Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

سماع کے آداب و موانع سے قوالی کا انحراف

اکمل حیدرآبادی

سماع کے آداب و موانع سے قوالی کا انحراف

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    حضرت جنید بغدادی کے سماع سے آخری عمر میں کنارہ کشی اختیار کر لینے کے بعد سماع کے موئیدین میں حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی کو سب پر فوقیت حاصل ہے، آپ نے نہ صرف سماع کی تائید فرمائی بلکہ اس کے آداب و موانع بھی مقر فرمائے جن کی تفصیل آپ کی تصانیف احیاؤالعلوم اور کیمیائے سعادت میں درج ہے، سماع کی ساری بحث آپ ہی کے وضع کردہ آداب موانع کے اطراف گردش کرتی ہے، آج آپ سے بڑی کوئی تائید سماع کو حاصل نہیں، ذیل میں حضرت امام غزالی کے متذکرہ آداب و مواقع مفصل درج کیے جا رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ قوالی کو ان سے جوڑ جوڑ کر یہ حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ قوالی ابتدا ہی سے سماع کے ان آداب و موانع کی پابند نہ رہی، یہ ثابت کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہوگا کہ جو لوگ آج کی قوالی کو غیر مذہبی چیز قرار دیتے ہی وہ دیکھ لیں کہ قوالی ابتدا ہی سے غیر مذہبی چیز رہی ہے، اس پر سماع جیسی مذہبی چیز کا گمان ابتدا ہی سے غلط ہے، اب ملاحظہ فرمائیے غزالی کے آداب و شرائطِ سماع جو آسان اردو کے پیشِ نظر عامر عثمانی کی کتاب ’’وجد و سماع‘‘ سے نقل کیے جا رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ہم ان شرائط سے قوالی کا انخراف بھی ثابت کرتے چلیں گے۔

    (۱) شرطِ اول :- ’’رعایتِ زمان و مکان اور اخوان کی‘‘ امام غزالی کی جانب سے سماع پر لگائی گئی اس اولین شرط کی صراحت حضرت جنید بغدادی نے یوں فرمائی تھی کہ زمان سے مراد یہ ہے کہ ایسا وقت ہو جس میں کوئی شرعی یا طبعی کام نہ ہو مثلاً نماز پڑھنا یا کھانا کھانا وغیرہ اس سلسلہ میں ہمیں یہ معلوم ہوسکا ہے ابتدائی قوالی صرف خانقاہ میں نہیں بلکہ شاہوں کے دربار اور موسیقی کے مقابلوں میں بھی پیش کی گئی ہے، چنانچہ موسیقار گوپال نایک سے جب امیر خسروؔ کا مقابلہ ہوا تو اس محفل میں خسروؔ نے اپنے شاگردوں سے قوالی گوائی موسیقی کے شاہی مقابلوں یا شاہی محفلوں میں نہ وقتِ نماز کا خیال رکھا جاتا تھا اور کھانے پینے کا کوئی وقت مقرر تھا، نظام الدین اؤلیا کی کسی خانقاہ کی حد تک ممکن ہے کہ رعایتِ وقت کو ملحوظ رکھا گیا ہو مگر متذکرہ محفلِ قوالی کی عام محفلوں میں ابتدا ہی سے رعایتِ وقت کی خلاف ورزی کا ثبوت ہے۔

    حضرت جنید نے رعایتِ مکان کی تصریح یہ کی ہے کہ ’’مکان سے مراد یہ کہ جس جگہ سماع کی محفل گرم ہو وہاں عام آمد و رفت کی راہ نہ ہو، ایسا کوئی ہنگامہ یا قضیہ نہ ہو جس سے دل (سماع کی جانب سے) ہٹ جائے اس سلسلہ میں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ حضرت نظام الدین اؤلیا کے دربار میں عوام و خواص کسی پر پابندی نہ تھی اور اسی دربار میں قوالی کی محفلیں کثرت سے منعقد ہوئی ہیں۔

    اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جہاں عوام کا اجتماع ہو وہاں دل و دماغ منتشر رہتے ہیں۔

    رعایتِ اخوان کے بارے میں حضرت جنید بغدادی نے فرمایا ہے کہ اخوان سے مراد یہ ہے کہ شرکائے مجلس ہم مشرب و ہم خیال ہوں، کوئی تا جنس نہ ہو جو دولتِ باطن سے بے بہرہ ہو اس سلسلہ میں اس بات پر غور کر لینا کافی ہے کہ قوالی کی محفلوں میں حضرت نظام الدین اؤلیا اور حضرت امیر خسروؔ نے مختلف مذاہب کے لوگوں کو شرکت کی ابتدا ہی سے اجازت دے رکھی ہے۔

    (۲) شرطِ دوم :- شیخ یعنی پیر و مرشد مریدین کی حالت پر غور کرے اور جن مریدوں کو سماع سے ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو ان کے سامنے سماع سے پرہیز کرے، جن لوگوں کو سماع سے ضرر ہوتا ہے وہ تین طرح کے ہیں۔

    اول وہ شخص جو ابھی طریقت سے واقف نہیں، صرف ظاہری اعمال کو جانتا ہے۔

    دوم وہ شخص جسے مناسبتِ باطن کے سبب سماع سے ذوق تو ہے لیکن ابھی اس میں لذت اندوزی کی ہوس اور خواہشات باقی ہیں، نفس کی قوت اچھی طرح شکست نہیں ہوئی۔

    سوم وہ شخص کہ اس کی ہوس و شہوت بھی شکستہ ہوچکی ہو اور اللہ تعالیٰ کی محبت بھی اس پر غالب ہو اور اس کی چشم بصیرت بھی کشادہ ہوگی اور کسی خرابی کا اندیشہ بھی نہ ہو مگر علم ظاہری میں کمال پختگی حاصل نہ ہوئی ہو اور اسمائے صفات کے مسائل سے اچھی طرح واقف نہ ہو، جس سے یہ سمجھ سکے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کسی چیز کی نسبت کرنی جائز اور کس چیز کی باطل ہے، جب ایسا شخص سماع کی محفل میں ہوگا تو جو کچھ بھی سنے گا اس کو اللہ کی طرف لے دوڑے گا، خواہ اس کی نسبت ذات باری کی طرف صحیح ہو یا غلط، لہٰذا اس طرح کی کافرانہ حرکت سے جس قدر نقصان ہوگا اتنا فائدہ سماع سے نہ ہوگا اور ایسے شخص کو سماع سے بچنا چاہیے جس کا قلب ابھی حب دنیا سے آلودہ ہو اور ایسے شخص کو بھی بچنا چاہیے جو محض لذت اور طبیعت خوش کرنے کو سنتا ہو پھر شدہ شدہ اس کی عادت ہو جائے اور یہ عادت ضروری عبادات اور مراعاتِ قلب میں سدِّ راہ ہو جائے اور طریقِ سلوک اس کا منقطع ہو جائے، الغرض سماع بڑی لغزشوں کی چیز ہے، ضعیف الحال لوگوں کا اس سے بچنا واجب ہے‘‘

    یہ ہیں ارشادات حضرت امام غزالی کے سماع کی شرطِ دوم کے سلسلہ میں، آپ نے شرکائے محفلِ سماع کے لیے جو کسوٹی مقرر فرما لی ہے، اس کسوٹی پر قوالی کے عہدِ ایجاد یعنی ساتویں صدی ہجری میں بھی لاکھوں میں ایک آدھ مشکل سے پورا اتر سکتا ہوگا کیوں کہ قوالی کی اس عہد کی محفلوں کا یہ عالم تھا کہ ہر خاص و عام ان میں شریک تھا، مصنف ’’سیرالاؤلیا‘‘ امیر خودرد لکھتے ہیں کہ حضرت نظام الدین اؤلیا نے اپنی خانقاہ کے دروازے تمام لوگوں کے لیے کھلے رکھے تھے، خواہ غریب ہوں یا امیر، مالک ہوں یا فقیر، عالم ہوں یا ان پڑھ، شہری ہوں یا دہقانی، آزاد ہوں یا غلام، فوجی ہوں یا غیر فوجی اور اسی خانقاہ عام میں قوالی کی ابتدئی میں منعقد ہوئی ہیں، کیا اس دربارِ عام میں اس معیار کے لوگ ہوں گے جو معیار سماع کی محفلوں کے لیے ہوا مقرر فرمایا گیا ہے، ظاہر ہے ایسا معیار تمام حاضرین کا ہرگز نہ ہوگا، یہ حقیقت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ حضرت نظام الدین اؤلیا اور حضرت امیر خسروؔ نے قوالی کو ابتدا ہی سے سماع کا ہم پلہ قرار نہیں دیا، اس کو محض تمام مذاہب اور نظریات کے لوگوں کو جوڑنے کے ذریعہ کی حد تک برتا۔

    (۳) شرطِ سوم :- ’’ کان کھول کر سنے، ادھر اُدھر نہ دیکھے حاضرینِ محفل کے چہروں پر نظرنہ کرے، ان کے وجد حال پر متوجہ نہ ہو اپنے دھیان میں لگا رہے اپنے قلب پر نظر رکھے، باطن میں جو کشود اللہ کی طرف سے ہو اس پر ملتفت رہے، کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے دوسروں کے دل بٹ جائیں، بالکل بے حس و حرکت بیٹھا رہے، نہ کھنکارے نہ جما ہی لے سر جھکائے کسی گہری سوچ میں بیٹھا ہو، نہ تالیاں بجائے نہ کودے نہ اچھلے نہ کوئی حرکت بناوٹ اور نمائش کرے بلکہ شدید ضرورت کے بغیر کوئی بات منہ سے نہ نکالے، ہاں اگر بے اختیار کوئی کیفیت طاری ہو جائے تو معذور ہے لیکن جب بھی یہ بے اختیاری کیفیت ختم ہو تو فوراً ہی ساکن و ساکت ہو جائے یہ نہیں کہ وہی پہلی سی حالت بنائے رکھے اس خیال ہے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ بڑا سنگ دل ہے اس کے قلب میں کچھ صفائی و رقت نہیں۔

    یہاں تک امام غزالی کی اہلِ سماع پر تیسری شرط ہے، اس شرط کی پابندی قوال کی حالیہ محفلوں میں تو خیر ممکن اس کی پابندی ابتدائی محفلوں میں شاید ہوئی ہو، کیوں کہ یہ کوئی سخت شرط نہیں ہے، اس میں صرف ہمہ تن توجہ بنے رہنے کی تاکید ہے اور یہ تقاضا نہ صرف سماع کا بلکہ فن موسیقی کی ہر صنف کا ہے جس میں قوالی بھی شامل ہے۔

    (۴) شرطِ چہارم :- نہ کھڑا ہو نہ بلند آواز سے چلّائے جب تک کہ ضبط پر قادر ہو۔

    امام غزالی کی یہ چوتھی شرط تیسری شرط سے مختلف نہیں ہے، ممکن ہے قوالی کی ابتدائی محفلوں میں اس کی بھی پابندی کی گئی ہو۔

    (۵) شرط پنجم :- اگر کوئی صادق الحال کھڑا ہو جائے تو سب کواس کی موافقت کرنی چاہیے، کیوں کہ اصحاب و احباب کی رعایت ضروری ہے۔

    حضرت غزالی کی یہ شرط اہلِ سماع کی کیفیت وجد سے متعلق ہے اور یہ کیفیت سماع اور قوالی کی محفلوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے جس کے بارے میں آگے یعنوان وجد وضاحت کی جائے گی، امام غزالی نے جہاں سماع کے پانچ آداب مقرر فرمائے ہیں وہیں پانچ موانع (منوعات) بھی مقرر فرمائے ہیں، آپ ہی کی زبان میں پانچوں موانع کا ذکر سنیے یعنی ان چیزوں کا ذکر جن کی موجودگی سماع کی محفل میں نا جائز قرار دیتی ہے۔

    (۱) مانع اول :- گانے والی عورت ہو یا تو جوان خوش رو لڑکا، دونوں میں خرابی کا احتمال ہے اور عورت ہو تو نگاہ کرنا بھی حرام ہے، امام غزالی نے سماع میں عورت یا نوجوان لڑکے کو منع فرمایا ہے، یہ بات مشہور ہے کہ امیر خسروؔ کی قوالیاں ان کے نوجوان شاگرد پیش کیا کرتے تھے جن میں حسن نامی نوجوان کا نام پڑ ھنے میں آیا ہے، مزید یہ کہ خسروؔ اپنے نوجوان لڑکے حاجیؔ سے بھی خانقاہ میں اپنا کلام گوایا کرتے تھے، مرتبین خسروؔ شناسی ظؔ انصاری اور ابوالفیض سحر لکھتے ہیں کہ

    ’’ان (خسروؔ) کے عزیز ترین فرزند حاجیؔ کا نوجوانی میں انتقال ہوگیا، یہ لڑکا درباروں محفلوں اور خانقاہ میں امیر خسروؔ کا کلام ویسے ہی لہک لہک کر اور گا کر سنایا کرتا تھا، جیسے خود امیر خسروؔ سناتے، اس کے علاوه مشہور موسیقار گوپال نایک کے مقابلہ میں بھی خسروؔ نے اپنے نوجوان شاگردوں سے قوالی گوائی اور اس کی تعریف سن کر بادشاہ نے خسروؔ کے مشورہ سے ان لڑکوں کو قوال کا لقب عطا کیا اور اسی رعایت سے یہ طرز قوالی کہلائی، نوجوانوں کی سماع خوانی کو حضرت امام غرالی نے منع فرمایا ہے اور قوالی کی محفلوں میں نوجوان باضابطہ حصہ لے چکے ہیں تو اس سے یہی بات مسلسل ثابت ہوتی آ رہی ہے کہ قوالی کو ابتدا ہی سے سماع سے مختلف چیز کی حیثیت سے برتا گیا۔

    (۲) مانع دوم :- جس آلہ کو سماع کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہو وہ شرابیوں اور مخنثوں کا شعار ہوا ور تمام مزامیر (با جے) اور جتنے اقسام تار کے ہیں اور طبل جو ڈھول نما ہو، اس مانع کے تحت غزالی نے سماع میں ڈھول، طبل اور تار کے تمام سازوں کی شمولیت ممنوع قرار دیا ہے، امیر خسروؔ اپنے پیر و مرشد کی خانقاہ میں جس طرز کی قوالی پیش کیا کرتے تھے، اس میں ڈھول بھی شریک تھی اور ستار بھی جو کہ خالص تار کا ساز ہے، ان سازوں کی شمولیت کے بارے میں آگے تاریخی حوالے موجود ہیں اور ان سازوں کی شمولیت کے باعث قوالی سماع سے قطعی الگ چیز ہو جاتی ہے یعنی ایک فن کی تعریف میں آتی ہے۔

    (۳) مانع سوم :- پڑھے جانے والے اشعار میں حسنِ مجازی کا ذکر ہوا اگر چہ کہ ایسا شعر سننا یا کہنا فی نفسہٖ حرام نہیں ہے لیکن یہ بات واجب ہے کہ ایسے اشعار کے مضامین کو اکیسی ہستی پر نہ پڑھا جائے جو اس کے لیے صحیح مصداق نہیں۔

    قوالی کی قدیم محفلوں میں جو اشعار پڑھے جاتے تھے ان کے کچھ حوالے بعض کتابوں میں موجود ہیں، اس کلام میں خسروؔ کا فارسی ہندی (اردو) کلام بھی شامل ہے جس میں حسنِ مجازی کا ذکر بھی ہے لیکن نہیں کہا جاسکتا کہ اس کلام میں سے خود خسروؔ جو کلام پیش کرتے تھے یا جو کلام خانقاہ میں پیش کیا جاتا تھا، اس میں حسن مجازی پر مشتمل اشعار بھی شامل تھے کہ نہیں بعضوں کا خیال ہے کہ ایسے اشعار شامل تھے لیکن مراداً ان کےمعنی حسنِ حقیقی لیے جاتے تھے، بہر حال! سماع کے اس مانع کے متعلق موجد قوالی کا رویہ ہنوز غیر واضح ہے۔

    (۴) مانعِ چہارم :- سننے والے میں بھی قوتِ شہوانیہ غالب ہوا اور جوانی کا جوش ہو اور دوسری محمود صفات مغلوب ہوں، ایسے شخص کے لیے سماع مطلقاً حرام ہے، خواہ اس کے دل میں کسی مجازی محبوب کی محبت ہو یا نہ ہو، کیوں کہ ایسے شخص کے لیے مضامینِ زلف و رخسار اور ذکر معشوقِ طرح دار اور گفتگوئے وصل و فراقِ یار یقیناً قوتِ شہوانیہ کی تحریک و انگیزش کا باعث ہوں گے اور شیطان اس کے دل میں پھونک مار کر کوئی خیالی معشوق تراش کر اس کی طرف متوجہ کر دے گا، پس اس کے دل میں آتشِ شہوت مشتعل ہوگی اور خبیث قوتیں تیز ہوں گی، اس کا مطلب ہے شیطان کے لشکر کو قوت دینا اور شکر خداوندی یعنی عقل کو کمزوری دینا، پس واجب ہے کہ ایسے شخص کو سماع سےباہر کر دیا جائے۔

    سماع کے بارے میں امام غزالی کے اس چوتھے مانع کا لحاظ قوالی کی محفلوں میں ابتدا ہی سے ناممکن رہا کیوں کہ ان محفلوں میں خصوصیت کے ساتھ حضرت نظام الدین اؤلیا کے دربار میں خاص و عام میں کسی کو شرکت سے منع نہیں کیا گیا، وہ دربار ہر مذہب اور ہر قسم کے لوگوں کی اصلاح کی غرض سے سب پر کھول دیا گیا تھا، کسی کی شرکت پر قید نہ تھی۔

    (۵) مانع پنجم :- سننے والا عوام الناس میں سے ہو، نہ اللہ ہی کی محبت اس پر غالب ہے نہ کسی شہوت ہی کا غلبہ ہے، اس کے لیے سماع فی نفسہ مباح ہے لیکن جب اس کی عادت مقرر کر لے اور اکثر اوقات اس میں لگا رہے تو شخص مردودالشہادت ہو جاتا ہے، امام غزالی سماع کو کثرت سے سننے اور عادت بنا لینے سے منع فرماتے ہیں اور قوالی کا یہ عالم ہے کہ جن حلقوں میں اس کی ابتدا ہوئی ان حلقوں میں یہ روز کا معمول بن گئی تھی۔

    یہاں تک میں نے امام غزالی کے مقرر کردہ وہ آداب و موانع نقل کیے اور ساتھ ہی ساتھ ان سے قوالی کا انحراف بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قوالی کو ابتدا ہی سے سماع سے مختلف چیز کی حیثیت سے برتا گیا، اب آگے چند مزید مختلف حقائق کے ذریعہ قوالی اور سماع کے مختلف ہونے کے ثبوت فراہم کیے جائیں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے