تبصرہ : ’’مخ المعانی‘‘ کا پس منظر
کتابیں محض کاغذ، قلم اور سیاہی کا امتزاج نہیں ہوتیں، بلکہ یہ ایک زندہ اور متحرک تہذیب، علم، حکمت، عرفان اور روحانیت کا آئینہ ہوتی ہیں، یہ انسانی شعور کی ارتقائی منازل کی گواہ ہوتی ہیں اور ذہن و دل کو جلا بخشنے کا ایک دیرپا ذریعہ بن جاتی ہیں، ایک مہذب قوم وہی ہوتی ہے جو اپنی کتابوں سے رشتہ جوڑے رکھتی ہے، کیوں کہ کتابیں ماضی کے تجربات، حال کی بصیرت اور مستقبل کی رہنمائی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔
ہر قوم کی علمی، فکری اور روحانی شناخت کا تحفظ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب وہ اپنی ماضی کی وراثت کو دل و جان سے سنبھالے، اسلاف کی نگارشات، ان کے ملفوظات، فکری نقوش اور روحانی اشارات محض الفاظ نہیں، بلکہ ان کے قلوب و اذہان کے فیضان کا مظہر ہوتے ہیں، ان گراں قدر علمی خزینوں کو آئندہ نسلوں تک پہنچانا صرف علمی یا ادبی ذمہ داری نہیں، بلکہ ایک دینی، روحانی اور تہذیبی فریضہ ہے، جو بصیرت و اخلاص کے بغیر ادا نہیں کیا جا سکتا۔
خوش نصیبی یہ ہے کہ ہمارے عہد میں بھی کچھ ایسے علم پرور، صاحبِ نظر اور خدا مست افراد موجود ہیں جو اس کام کو اپنا مشن بنا چکے ہیں، انہی افراد میں محترم محمد ایازالدین سلیم الدین (خلدآباد) کا اسمِ گرامی بھی ہے، جنہوں نے صوفیائے کرام کے مکتوبات، ملفوظات، ارشادات اور نایاب علمی دستاویزات کو تحقیق، ترجمہ اور تشریح کے مراحل سے گزار کر زندہ جاوید بنا دیا ہے، ان کی یہ خدمات نہ صرف علمی اور فکری دنیا کے لیے ایک قابلِ قدر تحفہ ہیں بلکہ عوام الناس کے لیے بھی روحانی پیاس بجھانے کا ایک وقیع ذریعہ ہیں۔
اسی سلسلے کی ایک سنہری کڑی حضرت امیر حسن علا سجزی کی نادر و نایاب تصنیف مخ المعانی ہے، جسے حضرت برہان الدین غریب اکیڈمی، خلدآباد نے اردو قالب میں شائع کیا ہے، اس ترجمے کی اشاعت ایک عظیم علمی خدمت ہے، جس کی قدر و قیمت صرف وہی جان سکتا ہے جو روحانی متون کے ذوق و فہم سے بہرہ ور ہو، اس کتاب کی اصل حیثیت اس وقت اور بھی زیادہ روشن ہو جاتی ہے جب یہ معلوم ہو کہ مصنف خود حضرت نظام الدین اؤلیا کے مرید و مجاز ہیں اور ’’فوائدالفواد‘‘ کے جامع بھی، جاننا چاہیے کہ ’’مخ المعانی‘‘ حضرتِ مخدومِ جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے ملفوظات کا نام نامی بھی ہے، —یہ وہ عظیم روحانی شخصیت ہیں جن کا علمی و عرفانی فیض صدیوں سے برصغیر کی روحانی فضا کو معطر کر رہا ہے۔
مخ المعانی نہ صرف تصوف کا ایک مستند اور گہرا مطالعہ ہے، بلکہ عشقِ الٰہی، سلوکِ طریقت اور معرفتِ ربانی کے اسرار و رموز کا ایک ایسا نایاب ذخیرہ ہے جس میں قاری کو ہر صفحے پر ایک نیا روحانی فتح الباب نظر آتا ہے، یہ کتاب 36 ابواب پر مشتمل ہے اور نثر و نظم کا ایسا حسین امتزاج ہے جو قلب و نظر کو بیک وقت سیراب کرتا ہے، ہر باب میں تصوف کے لطیف نکات، حکایات، تمثیلات اور اشعار کے ذریعے نہ صرف تعلیم دی گئی ہے بلکہ قلوب کو نرمی، تحمل، توجہ، مراقبہ اور عشق کی طرف مائل کیا گیا ہے۔
کتاب میں شامل فارسی اشعار ایک طرف زبان کی لطافت اور تہذیبی ذوق کی نمائندگی کرتے ہیں، تو دوسری طرف روحانیت کے ان مدارج کی نشان دہی بھی کرتے ہیں جنہیں الفاظ سے زیادہ ذوقِ سلیم سمجھتا ہے، مترجم نے اصل فارسی متن کے ساتھ اردو ترجمہ شامل کر کے اس بات کا خاص اہتمام کیا ہے کہ مفہوم میں کسی قسم کی کمی، ابہام یا تحریف نہ آنے پائے اور قاری اصل عبارت کے ذائقے اور شان سے محروم نہ رہے۔
بعض اہلِ علم نے اس کتاب کو شیخ جمال الدین ہانسوی کی عربی تصنیف ملہمات کے ہم پلہ قرار دیا ہے، جس سے اس کے علمی وقار اور روحانی مقام کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، تقریباً 180 صفحات پر مشتمل یہ کتاب صرف مطالعے کے لیے نہیں، بلکہ غور و فکر، تربیتِ باطن اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بہترین رفیق ہے، یہ کتاب محض تحریر نہیں بلکہ ایک سفر ہے، باطن کی گہرائیوں میں جھانکنے کا، حقیقت کی روشنی میں خود کو سنوارنے کا اور عشقِ حقیقی کے سفر میں آگے بڑھنے کا۔
مخ المعانی کی اشاعت کو ہم محض ایک علمی اقدام نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ ایک ایسا روحانی کارنامہ ہے جس کی روشنی صدیوں تک علم و عرفان کے مسافروں کی راہ روشن کرے گی، اس تصنیف کا مطالعہ ہر اس طالبِ حقیقت کے لیے ضروری ہے جو تصوف، سلوک اور عشقِ الٰہی کی راہوں میں بصیرت و شعور کے ساتھ قدم رکھنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مترجم، ناشر اور معاونین کی ان پرخلوص کوششوں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور اس کتاب کو طالبانِ معرفت، محبانِ اؤلیا اور سالکانِ راہِ حق کے لیے چراغِ راہ بنائے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.