بابا فریدالدین گنج شکر
دلچسپ معلومات
بائیس خواجہ کی چوکھٹ۔ باب19
حضرت بابا فریدالدین گنج شکر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مرید اور خلیفہ اعظم تھے اور حضرت جمال الدین سلمان خواہر زادہ سلطان محمود غزنوی کے فرزند تھے، آپ کا نسب نامہ یہ ہے۔
بابا فرید گنج شکر ابن شیخ جمال الدین ابن شیخ شعبان ابن شیخ احمد بن شیخ یوسف ابن شیخ محمد ابن شیخ شہاب الدین ابن شیخ احمد المعروف فرخ شاہ کابلی البلخی ابن نصیرالدین محمود نشیمان ابن سلیمان ابن مسعود ابن عبداللہ ابن واعظ الاصغر ابن واعظم الاکبر ابن ابو الفتح ابن سلطان ابراہیم ابن ادھم بلخی ابن سلیمان ابن ناصر ابن عبداللہ ابن امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب شاہ کابلی کابل کے بادشاہ تھے، ان کی سلطنت بڑی وسیع تھی بہت سے بادشاہ ان کے مطیع تھے، جب سلطنت غزنی کا عروج ہوا تو یہ کابل کی سلطنت بھی غزنی میں شامل ہوگئی لیکن فرخ شاہ کابلی کے فرزند ان کا کابل ہی میں رہے، آخر چنگیز خاں ملک کونے خروج کیا اور بڑی بڑی سلطنتوں کو برباد کردیا، خلفائے عباسیہ کی عظیم الشان سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، آخر کار کابل بھی تاراج ہوا، اسی لڑائی میں آپ کے پر دادا بزرگوا شیخ احمد شہید ہوئے اور شیخ شعبان شعیب اپنے اہل و عیال کے ہمراہ کابل سے لاہور میں آئے اور پھر قصور میں تشریف لے گئے قصور کے قاضی نے بڑی خاطر مدارت کی اور بادشاہ کو خبر کی، بادشاہ نے قصبہ کوتھی کی جو شہر ملتان کے قریب ہے، فضائت سپرد کی، اسی جگہ حضرت شعیب کے بیٹے حضرت سلیمان کے ہاں تین فرزند ہوئے۔
اول : شیخ معزالدین محمود
دوم : شیخ فریدالدین مسعود
سوم : شیخ نجیب الدین متوکل
بابا فرید گنج شکر کی ولادت 584 ہجری کو قصبہ کوتھی (کوتھوالی) میں ہوئی، اسی قصبہ میں آپ نے پرورش پائی اور مکتب میں بیٹھے، تھوڑے ہی عرصے میں فارغ التحصیل ہوئے اور قرآن شریف بھی حفط کرلیا پھر آپ ملتان تشریف لے گئے اور مولانا منہاج الدین سے کتاب نافع پڑھنی شروع کی انہیں دنوں میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ملتان میں تشریف لائے اور حسنِ اتفاق سے اسی مسجد میں ٹھہرے جہاں بابا فرید گنج شکر پڑھتے تھے، خواجہ قطب نے پوچھا کہ اے طفل کیا پڑھتا ہے؟ آپ نے عرض کیا کہ میں نافع پڑھتا ہوں، خواجہ قطب نے فرمایا نافع ہوگا؟ بابا فرید گنج شکر پر اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ آپ خواجہ صاحب کے مرید ہوگئے اور آپ کے ساتھ دہلی آنے کو تیار ہوگئے تو خواجہ قطب نے فرمایا کہ ابھی اور علم حاصل کرو، تحصیلِ علم سے فارغ ہوکر بابا فرید بغداد تشریف لے گئے اور شیخ شہاب الدین سہروردی اور سیف الدین باخزری اور شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی وغیرہ بزرگوں سے ملاقات فرمائی اور پھر اپنے پیرومرشد خواجہ قطب کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، خواجہ قطب نے ایک علیٰحدہ حجرہ بابا صاحب کو عنایت فرمایا اور آپ کی تربیت اور تکمیل میں بے حد کوشش فرمائی اور خرقۂ خلافت عنایت فرمایا، سب سے پہلے خواجہ قطب نے بابا صاحب کو طے کے روزہ کی تلقین فرمائی، چنانچہ بابا صاحب نے تین دن کے بعد طے کا روزہ افطار کیا، تھوڑی دیر کے بعد سارا کھانا نگل گیا صبح بابا صاحب خواجہ قطب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا عرض کیا کہ خواجہ قطب نے فرمایا بابا فرید! کل کا کھانا شراب فراش کے گھر کا تھا، خدا کی بڑی رحمت ہوئی جو وہ کھانا پیٹ میں نہ رہا، اب تین دن کے بعد جو غیب سے آئے اسے افطار کرنا، جب تین روز گذر گئے اور کھانا نہ آیا تو بابا فرید نے بھوک کی شدت میں زمین پر ہاتھ مارا اور چند کنکریاں اٹھا کر منہ میں ڈال لیں، وہ فوراً شکر ہوگئیں، جب آپ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے ان کو منہ سے نکال لیا ! اور یہ خیال کیا کہیں شیطانی خطرہ نہ ہو، آدھی رات کے بعد بھوک سے پریشان ہوکر پھر کنکریاں منہ میں ڈالیں وہ پھر شکر ہوگئیں، جب آپ نے خیال فرمایا کہ یہ انعامِ الٰہی ہے، صبح بابا صاحب خواجہ قطب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا، خواجہ قطب نے فرمایا کہ جو کچھ غیب سے ملے وہ بے عیب ہے، اب تم گنج شکر ہوگئے، اللہ پاک نے تمہاری وجہ سے خاک کو شکر کر دیا، چنانچہ اسی روز سے بابا صاحب گنج شکر مشہور ہوگئے۔
بابا فرید گنج شکر خواجہ قطب کی وفات کے وقت ہانسی میں تھے، اپنے پیرومرشد کے انتقال کی خبر سن کر ہانسی سے دہلی تشریف لائے اور خواجہ صاحب کے عطیے تبرکات جو خواجگانِ چشت سے چلے آرہے تھے لے کر ہانسی تشریف لے گئے، یہاں خلقت کا بڑا ہجوم ہنے لگا، اس لیے آپ اپنے وطن قصبہ کوتھی والی میں تشریف لائے، یہاں بھی زائرین کی بڑی کثرت ہوئی، آخر آپ نے لاہور جانا چاہا، اس وقت لاہور چنگیزوں کی ہاتھوں ویران ہوگیا تھا، آخر آپ قصبہ اجودھن میں تشریف لائے، وہاں ایک جادوگر جوگی رہتا تھا، تمام باشندے اس کے معتقد تھے، آٹھویں روز اس کے پاس جاتے تھے اور اس کے لئے بہت سا دودھ لے جاتے تھے وہ جوگی صرف آٹھویں دن دودھ پیتا تھا اور اپنے جادو کے زور سے جتنا دودھ آجاتا تھا سب پی جاتا تھا، اس نے بہت سے جوگ کے درجے حاصل کر لیے تھے اکثر حبس دم بھی کرتا تھا، باوجود ان کمالات کے وہ تشنہ تھا اور یہ چاہتا تھا کہ کسی مسلمان فقیر سے بعض رموز کا حال معلوم کرے اس جوگی کا نام شبھو ناتھ تھا، جب بابا صاحب اجودہن میں تشریف لائے تو اس جوگی کو خبر ہوئی اور وہ اپنے سیکڑوں چیلوں کو لے کر حضرت سے ملنے چلا اور دل میں یہ خیال کیا کہ اگر یہ کامل ہوں گے تو میرے کان کی مندریاں نکل کرگر پڑیں گی، چنانچہ جب وہ حضرت کے سامنے حاضر ہوا تا بابا صاحب نے اپنے کشف سے سارا دل کا حال معلوم کرلیا اور مندریوں کی طرف دیکھا، فوراً نکل کر گر پڑیں پھر جوگی نے خیال کیا کہ اگر ان میں شاخیں نکل آئیں تو جانوں! اس ارادے سے بھی بابا صاحب واقف ہوگئے اور آپ نے دونوں مندریاں اٹھا کر مٹی میں ڈال دیں، فوراً ان میں شاخیں نکل آئیں یہ کرامت دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور حضرت سے کہا کہ میں غائب ہوتا ہوں اگر آپ مجھے ڈھونڈ لائیں تو میں آپ کا مرید ہوجاؤں گا، اس کے بعد اس نے اپنی چادر اوڑھی اور اس کی روح قالب سے نکل کر عالمِ بالا کو پہنچی، اس کا جسم بالکل مردہ ہوگیا، یہ دیکھ کر بابا صاحب نے مراقبہ فرمایا، اس وقت اس کی روح عالمِ ملکوت میں سے گذر رہی تھی، فوراً حضرت کی روحِ مبارک نے اسے روک دیا اور کہا کہ خبردار آگے تیرا گذر نہ ہوگا، یہ مقام اہلِ ایمان کا ہے، اس مقام تک تیرا گذر اس لیے ہوگیا کہ تیرے دل میں اسلام سے محبت تھی، اس کے بعد اس کی روح قالب میں واپس آگئی! اور وہ جوگی بابا صاحب کے قدموں پر گر کر اپنے چیلوں کے ساتھ مسلمان ہوگیا اور حضرت سے بیت کی، بابا صاحب نے اسے تعلیم و تلقین فرما کر اور اس کی تکمیل فرما کے اسے سبستان کی ولایت بخشی اور اسے اس کے مریدوں کے ہمراہ رخصت فرمایا۔
خواجہ قطب کی وفات کے بعد بابا صاحب اجودھن میں آکر مقیم ہوگئے، آپ سخت سے سخت ریاضت و مجاہدہ فرمایا کرتے تھے اور ہمیشہ صائم رہا کرتے تھے، فتوحات اور نذر و نیاز زیادہ ہوتی تھی لیکن وہ سب فقرا کو تقسیم فرمایا کرتے تھے، اہل و عیال کا گذر، پیلو یا کریل کے پھلوں پرہوتا تھا اور وہ بھی پیٹ بھر کر نہ ملتا تھا، اجودھن میں ہی بابا صاحب نے نکاح فرمایا، بابا صاحب کی تین ازواج تھیں، اول بی بی ہزیرہ دختر سلطان غیاث الدین بلبل اور دوسری بی بی سارا، تیسری بی بی شکرویہ یہ دونوں بیویاں سلطان غیاث الدین بلبن کی دختر کے ہمراہ آئیں تھی، بابا صاحب کے چھ صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں جن میں سے شیخ عبداللہ خورد سالی میں شہید ہوگئے تھے، باقی سب صاحبِ اولاد ہوئے۔
جب بابا صاحب کی عمر آخر ہوئی تو پانچویں شبِ محرم کو نمازِ عشا ادا کی اور بے ہوش ہوگئے، جب ہوش آیا تو فرمایا کہ میں نے نماز پڑھی یا نہیں، لوگوں نے کہا پڑھ لی، آپ نے کہا میں دوبارہ ادا کروں گا اور تین بار نمازِ عشا ادا کی اور یاحیُّ یا قیوم کا ورد فرماتے ہوئے جان بحق تسلیم ہوئے، بابا صاحب کی عمر شریف 95 سال کی ہوئی اور تاریخِ وفات شب سہ شنبہ 5 محرم سنہ 670 ہجری ہے۔
بابا صاحب کا مزار شریف پاک پٹن میں ہے اور زیارت گاہِ خاص و عام ہے، بابا صاحب کی وفات کی خبر جب خواجہ نظام الدین اؤلیا کو ہوئی تو آپ اجودھن میں تشریف لائے اور خرقۂ خلافت اور خواجگانِ چشت کے تبرکات آپ کو سپرد ہوئے اور آپ بابا صاحب کے خلیفہ اور جانشین مقرر ہوئے، بابا صاحب کے بے شمار خلفا تھے جن سے مشہور خلفا حسبِ ذیل ہیں،
اسمائے خلفا بابا گنج شکر۔
1۔ سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اؤلیا
2۔ حضرت شیخ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری
3۔ حضرت قطب جمال ہانسوی
4۔ صاحبزادہ بدرالدین سلمان
5۔ صاحبزادہ شیخ شہاب الدین گنج عالم
6۔ صاحبزادہ نظام الدین شہید
7۔ صاحبزادہ شیخ یعقوب
8۔ صاحبزادہ شیخ نصیرالدین
9۔ شیخ بدرالدین اسحاق
10۔ شیخ دہارو
11۔ شیخ زین الدین دمشقی
12۔ شیخ شکر ریزد
13۔ شیخ علی شکر باران
14۔ شیخ علی الحق سیالکوٹی
15۔ شیخ محمد سراج
16۔ شیخ دہنی
17۔ شیخ جمال عاشقِ کامل
18۔ شیخ عارف سیتانی۔
19۔ شیخ ذکریا ہندی
20۔ شیخ صدر دیوانہ
21۔ شیخ جلال الدین
22۔ شیخ رکن الدین
23۔ سید محمود بن سید محمود کرامانی
24۔ شیخ منتخب الدین
25۔ شیخ یوسف
25۔ شیخ برہان الدین ہانسوی
26۔ شیخ محمد شاہ غوری
28۔ مولانا محمد مولہانی
29۔ مولانا علی بہاری
30۔ شیخ محمد نیشاپوری
31۔ شیخ حمیدالدین مکانی
32۔ شہاب الدین بلخی
33۔ عصارہ سیوستانی
34۔ شیخ داؤد پاہتی
35۔ شیخ نجیب الدین متوکل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.