حضرت شاہ محمد تقی نیازی بریلوی
دلچسپ معلومات
مؤرخہ ۲۹؍ اگست ۱۹۸۰ء کو شفیقؔ بریلوی کا یہ مضمون شائع روزنامہ جنگ (ص؍۱۳) میں شائع ہوا۔
بریلی شریف میں خانقاہ نیازیہ رشد و ہدایت کا ایک بڑا مرکز ہے، جس کے سجادہ پر اللہ کے نیک بندے آتے رہے اور طالبان حق کو سیدھا راستہ دکھاتے رہے، اللہ کا پیغام، خدا کا پیغام، رسول کا پیغام، لوگوں تک پہنچاتے رہے، صدیوں سے یہ خانقاہ قلب و روح کی تربیت گار اور روحانیت کے طلب گاروں کے لیے چشمۂ فیض ہے، آج اسی خانقاہ سے نسبت رکھنے والے صرف پاکستان، افغانستان، ایران، بنگلہ دیش اور بھارت ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس گلشنِ نیاز یہ کے ایک گلِ شاداب امام السالکین، حضرت شاہ محمد تقی عرف عزیز میاں کی ولادت با سعادت ۱۹ ربیع الاول ۱۳۱۷ ہجری نبوی کو بریلی میں ہوئی، وہ قطب عالم حضرت شاہ نیاز احمد علوی قادری چشتی بریلوی کے فرزند و جانشین تاج الاؤلیا حضرت شاہ نظام الدین حسین کے صاحبزادے اور جانشین سراج السالکین حضرت شاہ محی الدین احمد عرف ننہے میاں قادری چشتی نیازی نظامی بریلوی کے بڑے نواسہ اور جانشین تھے۔
قطب عالم حضرت شاہ نیاز احمد اول بیعتہ قاری تھے، آپ نے حضرت سید عبداللہ قادری بغدادی سے سرچشمۂ معرفت پایا تھا، حضرت سید عبداللہ حضرت غوث معظم سید عبدالقادر گیلانی کی اولاد میں تھے اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت مرزا مظہر جان جاناں اور حضرت مولانا شاہ فخرالدین محمد کے زمانہ میں بغداد چھوڑ کر دہلی آ گیے تھے، اسی دور میں حضرت شاہ نیاز احمد نے سید عبداللہ قادری سے فیض روحانی پایا، بعد گو حضرت شاہ نیاز احمد نے حضرت مولانا شاہ فخرالدین محمد یہ کی جانب رجوع کیا اور فقط عالیہ چشتیہ سے وابستہ ہوئے حضرت شاہ نیاز احمد نے اپنی قادریت اور چشتیت کو اپنے اس شعر میں بڑی خوبی سے ظاہر کیا ہے۔
فیض یاب بارگاہ شیخ عبدالقادرم
زیں نمط از فخر ما را عز و جاہ دیگر ست
امام السالکین حضرت شاہ محمد تقی نے والد ماجد حضرت شاہ محمد مہندی عرف دولہا میاں اولاد میں تھے، قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکی کے طبقہ اور حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے پیر و مرشد سلطان العارفین حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر (پاک پٹن) کے اسی طرح حضرت شاہ محمد تقی والدہ کی جانب سے علوی سید، والد کی جانب سے فریدی اور سلسلۂ طریقت کے اعتبار سے قادری چشتی نیازی نظامی نقشبندی صابری سے تعلق رکھتے تھے۔
سراج السالکین حضرت شاہ محی الدین احمد کا عقدِ مسنون بریلی کے سادات محلہ میں سید فدا حسین شاہ کی دختر سے ہوا تھا، ان کے بطن سے ایک صاحبزادی پیدا ہوئیں اس کے بعد بی بی صاحبہ نے رحلت فرمائی، حضرت سراج السالکین کو اپنی اکلوتی بیٹی سے بے انتہا محبت تھی، وہ بھی صاحبِ مقاماتِ عالیہ اور ولیٔ کاملہ تھیں، جن کی شادی حضرت شاہ محمد مہدی میاں سے ہوئی تھی،ان ہی کے بطن سے حضرت شاہ محمد تقی کی ولادت ہوئی، انہوں نے علومِ ظاہری کی تکمیل کے بعد علومِ باطنی کی تکمیل اپنے نانا حضرت سراج السالکین سے کی تھی، تمام علوم و فنون میں پوری وسعت گاہ حاصل کرنا اس خانوادۂ نیازیہ کے بزرگوں کی ہمیشہ سے روایت رہی ہے، حضرت شاہ محمد تقی کو بھی جہاں علم و فضل اور کشف و کرامات میں بلند مرتبہ حاصل تھا، وہیں آپ کو فنی شمشیر زنی، شہسواری اور بانک و نبوٹ وغیرہ میں بھی کمال حاصل تھا۔
تصوف کی بنیاد تعلیم محبت ہے، اسی لیے ہر صوفی عشقِ حقیقی کی پرورش خاص اہتمام سے اپنے دل میں کرتا ہے اور اس کا ہی اختیار اظہار اکثر اشعار کی صورت میں ہوتا ہے، اسی لیے عام طور پر صوفیائے کرام بہت بلند شاعر بھی ہوئے ہیں، قطبِ عالم حضرت شاہ نیاز احمد سے کلام بلاغت کو جو مقبولیت خاصان (فقر و عرفان میں حاصل رہی ہے) اس کو معراج شاعری کے علاوہ اور کسی نام سے نہیں پکارا جاسکتا، امام السالکین حضرت شاہ محمد تقی بھی ممتاز شاعر تھے، آپ کا تخلص راز تھا، یہ تخلص بھی اہلِ دل کے لیے ایک خاص اشارہ ہے۔
امام السالکین حضرت شاہ محمد تقی کے نانا اور پیر و مرشد سراج السالکین حضرت شاہ محی الدین احمد کے اجداد بخارا کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، ان کی سلطنت کا مرکزی مقام غدی جان تھا، حضرت شاہ آیت اللہ علوی ترکِ سلطنت کر کے ملتان تشریف لائے، کچھ عرصہ کے بعد آپ کے پوتے حضرت شاہ عظمت اللہ صمدی ملتان سے مہر سید چلے گیے، بعد ازاں ان کے فرزند حضرت شاہ رقت اللہ صغریٰ کسر عنہ سے دہلی تشریف لائے، آپ ہی کی اولاد میں قطبِ عالم حضرت شاہ نیاز احمد ہوئے، جنہیں رشد و ہدایت کے لیے روہیل کھنڈ کے مرکزی مقام بریلی جانے کا حکم ہوا، آپ بریلی پہنچے اور وہاں محلہ خواجہ قطب میں طرح امامت ڈالی جہاں آج خانقاہ نیازیہ ہے، اس خانقاہ کو حضرت شاہ نیاز احمد کے نام سے بڑا شہرہ حاصل ہوا اور بے شمار بندگانِ خدا نے فیض پایا، حضرت شاہ نیاز احمد نے ۶؍ جمادی الثانی۱۲۵۰ ہجری نبوی میں وصال فرمایا، پھر یہ فیض تاج الاؤلیا حضرت شاہ نظام الدین حسین اور سراج السالکین حضرت شاہ محی الدین احمد سے جاری و ساری ہوا۔
سراج السالکین حضرت شاہ محی الدین احمد نے ربیع الاول۱۳۴۳ ہجری نبوی میں وصال فرمایا اور امام السالکین حضرت شاہ محمد تقی مسند نشیں ہو کر اپنے بزرگوں کی شاندار روایات کو شاندار طریقہ پر قائم رکھا، امام السالکین اس مسندِ عالی کے وارث تھے جو سلطان الہند خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری سے سلسلہ بہ سلسلہ حضرت شاہ فخرالدین محمد تک پہنچی اور پھر آب و تاب کے ساتھ حضرت شاہ نیاز احمد کو منتقل ہوئی، لہٰذا حضرت شاہ محمد تقی جانشیں تھے، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے اور خواجہ غریب نواز کے نصب العین ہی کی تکمیل آپ اور آپ کے بزرگوں کی زندگی کا اصل مقصد تھا، ایک عجیب مماتلث کا رنگ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جس طرح خواجۂ اجمیر سے ہر مذہب و ملت کے افراد عقیدت و محبت رکھتے تھے، اسی طرح ان کے جانشین بزرگان نیاز یہ کے ساتھ بھی ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی وغیرہ والہانہ شیفتگی رکھتے تھے، طرفہ تماشہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ غیر مسلم بھی سب سے زیادہ سکون قطبِ بزرگان نیازیہ کی حضوری ہی میں آکر محسوس کرتے، کسی نے سچ کہا ہے کہ جو دلوں کو فتح کرے وہی فاتح زمانہ۔
خانقاہ نیازیہ میں میرا بچپن گذرا ہے، میں نے اس بابرکت خانوادے کی حویلی میں آنکھیں کھولیں، مجھے یہ معلومات بھی حاصل ہے کہ سراج السالکین حضرت شاہ نظام الدین احمد اور امام السالکین حضرت شاہ محمد تقی کو بہت قریب سے دیکھا ہی نہیں بلکہ میرا عہدِ طفلی ان کی بزرگانہ شفقت کے سایہ میں بسر ہوا ہے، حقیقت میں یہ ان ہی بزرگانِ عظام کا فیضِ صحبت ہے جو آج بھی میری زندگی میں رہنمائی کر رہا ہے، میری آنکھوں نے تو خانقاہ نیازیہ میں غیر مسلموں ہی کو جبیں سائی کرتے نہیں دیکھا، میں نے تو بلا مذہب و ملت لوگوں کو عقیدت رکھتے دیکھا ہے، اب کہاں میں نے ایسے مشفق و رہنما بزرگ جن کی ایک ایک بات اور فیض و کرم بھی ایک ادا میرے قلب پر مرتسم ہے۔
امام السالکین حضرت شاہ محمد تقی حسبِ معمول ماہ رجب المرجب ۱۳۸۷ ہجری میں خواجہ معین الدین چشتی کے عرس میں شرکت کے لیے اجمیر تشریف لے آئے تھے اور اس بار خلافِ معمول عرس ختم ہونے کے بعد بھی اجمیر شرف میں مقیم رہے، شعبان اور رمضان کا مہینہ وہیں گذارا، عید بھی وہیں منائی پھر خواجۂ خواجگان سے رخصت ہو کر جے پور تشریف لے گیے، جے پور ہمیشہ ہی سے سلسلۂ عالیہ نیاز کے وابستگان کا ایک بڑا مرکز رہا ہے، ۱۶؍ شوال ۱۳۸۷ ہجری نبوی کی شب میں حضرت امام السالکین نے متوسلین اور معتقدین کی دعوت محفل سماع اور مشاعرہ کا اہتمام فرمایا جس میں جے پور کے اہلِ دل اور اہلِ نظر شعرا کے علاوہ شرکت کے لیے خاص طور پر ریاست ٹونک سے نواب اسمٰعیل علی خان والیٔ ٹونک اور ٹونک کے مشہور شاعر استاد صہولتؔ ٹونکی بھی آئے تھے، اس محفل میں امام السالکین نے بارہا فرمایا کہ یہ آخری ملاقات ہے، شب میں دو بجے تک حلقۂ ذکر اور تعلیم و تلقین میں مصروف رہے پھر حلقہ سے فارغ ہو کر خواب گاہ میں تشریف لے گیے، نماز تہجد ادا فرمائی ایک گھونٹ پانی پیا اور خدا حافظ کہہ کر تکیہ پر سر رکھا لفظ ’’ھو‘‘ زبانِ مبارک سے ادا فرمایا اور جانِ جاں آفریں کے سپرد کر دی، ۱۷ شوال ۱۳۸۷ ہجری نبوی کی صبح کو سورج طلوع ہوا تو علم و عرفان کا ایک سورج غروب ہو چکا تھا، اسی دن جسدِ مبارک بریلی لایا گیا اور آپ خانقاہ نیاز میں قطبِ عالم حضرت شاہ نیاز احمد، تاج الاؤلیا حضرت شاہ نظام الدین حسین اور سراج السالکین حضرت شاہ محی الدین احمد کے پہلو میں آسودہ ہوئے ان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے عرصہ گذر گیا لیکن آج بھی ان کا فیض جاری و ساری ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.