Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

آگرہ اسکول اور تصوف

صبا رشیدی

آگرہ اسکول اور تصوف

صبا رشیدی

MORE BYصبا رشیدی

    سر زمین تاج مدتوں سے علم و ادب کا سر چشمہ ہے، آثارالصنادید جہاں نینوا اور بابل کے کھوئے ہوئے نغموں سے گونج رہے ہیں وہاں اکبرآباد کے قدسی ترانے فضائے شعر و سخن میں ہمیشہ ابدی ارتعاش پیدا کرتے رہیں گے۔

    اردو شاعری کی بنیاد اگر مخدوم الملک شرف الدین احمد یحییٰ قدس سرہ، حضرت امیر خسرو قدس سرہ کے ہاتھوں رکھی گئی، اگر اس کا پودا قطب شاہیوں کے چمن زاروں میں اگا، اگر اس کی کونپل ولی دکنی کے ہاتھوں پھوٹی اگر حاتم، آبرو، نامی، مضمون، سودا نے اس کی کونپلوں کو کلی اور کلی کو پھول بنا دیا تو میرؔ اور غالبؔ کے رنگین ہاتھوں نے ہرپھول کو ابدی بہار چمن بنا کر دکھا دیا۔

    پانچ ندی کے کنارے پر جمنے والی نے اردو جیسا لال تو پیدا کیا لیکن اس بچے نے شروع ہی سے شیرازی ماں کا دودھ پیا، رکنا دی لوریوں سے بہلایا، مٹیا پوری گہواروں میں سویا، جہاں ترک بچوں کے سبزۂ خط کی جگہ برہمن بچوں کے زنار قشقہ نے لی، جہاں کرشن گوپیوں کی پریم کہانی وادئی نجد کی حدئی خوانیوں اور باغِ ارم کے قہقہوں میں کھو گئی وہاں وادئی جہاز کے یوگ، دھیاس کی موجیں خلیج فارس کی تصوف آمیز لہروں میں سو گئیں۔

    تصوف کی ابتدا اگر چہ طلوعِ اسلام کے ساتھ ساتھ ہوئی، اگر چہ سودا کا دامن کا ساتھ رہا لیکن تصوف کا نیرِ تاباں اگر فاران ع ہوا، تو فارس کے خط استوا پر خورشید و درخشاں بن کر چمکا، جس کی کرنوں سے ہمالہ کی چوٹیاں بھی جگمگا اٹھیں۔

    اردو نے اگر ایک طرف بزم جم کی ٹھاٹھ جمائی، اگر ایک طرف اس کی محفلوں میں کرشن اور رکمنی نے نفیس عامری اور لیلائے نجد کے سوانگ دکھائی تو دوسری طرف اپنے یوگ و دیا کے مندروں میں حضراتِ غوثِ اعظم سعدیؔ و حافظؔ کی جلائی ہوئی روحانی شمعیں لا کر رکھ دیں۔

    آپ تاریخِ اردو کا مطالعہ کیجیے، ابتدا ہی سے اردو نے تصوف کا دیپک راگ دلایا، حضرت امیر خسرو کا زمانہ یاد کیجیے، یہ وہ زمانہ تھا جب کہ طفلِ اردو نے زندگی کی پہلی سانس لی تھی، اس دور میں اس نوخیز بچے نے کیسے کیسے روحانی نغمے سنائے، قطب شاہ المتخلص بہ ظل اسد جس کا زمانہ ولی دکنی سے پہلے گذرا ہے کہتا ہے۔

    جہاں ہے سیمیا کا نقش اوس تھے

    کہے ہیں عارفاں سب اس کو تمثال

    خواجہ محمود بحری کو نہ بھول جایے، ان کی مثنوی میں لگن اور اس دور کی یادگار ہے، خواجہ صاحب نے ساری مثنوی صوفیانہ رنگ میں لکھی۔

    اب وہ زمانہ یاد کیجیے ، جب اردو شاعری صاف ستھری ہو کر بزم سخنِ میں جلوہ گر ہوئی، خواجہ میر درد صوفیانہ خیالات کے لیے بہت نمایاں اور ممتاز شخصیت کے مالک ہیں، اسی دور کے تمام شعرا مثلاً میر، سودا، میر احسن، راسخ عظیم آبادی کے کلام میں تصوف کی چاشنی ہے، اب تک جو کچھ میں نے عرض کیا وہ محض تمہیدی بکوا س تھی، آپ کی صحبت میں آپ کو سر زمین ”تاج“ کی وہ کہانی سناؤں گا جس کے ہیرو میر نظیر اور غالب تھے، جنہوں نے تصوف کے غیر فانی آبشار بسائے آج بھی خطۂ اکبرآباد کی مردم خیزی نے سیماب جیسا لال جنا جس نے نہ صرف میر و غالب کے کھوئے ہوئے نغموں کو یکجا کرنے کی کشش کی بلکہ نئی دھن، نئی سر میں نئے نئے راگ الاپے۔

    پہلے میر ہی سے شروع کیجیے، دیکھیے اس دل جلے فطری شاعر اور خدائے سخن کے دل میں جہاں محبت مجاز کے سیکڑوں جنم فروز آتش کدے دہک رہے ہیں، وہاں اس کی روح کی گہرائیوں میں سیکڑوں ایمن زاد بھی آباد ہیں۔

    وحدت الوجود یا ہمی اوست (Pantheioun) کو میرؔ نے کس اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے، ملاحظہ فرمایے۔

    چاہے جس شکل سے تمثال صفت ہمیں دارم

    عالم آئینہ کے مانند یار ہے ایک

    وجہ بے گانگی نہیں معلوم

    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    ذات خداوندی کی تعین میں صرف عبارت کا فرق ہے، اس نظریہ کو میرے ذیل کے شعر میں بیان فرمایا ہے۔

    تحقیق کروں کس سے حقیقت کے نشہ کو

    خضر آ، اسے کہتا ہے آتش کہے موسیٰ

    میر نے من عرف نفسہ فقل عرف ربہ کی عجب اچھوتے انداز میں تفسیر بیان کی ہے۔

    پہونچا جو آب کو تو میں پہونچا خدا کے تئیں

    معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

    خدا کے لیے ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے، کس طرح میرؔ نے خودی کو عرفانِ کامل ثابت کیا ہے، بیخودی کا سر الاپنے والے حضرات آئیں اور یہ نغمۂ موسیقار سنیں، ”آپ تک پہونچنا“ اگر بیخودی ہے تو شاید تخلیقِ کائنات بھی بیخودی کا نتیجہ ہے، اسی فلسفۂ حقیقت کی ترجمانی نظیر اکبرآبادی نے نہایت سنجیدگی سے ذیل کی نظم میں کی ہے۔

    آئینہ کو ہاتھ میں اور بار بار دیکھ

    رت میں اپنی قدرت پروردگار دیکھ

    خالِ سیاہ اور خطۂ مشک بار دیکھ

    زلفِ دراز و طرۂ عنبر نثار دیکھ

    ہر لحظہ اپنے جسم کے نقش و نگار دیکھ

    اے گل تو اپنے حسن کی آپ ہی بہار دیکھ

    آئینہ کیا ہے؟ جان ترا پاک صاف دل

    اور خال کیا ہیں تیرے سویدا کی منع کی تل

    زلفِ دراز فہم رسا سے رہی ہے مل

    لاکھوں طرح کے پھول رہے ہیں تجھی میں کہیں

    ہر لحظہ اپنے جسم کے نقش و نگار دیکھ

    اے گل تو اپنے حسن کی آپ ہی بہار دیکھ

    مشکِ تتار و مشک خجن بھی تجھی میں ہے

    یاقوت سرخ و لعل یمن بھی تجھی میں ہے

    نسرین و موتیا و سمن بھی تجھی میں ہے

    القصہ کیا کہوں میں چمن بھی تجھی میں ہے

    ہر لحظہ اپنے جسم کے نقش و نگار دیکھ

    اے گل تو اپنے حسن کی آپ ہی بہار دیکھ

    سورج مکھی کے گل کی اگر دل میں تاب ہے

    اپنے منہ کو دیکھ کہ خود آفتاب ہے

    گل اور گلاب کا بھی تجھی میں حساب ہے

    اور تیرا گل ہی پسینہ گلاب ہے

    ہر لحظہ اپنے جسم کے نقش و نگار دیکھ

    اے گل تو اپنے حسن کی آپ ہی بہار دیکھ

    باغ و چمن کے غنچۂ و گل میں نہ ہو اسیر

    قمری کی سن صغیر نہ بلبل کی سن صغیر

    اپنے تئیں تو دیکھ کہ کیا ہے ارے حقیر

    میں عرف من عرف کی یہی معنی اے نظیرؔ

    ہر لحظہ اپنے جسم کے نقش و نگار دیکھ

    اے گل تو اپنے حسن کی آپ ہی بہار دیکھ

    آگے بڑھیے اور کچھ غالب کے قدسی ترانے سنیے، دیکھیے میکدۂ تاج کے اس بادہ پرست نے کس طرح حقیقت کے شرابِ رنگیں برسائی ہے، غالبؔ نے مقامِ حیرت کی کیفیات کو ذیل کے شعر میں بیان کیا ہے۔

    تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہیے

    تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں

    یہ شعر لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر ! کی تفسیر منیر ہے۔

    سلوک کے خار زاروں سے گذرنے والے اپنے سارے خواہشات و جذبات کو مغلوب کر لیتے ہیں، انفرادیت کے سارے جذبے فنا ہوجاتے ہیں ان کی تمامی عبادتیں عذاب و ثواب سے بے نیاز ہوتی ہیں، راہِ سلوک میں اس منزل کا نام مقام تسلیم و رضا ہے، یہی وہ مقام ہے جس کی طرف آیۃ ان اؤلیاء اللہ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون ط - اشارہ کرتی ہے، اس حقیقت کی ترجمانی غالب نے کس طرح کی ہے، سنیے اور وجد کیجیے۔

    قناعت میں تار ہے وانگبیں کی لاگ

    دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو

    سلوک کی راہ میں ایک ایسا مقام بھی ملتا ہے جس کے ہر ذرے میں برقلمونی کا ایک حسین طلسم خانہ ہوتا ہے، جس کی نیز نگیاں کائنات ہوش و حواس کو مسحور کر دیتی ہیں، حریمِ حسن کے پردے اٹھتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن آنکھیں جلوؤں کو جذب نہیں کر سکتیں، نغمے فضا میں تڑپتے ہیں، کان سنتے ہیں لیکن سمجھ نہیں سکتے، نہ وہ کیفی حالتیں ہیں جن کا نام بے خودی بالتصوف کی اصطلاح میں ”صحو“ ہے، اسی مقام کو بعض کوتہ ہیں حضرات سلوک کی آخری منزل کہتے ہیں یہ مقامِ حیرت ہے، غالبؔ نے مقام حیرت یا صحو یا بیخودی کے کیفیات کو اس شعر میں بیان کیا ہے۔

    شوق اس دشت میں دوڑائی ہے مجھ کو جمال

    جادہ غیر از نگہ دیدۂ تصویر نہیں

    یہاں تک تو جو کچھ میں نے عرض کیا وہ آگرہ اسکول کے عہد عتیق کی داستان پاستاں تھی، بطورِ نمونہ چند اشعار آپ کے سامنے پیش کیے پھر اگر میر و غالب کے دواوین کا تجزیہ کیا جائے تو نہ معلوم تصوف کے کتنے غم خانے نظر آئیں گے آج کی صحبت میں چند گھونٹ ہی پر اکتفا کیجے اور خمکدۂ تاج کی نئی نئی شراب کے شند جرعے چکھیے، قدیم میکدے تو! روح بن کر رہ گئے لیکن خدا قائم رکھے مولانا سیماب کو جنہوں نے اجڑے ہوئے میکدوں کی خاک سے نیا میکدہ بنایا، آئیے اب ذرا اس میکدہ کی مئے خانہ ساز کے چند جرعے لیجیے۔

    مولانا سیماب آگرہ اسکول کی صحیح نمائندگی کر رہے ہیں، اگر آپ نہ ہوتے تو سر زمین ”تاج“ کی فضائے شعر و سخن ہمیشہ کے لیے تاریک ہوجاتی، غالب کے بعد کوئی نہ تھا جو کھوئے ہوئے نغموں کو یکجا کرتا، وہی حال آگرہ اسکول کا ہوتا جو آج بہار اسکول کا ہے، یہاں بھی بڑے بڑے خم خانے بسائے گئے، نئی نئی شرابیں بنائی گئیں لیکن سر زمینِ سخن کا آخری تاجدار شاد اپنے ساتھ تمام رنگینیاں بھی لے کر چلا گیا، اب اگر نظر اٹھائیے تو میکدے ویراں، جام و صراحی ٹوٹی ہوئی، نہ غنچے نہ ساقی، کوئی نام لیوا تک نہیں، شاد کے میکدے ایک یادگار بیتاب کے ساتھ ختم ہوگئی۔

    آئیے سیماب ہی سے شروع کیجیے، جہاں سیماب نے حسن و عشق کی کیفیات کو مجاز کی آنکھوں سے دیکھا وہاں روح کے نغمہ زاروں میں حقیقت کے نغمے بھی سنے، وحدت الوجود کی حقیقتوں کو کس طرح اشعار میں بے نقاب کیا ہے۔

    عروسِ فطرت مری نگاہوں میں چھا رہا ہے شباب تیرا

    لطیف پردوں سے چھن رہا ہے جمال زیر نقاب تیرا

    زوال سے اور نیند سے بے نیاز و بے احتیاج ہے تو

    حدوث کی خفتہ کاریوں میں ہوا ہے تقسیم خواب تیرا

    آگے بڑھ کر مولانا ارشاد فرماتے ہیں۔

    غم عذاب و ثواب کیا یہ دونوں تیری ہی نعمتیں ہیں

    نہ اختیاری کرم ہے تیرا نہ اختیاری عذاب تیرا

    اس شعر میں مولانا نے نص قرآنی وتعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئی قدیر کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے، سلوک کی راہ نہایت خطرناک اور اپنے دامن میں سیکڑوں سراب زار لیے ہوئے ہے، اس راہ میں کبھی کبھی انسان کو اپنے علوئے مرتبت کا دھوکا ہوجاتا ہے، اس کے دل میں غرور مجب کی چنگاریاں بھڑک اٹھتی ہیں اور وہ سمجھنے لگتا ہے کہ چونکہ اس نے اتنی عبادتیں اور ریاضتیں کی ہیں اس لیے یہ مدارج ملے لیکن قدرت غرور و خود بینی پسند نہیں کرتی اور ایسو ں کو ایسی سزا دیتی ہے کہ وہ خسرالدنیا والآخرۃ کے مصداق بن جاتے ہیں، بلعم باعور کی عبرت ناک تاریخ آج بھی انسانی دل و دماغ سے محو نہیں ہوئی، اس شعر میں مولانا نے بتا دیا کہ عذاب و کرم قدرت کا فعل ہے، انسان کے اختیار کی بات نہیں کہ وہ معوضات ہو یا مغفور قرآن مجید کا بھی یہی فیصلہ ہے، ذیل کا شعر پڑھیے، نامعلوم کس وجدانی کیفیات اور بے خودی کی مستیوں میں مولانا نے فرمایا ہے۔

    رہنے دے محو بیخودی خاطر پر خروش کو

    راز کہیں نہ فاش ہو قید تعینات کا

    کنت کنزا فخضیا کی شراب روحانی پینے والے اس شعر کی حلاوت آبگینیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، حسن ازل عدم آباد کی رنگینیوں میں مستور تھا لیکن جب اسے جلوہ نمائی منظور ہوئی تو تعینات کے پردوں سے جلوے چھن چھن کر نکلے اگر قید تعینات نہ ہوتی تو حسن ازل ہمیشہ کے لیے استوار رہتا، اسی حقیقت کی طرف مولانا سیماب نے اشارہ فرمایا ہے، ایک جگہ مولانا فرماتے ہیں۔

    سرگشتہ جمال کی حیرانیاں نہ پوچھ

    ہر ذرے کے حجاب میں اک آئینہ ملا

    کسی کو تو نہ ملا اور کھو دیا سب کو

    تری تلاش میں گمراہ اک زمانہ ملا

    ان اشعار کو پڑھیے اور جھومیے، الفاظ کی رنگینیاں اور اسلوبِ نگارش کے محاسن نہ صرف احساسِ جمالی کو بیدار کرتے ہیں بلکہ روح کے نورانی کالبد میں اک نئی روح پھونکتے ہیں، انسان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، مقامِ حیرت کی طلسم بندیوں میں آکر انسان منزل مقصود کو کھو دیتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس نے شاہد حقیقی کے جلوے دیکھے لیکن یہ محض نفس کا دھوکا ہوتا ہے، انسانی نگاہ وادئ حیرت میں بھٹکتی ہے حریم حسن تک پہونچتی ہے لیکن مجابات حسن نہیں اٹھا سکتی، یہاں کے ذرے آنکھیں نکالتے ہیں، ہر ذرہ آئینہ بن کر انسان کو محو حیرت بنا دیتا ہے، وہ خود بھی صورت دیکھتا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ اس کی نگاہیں کامیاب ہو گئیں، قرآن کا فیصلہ ہے کہ لا تدرک الابصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر (انسان خدا کونہیں دیکھ سکتا) مولانا نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے یہی مقام بیخودی ہے اور مجاذیب کی منزل ہے، انسان حصار و سعود کی طلسم سامانیوں میں اس طرح گم ہوجاتا ہے کہ وہ جلوۂ بے رنگ کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے لیکن جب رنگ و بو کے چمن زاروں سے نکل جاتا ہے تو اس کی نگاہوں میں ہر ذرہ حسن ازل کا آئینہ دار ہوجاتا ہے، جب وہ مرئیات و تعینات کے حدود سے نکل جاتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے۔

    جسے نہ دیکھ سکیں میری ظاہری آنکھیں

    وہ مجھ سے روح کی خلوت میں غائبانہ ملا

    (سیماب)

    نحن اقرب من حبل الورید کی روشنی میں یہ شعر پڑھیے، یہی مقامِ خودی یا عرفانِ کامل ہے، آگے بڑھیے اور حدیث قدسی قلب المؤمنین عرش اللہ کی تفسیر ملاحظہ فرمایے۔

    رفتہ رفتہ ہوگئے جذب اس میں جلوے سیکڑوں

    دل مرا سیمابؔ اک آئینہ خانہ ہوگیا

    یہاں تک جو کچھ میں نے عرض کیا وہ مولانا سیماب سے متعلق تھا، آگے بڑھے اور دیکھیے کہ ان کی ذات سے فضائے شعر و سخن میں کتنے ذرے ستارے بن کر جگمگا اٹھے، مشتے نمونہ از خروارے ملاحظہ ہو۔

    کنت کنزا کہہ کے آپ اپنی حقیقت کرگئے

    میں نے پوچھا میری ہستی ؟ بولے میرا راز ہے

    (ارمان اکبرآبادی)

    یہ شعر مولانا سیماب کے شعر کی باز گشت ہے۔

    رہنے دے محوِ بے خودی خاطر پرخروش کو

    راز کہیں نہ فاش ہو قید تضیات کا !

    خود حجاب نورِ مطلق پردہ دارِ نور ہے

    آنکھوں میں رہتا ہے لیکن آنکھ سے مستور ہے

    (ارمان اکبرآبادی)

    یہ شعر بھی مولانا کے شعر کی باز گشت ہے۔

    جسے نہ دیکھ سکیں میری ظاہری آنکھیں

    وہ مجھ سے روح کی خلوت میں غائبانہ ملا

    وحدت الوجود کے متعلق چند اشعار ملاحظہ فرمایے۔

    برق ایمن خود فریبِ جلوۂ زارِ طور ہے

    نور سمجھے ہو جسے وہ تو حجابِ نور ہے

    (ارمان اکبرآبادی)

    تو دل کے ہر حجاب سے جلوہ نما ہوا

    ہر ذرہ و آفتاب کا اک آئینا ہوا

    (اثر اکبرآبادی)

    کھل گیا میری حقیقت اور مری ہستی کا راز

    یعنی میں جس نور کا پرتو ہوں تو وہ نور

    (میرا عدی اجمیری)

    تجھ پر کبھی نظر ہے نظر میں ہے تو کبھی

    اے کوئے یار کیا ترے دیوار و در میں ہے

    (میرا عدی اجمیری)

    اے حسنِ کائنات سے آنکھیں تیرے نثار

    تو ہے اگر نظر میں تو سب کچھ نظر میں ہے

    جورہ مقصود میں گم ہوگئے کام آگئے

    یہ انہیں کی ہمتیں تھیں یہ انہیں کا کام تھا

    (تفسیر و من یقتل فی سبیل اللہ الخ)

    جس میں سما نہ سکتا تھا اک قطرہ خون کا

    دو دل ہے آج حاصلِ صد راز دیکھیے

    (حسن یاور نقوی)

    پروانہ بھٹک جائے جو اب بھی تو ستم ہے

    جو شمع کلیسا ہے وہی شمع حرم ہے

    (شفیق کوٹی)

    وحدت الوجود

    ہم کو نہیں مجاز و حقیقت میں امتیاز

    ہیں دونوں عالم، ایک ہمارے خیال میں

    (شفیق کوٹی)

    حسنِ کثرت میں کہاں گرم تماشا نہ ہوا

    لاکھوں جلوؤں سے عیاں جلوۂ جانانہ ہوا

    (آزر برہانپوری)

    کیا کہوں جلوہ گہِ حسن کا عالم آغاؔ

    دعوئے ہوش کیا جس نے وہ دیوانہ ہوا

    کمالِ ہوش ہے خود پر ترا گماں ہونا

    خودی کی داد مجھے دے سزائے دار نہ دے

    (رعنا لمبوی)

    آخر یہ راز الفت افشا ہوا کہاں سے

    یا تیرے راز داں سے یا میرے رازداں سے

    (حیرت لدھیانوی)

    اے اعتبار یہ منزل اتنا مجھے بتا دے

    نزدیکِ آستاں ہوں یا دور آستاں سے

    (حیرت)

    بت شکن لاکھوں ہیں لیکن آہ! وہ آذر کہاں

    دل کے بت خانے میں جو نورِ خدا پیدا کرے

    (شفیق ٹونکی)

    جس کے دل میں ہو براہِ راست ذوق کوئی دوست

    کیوں وہ راہِ عشق میں ماؤ شما پیدا کرے

    (شفق صحرائی)

    انا کے پردے میں تھے آپ ہوگیا معلوم

    وگر نہ شورِ اناالحق کا مدعا لعلوم

    پلا دے ساقی کوثر وہی شرابِ کہن

    ہو جس کے کیف سے معدوم و ماسوا مطوم

    بات حق کی ہے گو ذرا سی ہے

    خود شناسی ہے حق شناسی ہے

    (شفق صحرائی)

    اس کو نظر آئے گا ترا جلوۂ مستور

    آنکھوں سے ظاہر کو جو بیگانہ بنا دے

    (مخمور جالندھری)

    رہرو جہاں گرے تو وہی ہے مقام دوست

    لیکن یہ جانتے ہوئے گر ناروا نہیں

    (مخمور جالندھری)

    یہ ہوسکتا ہے وہ ہوں اورائے چشم نظارہ

    یہ ممکن ہے حقیقت تک نہ پہنچی ہو نظر اپنی

    (رضا قریشیؔ)

    کوئی بسمل نہ کوئی قاتل ہے

    کارِ فرما حقیقتِ دل ہے

    اے دل اے ناشناس راہِ طلب

    نقشِ منزل سرابِ منزل ہے

    (رضا قریشیؔ)

    جب مجارا کے پردے اٹھ گئے محبت میں

    روح میں حقیقت کی روشنی سی پیدا تھی

    (نذیرؔ شیرکوٹی)

    معصیت زارِ کہن دنیا ہے انساں کے لیے

    دوسرا عالم بنا دے چشمِ عرفاں کے لیے

    چشمِ ظاہر پر ہو سر سخن اقرب آشکار

    بیخودی اک نیشتر لادے رگِ جاں کے لیے

    (فضائی ٹونکی)

    نہ دے الزام تنگئی نظر گوشہ نشینوں کو

    اٹھا دیں دل سے گر پردہ تو سیرِ دو جہاں کر لیں

    (الم مظفرنگری)

    دیکھا تو پردہ دار تھا وہم و حجاب خود مرا

    آج میں خود چلا گیا پردہ سرائے راز میں

    (الم مظفرنگری)

    بیخودی رتبۂ عالی پہ پہونچ جاتی ہے

    گر خودی چھوڑ دے انسان تو انساں نہ رہے

    (الم مظفرنگری)

    فلک نشیں ہیں انہیں آستاں نشینوں میں

    نشان سجدوں کے محدود ہیں جبینوں میں

    (ضیا چنیوٹوی)

    کفر کے عرفان سے ادراکِ ایماں چاہیے

    ؟؟؟زاین و آں ہونے کا ساماں چاہیے

    فی الحقیقت پیکر خاکی نہیں حق سے جدا

    ہاں مگر نفس آشنا ادراکِ انساں چاہیے

    (فدا کھیل کرنوی)

    محصور کر کے مجھ کو عناصر کی قید میں

    سو سو طرح حجاب سے وہ جلوہ گر ہوا

    (قمر شہسرامی)

    آجا حریمِ روحِ سے بامِ نگاہ تک

    نازک سایہ حجاب بھی کیوں درمیاں ایسے

    (نظر صدیقی)

    مذاقِ جلوہ آرائی سے تم تو بے تعین ہو

    نگاہِ شوق پر قید مکان و لامکاں کب تک

    (نظر صدیقی)

    شاہد و مقصود چشمِ شوق سے مستور ہے

    اس قدر نزدیک ہونے پر کتنا دور ہے

    (راز چاندپوری)

    آپ کے سامنے چند اشعار مختلف شعرائے آگرہ اسکول کی پیش کر دیے، چند اشعار پر مختصر سا نوٹ بھی دیدہ، اگر کل اشعار پر تبصروں کروں تو غالباً مضمون بہت طویل ہو جائے، اس لیے چند اشعار پر اکتفا کیا، اب اس مضمون کو ختم کرتا ہوں، خدا کرے آپ میری بکواس سے نا خوش نہ ہوں اور میری ہرزہ سرائی کو شرفِ قبولیت بخشیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : Shair Monthly, (Agra Number) (Pg. 130)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے