خواجہ نظام الدین اؤلیا
دلچسپ معلومات
بائیس خواجہ کی چوکھٹ۔ باب20
خواجہ نظام الدین اؤلیا، بابا فرید گنج شکر کے خلیفۂ اعظم اور حضرت سید احمد بدایونی کے فرزند تھے، آپ کا نسب نامہ حسب ذیل ہے۔
خواجہ نظام الدین اؤلیا ابن احمد ابن علی بخاری ابن عبداللہ ابن حسین ابن علی ابن احمد ابن ابی عبداللہ ان علی اصغر ابن جعفر حسین ابن علی ہادی ابن محمد جواد ابن امام علی رضا ابن امام موسیٰ کاظم ابن امام جعفر صادق ابن امام محمد باقر ابن امام زین العابدین ابن امام حسین ابن مولیٰ علی ابن ابی طالب۔
محبوبِ الٰہی کے اجداد بخارا کے رہنے والے تھے، آپ کے دادا کا اسمِ شریف خواجہ علی تھا اور آپ کے نانا کا اسمِ شریف خواجہ عرب تھا، یہ دونوں بزرگ بخارا سے ہندوستان تشریف لائے پہلے لاہور میں قیام فرمایا اور پھر بدایوں میں سکونت فرمائی، بدایوں شریف میں دونوں بزرگوں کی اور بھی قرابت ہوگئی، یعنی خواجہ عرب نے اپنی صاحبزادی بی بی زلیخا کی شادی خواجہ علی کے صاحبزادے خواجہ احمد سے کر دی، خواجہ احمد بڑے عالم فاضل اور متشرع تھے، اس لیے بادشاہ نے آپ کو بدایوں کا قاضی مقرر کر دیا اور آپ نے قضات کا کام بہ حسن و خوبی سر انجام دیا۔
انہی دونوں صدف پاک سے خدائے تعالیٰ نے کانِ معرفت و کرامت خواجہ نظام الدین اؤلیا کا ظہور فرمایا، محبوبِ الٰہی بروز چہار شنبہ 27 صفر 434 ہجری کو تولد ہوئے، محبوبِ الٰہی کا نام محمد رکھا گیا، آپ کی والدہ ماجدہ پیار سے نظام بھی کہا کرتی تھیں اور بعد میں حضرت کا نام نظام الدین اؤلیا مشہور ہوا، پانچ سال تک محبوبِ الٰہی والدین کے سایۂ شفقت میں پرورش پاتے رہے، جب آپ کی عمر شریف پانچ سال کی ہوئی تو والد بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور حضور یتیم ہوگئے، حضرت کے والد کے انتقال کے بعد محبوبِ الٰہی اور آپ کی والدہ ماجدہ کو افلاس کا سامنا ہوا، اکثر فاقہ کشی کرنی پڑتی تھی مگر آپ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے، آپ کی والدہ سوت کات کر اپنا اور حضرت کا گذارہ فرماتی تھیں، محبوبِ الٰہی نے اوائلِ عمر ہی میں تعلیم حاصل کرنی شروع کردی تھی، آپ نہایت ذہین اور سنجیدہ مزاج تھے بہت جلد آپ نے علومِ ظاہری کی تکمیل فرمائی اور جب آپ سنِ بلوغ کو پہنچے تو آپ کے استاد کے پاس ایک قوال ابو بکر نامی آیا اور باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ میں شہر ملتان سے آیا ہوں، میں نے اپنا گانا زکریا ملتانی کو بھی سنایا تھا پھر اس ن زکریا ملتانی کی تعریف و توصیف بیان کی، دوران گفتگو میں بابا فرید گنج کا بھی ذکر آیا، قوال نے عرض کیا کہ میں پاک پٹن شریف میں بھی حاضر ہوا تھا، وہ بڑے کامل درویش ہیں، ان کی ذاتِ بابرکات اس وقت سرچشمۂ فیض و کرامت ہے جو جاتا ہے محروم واپس نہیں آتا، میں نے ایسے برگذیدہ بزرگ عمر بھر میں نہیں دیکھے، یہ سن کر محبوبِ الٰہی نے قرار ہوگئے، بس پر کیا تھا، اپنے پیر بابا صاحب کے عشق میں ایسے مستغرق ہوئے کہ ہردم زبان پر بابا صاحب کا نام آنکھوں میں تصور اور دل میں اپنے شیخ کی یاد تھی۔
محبوبِ الٰہی بدایوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے ایک دوست کے ہمراہ دہلی تشریف لائے اور مزید تعلیم حاصل فرمائی، آپ نے دہلی میں کئی سال علم حاصل کیا اور آپ شہرہ آفاق عالم فاضل بن گئے، ایک روز محبوبِ الٰہی پر اپنے پیر بابا فرید گنج کی محبت کا ایسا جذبہ طاری ہوا کہ آپ بے قرار ہوگئے اور فوراً بابا فرید گنج کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بابا صاحب سے بیعت حاصل کی، پھر اپنے مرشدِ کامل سے پوچھا کہ میں مزید تعلیم حاصل کروں یا مجاہدہ میں مشغول ہو جاؤں، بابا صاحب نے فرمایا تعلیم بھی حاصل کرو اور مجاہدہ بھی ترک نہ کرو کیونکہ درویش کو علم اور عمل دونوں کی ضرورت ہے، بیعت کے بعد محبوبِ الٰہی بدایوں تشریف لے گئے اور اپنی والدہ ماجدہ اور ہمشیرہ کو لے کر دہلی میں تشریف لائے اور سکونت اختیار فرمائی، کئی سال آپ دہلی میں مقیم رہے، دہلی میں ہی آپ کی والدہ ماجدہ نے رحلت فرمائی، آپ کوسخت صدمہ ہوا، اس کے بعد آپ نے دریائے جمنا کے کنارے موضع غیاث پور میں سکونت اختیار فرمائی غیاث پور میں محبوبِ الٰہی ترک و تجرید اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے، غیاث پور میں آنے کے بعد حضرت کا اعتقاد لوگوں کے دلوں میں بھی بڑھ گیا، ہزاروں آدمی روز مرید ہونے لگے اور شہر کی نزدیکی کی وجہ سے تمام امرا اور شاہزادے لشکری وغیرہ حاضرِ خدمت ہونے لگے، غرض ایک میلہ سا لگا رہنے لگا۔
محبوبِ الٰہی ہمیشہ صائم رہا کرتے تھے اور افطار کے وقت باسی روٹی کھاتے اگر کچھ نہ ہوتا تو صرف پانی سے ہی افطار کر لیتے تھے، حضرت کی پیرہن حضرت بی بی فاطمہ صام دن بھر سوت کات کر اکلِ حلال کی کمائی سے دو روٹیاں پکاتیں، ایک آپ کھاتیں اور ایک حضرت کے واسطے لاتیں تھیں، یہ روٹی حضرت محبوبِ الٰہی ابلے ہوئے ٹنٹیوں کے ساتھ نوش فرماتے تھے، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ محبوبِ الٰہی کئی کئی روز تک کچھ نہ کھاتے تھے تو خادم عرض کرتے کہ حضور آپ ایک تو افطار کے وقت ہی تھوڑا سا کھانا کھاتے ہیں اگر یہ بھی ترک فرمایا تو ضعف زیادہ ہوجائے گا، یہ سن کر حضور رونے لگے تھے اور فرماتے تھے کہ مسجدوں اور خانقاہوں میں مسکین بھوکے پڑے ہوئے ہیں میرے حلق سے کھانا کیونکر اترے، جاؤ لے جاؤ میں نہیں کھاتا، جب حضرت کے فیض وکرامت سے ہزاروں بندگانِ خدا مشرف ہونے لگے اور فتوحات نذر و نیاز اس قدر ہونے لگی کہ روزانہ ہزاروں کو کھانا تقسیم ہونے لگا اور غیبی فتوحات ایسی ہوئی کہ حضرت کی خانقاہ میں جو آتا خوشحال ہوکر جاتا، زردہ، بریانی قورمہ اور ہرقسم کے لذیذ کھانے لنگر خانے سے تقسیم ہونے لگے اور علاوہ باطنی سخاوت و فیض کے ظاہری سخاوت مال و دولت کی ایسی ہوئی کہ شاہانِ وقت ششدر رہ گئے تو بعض بادشاہ حضرت سے دشمنی کرنے لگے مگر ان سب کو منہ کی کھانی پڑی اور اپنے حسد کی آگ میں خود جل کر فنا ہوئے اور محبوبِ الٰہی اپنی سخاوت کی وجہہ سے زری ذر بخش مشہور ہوگئے، محبوبِ الٰہی کے دہلی میں مقیم ہونے سے لاکھوں کو فیض پہنچا اور لاکھوں مفلسوں اور غریبوں کا بھلا ہوا، لاکھوں نے راہِ نجات حاصل کی اور ولیٔ کامل ہوگئے، جب حضرت کی عمر شریف 91 سال کی ہوئی تو چالیس روز سے آپ پر سخت گریہ طاری تھا، سوائے نماز اور گریہ و زاری کے دوسرا کام نہ تھا، سات روز تک آپ کو اجابت نہیں ہوئی آٹھویں روز آپ نے خواجہ اقبال داروغہ لنگر خانہ کو بلایا اور سب کچھ جو خانقاہ میں تھا فقرا کو تقسیم کرا دیا اور پھر اپنے کپڑوں کی گٹھری منگائی اور اپنے خلفا کی ایک ایک خرقہ اور دستار مرحمت فرمائی اور سند خلافت اور مصلیٰ بھی عنایت فرمایا، اتفاقاً اس وقت حضرت نصیرالدین محمود چراغ دلی موجود نہیں تھے، اس لیے ان کو کچھ عنایت نہیں ہوا، حاضرین مجلس کو خیال ہوا کہ کیا وجہہ ہے کہ وہ محروم رہے، تھوڑی دیر کے بعد حضرت نصیرالدین چراغ دلی کو محبوبِ پاک نے طلب فرمایا اور وہ تبرکات جو خواجگانِ چشت سے سلسلہ بہ سلسلہ چلے آرہے تھے اور بابا صاحب نے محبوبِ الٰہی کو عنایت فرمائے تھے، وہ خاص الخاص عطیے محبوبِ الٰہی نے چراغ دلی کو عنایت فرمائے اور اپنا جانشیں مقرر فرمایا۔
دوسرے روز بعد طلوعِ آفتاب، محب رب العالمین سرچشمۂ فیض و برکات سلطان الاؤلیا، سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اؤلیا نے اس دنیائے نا پائیدار کو چھوڑ کر دارالبقا کی طرف خداوند رب العزت کی حضور میں عروج کیا، یہ حادثہ بروز چہار شنبہ 18 ربیع الثانی 725 ہجری ظہور میں آیا، محبوبِ الٰہی کی تاریخِ وفات جو مسجد علاؤالدین خلجی پر آستانہ مبارک میں کندہ ہے وہ یہ ہے۔
نظام و گیتی شہ ما وطین
سراجِ دو عالم شدہ بالیقین
چو تاریخ فوتش مجستم زغیب
ندادا او ہاتف شہنشاہِ دیں
خواجہ نظام الدین اؤلیا کا مزار شریف شہر دہلی سے تین میل کے فاصلے پر ہے اور درگاہ حضرت سلطان جی کے نام سے مشہور ہے اور زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔
محبوبِ الٰہی کے چالیس ہزار مریدانِ خاص تھے اور بہت سے خلفا تھے جن میں سے خلفائے عظام یہ ہیں۔
1۔ شیخ نصیرالدین محمود چراغ دلی
2۔ حضرت امیر خسرو
3۔ خواجہ ابو بکر مصلیٰ برادر
4۔ شیخ سراج الدین عثمان
5۔ شیخ قطب الدین منور
6۔ شیخ حسام الدین ملتانی
7۔ مولانا جمال الدین
8۔ مولانا خانجی
9۔ مولانا فخرالدین
10۔ مولانا ابوبکر منڈوئی
11۔ مولانا فخرالدین منبروری
12 مولانا علم الدین نیلی
13، شیخ برہان الدین
14۔ مولانا وحید الدین
15۔ مولانا شہاب الدین امام
16۔ قاضی محی الدین کاشانی
17مولانا وحید الدین پاملی
18۔ مولانا فصیح الدین
19۔ مولانا شمس الدین یحییٰ
20 ۔ خواجہ کریم الدین سمرقندی
21۔ شیخ جلال الدین اودھی
22۔ مولانا جمال الدین
23۔ قاضی شرف الدین
مولانا کمال الدین
25۔ مولانا بہاؤالدین
26۔ شیخ مبارک گوپا موی
27۔ خواجہ معزالدین
28۔ مولانا ضیاؤالدین برنی
29۔ شیخ تاج الدین
30۔ مولانا مویدالدین انصاری
31۔ خواجہ شمس الدین ماہرو
32۔ شیخ نظام الدین شیرازی
33۔ خواجہ سالار
34۔ شیخ فریدالدین مدنی
35۔ شیخ علاؤالدین
36۔ شیخ شہاب الدین
37۔ مولانا حجۃ الدین ملتانی
38۔ شیخ بدرالدین قوار
39۔ شیخ رکن الدین چنری
40۔ شیخ عبدالرحمٰن سارنگ پوری
41۔ احمد بدایونی
42۔ شیخ لطیف الدین
43۔ شیخ نجم الدین محبوب
44 شیخ شمس الدین ہادی
45۔ خواجہ یوسف بدایونی
46۔ شیخ سراج الدین
47۔ قاضی شاد علی
48۔ مولانا برہان الدین
49۔ مولانا جمال الدین اودھی
50۔ شیخ نظام الدین مولد
51۔ قاضی عبدالکریم قدونی
52۔ قاضی قوام الدین قدونی
53۔ مولانا علی جاندار
54۔ خواجہ تقی الدین ہارونی
55۔ یوسف حسینی
56۔ حمید شاہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.