہی مکانات فروخت ہوگئے، یہ وہ مکانات تھے جہاں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی، دعوتیں ہواکرتی تھی اور گلی سے گذرنے میں خالص گھی اور پلاؤ کی خوشبو آتی تھی، اب ان مکانوں کو دیکھ کے رُلائی آتی ہے‘‘(کاروانِ رفتہ،ص؍۲۲۲)
نقی نے بالکل سچ لکھا ہے کہ
’’شاہ مبارک کے صاحبزادے شاہ جلال والد شاہ اقبال مشہور رئیس لودی کٹرہ اور خان بہادر شاہ کمال جن کے نام سے ’’شاہ کمال روڈ‘‘ لودی کٹرہ میں مشہور ہے، شاہ کمالؔ مرحوم کا مکان فروخت ہوگیا، صرف سٹرک ان کے نام کو زندہ رکھتی ہے‘‘(کاروانِ رفتہ،ص؍۲۱۶)
آپ کے دو فرزند اور سات لڑکیاں ہوئیں، بڑے شاہ رفیع الدین عرف عبدالکریم اور دوسرے شاہ بدیع الدین عرف عبدالرحیم دونوں وکیل ہوئے مگر افسوس ہے کہ چھوٹے فرزند صاحبِ اولاد ہوکر اپنے والد ماجد ہی کی زندگی میں داغِ مفارقت دے گئے، ان کے لڑکے محمد ابراہیم کا عقد بدرالدین احمد بدرؔ کی لڑکی فاطمہ سے ہوا جن سے ایک لڑکا محمد اسمعیٰل ہوا۔
شاہ رفیع الدین کی شادی کے قصے آج بھی زبانِ زدِ عام ہے، قصہ یوں ہے کہ شادی کا کھانا شاہ کمال کے مزاج کے مطابق نہیں اترا، انہوں نے فوراً بدلوا دیا، اس محفل میں بھانڈ بھی مدعو تھے اور روانگی پر ان کو دو دو باقر خانی اور فیرنی اور میٹھا پلاؤ دیا جاتا تھا پر اس شادی میں اتنے بھانڈ آگئے کہ انہیں ایک ایک باقر خانی دی گئی جس پر ان لوگوں نے چند فقرے کہے۔
’’کمال! آدھی روٹی پہ شادی مبارک‘‘
’’دولہا کو دولہن مبارک، ہم کو باندی بیگم مبارک‘‘
’’گلوری مبارک‘‘ اس طرح کے کئی فقرے تھے عوام میں مشہور ہوئے۔
لڑکیوں میں سب سے بڑی لڑکی کی شادی شاہ عبدالرحمٰن بن شاہ لعل یعنی اپنے حقیقی چچا زاد بھائی سے ہوئی، ایک لڑکی کی شادی مولوی محمد ادریس (حبیب پور، ڈمری) سے ہوئی، دونوں صاحبِ اولاد ہیں، تیسری لڑکی کی شادی اپنے حقیقی بھانجے نبی حسن بن آلِ حسن سے کی مگر افسوس کی دونوں زن و شوہر بے اولاد قضا کر گئے، چوتھی لڑکی بی بی مریم کی شادی اپنے حقیقی بھتیجے شاہ اقبال بن شاہ جلال سے کی خدا کے فضل سے صاحبِ اولاد ہیں، پانچویں لڑکی رضیہ کی شادی شاہ طہٰ بن یٰسین جعفری (محل پر، بہار شریف) سے ہوئی، چھٹی لڑکی خیرالنسا کا عقد حافظ محمد جلیل (ڈیانواں) سے ہوا اور سب سے چھوٹی لڑکی کی شادی سبل پور کے محمد مرتضیٰ سے ہوئی۔
آپ کا انتقال پُرملال۱۴؍ ذیقعدہ۱۳۵۵ ھ روز دوشنبہ اپنے سکونتی مکان واقع لودی کٹرہ میں ہوا، تجہیز و تکفین درگاہ حضرت پیر جگجوت کے چبوترہ پر اپنے والد ماجد کے مزار کے پہلو میں ہوئی مادہ ٔتاریخ وفات یہ ہے۔
’’الہٰی بخش دے اپنے کرم سے‘‘
۱۳۵۵ھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.