Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی

رکن الدین نظامی

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی

رکن الدین نظامی

MORE BYرکن الدین نظامی

    دلچسپ معلومات

    بائیس خواجہ کی چوکھٹ۔ باب18

    حضرت کا اسم شریف قطب الدین تھا اور خواجہ بزرگ نے بختیار کا خطاب دیا تھا، آپ سید کمال الدین کے فرزند اور خواجہ معین الدین چشتی کے مرید و خلیفہ تھے، آپ کا نسب نامہ یہ ہے۔

    قطب الدین بن کمال الدین احمد بن موسیٰ اوشی بن محمد بن احمد بن اسحاق حسین بن معروف بن احمد چشتی بن رضی الدین بن حسام الدین بن رشیدالدین بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن زین العابدین بن امام حسین بن مولیٰ علی ابن ابی طالب۔

    روایت ہے کہ حضرت کی والدہ ماجدہ کو نصف قرآن شریف یاد تھا اور وہ اکثر قرآن شریف پڑھا کر تیں تھیں آپ اپنی ولایت کی قوت سے بطنِ مادر میں قرآن شریف کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور اکثر رات کو تہجد کے وقت بلند آواز سے اسمِ ذات کا شغل فرمایا کرتے تھے۔

    خواجہ قطب الدین شب دوشنبہ 582 ہجری کو تولد ہوئے، آپ کا وطنِ مبارک بمقامِ اوش ملک فرغانہ تھا، جب آپ تولد ہوئے پہلے سجدہ کیا اور اسم ذات کا شغل فرمایا، آپ نے تولد ہوتے ہی کلمہ طیب پڑھا اور ستر پوشی کا حکم دیا اور فرمایا جلدی غسل دو، اس کیفیت سے لوگ سخت متعجب ہوئے حضرت کی زبانِ مبارک سے جو نکلتا تھا وہ ضرور پورا ہوتا تھا، ڈھائی برس کی عمر میں آپ کے والد بزرگوار کا انتقال ہوگیا اور صرف آپ کی والدہ ماجدہ پرورش فرماتی رہیں، 4 برس کی عمر میں آپ کی والدہ ماجدہ نے بڑی شان و شوکت سے بسم اللہ پڑھائی اور مکتب، مدرسہ میں بھیجا، راستہ میں ایک شخص بزرگ ملے اور انہوں نے ہدایت کی کہ حضرت کو ابا حفض کے مکتب میں داخل کرو وہ بزرگ اور عارف و کامل ہیں، چنانچہ حضرت کو مولانا ابا حفظ کے سپرد کیا پھر وہ بزرگ واپس چلے گئے، تب مولانا نے فرمایا کہ وہ بزرگ مرد حضرت خضر تھے، خواجہ قطب نے بہت تھوڑے عرصہ میں علومِ ظاہری حاصل فرما لیا اور قاضی حمیدالدین ناگوری سے بخوبی تعلیم و تلقین حاصل فرما کر خواجۂ خواجگاں معین الدین چشتی سے بغداد میں بیعت حاصل فرمائی اور حضرت خواجہ بزرگ کے ہمراہ ریاضت شاقہ فرمائی اور پھر خرقۂ خلافت حاصل کیا اور مخلوق کی ہدایت اور تعلیم و تلقین میں مصروف ہوگئے، کچھ عرصہ کے بعد خواجہ بزرگ سے جدا ہوکر سیر و سیاحت فرمائی اور بزرگان کی صحبت بھی حاصل کی، جب خواجہ بزرگ اجمیر شریف میں مقیم ہوگئے تو آپ بغداد شریف سے اپنے سپرد مرشد کی ملاقات کے واسطے روانہ ہوئے، کچھ روز ملتان میں قیام کیا اور بزرگوں سے ملاقات کی پھر شہر دہلی میں تشریف لائے اور ایک عرضی شوق خواجہ بزرگ کی خدمت میں گذاری خواجہ بزرگ نے عرضی کے جواب میں لکھا کہ ”قرب روحانی کو بعد مکانی ہر گز مانع نہیں ہے‘‘ تم کو دہلی میں مقیم رہنا چاہیے چنانچہ خواجہ قطب دہلی ہی میں مقیم ہوئے، سلطان شمس الدین التمش بادشاہ نے حضرت کی بڑی تعظیم و تکریم کی، خود نہایت احترام کے ساتھ استقبال کیا اور اپنے شہر میں رہنے کی التجا کی، سلطان ہفتے میں دو مرتبہ حضرت کی زیارت کے لئے حاضر ہوا کرتا تھا، خواجہ قطب مسجد اعزالدین میں تعلیم و تلقین اور ہدایت فرمایا کرتے تھے، ایک عالم آپ کے فیض روحانی سے مشرف ہوا، شہر کے تمام امرا بزرگان اور علما آپ سے عقیدت رکھتے تھے۔

    روایت ہے کہ خواجہ قطب جس کو مرید کرتے تھے، اس کو کامل کرتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ فقرا کی خدمت کرنا، بادشاہوں اور امیروں سے دور رہنا جس کو آپ تعلیم و تلقین فرماتے وہ اس پر عمل کرتا، خواجہ قطب نے سب سے پہلے بابا فرید گنج شکر کو مرید فرمایا اور تعلیم و تلقین فرمائی، جب خواجہ بزرگ نے بابا فرید گنج شکر کو خواجہ قطب کی خدمتِ اقدس میں دیکھا تو فرمایا کہ بابا بختیار! تونے بڑے شاہباز کو قید کیا جس کا آشیانہ سدرۃ المنتہیٰ ہوگا، یہ فرید شمع ہے اس سے ہمارا خاندان روشن اور منور ہوگا، ایک روز خواجہ قطب چنڈول میں سوار ہوکر شہر کے باہر جارہے تھے، جب اس جگہ پر پہنچے جہاں پر روضۂ عالیہ ہے، چنڈول سے اتر کر تھوڑی دیر مراقبہ فرمایا اور پھر فرمانے لگے کہ مجھے اس زمین سے بوئے محبت آتی ہے، اس کے بعد آپ نے زمین کے مالک کو بلا کر اس زمین کو خرید لیا اور اسے منہ مانگے دام عنایت فرما دیئے اور فرمایا کہ میرا مزار اسی جگہ ہوگا۔

    روایت ہے کہ خواجہ قطب اکثر گریہ و زاری میں مشغول رہا کرتے تھے اور حجرے کا دروازہ بند کر لیا کرتے تھے اور کوئی شخص حضرت کے پاس آ نہیں سکتا تھا، حجرے کے باہر سے لوگ چیخا کرتے تھے کہ یا حضرت جمال جہاں آرا سے ہم تشنگان دیدار کو سیراب کیجئے آخر خادم مجبور ہوکر حضرت کی خدمت میں عرض کرتے کہ لوگ آپ کی زیارت کے واسطے باہر کھڑے ہوئے ہیں اور بے تاب ہو رہے ہیں، اس وقت آپ سرد آہ بھر کر اندر آنے کی اجازت دیتے اور حجرے کے صحن میں کھڑے ہوکر لوگوں کو شفقت و محبت کی نظر سے دیکھتے اور خادم سے ارشاد فرماتے کہ سب کو ایک پیالہ پانی کا دو، جب تک لوگ پانی پیتے رہتے، آپ تعلیم و تلقین اور وعظ فرمایا کرتے تھے اور پھر سب کو رخصت کر کے بدستور حجرۂ مبارک بند کر کے یادِ الٰہی میں مصروف ہوجایا کرتے تھے، جب خواجہ قطب کی عمرِ اخیر ہوئی تو جسمِ مبارک پر کمزوری اور نقاہت کے آثار نمایاں ہوئے۔

    ایک روز قاضی حمیدالدین نے خواجہ قطب سے پوچھا کہ یا حضرت اب تو روز بروز چہرۂ مبارک سے ضعف و نقاہت کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں یہ تو فرمایئے کہ حضور کے بعد جانشین کون ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا کہ بحکم رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنا جانشین فرید گنج شکر کو مقرر کیا ہے اور تمہارا یہ کام ہے کہ وہ جب ہانسی سے دہلی آئیں تو یہ تبرکات جو میرے پیر اور خواجگانِ چشت کے ہیں ان کو دے دینا اور یہ بتا دیا کہ تمہارا مقام اجودھن ہے۔

    10 ربیع الاول کو شیخ علی سنجری کی خانقاہ میں مجلسِ سماع منعقد ہوئی اور تمام بزرگ اور مشائخ جمع ہوئے قوالوں نے شیخ احمد جام کا قصیدہ شروع کیا اور جب اس بیت پر پہنچے۔

    کشتگانِ خنجرِ تسلیم را

    ہر زماں از غیب جانے دیگر است

    تو حضرت کو کیفیت طاری ہوئی اور آپ بے ہوش ہوگئے، آخر کار حالتِ نزاع طاری ہوئی اور مجلس ختم ہوئی قاضی حمیدالدین آپ کو مکان پر لائے اور پھر قوالی شروع ہوئی، اس بیت پر حضرت مرغ بسمل کی طرح تڑپتے تھے، نماز کے وقت کچھ سکون ہوتا تھا اور آپ بخوبی نماز ادا کر لیتے تھے اور پھر وہی حالت طاری ہوجاتی تھی، گزوں اوپر اچھل جاتے تھے اور زور سے نیچے گرتے تھے، الغرض تین روز کے بعد جسمِ مبارک ٹوٹ گیا اور خون کے قطرے ٹپکنے لگے جو خون کا قطرہ ٹپکتا نقش ”اللہ“ ظاہر ہوتا تھا، چوتھے روز ہر بن مو سے صدائے سبحان اللہ جاری ہوئی اور ہر رونگٹا زبان ہوگیا، جب قوالی پہلا مصرع کہتے تو آپ بے جان ہوجاتے جب دوسرا مصرع کہتے تو زندہ ہوجاتے تھے، جس وقت خواجہ قطب آہ کرتے تو قاضی حمیدالدین کہتے کہ کیا غضب کرتے ہوئے، زمین و آسمان کو جلا دو گے ضبط کرو، جب حضرت کو زیادہ تکلیف ہوتی تھی تو قوالوں اور اہلِ مجلس کو بھی سخت تکلیف ہوتی تھی، آخر کار آپ کے احباب نے پہلا مصرع مکرر پڑھا اور اس قدر پڑھا کہ آپ جان بحق تسلیم ہوگئے۔

    خواجہ قطب کے مرید اور خلیفہ حضرت مولانا بدرالدین غزنوی فرماتے ہیں کہ نزاع کے وقت خواجہ قطب کے قدمِ مبارک میری گود میں تھے اور سرِ مبارک قاضی حمیدالدین کے زانو پر تھا اسی حالت میں مجھے غنودگی طاری ہوئی، میں نے دیکھا کہ خواجہ قطب صاحب کی روح نے آسمان کی طرف پرواز کی اور مجھ سے فرمایا کہ اے بدرالدین! دوستانِ خدا مرتے نہیں، جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ خواجہ قطب نے رحلت فرمائی۔

    تاریخِ وفات 14 ربیع الاول 634 ہجری ہے، بعد وفات خواجہ ابو سعید نے کہا کہ خواجہ قطب کی وصیت ہے کہ میرے جنازے کی نماز وہ پڑھائے کہ جس نے کبھی حرام پر ازار نہ کھولا ہو اور عصر کی سنتیں، تکبیرِ اولیٰ اور فرائض نماز کبھی نہ ترک کئے ہوں، آخر کار سلطان شمس الدین التمش بادشاہ نے جو بڑی دیر سے خاموش تھے اور مذکورہ صفات سے موصوف تھے، نماز جنازہ پڑھائی، ایک طرف سے سلطان نے جنازہ اٹھایا باقی تین اطراف سے بہت سے اؤلیا اور مشائخین و علما نے کندھا دیا اور حضرت کو وصیت شدہ مقام پر مدفون کیا، آپ کا مزار شریف دہلی سے گیارہ میل کے فاصلے پر قصبہ مہرولی میں ہے اور زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔

    اسمائے خلفا خواجہ قطب : بابا فریدالدین گنج شکر، سلطان شمس الدین التمش، مولانا بدرالدین غزنوی، قاضی حمیدالدین ناگوری، شیخ علی سنجری، خواجہ احمد صاحبزادہ خواجہ قطب، بابا حاجی ادایہ، مولانا سعید قاضی عماد، شیخ نظام الدین ابوالموئد، شیخ منیرالدین دہلوی، شیخ فریدالدین ناگوری، حضرت دائی من میل، شیخ احمد رئیس، شیخ امام الدین ابدال، شیخ حسن داما، خواجہ حسن خیاط، سید امجد سید زین الدین، شیخ احمد نہروانی، شیخ جلال الدین تبریزی، شیخ احمد ترک نارنولی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے