مقدمہ : ’’سرمۂ بینائی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ
دلچسپ معلومات
حضرت شاہ اکبر داناپوری کا رسالہ ’’سرمۂ بینائی‘‘ کا تفصیلی مطالعہ۔
’’سرمۂ بینائی‘‘حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعُلائی داناپوری کی اردو زبان میں لکھا ہوا پچیس ؍تیس صفحات پر مشتمل ایک مشہور و معروف رسالہ ہے، اس میں صوفیانہ عقائد مثلاً وحدت الوجود، توحید، فنافی الذات، فنافی الصفات، حقیقت النفس اور توبہ جیسے مہتم بالشان عنوانات کو نہایت اختصار و جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، سچ تو یہ ہے کہ دریاکو کوزہ میں بند کردیا ہے، سہل البیانی اور اثر و جاذبیت اس کا طرۂ امتیاز ہے، خیالات و نظریات کی تائید میں جابجا روشن مثالیں اور موقع محل کے اعتبار سے فارسی کے حسین و دلکش اور برجستہ اشعار پیش کیے ہیں۔
وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالقِِ حقیقی کی ہی مختلف شکلیں اور خالقِِ حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہیں، صوفیہ نے توحید کی چند قسمیں اور درجات بیان کیے ہیں، وہ یہ ہیں۔
اول توحیدِ شریعت
دوم توحیدِ طریقت (افعالی،صفاتی،ذاتی)
سوم توحیدِ حقیقت (اس کے ۹؍ مراتب ہیں)
چہارم توحیدِ معرفت (ازلی،قدمی،الٰہی)
بعض صوفیہ نے توحید کی قسمیں وجودی، شہودی، عینی اور ظلی بتائی ہیں۔
وحدت الوجود اور وحدت الشہود تصوف کے نظریے ہیں، نظریۂ وحدت الوجود شیخِ اکبر ابن عربی نے پیش کیا اور حضرت مجدد الف ثانی تک بڑے بڑے اؤلیا و اصفیا اس نظریے کے قائل تھے، جبکہ وحدتِ الشہود حضرت مجدد الف ثانی نے پیش کیا۔
وحدت الوجود یعنی ہمہ اوست (Pantheism) کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا کائنات ہے اور کائنات خدا، اس سے زیادہ نہ کم۔
وحدت الوجود کی خصوصیت یہ ہے کہ توحید الٰہی کے غلبہ، سُرور اور کیفیت کے دوران میں سالک وجدانی طور پر ذاتِ الٰہی میں ایسا محو و مستغرق ہوتا ہے کہ وجود باری تعالیٰ کے علاوہ اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
صوفیہ سب سے زیادہ توحید کے مبلغ ہوتے ہیں وہ اپنے محبوبِ حقیقی کی معرفت حاصل کرکے اسے اپنے اپنے انداز میں دوسروں تک پہنچاتے ہیں، ان کا مقصد توحید کے حوالے سے وحدت الوجود کا درس دینا اور وحدت الشہود کے ذریعہ دوسروں تک اللہ کی وحدانیت پہنچانا ہے، سلسلۂ نقشبندیہ کے صوفیہ وحدت الشہود کے قائل ہیںجب کہ سلسلۂ چشتیہ نے وحدت الوجود کو اپنایا ہے جسے فارسی زبان میںہمہ اوست کہا جاتا ہے۔
حضرت شاہ محمد اکبرؔ ابوالعلائی داناپوری ایک نقشبندی ابوالعلائی صوفی ہیں مگر ان کا رجحان سلسلۂ چشتیہ کی طرف کافی تھا، اس لیے انہوں نے نظم و نثر میںوحدت الوجود کے نظریے کی تبلیغ کی ہے اس لحاظ سے وہ ایک وجودی صوفی تھے۔
ابن عربی کو اس فلسفہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے، آپ اپنی کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’وجود ایک حقیقت ہے اس لیے ذاتِ باری تعالی کے سوا کچھ باقی نہ رہا، چنانچہ نہ کوئی ملا ہوا ہے اور نہ کوئی جدا ہے، یہاں ایک ہی ذات ہے جو عین وجود ہے، اگرچہ مخلوق بظاہر خالق سے الگ ہے لیکن با اعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے، یہ سب ایک ہی حقیقت سے ہیں، نہیں بلکہ وہی حقیقت واحدہ اور وہی ان سب حقائق میں نمایاں ہے‘‘
