اقبال کا تصوف
کہا جاتا ہے کہ اقبال فلسفی ہے، مفکر ہے، محقق ہے، مصلح ہے بیشک ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ صوفی بھی ہے اور یہ پہلوان کی تمام شاعری اور خصوصاً آخر دور میں نہایت روشن ہے لیکن افسوس ہے کہ باوجودیکہ اس عرصہ میں اقبال پر ہر موضوع اور عنوان پر طویل اور محققانہ مضامین لکھے گیے اور ضمناً اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی لیکن اس عنوان پر مستقل اور مفصل مضامین بہت کم لکھے گیے بلکہ بعض ناقدین اقبال کا تویہ خیال ہے کہ اقبال سرے سے صوفی تھے ہی نہیں اور نہایت اصرار سے یہ کہتے ہیں کہ وہ تصوف کے قطعی خلاف تھے اور اس سلسلہ کو بنی نوع انسان کے لیے نہایت مہلک اور مسلمانوں کے ادبار اور زوال کا باعث سمجھتے تھے، یہ خیال محض غلط فہمی اور کلام اقبال کے صرف سطحی مطالعہ پر مبنی ہے، در اصل ان لوگوں نے اقبال کے نظریہ تصوف کے سمجھنے میں غلطی کی ہے، اقبال اگر فلسفی تھے تو صوفی، مفکر تھے تو صوفی، محقق تھے تو صوفی اور مصلح تھے تو صوفی تھے اور جیسا کہ ڈاکٹر قاضی عبدالحمید صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’وہ اپنے آپ کو کبھی بھی فلسفی کہنا پسند نہیں کرتے تھے، دوران گفتگو میں بعض مرتبہ میرے منہ سے بلا ارادہ اگر ان کے لیے فلسفی اور ان کے خیالات کے لیے نظام فلسفہ کے الفاظ نکل گیے تو انہوں نے مجھے یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ ان کا کوئی نظام فلسفہ نہیں ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ فقیری ان کو در اثناً ملی ہے اور فلسفہ وغیرہ انہوں نے صرف انہیں حقائق کو جن کا انہیں کلی یقین ہے، عقلی طور پر سمجھنے کے لیے سیکھ لیا ہے‘‘
اور خود حضرت اقبال اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ
مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی
برہمن زادۂ رمز آشنائے دم و تبریز است
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درون میخانہ
بیا کہ من زخم پیر روم آدروم
مئے سخن کہ جواں تر زبادہ عنبی است
واقعہ یہ ہے کہ جس ہیئت میں تصوف آج اسلام میں رائج ہے اور جس کا مظاہرہ اور مشاہد عام طور سے خانقاہوں اور سجادہ نشینوں میں ہوتا ہے، وہ اصل اور صحیح تصوف نہیں ہے، جس کی بنیاد آج سے تیرہ سو برس قبل عرب میں پڑی تھی اور صدیوں تک جس کی تلقین و تدریس بزرگان دین اور اؤلیائے کرام کرتے رہے، جب اسلام اطراف و اکناف میں پھیلا اور مختلف مذاہب کے لوگ مشرف بہ اسلام ہونا شروع ہوئے تو وہ اپنے ساتھ اپنے قدیم فلسفے کے اثرات بھی لائے، جس کا فطری اور لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں میں فلسفہ و حکمتِ یونان و ایران و ہندوستان کے اثرات پیدا ہونے شروع ہوئے، چنانچہ آہستہ آہستہ یہ تخیلات خالص اسلامی تعلیمات میں اس طرح گھل مل گیے کہ اب ان کا الگ کرنا محال ہوگیا، انہیں خیالات کو اسلامی شعرا نے اشعار کے ذریعہ ہر خاص و عام تک پہنچا دیا، جیسا کہ حضرت اقبال اسرار خودی کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ ’’مختصر یہ کہ ہندو حکمانے مسئلہ وحدت الوجود کے اثبات میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعرا نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلہ نے عاوم تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کر دیا، صوفیائے کرام’’ افلاطونیان جدید کی تعلیمات سے بہت متاثر ہوئے اور اپنے ماخد کی طرح خود بھی تشاؤم و قنوط کے قائل ہوگیے اور کسر نفسیٔ ترک خودی اور خود شکنی وغیرہ کی تعلیم پر زور دینے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خیال عوام میں بھی پھیلنا شروع ہوا اور آخر کار وہ قوم جس کی بنیاد احساس نفس و خودی اور عمل پر رکھی گئی تھی ان تعلیمات سے اس درجہ متاثر ہوئی کہ انہوں نے اسے اپنالائحہ حیات بنایا اور اس کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ کر اپنے آپ کو بیکس و بیکار اور مجبور و معذور سمجھنے لگے اسی وجہ سے وہ بام عروج سے قصر مذلت میں جا گرے، یہ ہے وہ نظریہ تصوف جس کے خلاف اقبال جہاد کرتے ہیں، وہ اصل میں تصوف سے اختلاف نہیں کرتے بلکہ وہ تصوف کو غیر اسلامی اجزا سے پاک کرکے اس کی اصلی اور پاک صورت میں پیش کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ خود علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ
’’تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے اور یہی مفہوم قرن اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کرکے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے‘‘
نیز علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ احساس خودی، عرفان نفس اور خودشاہی انسان کی تولید و تخلیق کا اصل منشا ہے اور خودی ہی اصل زندگی ہے، خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے اور خودی کا استحکام منحصر ہے صرف عمل پر عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔
جس طرح ہر انسان میں یہ خودی ہوتی ہے اسی طرح یہ ہر قوم میں بھی پائی جاتی ہے اور اسی کو ’’روح قومی‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور قومی خودی کی طرح تمام انسانیت کی بھی ایک خودی ہوتی ہے جس کا احساس سب سے پہلے آنحضرت نے پیدا کیا اور قومی و ملکی اور نسلی جملہ اختلافات مٹا کر تمام نبی نوع انسان کو بھائی بھائی بنا دیا۔
انسانی خودی کی طرح تمام کائنات عالم کی بھی ایک خودی ہوتی ہے اور وہی اصل کون و مکان ہوتی ہے جسے دوسرے الفاظ میں خدا کہا جاتا ہے پس ظاہر ہے کہ خودی اور خدا میں کس قدر قریبی تعلق ہے، اسی لیے کہا گیا ہے کہ ’’من عرف فضہ فقد عرف ربہ‘‘ یہی تعلیم ہم کو قرآن سے ملتی ہے اور یہی سبق حیات نبی ہم کو دیتی ہے اور یہی مبدأ و منشا تصوف ہے اور یہی اقبال کی تعلیم اور شاعری کی روح ہے۔
علامہ اقبال اپنے لکچر میں جس کا موضوع ’’انسانی خودی اس کی بقا و حریت‘‘ ہے، فرماتے ہیں کہ
’’قرآن پاک اپنے سادہ اور پر زور انداز میں انسان کی انفرادیت اور یکتائی پر زور دیتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ قرآن وحدت حیات کے لحاظ سے انسان کے منتہائے کمال کی بابت خاص نظریہ رکھتا ہے‘‘
اسی لکچر میں وہ دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’صرف تصوف نے ہی اس کی کوشش کی ہے کہ باطنی تجربات و احساسات کو سمجھا جا سکے‘‘
پس ظاہر ہے کہ اقبال کو غیر صوفی یا مخالف تصوف کہنا کس درجہ نادانی اور کم فہمی ہے۔
اقبال کی شاعری کا پہلا دور قومی شاعری کا دور کہلاتا ہے لیکن یہ دور زیادہ عرصہ قائم نہیں رہا جس کے اسباب قیام یورپ اور تحریک تصوف اسلام کا مطالعہ ہیں جس کی وجہ سے اقبال مغربی تہذیب و تمدن کے مخالف اور مادیت سے متنفر ہوگیے اور روح کو دنیا کی اصل حقیقت سمجھنے لگے، دوسرا دور اقبال کی فطری شاعری کا دور ہے اور بقول ڈاکٹر قاضی عبدالحمید صاحب کے ’’اس دور میں بھی تصوف کا ہلکا سا رنگ اقبال کی شاعری میں موجود ہے، وہ فطرت انسانی اور خارجی فطرت میں ایک عجیب ہم آہنگی اور ارتباط محسوس کرتا ہے‘‘ اس کے بعد کا زمانہ اقبال کی اسلامی شاعری کے دور کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، اس عرصہ میں عالم اسلام میں آزادی کی روح پیدا ہو چکی تھی اور جنگ طرابلس و جنگ بلقان، جنگ عظیم اور جنگ انا طولیہ نے مسلمانونوں کے جذبات کو بیدار کر دیا تھا، چنانچہ اقبال بھی اس سے بہت متاثر ہیں، بیسویں صدی میں مسلمانان ہند و ایشیا میں آزادی کی تحریک میں بھی اقبال کا زبردست ہاتھ ہے، اس دور کی شاعری کی بنیاد قرآن کے روحانی اور اخلاقی قوانین پر ہے اور جیسا کہ ڈاکٹر عبدالحمید صاحب اپنے مضمون ’’اقبا ل کی شخصیت اور اس پیغام‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’اقبال کے تصور کائنات پر بالآخر خالص اسلامی رنگ چڑھ گیا، غزالی و رومی کا مطالعہ کرتے کرتے بالآخر شراب حقیقت کا پیاسا اصل سرچشمہ زندگی تک پہنچ گیا، قرآن ہدایت انسانی کے لیے آخری صحیحہ ہے، اقبال کہا کرتے تھے کہ اگر انسان اس کا مطالعہ خشوع و خضوع سے کر لے تو اس پر کائنات کے تمام اسرار سربستہ کھل جائیں، رسول اللہ کی زندگی قرآن کی ایک عملی تفسیر ہے‘‘۔۔۔’’انسانی نشو نما کے لیے بنیادی قوانین اور اصولوں کی ضرورت ہے، وہ قرآن میں جمع کر دیے گیے ہیں، ان اصولوں میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، البتہ مختلف حالات کے لیے جزئیات میں تبدیلی کی ضرورت ہے، سو وہ ان اصولوں سے استنباط کیے جا سکتے ہیں، یا ضرورت زمانہ کے مطابق ان کی تاویل کی جاسکتی ہے، شریعت اسلامیہ میں اس کو اجتہاد کہتے ہیں لیکن یہ اجتہاد ہمیشہ قوانین و سنت کے تابع ہوگا‘‘ اقبال قدیم اکابر اسلام کے نظریات سے اختلاف نہیں کرتے بلکہ دور حاضر کے مسلمان سے علوم و فنون کی روشنی میں تمام مسلمات و نظریات اسلام پر دوبارہ غور کرنے کی، بغیر علمائے سلف سے اختلاف پیدا کیے ہوئے التجا کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نہایت وضاحت سے کہہ دیتے ہیں کہ رشد و ہدایت کا اصل سرچشمہ وجدان و عشق ہے اور نئے علوم و فنون کی مدد سے روحانی حقیقت سمجھانے کی ضرورت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اصل سرچشمہ سے سیراب نہیں ہونا چاہتے، اس لیے کہ تمام انسان یکساں نہیں ہوتے اور بعض مذہب اور پیغمبر کی بھی پیروی بغیر دلیل نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ سائنس کی رہنمائی معتبر نہیں کہی جا سکتی اور زیادہ سے زیادہ وہ مذہب کے بنیادی اصولوں تک پہنچا سکتی ہے، جزئیات کا حل اس کے امکان سے باہر ہے، نیز یہ کہ یہ رہنمائی ہمیشہ قابل یقین بھی نہیں ہوا کرتی۔
اقبال نے تصوف کے اصلی معنی لیے ہیں اور اس کو اصلی اسلامی صورت میں پیش کیا ہے اور چوں کہ ایسا کرنے میں انہوں نے بعض تصوف کے مروجہ اصولوں کی مخالفت کی ہے اس لیے لوگ ان کو دائرہ تصوف میں سے خارج کر دینا چاہتے ہیں، حالاں کہ یہ بات غلط ہے ہم کو اقبال کا مرہون احسان ہونا چاہیے کہ انہوں نے تصوف کے غیر اسلامی اور خارجی عنصر کی طرف توجہ دلا کر اسے پاک کرنے کی کوشش کی ہے۔
اب ہم بعض صوفیانہ مسائل کے متعلق اقبال کے خیالات پیش کرتے ہیں۔
تصوف در اصل اسلام کا ایک جز ولاینفک ہے اور اسلام سے اس کا وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے، تصوف صرف ایک دوسرا نام ہے طریقت کا اور طریقت شریعت سے علٰیحدہ کوئی چیز نہیں، مولانا روم دفتر پنجم کے دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’شریعت ہمچو شمعی است کہ راہ می نماید چوں در راہ آمدی ایں رفتن تو طریقت است و چوں بہ مقصود رسیدی آں حقیقت است‘‘ گویا شریعت علم ہے اور تصوف عمل پس جو تصوف ہم کو اسلام کے اساسی اصولوں سے دور لے جاتا ہے یا کوئی کام شریعت کے احکام کے خلاف کرتا ہے تو اس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں رہتا، چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
پس طریقت چیست اے والا صفات
شرع را دیدن باعماق حیات
فاش می خواہی اگر اسرار دیں
جز با عماق ضمیر خود مبیں
مسلمانوں پر اتباع شریعت فرض ہے، اسی میں ان کی ترقی اور اصلاح، فلاح اور بہبود کا راز مضمر ہے۔
علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست
اصل سنت جز محبت ہیچ نیست
فرد را شرع است مرقات یقیں
پختہ تر از دے مقامات یقیں
ملت از آئین حق گیرد نظام
از نظام محکمے خیز و دوام
قدرت اندر علم او پیدا ستے
ہم عصا و ہم ید بیضا ستے
با تو گویم سر اسلام است شرع
شرع آغاز است و انجام است شرع
اور اتباع شریعت نام ہے اتباع رسول اور اتباع قرآن کا۔
غنچۂ از شاخسار مصطفیٰ
گل شو از باد بہار مصطفیٰ
از بہارش رنگ و بو بالا گرفت
بہرۂ از خلق او باید گرفت
فطرت مسلم سراپا شفقت است
در جہاں دست و زبانش رحمت است
آنکہ مہتاب از سر انگشتش دونیم
رحمت او عالم و اخلاقش عظیم
انسان کی تخلیق کا مقصد جیسا کہ کہا جا چکا ہے احساس خودی ہے اور اس کی منزل مقصود خود نگہداری اور استحکام خودی ہے اور خودی کو مستحکم کرنے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے ماحول سے جنگ وجدل رکھے اور اپنے مقاصد اور آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے رکاوٹوں کو اور مشکالات کو دور کرے، اس جد و جہد کے ذریعہ سے انسان برابر اپے مقاصد میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے، سکون خواہ وہ جنت ہی کا کیوں نہ ہو خودی کی موت کا مرادف ہے، خودی کی ترقی اس کاخ و کوہی پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ طبعی موت کے بعد اس کا میدان اور وسیع ہو جاتا ہے۔
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روزو شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
لیکن جیسا کہ ڈاکٹر عابد حسین صاحب اپنے مضمون ’’اقبال کا تصور خودی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’اس راہ میں ایک رہنمائی عشق ہے عشق اس مرد کامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدارج سے گذر کر خودی کی معراج پر پہنچ چکا ہے، محبت کا دوسرا نام تقلید ہے لیکن یہاں عشق اور تقلید کے یہ معنی نہیں ہیں کہ عاشق اپنے آپ کو معشوق کی ذات میں یا مقلد اپنے آپ کو مرشد کی ذات میں کھو دے یا اس سے روحانی قوت مستعار لے کر مصنوعی تقویت حاصل کرے بلکہ یہ ہیں کہ وہ اس بر تر شخصیت سے تکمیل خودی کا راز سیکھے اور خود اپنی قوتوق کو نشو و نما دے کر اپنی شخصیت یا خودی کو استوار کرے۔
نقطۂ نورے کہ نام او خودی است
زیر خاک ماشرار زندگیست
از محبت میں شود پائندہ تر
زندہ تر سو زندہ ترتا بندہ تر
کیمیاں پیدا کن از مشتِ گلے
بوسہ زن بر آستانِ کاملے
کیفیت ہا خیزد از صہبائے عشق
ہست ہم تقلید از اسمائے عشق
عاشقی محکم شواز تقلید یار
تا کمند تو شود یزداں شکار‘‘
پس ظاہر ہے کہ اقبال سلسلۂ بیعت اور ضرورت شیخ کے قائل تھے اور انسان کے مقصد کے پورا ہونے کے لیے ایک روحانی رہنما کی ضرورت لا بد سمجھتے تھے لیکن آپ عصر حاضر کے عام مشائخ سے کافی بدگمان ہیں، چنانچہ کہتے ہیں کہ
تھا جہاں مدرسۂ شیری و شاہنشاہی
آج ان خانقہوں میں ہے فقط روبا ہی
نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں
وہ شبانی کہ ہے تمہید کلیم اللہی
لذت نغمہ کہاں مرغ خوش الحاں کے لیے
آہ اس باغ میں کرتا ہے نفس کوتاہی
مگر ساتھ ہی ساتھ اقبال اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ’’نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ چنانچہ باوجود اؤلیائے اللہ کی کمیابی کے آپ تلقین کرتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی دنیا بزرگان دین سے خالی نہیں ہے، لہٰذا صحیح ارادت کے ساتھ ان کو ڈھونڈنا چاہیے۔
مؤمن پہ گراں ہیں یہ شب و روز
دین و دولت قمار بازی
ناپید ہے بندہ عمل مسیت
باقی ہے فقط نفس و رازی
ہمت ہے اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی
اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شان بے نیازی
تصوف میں توحید یا وحدت الوجود کا مسئلہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
یہی وہ مسئلہ ہے جس نے عوام تک پہنچ کر تمام اسلامی قوم کو ذوق عمل سے محروم کر دیا اور وحدت الوجود کے عقیدے ہی کی بدولت جو نفی خودی اور نفی کائنات کی تعلیم دیتا ہے اسلام کے پیرو بھی اسی غفلت وجمود کا شکار ہوگیے جو ایشیا کی اور قوموں پر طاری تھا لیکن فی نفسہ یہ مسئلہ وحدت الوجود اس قدر زہر آلود نہیں ہے جیسا کہ اسے خیال اور بیان کیا جاتا ہے بلکہ در اصل اس مسئلہ کا غلط اشتہار اور تلقین ہے جس نے کہ مسلمانوں کو یہ نقصان پہنچایا، مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ ’’حضرات صوفیہ کے نزدیک توحید کے یہ معنی ہیں کہ خدا کے سوا اور کوئی چیز عالم میں موجود ہی نہیں یا یہ کہ جو کچھ موجود ہے سب خدا ہی ہے، اسی کو ہمہ اوست کہتے ہیں، یہ مسئلہ اگرچہ تصوف کا اصول موضوعہ ہے لیکن اس کی تعبیر اس قدر نازک ہے کہ ذرا سا بھی انحراف ہو تو یہ مسئلہ بالکل الحاد سے مل جاتا ہے‘‘ چنانچہ یہی ہوا کہ عام طور سے لوگوں نے اس مسئلہ کے دقیق نکتے کو نہیں سمجھا اور جو مفہوم مروج ہوا وہ یہ کہ وجود حقیقی صرف خالق کائنات کی ذات ہے، مخلوق جس میں عالم طبیعی اور انسان سبھی شامل ہیں محض اعتباری اور موہوم وجود رکھتے ہیں اور انسان کی ہستی یا خودی اس کو مشاہدہ حق اور وصل خدا سے باز رکھتی ہے، لہذا سب سے پہلے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی خودی کو زائل کرے اور تمام دنیاوی قیود اور پابندیوں سے آزاد ہو کر فنا فی اللہ ہو جائے، اس عقیدہ نفی خودی کے اقبال سخت مخالف تھے اور ’’اثبات خودی‘‘ کے ذریعہ سے اس نظریہ کو باطل کرنا چاہتے تھے، مسئلہ توحید اور فنا فی اللہ کے وہ بھی پورے طور سے قائل ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ حدیث شریف ’’تخلقوا با خلاق اللہ‘‘ کے مطابق انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کے اوصاف اپنی ذات میں پیدا کرے، چنانچہ جس قدر یہ اوصاف انسان اپنے اندر زیادہ پیدا کرتا جائے گا اتنا ہی وہ خدا سے نزدیک تر ہوتا جائے گا اور جو خدا سے زیادہ نزدیک ہوگا وہی زیادہ کامل انسان ہوگا، اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان اپنی ہستی باری تعالیٰ کی ذات میں مدغم کر دیتا ہے بر خلاف اس کے وہ خدا کی ذات کو اپنی ہستی یا خودی میں جذب کر لیتا ہے، کامل انسان اول مادہ کو جذب کرتا ہے اور پھر خدا کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے، نتیجہ اس کا بھی وہی ہے یعنی توحید یا فنا فی اللہ، عوام کے عقیدے کے مطابق انسان کی خودی زائل ہو جاتی ہے لیکن اقبا ل کے نظریہ کے مطابق انسان کی خودی پر برقرار رہتی ہے اور مقصد یہی حاصل ہو جاتا ہے، چنانچہ اقبال اپنے لکچر میں اس کو بجنسہ اسی طرح واضح فرماتے ہیں۔
’’اعلیٰ اسلامی تصوف میں مقامات توحید طے کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کی خودی اپنے آپ فنا کر کے اس قادر مطلق کی خودی میں کسی طرح بھی جذب یا مدغم کر دے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس قادر مطلق کی لازوال خودی اس کے آغوش میں آ جائے‘‘
مسئلہ انالحق کے متعلق جو توحید ہی کا ایک بلند درجہ ہے اقبال کہتے ہیں۔
اگر فرد دے بگوید سرزنش بہ
اگر قومے بگوید نار و انیست
بجام نوکہن مے از سبوریز
فروغ خویش رابر کاخ و کوریز
اگر خواہی ثمر از شاخ منصور
بہ دل لا غالب الا اللہ فرد ریز
عام طور سے صوفی یہ کہتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ خالق مطلق اس میں اپنی حسن و جمال کا نظارہ کرے، چنانچہ غالب کہتے ہیں۔
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
اقبال بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔
صورت گرے کہ پیکر روز و شب آفرید
از نقش ایں و آں بہ تماشائے خود رسید
لیکن اور صوفیوں میں اور اقبال میں یہ فرق ہے کہ ان کے نزدیک ماسواللہ کا کوئی وجود نہیں اور وہ محض تخیل کی فریب کاری ہے لیکن اقبال کے لیے ہر چیز کا ذاتی وجود ہے۔
شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں
بر خلاف اس کے اقبال کے خیال میں تمام موجودات میں خودی کی روح پوشیدہ ہے، چنانچہ انسان بھی اس خودی کو ترقی دے کر اور برقرار رکھ کر خدا کا وصل حاصل کرسکتا ہے، وہ ایسے وصل کے قائل نہیں جس میں قطرہ کا وجود دریا میں زائل ہو جائے، ان کے نزدیک دیدار و معرفت الٰہی سے خودی کی آب و تاب کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے۔
یکے قطرہ باراں زابرے چکید
خجل شد چو پہنائے دریا بدید
کہ جائے کہ دریاست من نیستم
گراو ہست حقا کہ من نیستم
ولیکن زور یا بر آمد خروش
ز شرم تنک مایگی رومپوش
زموج سبک سیر من زادۂ
زمن زادۂ در من افتادۂ
بیاسائے در خلوت سینہ ام
چو جوہر درخش اندر آئینہ ام
گہر شودر آغوش شبنم بزی
فروزاں تراز ماہ و انجم بزی
انسان کے لئے بہترین راستہ شریعت اور طریقت کی رو سے تسلیم و رضا کا ہے۔ یعنی وہ ہر حادثہ دنیاوی کا صبر واستقلال کے ساتھ مقابلہ کرے اور ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرے اور سمجھے کہ’ ہر چہ ازدوست می رسد نیکوست تسلیم و رضا سے انسان میں سکوت وجمود کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی بکہ اس کے قوائے عملی میں اور زیادہ تحریک ہوتی ہے۔
ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا
پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا
ظلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا
ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشو و نما کا
فطرت کے تقاضوں نہ کر راہ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا
جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مرد خدا ملک خدا تنگ نہیں ہے
خلاصہ یہ ہے کہ اگر صحیح طریقہ سے تسلیم و رضا اختیار کی جائے تو وہ زندگی کو محکم کرتی ہے اور اگر غلط طریقہ سے اختیار کی جائے تو وہی جمود و سکوت پیدا کرتی ہے۔
زندگی محکم ز تسلیم و رضا ست
موج نیرنج و طلسم و کیمیاست
کار ما غیر از امید و بیم نیست
ہر کسے راہمت تسلیم نیست
کارمردان است تسلیم و رضا
بر ضعیفاں راست نآید ایں قبا
اسی طرح مسئلہ تقدیر ہے، کہ لوگوں نے اس کا اصل مفہوم نہیں سمجھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے ہر عمل کو تقدیر کا پابند سمجھنے لگے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اپنی تقدیر پر بھروسہ کرکے بیٹھ گیے، حالاں کہ یہ بات اصل تعلیم اسلام کے خلاف ہے، خدا نے خود اس دنیا کو عام اسباب و علل کہا ہے اور انسان کو اپنے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، اس کے علاوہ اسلام خود عمل کی زبردست تلقین کرتا ہے اور خود آنحضرت کی زندگی اس کا ثبوت پیش کرتی ہے، لہٰذا ظاہر ہے کہ تقدیر کا اسلامی نظریہ ہرگز بے عملی اور کسالت پیدا نہیں کرسکتا اور مرد مؤمن خود اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔
اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اس کا مقدر ابھی نا خوش ابھی خورسند
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مؤمن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
چنانچہ حضرت اقبال مسئلہ تقدیریوں واضح کرتے ہیں۔
اے کہ گوئی بودنی ایں بودشد
کار ہا پابند آئیں بودش
معنی تقدیر کم فہمیدۂ
نے خودی رانے خدا را دیدۂ
مرد مؤمن با خدا دارد نیاز
با تو ما ساز تو باما بساز
ہر کہ از تقدیر خویش آگاہ نیست
خاک او باسوز جاں ہمراہ نیست
مسئلہ جبر و اختیار کے غلط افہام نے بھی مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اکثر صوفیائے کرام انسان کو مجبور محض مانتے ہیں اور بعض انسان کو مختار مطلق کہتے ہیں لیکن ان دونوں نظریوں اور خصوصاً پہلے نظریہ نے بہت نقصان پہنچایا ہے، مولانا روم نے اس کی بہت مذمت کی ہے اور طرح طرح سے یہ بات ثابت کی ہے کہ انسان ایک حد تک اپنے عمل کا مختار ہے لیکن نہ وہ مختار مطلق ہے اور نہ مجبور محض، اقبال کا بھی یہی عقیدہ ہے فرماتے ہیں۔
بہ رو ما گفت بامن راہب پیر
کہ دارم نکتۂ ازمن فرا گیر
کند ہر قوم پیدا مرگ خودرا
ترا تقدیر و مارا کشت تدبیر
پس ظاہر ہے کہ ’’اقبال در اصل ایک صوفی شاعر تھا، وہ منفی تصوف کا نہیں بلکہ اثباتی تصوف کا قائل تھا، منفی تصوف وہ ہندی عجمی تصوف ہے جو انسان کو اس دنیا سے بے تعلق کر کے صرف روحانیت میں گم کر دے، اثباتی تصوف اسلامی تصوف ہے جو انسان کا روحانیت سے اس طرح تعلق باقی رکھے کہ وہ اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ انفرادی اور اجتماعی فرائض انجام دے، اس کی سب سے اعلیٰ مثال رسول اللہ کی زندگی میں ملتی ہے، اقبال کو رسول اللہ کی ذات سے عشق تھا وہ خاک پاک حجازمیں مرنا جینے سے بہتر سمجھتا تھا‘‘
اقبال ہندوستانی مسلمانوں کی خستہ حالی اور ابتری پر کڑھتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ تمام مسلمانوں پر جمود و سکوت کی عجیب کیفیت طاری ہے وہ صرف نام و نمود کے مسلمان ہیں نہ انمیں ’’زور حیدری‘‘ ہے اور نہ ’’استغنائے سلمانی‘‘ وہ مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونکتے ہیں ان پر ان کی اصل حقیقت اور مرتبہ ظاہر کرتے ہیں، ان میں خودی کا احسا پیدا کرتے ہیں اور نوجوان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
عقبابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید نومیدی نہ وال علم و عرفاں ہے
امید مرد مؤمن ہے خدا کے رازدانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑونکی چٹانوں میں
اسی لیے اقبال گوشہ نشین صوفیہ اور خشک زاہدوں کو پسند نہیں کرتے بلکہ انہیں مسلمانوں کے زوال و ادبار اور کسالت و بے عملی کا سبب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں۔
رندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات
ہر چند کہ مشہور نہیں ان کے کرامات
خود گیر و خود داری و گلبانگ انا القح
آزاد ہو سالک تو یہ ہیں اسکے مقامات
محکوم ہو سالک تو یہی اس کا ہمہ اوست
خود مردہ و خود مرقد و خود مرگ مفاجاتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.