ذکرِ خیر حضرت مولانا سید سخاوت حسین کاکوی
کاکو اپنے علم و عمل اور رشد و ہدایت کے لیے کئی دہائیوں سے مصروفِ خدمت ہے، یہاں حضرت مخدومہ بی بی کمال کا آستانہ اور بزرگوں کی قدیم بستی ہے، علما ہو یا ادبا، شعرا ہو یا خطبا ہر طرح کے علوم و فنون میں یہاں کی شخصیات کی خدمات رہی ہے، اسی سلسلے میں چودھویں صدی ہجری کے اوائل میں حضرت مولانا سید سخاوت حسین کی شخصیت رہی ہے، جنہوں نے اپنے علم و فضل سے ایک زمانے کو روشن کیا ہے۔
مولانا سخاوت حسین جہان آباد کے قصبہ کاکو کے میر سید مصاحب علی بن میر پناہ محمد کے صاحبزادے تھے، جب منیر شریف کے اسکول کے مدرس مقرر ہوئے اس وقت آپ کی عمر بیس برس سے بھی کچھ کم تھی، جوان صالح، محنت کش اور اہلِ اخلاص میں سے تھے، طلبہ کو پڑھانے کا انداز جدا گانہ تھا، ہر ایک سے کمالِ محبت سے ملا کرتے، لوگوں کی دلجوئی اور خبر و خیر میں بڑے پیش پیش رہتے، منیر شریف میں آپ کی عزت و توقیر ہر ایک شخص کرتا، خوشی ہو یا غم ہر ایک موقع پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، منکسر مزاج، اعلیٰ اخلاق اور عمدہ خصلت کے مالک رہے، کیا امیر کیا غریب سب سے جھک کر ملتے، معاصر مشائخ میں آپ کی ذات مغتنماتِ زمانہ سے تھی، منیر شریف ہو یا کاکو جہاں رہے لوگوں کے لیے ہر وقت تیار کھڑے رہے، بڑا ہویا چھوٹا سب سے خوشنودی کے ساتھ ملتے، کسی کو تکلیف نہ دیتے، جیسے مزاج عہدِ جوانی میں تھا وہی ضعیفی میں بھی رہا، بستی کا کوئی شخص اگر پریشان نظر آتا تو اس کی خبر گری کرتے بلکہ دوا بھی لاکر دیتے، شام کو وقت نکال کر بستی کے بچوں اور بچیوں کو پڑھایا کرتے، تفسیر و حدیث کے ساتھ ساتھ انہیں علمِ طب پر عبور حاصل تھا۔
غلام نبی فردوسی منیری کی رائے اس سلسلے میں نہایت قیمتی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ
’’اب میں ذکر ایک ایسے بزرگ کا کرتا ہوں کہ نہ وہ اپنے تئیں ولی جانتے، نہ لوگ ان سے اعتقادِ شیخی رکھتے ہیں مگر حقِ سبحانہ و تعالیٰ نے ان میں ایسے صفاتِ حمیدہ اور برگزیدہ عطا فرمائے ہیں کہ ولی کیا اگر قطبِ وقت کہے جاویں تو کچھ مبالغہ نہ ہو، میں ان کے خصائلِ حمیدہ کا ذکر کر دیتا ہوں، چشمِ انصاف سے اگر ناظرین دیکھیں گے تو خواہ مخواہ ان کی بزرگی کا اقرار کرنا ہی پڑے گا، نام نامی ان کا مولوی سید سخاوت حسین ساکن موضع کاکو ضلع گیا خلف الرشید جناب سید مصاحب علی صاحب کے ہیں۔۔۔۔ اپنے خدمتِ متعلقہ کے انجام جو کچھ وہ سرگرمی اور شغف حاجت سے زیادہ لڑکوں کی تعلیم میں غیرِ وقت اسکول کے جو کچھ عرق ریزی اور محنت کرتے رہے کہ وہ ہرگز ان کا کارِ منصبی نہ تھا، جس قدر وہ کرتے رہے اور کرتے ہیں مگر ان کی نسبت یہ کہا جاسکے گا کہ اپنی ترقی یا نیک نامی کی غرض سے یہ محنتِ شاقہ اختیار کی ہے لیکن اس جگہ لوگ کیا کہہ سکتے ہیں کہ ان بزرگ کا اسی ابتدائے زمانہ سے یہ حال تمامی اشخاص اس قسم کے ساتھ یہ ہوا اور آج تک اپنے حال پر ہے کہ جو شخص سفر میں ہے اس کے گھر کے خطوط گھر گھر جا کر لکھنا اور جواب جو آئے اس کو پڑھنا جو کچھ حاجت بیماری یا کسی دوسری ضرورت میں ان کو پیش آئے مثل اپنے فرزندوں کے ان کی خبر گیری کرنی، طبیب کے یہاں جانا دوا کر دینی الغرض اپنے کام کے طور پر سب کے کام کرتے رہنا، جس نے جس نے خواہش کی ان کی لڑکیوں کو بے اجرت شام سے آکر پڑھانا پانی برسے یا پتھر پڑے مگر ان کو غرب سے شرق تک بستی کی لڑکیوں کا پڑھانا جس کے یہاں کوئی تقریبِ شادی و غمی یا کسی قسم کی ہو اس کے کام میں باوجود ضعیف الجسم ہونے کے اس قدر کام ہر قسم کے کرنے کہ قوی اور مضبوط آدمی اس سے عاجز رہے اور اس قدر کام ان کی اس طاقت پر ان کے انجام ہونا صرف ان کے جوش شفقت علی الخلق کا باعث ہے جس کو بزرگوں نے حصۂ اعظم فقیری لکھا ہے، منکسر اور فروتن ایسے کہ باوجودیکہ ان کا احسان ساری بستی والوں پر ہے، کیا امیر کیا غریب، کیا شریف کیا رذیل مگر سب سے ایسے جھک کے ملتے ہیں جیسے اس کے نہایت گراں یا احسان ہیں اور کسی سے ان کا مونکا کبھی مژدہ نہیں لیا، نہ اس کے خواہاں ہیں اور یہ سب سلوک جو لوگ کے ساتھ کرتے ہیں کبھی اس کا تمنن ان کی زبان یا اشارہ یا کنایہ یا حرکات و سکنات سے ظاہر نہیں ہوا، الغرض میرے نزدیک تو ولیٔ وقت ہیں چاہے کوئی کچھ کہے‘‘ (مراۃ الکونین، ص 456)
سماعی روایت کے مطابق مولانا سخاوت حسین حضرت شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی سے بیعت و ارادت کا شرف رکھتے تھے، جبکہ اس طرح کی کوئی روایت کسی کتاب میں میری نظر سے اب تک نہیں گزری، ہاں البتہ اس نام کے دو خلفا کا ذکر مولانا محمد منیر پھلواروی نے سبعِ سنابل میں اور مفتی افضال رحمٰن گنج مرادآبادی نے رحمت و نعمت میں کیا ہے، اول الذکر میں انہیں بہدولوی بتایا ہے جبکہ ثانی الذکر کا تعلق بہار شریف سے تھا جنہیں مدرسہ عالیہ، کلکتہ کا مدرس بتایا گیا ہے، جبکہ حمدؔ کاکوی نے آپ کو حضرت علی حبیب نصرؔ پھلواروی کا مرید بتایا ہے۔
حمدؔ کاکوی رقمطراز ہیں کہ
جو صلح جو تھے سخاوت حسین پاک خیال
ملے جلے رہے سب سے مزاج تھا بے شر
منیر میں رہے وہ مدتوں مدرس بھی
وظیفہ ملتا تھا جو ان کو قانع تھے اس پر
منیری اس لیے کہتے ہیں ان کو اہلِ وطن
مکان اپنے جو آتے تو رہتے تھے کم تر
جنابِ میر مصاحب علی کے بیٹے تھے
حضورِ نصر کے تھے یہ مرید لختِ جگر
(یادِ وطن، ص 244)
مولانا سخاوت حسین ابتدائی عہد میں سماع سے دور تھے مگر شاہ عبدالجلیل اشرفی کی صحبت نے انہیں سماع بالمزامیر کی طرف قائل کر دیا تھا، حضرت شاہ اکبر ابوالعلائی داناپوری کے مرید و خلیفہ حاجی شاہ عبداللہ ابوالعلائی (الہ آباد) کے سفائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حاجی صاحب سے مولانا کے گہرے مراسم رہے، علمِ طب کے سلسلے میں آپ دونوں نے کلکتہ کا سفر بھی طے کیا اور وہاں سے بعض نسخے اور کیمیا لا کر بہار اور اس کے اطراف میں تجارت بھی کی، مولانا سخاوت حسین کی زندگی کا اکثر حصہ اپنے بستی سے دور منیر شریف میں گزرا۔
حکیم احمداللہ ندوی کا کہنا ہے کہ
’’مولانا سخاوت حسین کاکوی اپنے وقت کے جید اور بہت متقی عالم اور حکیم تھے‘‘
(تذکرہ مسلم شعرائے بہار، جلد5، ص؍178)
آپ کے تلامذہ میں چند مشہور نام یہ ہیں۔
ریاض حسن خاں خیالؔ (مظفر پور)، مولانا سید مرتضیٰ منیری، شیخ محمد ولیؔ الرحمٰن انڈھوسی اور شاہ ایوب ابدالی نیرؔ اسلام پوری۔
(خاندان رسول پور کی ادبی خدمات)، (تذکرہ شعرائے منیر، ص101)، (بیاض ڈاکٹر طیب ابدالی)
مولانا کے خاندانی پسِ منظر کی طرف اگر توجہ دی جائے تو آپ سے دو چھوٹے بھائی تھے جن کا نام احمد اور مقیم تھا، اسی طرح آپ کے دو صاحبزادے پہلے حکیم سید محمد جن کے صاحبزادے سید عبدالقوی ہاشمی اور دو صاحبزادیاں ہوئیں، ان کا انتقال تقریباً 1962ء میں ہوا اور دوسرے صاحبزادے مولانا سید احمد ندوی جن کے چار صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں ہوئیں، ان کا انتقال تقریباً 1977ء میں ہوا، ان کے بڑے صاحبزادے پروفیسر سید عبدالباقی عثمانیہ یونیورسیٹی، حیدرآباد میں کمسٹری کے استاد ہوئے، اس وقت مولانا کا خاندان پاکستان اور پھر وہاں سے ہجرت کرکے امریکہ اور کنیڈا میں آباد ہے۔
آپ کا انتقال جمعہ کے دن 29 صفرالمظفر 1355ھ موافق 21 مئی 1936ء کو ہوا، مزار کاکو کے بقا نگر میں آستانہ حضرت عبدالغنی میں واقع ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.