Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خواجہ نصیرالدین محمود چراغ دلی

رکن الدین نظامی

خواجہ نصیرالدین محمود چراغ دلی

رکن الدین نظامی

MORE BYرکن الدین نظامی

    دلچسپ معلومات

    بائیس خواجہ کی چوکھٹ۔ باب21

    خواجہ نصیرالدین چراغ دلی، خواجہ نظام الدین اؤلیا کے مرید اور خلیفۂ اعظم تھے، آپ کے والد کا اسمِ شریف سید یحییٰ تھا، آپ حسینی سید تھے، آپ کے دادا سید عبدالطیف ہندوستان میں آکر لاہور میں مقیم ہوئے، آپ کے والد سید یحییٰ لاہور میں پیدا ہوئے اس کے بعد آپ کے دادا نے اودھ میں قیام کیا، اودھ میں آپ کی بڑی قدر و منزلت ہوئی، اودھ ہی میں ؒخواجہ نصیرالدین تولد ہوئے اور جب آپ کی عمر 9 برس کی ہوئی تو آپ کے والد نے رحلت فرمائی اور آپ کی تعلیم و تربیت میں آپ کی والدہ سیدہ بی بی شریفہ نے بڑی کوشش فرمائی، آپ نے نہایت زہد و اتقا سے بخوبی تعلیم حاصل فرمائی، آپ بچپن سے ترک و تجرید اور نفس کشی فرماتے تھے، آپ ہمیشہ صائم رہتے تھے، آپ نے کسی وقت کی نماز قضا نہیں کی، ہمیشہ نمازِ باجماعت ادا فرماتے تھے، آپ نے سخت ریاضت و مجادہ فرمایا اور چالیس برس کی عمر میں دہلی تشریف لائے اور محبوبِ الٰہی کی بیعت و خلافت سے مشرف ہوئے، اس وقت محبوبِ الٰہی دریائے جمنا کے کنارے خانقاہ موضع غیاث پور میں مقیم تھے اور خواجہ نصیرالدین اکثر اپنے پیر ومرشد محبوبِ الٰہی کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔

    آپ پر محبوبِ الٰہی کی بڑی شفقت و عنایت تھی، آپ کبھی کبھی محبوبِ الٰہی سے اجازت لے کر اپنی بڑی بہن سے ملنے اودھ تشریف لے جایا کرتے تھے، وہاں زائرین کی اس قدر کثرت ہوتی تھی کہ آپ کی مشغولی میں فرق پڑتا تھا، ایک روز آپ نے محبوبِ الٰہی کے خلیفۂ خاص حضرت امیر خسرو سے کہا کہ تم حضرت سے سفارش کرو کہ جب میں اودھ جاتا ہوں تو میری مشغٖولی میں کمی آتی ہے، اگر آپ کا فرمان ہو تو میں جنگل میں رہ کر عبادت حق میں مشغول رہوں، امیر صاحب نے محبوبِ الٰہی سے عرض کیا کہ تو آپ نے فرمایا کہ تجھے مخلوق میں رہنا ہوگا، ان کی جور و جفا اٹھانی ہوگی اور مکانات کے بدلے عطا کرنی ہوگی، اس کے بعد محبوبِ الٰہی نے خواجہ نصیرالدین چراغ دلی کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ تیرے دل میں کیا ہے اور جنگل میں رہنے سے تیرا کیا مقصد ہے اور تیرے والد کیا کام کرتے تھے، آپ نے عرض کیا کہ میرا مقصد آپ کی عمر کی زیادتی ہے اور درویشوں کی کفش برداری ہے، میرے والد پشمینہ کی تجارت کرتے تھے، اس کے بعد محبوبِ پاک نے فرمایا اچھا سنو! جب میں اجودھن میں اپنے شیخ بابا صاحب کی خدمت میں حاضر تھا تو ایک روز میرا ایک دوست جو زمانۂ طالب علمی میں میرا ہم سبق تھا آیا اور مجھ کو پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر کہنے لگا، مولانا نظام الدین تمہاری یہاں کیا حالت ہے؟ اگر تم کسی شہر میں تعلیم دیتے تو مجتہدِ زمانہ ہوجاتے اور مال و دولت کی کوئی کمی نہیں رہتی، میں یہ بات سن کر خاموش رہا اور معذرت کر کے اپنے پیر کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے پیر نے سارا واقعہ اپنے کشف سے معلوم کر لیا اور مجھ سے کہا کہ مولانا نظام الدین! اگر کوئی تمہارے دوستوں میں سے تمہیں دیکھے اور پوچھے کہ تمہاری ایسی خشحالت کیوں ہے؟ تو تم کیا جواب دوگے؟ میں نے عرض کیا کہ جو مرشد کا حکم ہو، اس کے بعد بابا صاحب نے فرمایا یہ بیت پڑھ دینا۔

    نہ ہمری تو مرا خویش گیرد برو

    ترا سعادت باد امر انگون ساری

    اس کے بعد بابا صاحب نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ ایک خوان کھانے کا آراستہ کر کے باورچی خانہ سے لاؤ، اسی وقت خوان لایا گیا اور آپ نے مجھے حکم دیا کہ اس خوان کو اپنے سرپر رکھو اور اپنے دوست کے پاس لے جاؤ، جب میں اپنے دوست کی قیام گاہ پر گیا تو وہ مجھے دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور خوان میرے سر سر اتار کر پوچھا یہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا کہ میری ملاقات کا حال بذریعہ کشف بابا صاحب کو معلوم ہوگیا، مجھ سے بابا صاحب نے پھر ساری کیفیت پوچھی اور تمہارے سوال کا جواب اس بیت سے دیا ہے اور یہ خوان تم کو بھیجا ہے، یہ سن کر میرے دوست نے کہا الحمد للہ آپ کو ایسے بزرگ شیخ ملے ہیں، یہ سرگذشت بیان فرما کر محبوبِ الٰہی نے چراغ دلی کو ریاضت و مجاہدہ کی تلقین فرمائی، اس کے بعد چراغ دلی اپنے پیر و مرشد کے حکم کے موافق مخلوق میں رہ کر سخت عبادت و ریاضت اور مجاہدہ کرنے لگے۔

    ایک روز حضرت بعدِ نمازِ ظہر حجرہ میں مشغول تھے، بالکل اکیلے تھے اور مراقبہ میں سر جھکائے بیٹھے تھے کہ تراب نام ایک قلندر جو آپ کا بڑا دشمن تھا، موقع پا کر حجرے میں گھس گیا اور حضرت کو چھرے سے زخمی کر دیا، گیارہ زخم چھرے کے لگار کر یہ سمجھا کہ حضرت کا انتقال ہوگیا اور وہاں سے نکل کر بھاگا، آپ کے مریدوں نے اسے گرفتار کرلیا اور حضرت کے روبرو لائے اور چاہا اسے سزا دیں مگر آپ نے زخمی ہونے کی حالت میں فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو اور آپ نے اسے بہت کچھ دے کر رخصت کیا اور اپنے مریدوں سے فرمایا کہ اگر اسے تکلیف دی جاتی تو میرے شیخ کے حکم کے خلاف ہوتا، کیا تعجب ہے کہ اس کا بھی ہاتھ دکھا ہو۔

    محبوبِ الٰہی کی رحلت کے بعد چراغ دلی جانشیں ہوئے اور آپ کو دہلی کی ولایت ملی، حضرت نہایت سخت مجاہدہ کرتے تھے اور ہمیشہ عبادت و ریاضت مخلوق کی ہدایت اور تعلیم و تلقین میں مصروف رہتے تھے، بعض علما مثلاً عمر سمرقندی اور علی قندھاری حضرت سے حسد کرتے تھے اور موقع پا کر سلطان محمد تغلق کو جو مشائخ سے سخت دشمنی کرتا تھا بہکاتے تھے، ایک روز بادشاہ نے حضرت کو دعوت کے حیلے سے بلوایا اور سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا سامنے رکھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر حضرت نے ان برتنوں میں کھانا کھا لیا تو شرعی طور پر باز پرس کریں گے اور اگر کھانا نہ کھایا تو کہیں گے کہ آپ نے بادشاہ کی توہین کی غرض ہر طرح پریشان کرنے کا مقصد تھا، حضرت نے اپنے کشف سے ان کا ارادہ معلوم کرلیا، تھوڑا سا کھانا اپنے ہاتھ پر رکھ کر نوش فرمایا، سب حاسد مجبور ہوگئے اور سلطان بڑا شرمندہ ہوا، اس کے بعد سلطان نے اشرفیوں کے دو توڑے اور کپڑے کے دو تھان نذر گذرائے، آپ نے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی اور کھڑے ہوگئے، اسی اثنا میں خواجہ نظام الدین جو بادشاہ کے وزیر تھے اور محبوبِ الٰہی کے مرید تھے، انہوں نے تھان اور توڑے حضرت کے خدام کے سپرد کئے اور حضرت کی نعلین مبارک اپنے رومال سے جھاڑ کر حضرت کے آگے رکھیں اور دروازے تک رخصت کرنے آئے، جب پہنچا کر واپس آئے تو سلطان نے ناراض ہوکر کہا کہ

    ”تم نے کیوں عطیہ سلطانی ہاتھ سے اٹھا کر دیئے اور نعلین کیوں جھاڑیں“

    حضرت نظام الدین وزیر نے جواب دیا کہ خواجہ نظام الدین اؤلیا کا مرید ہوں، میرے واسطے یہ باعثِ فخر ہے کہ ان کے خلیفہ کی جوتی کو اپنے سر کا تاج بناؤں، اگر میرے قتل کا ارادہ ہے تو میری جان ان کے نام پر فدا ہے، یہ سن کر سلطان کو بہت غصہ آیا مگر حضرت کی توجہہ کے باعث نہ کرسکا، غرض حضرت کو ہر طرح تکلیف دینی چاہی مگر اپنے ارادہ میں ہمیشہ ناکام رہے، محبوبِ الٰہی کی رحلت کے بعد بتیس برس آپ زندہ رہے اور زخمی ہونے کے تین سال بعد سخت علیل ہوئے اور اسی علالت میں 18 رمضان المبارک 757 ہجری کو بوقتِ چاشت رحلت فرمائی جو جگہ آپ کو حیات میں پسند تھی اسی جگہ آپ مدفون ہوئے اور آپ کے فرمان کے بموجب سلسلۂ چشتیہ نظامیہ کے تبرکات مصلیٰ مع خرقہ، کاسہ، تسبیح اور عصا آپ کے ساتھ مزار شریف میں رکھ دیا گیا، آپ کا مزار شریف دہلی سے سات میل کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے اور درگاہ روشن چراغ دہلی مشہور ہے اور زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔

    حضرت چراغ دلی کے مشہور خلفا کے نام یہ ہیں۔

    خواجہ کمال الدین علامہ خلیفہ اعظم وہمشیرہ زادہ

    خواجہ ملک زادہ احمد

    حضرت شیخ دانیال

    حضرت شیخ صدرالدین حکیم

    حضرت معین الدین خورد

    حضرت شیخ سراج الدین چشتی

    حضرت سید محمد بن مبارک

    حضرت شیخ یوسف چشتی

    حضرت شیخ عبدالمقتدر

    10۔ حضرت قاضی سعدی چشتی

    11۔ حضرت شیخ احمد تھانیسری

    12۔ حضرت میر سید گیسو دراز بن سید یوسف چشتی حسینی

    13۔ حضرت شیخ محمد متوکل کنتوری

    14۔ حضرت شیخ قوام الدین چشتی

    15۔ حضرت سید جعفر مکی

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے