Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ریڈیو اور قوالی

اکمل حیدرآبادی

ریڈیو اور قوالی

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    کتاب "قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک"سے ماخوذ۔

    ہندوستان میں ریڈیو بیسویں صدی کے ابتدائی دہوں میں پہنچا، یہی وہ زمانہ تھا جب کہ قوالی مذہبی چولا اتار کر تفریحی روپ دھار رہی تھی لیکن ریڈیو نے اس کے بدلتے ہوئے روپ کو ابتداً پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھا، ریڈیو چوں کہ حکومت کے زیرِ اقتدار تھا اور حکومت فنونِ لطیفہ ہو کہ سائنسی تجربات ہر چیز کو عوامی پسند و نا پسند کے تحت نہیں بلکہ سیاسی مصلحتوں کی بنا پر برتتی ہے، لہٰذا ریڈیو پر حکومت کو صرف قوال ہی نہیں بلکہ دیگر مختلف اصناف و موضوعات کے ساتھ بھی انصاف کرنا تھا، اس کے علاوہ یہاں یہ بھی مجبوری تھی کہ اس عہد میں قوالی قطعی طور پر نہ مذہبی خانے میں فٹ ہوتی تھی اور نہ تفریحی، یہ قوالی کی ملی جلی حیثیت کا عہد تھا، چنانچہ ریڈیو اس کے لیے کسی قطعی کالم کے تعین سے قاصر تھا، تاہم سابقہ روایات کے تحت مجبوراً اس کو مذہبی پروگرام کی فہرست میں شامل کیا گیا، ریڈیو پر مذہبی کوٹہ بہت تنگ ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ اس تنگی کے باعث قوالی کو بہت کم موقع دیا جا سکتا تھا، سو بہت کم موقع دیا گیا لیکن اس بارے میں ارباب اقتدار نے بہت بڑی شعوری غلطی بھی کی ہے جس کے مرتکب وہ آج تک ہوتے چلے آ رہے ہیں، انہوں نے ابتدا ہی سے قوالی کی ’’خصوصیاتِ قومی یک جہتی‘‘ کی افادیت اور اہمیت پر غور نہیں کیا، اگر وہ ابتدا اس نکتے کو سمجھ گیے ہوتے تو قوالی مذہبی کالم میں سسکتے رہنے کے بجائے آج تک انتہائی وسیع فن اور قومی یک جہتی کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ تسلیم کر لی جاتی اور اس کے علاوہ آج اس پر مذہبی بحث کی گنجائش بھی نہ رہتی۔

    آج ہندوستان کی تیئس ریاستوں اور مرکز کے زیر نگیں سات علاقوں میں منجملہ چوہتر ریڈیو اسٹیشن ہیں یعنی تمام ریاستوں میں ایک سے زاید اسٹیشن موجود ہیں، آپ دن دن بھر سوئی گھماتے رہیے آپ کو کہیں قوالی کا پروگرام نہیں ملے گا سوائے اس کے کہ بعض اسٹیشنوں پر ہفتے ہیں ایک آدھ بار چند منٹ قوالی کے لیے مختص ہیں، ان میں بھی عام شکایت یہ ہے کہ اول تو گراموفون ریکارڈس ہی بجا دیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار کسی فنکار کو مائک پر آنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے تو اُس کا اوسط اتنا کم ہوتا ہے کہ فنکار سال میں شاید دو تین بارہی ریڈیو اسٹیشن کی صورت دیکھ پاتا ہے، اکثر پروگراموں میں اس کے ٹیپ ہی کو بار بار دہرایا جاتا ہے، یہ سارا تغافل محض اس غلط فہمی کی پیدا وار ہے کہ اربابِ ریڈیو نے قوالی کو مذہبی چیز جانا، اگر وہ اس کو ایک فن تسلیم کرتے اور اس فن میں پوشیدہ قومی یک جہتی کی خصوصیات کا جائزہ لیتے تو یہ فن منوا لیتا کہ ریڈیو پر اس کا اور اس کے فنکاروں کا سب سے زیادہ حق ہے۔

    ایک سب سے بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ خود قوالی کے فنکار بھی ابھی تک قوالی پر مذہبی غلاف چڑھائے رکھنے کے عادی ہیں، انہیں جب کبھی ریڈیو پر موقع دیا جاتا ہے وہ یہاں کوئی مذہبی چیز چھیڑ بیٹھتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی اس روش سے نہ صرف فنِ قوالی کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ وہ خود اپنا آپ نقصان کر رہے ہیں، وہ صرف مسلمانوں کو خوش کر کے زندہ نہیں رہ سکتے، اُنہیں ساری قوم کے لیے کچھ دینا ہو گا، تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنا مطیع کرنا ہوگا، اربابِ ریڈیو اور قوال حضرات کا فرض ہے کہ ریڈیو پر ایسی قوالی کے چلن کو عام کرنے کی کوشش کریں جس میں تمام مذاہب کے لوگوں کی دلچسپی اور تفریح کے سامان ہوں، یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ قوالی کے فنکار فن کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ اپنا معیارِ زندگی بلند کر سکتے ہیں، قوال حضرات کو صرف مسلمانوں کے رحم و کرم پر رہ کر اپنی محدود آمدنی پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے