خواجہ معین الدین حسن چشتی
دلچسپ معلومات
بائیس خواجہ کی چوکھٹ۔ باب17
خواجہ معین الدین چشتی قصبہ سنجر بلاد غور کے رہنے والے تھے اور خواجہ عثمان ہارونی کے مرید و خلیفہ تھے، آپ کے والد بزرگوار کا اسم شریف سید غیاث الدین چشتی تھا، آپ حسنی الحسینی سید تھے، نسب نامہ حسبِ ذیل ہے۔
نسب نامہ : خواجہ معین الدین چشتی بن غیاث الدین چشتی بن کمال الدین چشتی بن نجم الدین طاہر چشتی بن عبد العزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن امام موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن امیرالمؤمنین مولیٰ علی بن ابی طالب۔
خواجہ معین الدین چشتی 537 ہجری میں پید ہوئے، آپ کے والد بزرگوار بڑے متمول اور بافیض بزرگ تھے، آپ نے 552 ہجری میں رحلت فرمائی اس وقت خواجہ معین الدین چشتی کی عمر شریف 15 برس کی تھی والد ماجد کی وفات کے بعد آپ تمام مال و متاع کے مالک ہوئے، ایک میوہ دار باغ بھی آپ کے ورثہ میں آیا، آپ خود درختوں کی حفاظت اور آبپاشی کرتے تھے، ایک روز آپ اپنے باغ میں آبپاشی کر رہے تھے کہ حضرت ابراہیم فندوزی کو آتے دیکھا، آپ فوراً استقبال کے واسطے تشریف لے گئے اور ان کو اپنے ہمراہ لائے اور ایک سایہ دار درخت کے نیچے ان کو بٹھایا اور تازہ عمدہ میوہ توڑ کر ان کی نذر کیا، انہوں نے بھی اپنی جھولی سے شیر مال کا ایک ٹکڑا نکال کر اور اپنے منہ میں چبا کر خواجہ معین الدین چشتی کو عنایت کیا اور آپ نے فوراً اس لقمہ کو بخوشی نوش فرمایا لیا، اس لقمہ کے کھاتے ہی آپ کا قلب روشن ہوگیا اور آپ دولتِ باطنی سے مالا مال ہوگئے، اسی وقت سے دنیا کی چیزوں سے نفرت ہوگئی اور آپ نے اپنا سارا مال و اسباب فروخت کر کے غریبوں اور مسکینوں کو تقسیم فرمایا اور اپنے مکان سے سمرقند کو تشریف لے گئے اور کچھ روز وہاں قیام فرمایا بخارا کی طرف روانہ ہوئے اور بخارا شریف میں حضرت مولانا حسام الدین بخاری سے قرآن مجید اور علومِ ظاہری حاصل کئے اور پھر مرشدِ کامل کی تلاش میں روانہ ہوئے، آخر کار قصبہ ہارون بلاد نیشاپور میں تشریف لائے اور وہاں خواجہ عثمان ہارونی سے بیعت حاصل کی، خواجہ عثمان ہارونی نے تعلیم و تلقین فرماکر اپنی خدمتِ بابرکت میں رکھا، چند ماہ بعد خواجہ عثمان ہارونی خواجہ معین الدین چشتی کو اپنے ساتھ لے کر مکہ شریف روانہ ہوئے اور مکہ شریف پہنچ کر طواف خانہ کعبہ کا کیا پھر خواجہ معین الدین چشتی کا ہاتھ پکڑ کر درگاہِ خداوندی میں التجا کی کہ ’’اے پروردگار میرے اس درویش کو قبول فرما“ فوراً غیب سے آواز آئی کہ ’’ہم نے معین الدین کو قبول کیا“ پھر آپ مدینہ شریف کو روانہ ہوئے جب روضۂ اقدس پر حاضر ہوئے تو خواجہ معین الدین چشتی سے خواجہ عثمان ہارونی نے فرمایا کہ ”اے معین بارگاہِ رسالتِ پناہ میں سلام عرض کرو“ آپ نے با ادب عرض کیا ’’الصلٰوۃ والسلام علیکم یا سیدالمرسلین و خاتم النبین“ فوراً روضۂ منورہ سے جواب