در اصل یہ فلسفہ ابن عربی کا اپنا تخلیق کردہ نہیں ہے بلکہ اسلام سے بھی پہلے دیگر مذاہب میں خصوصاً ہندو مت میں چلا آرہا ہے، بلکہ کئی صوفیہ ابن عربی سے پہلے خدا کی ذات با الفاظِ دیگر مسئلہ توحید کے حوالے سے اس قسم کے نظریات رکھتے تھے۔
ایران کے منصور حلاج نے بغداد و بصرہ میں حضرت جنید بغدادی سے چھ سال فیض حاصل کیا تھا اور حج بیت اللہ کے بعد اسی نظریے کے مطابق ’’اناالحق‘‘ کے نعرے بازاروں میں لگایا کرتے تھے جس کا مطلب خود خدا ہو جانا اور خدا سب کچھ ہونا تھا، چنانچہ ان کا کہنا تھا کہ
’’اللہ زمین پر انسانی صورت بدل کر نازل ہوا، میرے اور میرے خدا کے درمیان میری اناحائل ہے‘‘
ہندوستان میں بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے جس میں حضرت ملا محب اللہ صابری الہ آبادی کا ’’رسالہ در وحدت وجود ابنِ عربی‘‘ اور ’’مکتوبات‘‘ شامل ہیں جو انہوں نے دارا شکوہ کو لکھے تھے۔
اس کے علاوہ حضرت شاہ عبدالرحمٰن چشتی لکھنوی کی ’’کلمۃ الحق‘‘، حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی کی ’’فیصلہ وحدت الوجود والشہود‘‘، حضرت مولانا عبدالعلی لکھنوی کی ’’وحدت الوجود‘‘، حضرت حاجی امداداللہ مہاجرِ مکی کا ’’رسالہ در بیان وحدت الوجود‘‘، حضرت شیخ محمد محدثِ تھانوی کی ’’وحدت الوجود والشہود‘‘، حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی کی ’’الروض المجود‘‘، حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا’’القول المسعود المحمود فی مسئلۃ وحدت الوجود‘‘، مولانا سید علی سکندرآبادی کا ’’رسالۂ محمود‘‘، مولانا آلِ حسن موہانی کا ’’رسالہ وحدت وجود‘‘ اور حضرت مہر علی گولڑوی کی کتاب ’’کلمۃ الحق‘‘ وغیرہ قابلِ قدر ہے۔
’’سرمۂ بینائی‘‘ پانچ فصلوں پر مشتمل وحدت الوجود کے موضوع پر ایک قیمتی اور نادر نسخہ ہے جس میں قرآن و حدیث، واقعات و حکایات اور حضرت اکبرؔ کے پند و نصائح وغیرہ شامل ہیں، اس میں حضرت اکبرؔ نے جابجا فارسی اشعار اور کئی مَثل بھی نقل کیے ہیں، بزرگوں کے اقوال و اقتباسات اور حضرت امام محمد غزالی کے حوالے اور اقتباسات سے بھی یہ رسالہ بھرا پڑا ہے۔
’’سرمۂ بینائی‘‘ کی پہلی اشاعت ۲۴ ؍صفحات پر مشتمل، محمد تیغ بہادر کے زیرِ اہتمام مطبع انوارِ محمدی، لکھنؤ سے۱۳۰۰ھ کے قریب ہوئی، جبکہ حضرت اکبرؔ نے ۱۲۹۵ھ میں یہ رسالہ تحریر فرما دیا تھا، اس کے سرورق پر عبارت اس طرح ہے۔
’’وَ فِیْ اَنْفُسِكُمْ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ ابوالعُلائیوں کو مژدہ کہ رسالہ مشاہدۃ الوجود فی مراۃ الموجود، المعروف بہ سرمۂ بینائی المسمیٰ بہ تجلی۔ تصنیف شاہ سیّد محمد اکبر صاحب ابوالعُلائی عم فیضہٗ۔ باہتمام عاجز محمد تیغ بہادر، مطبع انوار محمدی واقع لکھنؤ طبع شد‘‘
اس کی غرض و غایت سے متعلق صاف ظاہر ہے کہ یہ رسالہ حضرت مولانا شاہ محمد قاسم ابوالعلائی داناپوری کے ارشادات کا خلاصہ ہے، جس میں بعض سطریں حضرت مخدوم شاہ محمد سجاد پاک نے بھی بعد میں بڑھوائیں ہیں، اس سلسلے میں خود حضرت اکبرؔ کی رائے سن لیجیے۔
’’چوں کہ مجھے حضرت عمِ اقدس، پیر و مرشد برحق، مولانا و سیّدنا، سیّد شاہ محمد قاسم ابوالعُلائی رضی اللہ عنہٗ نے اس مسئلہ کے بعض رشحات بعض اوقات میں تعلیم فرمائے تھے، لہٰذا میں نے اکثر وارداتِ قلبی اپنے ایک جز میں جمع کر لیے تھے۔
اب حسبُ الحکم حضرت والد ماجد مولانا شاہ محمد سجاد رضی اللہ عنہٗ چند مقاصد اور زیادہ کر دیے گئے چوں کہ یہ مختصر رسالہ ایسی ذات جامع الصفات کے ذکر شریف پر شامل ہے جو باوجود وحدت و یکتائی ہر نام و صفت سے جلوہ فرما ہے‘‘(ص؍۲۲)
اس کتاب کی اشاعت کی طرف اہلِ کڑا (کوشامبی) کےباذوق افراد خاص طور سے وحیدؔ الہ آبادی کے عم زاد بھائی اور عدالتِ لکھنؤ کے ممتاز وکیل مولانا محمد رفیع الدین لکھنوی کی فارسی تقریظ اور مولانا حکیم محمد قاسم یار قمر،ؔ مولانا خواجہ حسنؔ، محمد ابو سعید کڑوی اور شیخ ریاض الدین ابوالعُلائی ہلالؔ اکبرآبادی، مولانا نثارؔ علی ابوالعُلائی اکبرآبادی کی قطعۂ تاریخِ طبع شامل ہیں اور آخر میں سلطنتِ عثمانیہ کے خلیفہ سلطان عبدالحمید خاں ثانی کے لیے دعائیہ کلمات اس طرح لکھے گئے ہیں۔
’’اور نعمتِ دنیاوی صیغۂ۔۔۔ جلال عطا کرے اور ہمارے قبلہ و امان، ہادی۔۔۔کردست پرستی۔۔۔ جنابِ معلیٰ القاب۔۔۔سلطان ابن السلطان۔۔۔ عبدالحمید خاں غازی ایدی المعلیٰ۔۔۔ کو حوادثاتِ ملکی سے صفوف اور نشاطِ دوام سے مخطوظ رکھ کر توفیق عدل و دین ۔۔۔و مرحمت حمایتِ اسلام و ملک گستری عطا فرمائے، شجرۂ مبارک شریعت اُن کے سحابِ اعانت و خدمت سے معمور و شاداب اور ۔۔‘‘
واضح ہوکہ ’’سرمۂ بینائی‘‘ کی دوسری اور تیسری اشاعت حضرت اکبرؔ کے مرید اور حضرت شاہ محمد محسنؔ ابوالعُلائی داناپوری کے مجاز شاہ عبدالحلیم ابوالعُلائی اکبری ہلسوی کے زیرِ اہتمام مطبع سلیمی، الہ آباد سے ۲۶ ؍صفحات پر مشتمل ۱۳۵۶ھ میں ہوئی، اس میں پہلی اشاعت کے بہ نسبت فرق صرف اتنا ہے کہ دیگر شعرا کے قطعۂ تاریخِ طبع اور تقریظ اور کچھ الفاظ و عبارت حذف کر دیے گئے ہیں، سرورق پر عبارت اس طرح ہے۔
’’وَ فِیْ اَنْفُسِكُمْ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ ابوالعُلائیوں کو مژدہ کہ رسالہ مشاہدۃ الوجود فی مراۃ الموجود، المعروف بہ سرمۂ بینائی المسمیٰ بہ تجلی۔ من ارشاداتِ فاضلِ اجل، مرشدِ کامل، پیر و مرشد برحق، حاجی الحرمین الشریفین، حضرت مولانا و سیّدنا شاہ محمد اکبر ابوالعُلائی داناپوری قدس اللہ سرہٗ العزیز۔ باہتمام خادم برادرانِ طریقت، فقیر محمد عبدالحلیم اکبری ابوالعُلائی۔ در مطبع سلیمی واقع الہ آباد طبع شد‘‘
اختلافِ فکر و نظر کے باوجود جو حضرات وحدت الوجود اور اس قسم کے مباحث میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں ضرور اس رسالہ کا مطالعہ کرنا چاہیے، ہم نے اسے بڑے ہی سہل طریقے سے عربی و فارسی عبارات و اشعار کے تراجم، تشریح و توضیح اور اشاریے کے ساتھ شامل کیا ہے تاکہ قارئین کو کسی بھی قسم کی دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، امید ہے کہ اہلِ دل اسے ضرور پسند فرمائیں گے۔
یہ رسالہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور سے اس مرتبہ حضرت شاہ اکبر داناپوری کے سالانہ عرس کے موقع پر شائع ہوئی ہے، قیمت اس کی صرف ۶۰؍ روپے ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.