شاہ ولایت حضرت مولانا ضیاؤالدین چشتی جے پوری
جے پور کے اؤلیائے کرام میں حضرت مولانا ضیاؤالدین صاحب کی وہی حیثیت ہے جو چاند کی ستاروں کے درمیان ہے، کیا ہندو کیا مسلمان ہر شخص آپ کے نام سے واقف ہے، جس قدر شہرت جے پور میں آپ کو ملی اتنی کسی اور کو نہیں ملی۔
مولوی احترام الدین احمد شاغلؔ عثمانی اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ’’تنویر طریقت‘‘ میں آپ کو کالپی کا باشندہ بتاتے ہیں، آپ کے آبا و اجداد و ہیں کے رہنے والے ہیں آپ کے والد بھی ایک صوفی منش شخصیت تھے، دینداری کا ماحول تھا، صوم و صلٰوۃ کے پابند گھرانے کے آپ چشم و چراغ ہیں، ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد سے ہی حاصل کی، کچھ لوگ آپ کی پیدائش دہلی کی بتاتے ہیں، بہر حال! آپ ذیعقدہ کے مہینے میں ۱۷۳۰ء موافق ۱۱۲۰ھ کو پیدا ہوئے، آپ کے والد نے اس زمانے کے مشہور بزرگ شیخ فخرالدین کے پاس آپ کو راہ سلوک طے کرنے کی غرض سے اور تعلیم حاصل کرنے لیے خدمت میں بھیج دیا، جہاں آپ نے تمام مراتب طے کیے، ریاضت اور مجاہدے کے اتنے پکے تھے کہ ۳۰ سال تک زمین پر کمر نہیں ٹکائی، آپ کے مرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی میں آپ کے ایک خلیفہ حضرت رحمت شاہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ مسجد میں مراقبہ میں تھا کہ مجھے میرے پیر و مرشد چار بزرگوں کے ساتھ نظر آئے، معلوم ہوا کہ وہ حضرات قدس حضرت غوثِ اعظم، خواجہ غریب نواز، بابا فریدالدین گنج شکر اور حضرت نظام الدین تھے، کچھ دیر وہ میری نگاہوں کے سامنے رہے پھر اوجھل ہوگئے۔
آپ جے پور کب تشریف لائے، اس کا تپہ باوجود کوشش کے نہ چل سکا صحیح تو معلوم نہیں ہو سکا لیکن آپ کی جے پور آوری کے وقت جے پور میں راجہ رام سنگھ جی کی حکومت تھی، بقول مولوی احترام الدین احمد شاغلؔ صاحب کے کہ آپ کے حالات پر ایک مفصل کتاب جس کا نام ’’مرات الضیائیہ‘‘ ہے، قلمی ہونے کی خبر ہے لیکن یہ ہمیشہ غیر مطبوعہ رہی، یہ کتاب آپ کے پہلے سجادہ نشین جناب غلام رسول کے پاس دیکھی گئی تھی جو آپ کے بھانجے تھے، آپ نے تا عمر شادی نہیں کی، اپنی بہن کے بچے سے انہں انس تھا، وہی بعد میں غلام رسول کے نام سے آپ کی درگاہ کے سجادہ نشیں ہوئے۔
آپ کی کرمات تو بہت ہیں، بچپن سے ہم بھی بہت سی باتیں سنتے چلے آئے ہیں ان میں سے صرف چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔
چوں کہ آپ کی شہرت سن کر اور کرمات دیکھ کر جے پور کے راجہ رام سنگھ اکثر آپ کی خدمت میں آکر دو زانو بیٹھا کرتے تھے، ایک بار مجلس میں بیٹھے بیٹھے آپ سے عرض کیا کہ حضور اب اجازت دیں آج کل سرکاری کام بہت ہیں اور مجھے گوند دیو جی کے درشن بھی کرنا ہے، اشنان بھی کرنا ہے اگر میں آج درشن نہ کر سکا تو مجھے بہت تکلیف ہوگی، آپ نے فرمایا کہ اگر حکم ہو تو گوند جی کو یہی بلا لیتے ہیں آپ ان کے درشن یہیں کر لیں، اس طرح آپ کا وقت بھی بچ جائے گا اور آسانی بھی ہوگی، جب راجہ رضا مندی ظاہر کی تو فوراً ہی انہوں نے اپنے سامنے گووند دیو جی کو پایا، راجہ نے اپنے گلے کا ہار آزمانے کے لیے اس کے گلے میں ڈال دیا، اس دوران مولانا ضیاؤالدین نے گووند دیو جی سے پانی ڈلوا کر وضو بھی کیا، جب راجہ یہاں سے اٹھ کر اپنے مندر کے قریب پہنچے تو راستہ ہی میں ان کا شاہی پنڈت ملا اور گھبرا کر کہنے لگا حضور گووند دیو جی اپنے استھان پر نہیں ہیں، آپ چل کر دیکھ لیں، راجہ پنڈت کو ساتھ لے کر مندر کے اندر جہاں مورتی رکھی ہوتی ہے گئے تو اس وقت تک تو مورتی واپس آ چکی تھی، راجہ نے دیکھا کہ وہی ہار اس مورتی کے گلے میں موجود ہے، راجہ یہ دیکھ کر دل سے قائل ہوا۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک پنڈت نے کہا کہ آج چاند دیکھنے کا دن نہیں ہے لیکن پھر بھی آکاش میں چاند دکھے گا، راجہ نے جا کر یہ بہت مولانا ضیاؤالدین سے پوچھی آپ نے فرمایا کہ چاند تو کل ہی دکھے گا، یہ اطلاع اس پنڈت کو بھی ہوئی، اس نے اپنے باطل جادو کی مدد سے پیتل کی تھالی کو آسمان میں معلق کر دیا اور کہنے لگا کہ دیکھو میرے کہنے کے مطابق چاند دکھائی دے گیا، یہ خبر جب مولانا ضیاؤالدین کو پہنچی تو آپ نے اپنی کھڑاؤں کو ہوا میں اچھالا وہ اس تھالی کو مارتی ہوئی نیچے لے آئی، آپ کا ایک مرید کچھ دشمن رکھتا تھا ایک دن اس دشمن نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کو گھیر لیا، اس نے دل سے آپ کا تصور کیا اور ہمت کرکے ڈٹ گیا، فوراً ہی وہ دشمن خوف زدہ ہو کر بھاگ گیا، آپ کا دستر خوان ہمیشہ وسیع ہوا کرتا تھا، ایک سے زائد کھانے ہوا کرتے اور بہت لذت والے لیکن آپ سب سے آخر میں بہت تھوڑا سا چکھ لیا کرتے تھے، آپ زیادہ تر ایک کرتا ایک لنگی اور ایک رومال استعمال کیا کرتے تھے، آپ اپنی ریاضت و عبادت سے مخلوق کے لیے وقت نکال کر رشد و ہدایت کا کام کرتے، اسی اثنا میں حاجت مندوں کی حاجت روائی فرماتے اگر کوئی آپ سے چڑھ کر یا غصہ ہو کر بولتا تو آپ مسکرا کر خاموش ہو جاتے۔
سرکار نے آپ کی خدمت کو دیکھتے ہوئے کافی جائداد نذر کی جس کا پورا ریکارڈ وقف بورڈ کے پاس ہے، ہر سال آپ کا عرس بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے، سبھی سلسلے کے بزرگوں کے یہاں سے آپ کے مزار کے لیے چادر آتی ہے، آپ کی درگاہ جے پور میں آنے والے تمام اؤلیاء اللہ کے لیے ایک اسٹیشن کا کام کرتی ہے، یہاں سے جو اشارہ ہوتا ہے اسی کے مطابق عمل کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔
حضرت شاہ عبدالحلیم صاحب کافی عرصے اپنے لیے شیخ ڈھونڈتے رہے اس کے لیے انہوں نے سفر بھی کیے، آخر ان کو اشارہ ہوا کہ مولانا ضیاؤالدین کی درگاہ پر حاضری دو، تمہارے پیر و مرشد وہاں موجود ہیں، چنانچہ آپ خوشی خوشی درگاہ پہنچے، وہاں ان کی ملاقات حضرت شاہ زماں صاحب سے ہوئی اور دو دن کے اندر اندر آپ ان سے بیعت ہوئے پھر بعد میں خلیفہ بنے، شاہ زمان صاحب کا مزار شریف ٹونک میں موجود ہے۔
آپ کی تعلیمات وہی تھی جو ہمیشہ بزرگانِ دین دیتے آرہے ہیں، آپ کہا کرتے تھے کہ اگر تمہارا پیر مکمل ہے تو پھر وہ دنیا میں کہیں بھی ہو فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا، مسلمان کو ہر وقت اپنی دولت کی حفاظت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور یہ دولت ہے ایمان کی، اگر یہ چلی گئی تو کچھ نہیں بچا، محرم کے دنوں میں آپ مرثیہ خوانی بھی سنا کرتے تھے، مجلس میں وعظ اس طرح فرماتے کہ ہر سننے والے کے دل میں دوق و شوق پیدا ہوتا، آپ کی مجلس میں آنے والے لوگ اپنے آپ پر فخر کیا کرتے تھے، بقول مولانا روم کہ اؤلیاء اللہ کے صحبت میں بیٹھنا بھی عبادت ہے، سن ۱۸۱۰ء میں آپ کا وصال ہوگیا، آپ کے اب تک ۲۰۰ سے زائد عرس ہو گیے ہیں۔
آپ کے وصال کے بعد آپ کے بھانجے غلام رسول صاحب درگاہ کے سجادہ نشین مقرر ہوئے، ۱۸۶۰ء میں ان کا انتقال ہوگیا پھر ان کے صاحبزادے امام الدین اس مسند پر فائز ہوئے، ان کے بعد ان کے صاحبزادے محی الدین سجادہ نشیں بنے۔
مولوی احترام الدین شاغلؔ صاحب اپنی کتاب’’تنویر طریقت‘‘ میں فرماتے ہیں کہ
’’مولانا ضیاؤالدین کے سجادہ نشیں محی الدین عرف ننھے میاں کسی معاملے میں قید کر دیے گئے، ان کے جانے سے درگاہ کے نظام میں خلل پیدا ہوا، سجادہ نشیں کوئی نہ رہا، اس زمانے میں حضرت شاہ خلیل الرحمٰن صاحب جمالی جے پور تشریف لائے ہوئے تھے، جے پور کے مسلمانوں نے اس بارے میں آپ سے عرض کیا، خلیل الرحمٰن صاحب نے فرمایا کہ شہر میں اعلان کردو کہ ہر خواص و عام درگاہ ضیاؤالدین میں مغرب کی نماز کے وقت حاضر ہو جائیں چنانچہ ایک مجمع کثیر درگاہ شریف میں حاضر ہوگیا، میں بھی (شاغلؔ) حضرت کے ساتھ حاضر ہوا، بعد نماز مغرب حضرت پہلے تو ضیاؤالدین صاحب کے مزار پر حاضر ہوئے، فاتحہ پڑھی اور کچھ دیر مراقبہ میں رہے پھر مسجد میں آئے اور مسجد کے زینوں پر کھڑے ہو کر ایک مختصر سی تقریر فرمائی اور میاں کمال الدین شاہ کو بلاکر اپنے دست مبارک سے دستار بندی کی اور مجمع کو ہدایت فرمائی کہ ان کے ادب اور بزرگی کا پورا خیال رکھیں اور کوئی گستاخی ان کی شان میں ہرگز نہ کی جائے، یہ کمال الدین شاہ آپ کے بھانجے غلام رسول صاحب کی ہی اولاد میں سے تھے‘‘۔
۱۹۳۸ء میں شاہ کمال الدین کا انتقال ہوگیا، انہوں نے وصیت کی کہ میرے بڑے لڑکے امین الدین کو سجادہ نشیں بنایا جائے اور دوسرے لڑکے فخرالدین کو متولی بنایا جائے، یہ عمل شاہ کمال الدین کی سوم کی فاتحہ پر کیا گیا، دستور کے مطابق دستار بندی کی گئی، ۱۹۴۴ء میں امین الدین صاحب کا بھی انتقال ہوگیا، ان کے انتقال کے بعد ان کے بھائی سعید الدین کچھ عرصہ سجادہ نشیں رہ کر وصال کر گیے، ان کے بعد فخرالدین میاں (فخرو میاں) نے ہی سجادہ نشیں کا عہدہ بھی سنبھال لیا، متولی تو وہ پہلے سے تھے ہی اب دونوں عہدوں پر فائز ہوگئے، ۱۹۸۱ء میں فخرو میاں کا بھی انتقال ہوگیا۔
محی الدین صاحب کے لڑکوں نے عدالت میں چارہ جوئی بھی کی اور مقدمہ بھی اس بات کو لے کر چلا، خدا جانے اب بھی مقدمہ چل رہا ہے یا نہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.