آیا، وعلیکم السلام یا قطب المشائخ معین الدین“ پھر خواجہ معین الدین چشتی اپنے پیر و مرشد کے حکم کے موافق روضۂ اقدس کے پائیں با ادب بیٹھ کر درود شریف پڑھنے لگے، یہاں تک کہ رات ہوگئی، بعد نماز عشا آپ نے آرام فرمایا، خواب میں بشارت ہوئی کہ اے معین الدین، یہ حکم رب العالمین، ہم نے تم کو شہنشاہِ دین کیا، تم اپنے مرشدِ برحق سے رخصت ہوکر ہندوستان چلے جاؤ، وہاں کفر و شرک کا بہت زور ہے، بعد نمازِ صبح آپ اپنے پیر روشنِ ضمیر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا خواب بیان کیا، آپ کے پیر و مرشد نے فرمایا کہ
’’اے معین الدین! تمہیں ہندوستان کے ایک شہر کی سیر کراتا ہوں، اپنی آنکھیں بند کرو اور دیکھو جب آپ نے آنکھیں بند کیں تو آپ کے پیر و مرشد نے فوراً اپنی کرامت سے ہندوستان کی سیر کرادی اور پھر دستارِ خلافت عنایت فرمایا کر ہندوستان کو رخصت کیا‘‘
خواجہ معین الدین چشتی اپنے پیر و مرشد سے رخصت ہوکر بغداد شریف میں آئے اور حضرت غوث الاعطم شیخ محی الدین جیلانی کی زیارت سے مشرف ہوئے اور حضرت ضیاؤالدین الخبیب سہروردی اور شیخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں حاضر ہوکر فیض حاصل فرمایا اور پھر بغداد شریف سے ہمدان تشریف لائے اور شیخ ابو یوسف ہمدانی چشتی سے ملاقات فرمائی اور پھر منبریز میں تشریف لائے اور حضرت ابو سعید سے ملاقات فرمائی اور کچھ روز کے بعد سنجار میں تشریف لائے اور مشائخینِ کاملین سے ملاقات فرمائی، اس کے بعد خواجہ معین الدین چشتی سنجار، اصفہان، مہنہ، استرآباد، ہرات، سبزدار (حصار، شادمان) بلخ، غزنی ہوتے ہوئے لاہور میں تشریف لائے اور پھر دہلی میں تشریف لاکر قیام فرمایا، دہلی میں ہزاروں کفار آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے اور راہِ نجات پائی، بہت سے کماروں نے آپ کو تکلیف دینی چاہتی مگر کسی کا بس نہ چلا شہرِ دہلی میں آپ کی بڑی شہرت ہوئی اس کے بعد اجمیر شریف میں تشریف لائے اور سکونت اختیار کی۔
مؤرخہ 10 محرم شریف 561 ہجری کو آپ شہر اجمیر میں تشریف لائے تھے اس وقت اجمیر میں کفر کا غلبہ تھا، بہت سے مندر تھے، بت پرستوں کا مقدس مقام تھا، دور دور سے کفار اس شہر کی تیرتھ یاترا کے لئے آتے تھے، بت پرستوں کو حضرت کا تشریف لانا ناگوار ہوا، حضرت ایک درخت کے سائے کے نیچے تشریف رکھتے تھے کہ ایک کافر آیا اور حضرت سے جھگڑنے لگا اور کہا یہ جگہ اونٹوں کے بیٹھنے کی ہے تم اپنا بستر کہیں اور لگاؤ، یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ
”اے ساربان بد زبان ہم تو یہاں سے اٹھ جاتے ہیں مگر تیرے اونٹ یہاں بیٹھے ہی رہیں گے، یہاں سے ہرگز نہ اٹھیں گے“
پھر آپ اس جگہ سے اٹھ کر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ پہاڑ کے اوپر ایک تالاب کے پاس سایہ دار درخت کے نیچے فروکش ہوئے، اسی جگہ پر حضرت کا چلہ بنایا ہو ہے “اور زیارت گاہِ خاص و عام ہے“ حضرت کے ہمراہیوں میں سے چند لوگ انا ساگر، تالاب کی طرف سیر کو گئے اور دو چار پرندے شکار کر کے لب تالاب بھوننے لگے، اس بات پر وہاں کے برہمن بڑے لڑے جھگڑے اور مارنے مرنے پر آمادہ ہوگئے اس وقت آپ نے فرمایا کوئی شخص ہمارے وضو کا (آفتابہ) یعنی لوٹا لاب میں سے بھر لائے حسب الحکم ایک خادم تالاب میں سے لوٹا بھر لایا، فوراً سارا تالاب خشک ہوگیا اور حضرت کی کرامت سے تالاب کا پانی لوٹے میں سما گیا، اجمیر کے ارد گرد کے تالاب اور کنوئیں سب خشک ہوگئے، یہ دیکھ کر بت پرست بہت گھبرائے اور راجہ کے پاس گئے اور سارا حال، تالاب کے خشک ہونے کا اور اونٹوں کے بیٹھے رہ جانے کا بیان کیا، یہ خبر سنتے ہی راجہ کے ہوش و حواس جاتے رہے اور فوراً سارا واقعہ محل میں جاکر اپنی ماں سے بیان کیا، اس کی ماں نے جواب دیا کہ بیٹا! یہ وہی درویشِ کامل ہیں جن کے آنے کی خبر میں نے فلاں سال اپنی نجوم سے دی ہے، ان درویش کو ہرگز مت ستانا اور ان کے کسی ساتھی کو تکلیف نہ دینا بلکہ ان کا ادب و احترام کرنا، ان کی خوشی میں تیری اچھائی ہے اور ان کی ناراضگی میں تیرے لئے برائی ہے، اگر وہ ناراض ہوگئے تو تیری سلطنت کو زوال آجائے گا اور سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے گا“ رائے پتھورا نے اپنی ماں کی نصیحت نہ مانی بلکہ اپنے گرو گھنٹال جوگی جیپال کو بلایا اور سارا ماجرا بیان کیا، جوگی جیپال بہت بڑا جادو گر تھا، اس کے بے شمار شاگرد تھے جو جادو گری میں ماہر تھے، رائے پتھورا دیو کو اپنے ہمراہ لے کر حضرت کو دیکھنے آیا، راستے میں حضرت کے متعلق کچھ برا خیال کیا، فوراً دونوں آنکھیں سے اندھا ہوگیا، جب یہ خیال دل سے دور کیا تب آنکھوں میں روشنی آئی، اپنے دل میں نادم ہوکر حضرت کی خدمت میں حاضرا ہوا، جس دیو کو اپنے ہمراہ لایا تھا، وہ حضرت کو دیکھ کر فوراً قدموں میں گر پڑا اور سچے دل سے مسلمان ہوگیا، حضرت نے اس پر بڑی شفقت فرمائی اور اس کا نام شادی دیو رکھا، اس کے بعد خواجہ بزرگ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے موافق نواسی برس کی عمر میں اجمیر کے قلعدار سید حسن مشہدی خنگ سوار کی بیٹی سے عقد فرمایا اور دوسرا نکاح ایک راجہ کی بیٹی سے فرمایا، پہلی بی بی عصمت بانو سے تین صاحبزادے تولد ہوئے خواجہ حسام الدین، خواجہ فخرالدین اور خواجہ ابو سعید اور دوسری بی بی امتہ اللہ بانو سے صاحبزادی بی بی حافظ جمال تولد ہوئیں، یہ صاحبزادی خرقۂ خلافت سے مشرف ہوئیں۔
خواجہ بزرگ بعد نکاح کے سات سال تک زندہ رہے اور 97 برس چھ ماہ چھ روز کی عمر میں تعلیم و تلقین اور ہدایت فرماکر بروزِ جمعہ 6 رجب 633 ہجری کو رحلت فرمائی آپ کی وفات کے بعد آپ کے صاحبزادے خواجہ فخرالدین جانشین ہوئے اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی خلیفۂ اعظم ہوئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.