Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت ابوالحسن امیر خسرو

رکن الدین نظامی

حضرت ابوالحسن امیر خسرو

رکن الدین نظامی

MORE BYرکن الدین نظامی

    دلچسپ معلومات

    بائیس خواجہ کی چوکھٹ۔ باب22

    حضرت امیر خسرو محبوبِ الٰہی کے محبوب ترین مرید اور خلیفۂ خاص تھے، آپ کے والد کا اسم شریف امیر سیف الدین ترک لاچین تھا، آپ کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا، امیر صاحب نے سودا گری بھی کی اور شعر و سخن کہنا اختیار فرمایا، آپ اردو، ہندی، فارسی کے مایۂ ناز اور ممتاز شاعر تھے، آپ نے ایشائی شاعری کو چار چاند لگا دیئے، آپ کو غزل، مثنوی، قصیدے، غرض ہر قسم کی اصنافِ شاعری پر عبور حاصل تھا، آپ کو ہندی میں کمالِ مہارت تھی آپ کے دوہے، انمل، بیت، کہانیاں، پہیلیاں اور ٹھمریاں بہت مشہور ہیں، فن موسیقی کے بھی آپ بڑے ماہر تھے اور موجد و استاد مانے گئے ہیں، غرض آپ نظم و نثر میں یکتا اور ہر فن میں عدیم المثال تھے۔

    آپ کی پیدائش پٹیالہ ضلع ایٹہ میں ہوئی، آپ کی پیدائش کے چند سال بعد آپ کے والد نے دہلی میں سکونت اختیار کر لی۔

    حضرت امیر کے والد آپ کو چھوٹی سی عمر میں محبوبِ الٰہی سے بیعت کرانے کے لئے لے کر حاضر ہوئے جب دروازے کے اندر جانے لگے تو امیر صاحب نے کہا، ”باوا جان! شیخ کا پسند کرنا میرا کام ہے نہ کہ آپ کا“ حضرت کے والد آپ کو دروازے پر چھوڑ کر اندر گئے آپ نے دروازے پر بیٹھے بیٹھے ایک قطعہ کہا اور دل میں خیال کیا کہ اگر شیخ روشن ضمیر ہوں گے تو میرے قطعہ کا جواب دیں گے اور میں مرید ہوجاؤں گا۔

    قطعہ

    تو آں شاہے کہ بر ایوان قصرت

    کبوتر گر نشنید باز گردد

    غریبے مستندے بر در آمد

    بیائید اندرون یا باز گردد

    محبوبِ الٰہی نے کشف کے ذیعے امیر صاحب کے دل کا حال معلوم کر لیا اور خام سے فرمایا کہ دروازے پر ایک لڑکا بیٹھا ہے اس کے سامنے یہ قطعہ پڑھ دو۔

    بیاید اندروں مردِ حقیقت

    کہ بامایک نفس ہمز از گردد

    اگر ابلہ بود اے مردِ ناداں

    ازاں راہے کہ آمد باز گردد

    یہ جوابی قطعہ سن کر امیر صاحب اندر آئے اور مرید ہوگئے اور محبوبِ پاک نے بڑی شفقت و عنایت فرمائی، امیر صاحب کی عمر بارہ برس کی تھی کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا، آپ کو سخت صدمہ ہوا اور اسی حالت میں آپ نے یہ شعر کہا ہے۔

    سیف از سرم گذشت دل مں دونیم ماند

    دریا زمن روان شد و دریتیم ماند

    امیر صاحب کی ساری عمر بادشاہوں کی مصاحبت میں گذری مگر آپ کو مطلق دنیا سے لگاؤ نہ تھا، دن کو بادشاہوں کے دربار میں رہتے اور رات محبوبِ الٰہی کی خدمت میں گذارتے تھے، محبوبِ الٰہی کا معمول تھا کہ آپ بعد نمازِ عشا خواب گاہ میں جاتے تھے، اس وقت صرف امیر صاحب کو اجازت تھی اور کوئی دوسرا اندر نہ جا سکتا تھا، رات کو محبوبِ الٰہی فرماتے”کہو ترک کیا کیا خیریں لائے“ تو امیر صاحب تمام دن کے واقعات بیان کرتے اور حضرت سو جاتے تو امیر صاحب حضرت کے قدموں میں سر رکھ کر سو جاتے تھے، اکثر محبوبِ الٰہی امیر صاحب کا تازہ کلا بھی سنتے تھے، امیر صاحب کا معمول تھا کہ تہجد کے وقت بیدار ہوتے اور سات سپارے کلام اللہ کے پڑھتے اور گریہ و زاری فرماتے تھے، امیر صاحب کا ایک شعر ہے اس میں جاگنے کے متعلق اشارہ ہے۔

    رہ نخفت خسرو مسکین ازیں ہوس شہا

    کہ دیدہ برکف پایت نہد بہ خواب رود

    محبوبِ الٰہی اکثر فرمایا کرتے تھے، اگر شریعت اجازت دیتی تو میں اور خسرو ایک ہی قبر میں سوتے اور اکثر یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ خدا پوچھے گا نظام الدین میرے لئے کیا لائے تو کہہ دوں گا ”خسرو کے دل کا سوز“ آپ امیر صاحب کو اکثر ترک اللہ کہا کرتے تھے، امیر صاحب کی شان میں کمالِ محبت و عنایت کا محبوبِ الٰہی کا یہ شعر ہے۔

    گر برائے ترک ترکم آرّہ بر تارک نہند

    ترکِ تارک گیرم و ہرگز نہ گیرم ترکِ ترک

    محبوبِ الٰہی اور امیر صاحب میں کمالِ محبت تھی اس کا ثبوت یہ واقعہ ہے۔

    ایک دفعہ محبوبِ الٰہی کی خدمت میں ایک سائل آیا اور کہا کہ یا حضرت میری بیٹیوں کی شادی ہے کچھ عنایت فرمایئے آپ نے خانقاہ میں کچھ موجود نہ پا کر اپنی نعلین مبارک اسے دے دیں، وہ لے کر چلا گیا اور ایک سرائے میں مقیم ہوا، حسنِ اتفاق سے اسی سرائے میں امیر صاحب سامان سودا گری فرکش تھے، آپ کو خوشبوئے محبوب آئی اور آپ نے سرائے میں تلاش کرنا شروع کیا، اس شخص کے پاس آئے اور نعلین مبارک لے کر اپنا سارا مال و اسباب اسے بخش دیا اور نعلین سر پر رکھ کر محبوبِ پاک کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب محبوبِ الٰہی نے رحلت فرمائی تو آپ بنگالہ میں تھے، یہ خبر سن کر بے تاب ہوگئے اور دیوانہ وار چھ ماہ بعد (پیدل) دہلی تشریف لائے، محبوبِ الٰہی نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’خسرو آئیں تو میرے مزار پر نہ آنے دینا، ایسا نہ ہو کہ شریعت میں رخنہ پڑے“ جب آپ حضرت کے مزار کے قریب آئے تو لوگوں نے روکا اور آپ وہیں ٹھہر گئے، جب ضبط نہ ہو سکا تو بے اختیار ہوکر یہ دوہا پڑھا۔

    گوری سوئے سیج پر اور مکھ پر ڈالے کیس

    چل خسرو گھر اپنے سانج بہئی چو ندیس

    اس کے بعد ایک نعرہ مارا اور جان بحق تسلیم ہوگئے، آپ کی تاریخ وفات 18 شوال 725 ہجری ہے اور آپ کا مزار محبوب پاک کے مزار کے پاس واقع ہے، امیر صاحب کی بانوے (92) مشہور و معروف تصانیف ہیں اور افضل الفوائد محبوبِ الٰہی کی شان میں آپ کا جلیل القدر ملفوظ ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے