Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت محمد مسکین شاہ

شاہد احمد جمالی

حضرت محمد مسکین شاہ

شاہد احمد جمالی

MORE BYشاہد احمد جمالی

    آپ کا اصل نام غلام محمد ہے کشمیر کے رہنے والے تھے اور ایک عالم گھرانے سے آپ کا تعلق تھا، ایک روایت کے مطابق آپ شیخ ہمدانی کشمیری کے سلسلے سے تعلق رکھتے تھے اور دوسری روایت کے مطابق آپ بریلی پہنچ کر حضرت شاہ نیاز بے نیاز کے دست مبارک پر بیعت ہوئے واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن آپ قسط وار کشمیر میں اپنے آبائی باغ میں ٹہل رہے تھے کہ ایک بزرگ جو کنگال شاہ کے نام سے مشہور مجذوب تھے باغ میں آئے ان کو دیکھ کر غلام محمد صاحب نے تعظیماً ان کی بڑی خاطر و مدارات کی اور باغ میں ہی ان کے رہنے کا انتظام کر دیا اور ان کی ہر طرح سے خدمت کرنے لگے کھانا، پینا ، سونا، کپڑے، وغیرہ کا انتظام کرتے رہے۔

    اس طرح کئی دن گزر گئے، ایک دن وہ مجذوب بزرگ باغ میں بنے حوض پر وضو کر رہے تھے اور غلام محمد ان کے پاس ہی کھڑے تھے وضو کرتے کرتے اچانک آپ حوض میں گر گئے، یہ دیکھ کر غلام محمد گھبرا گئے کہ کیا کریں، کیوں کہ کشمیر کی سردی تو مشہور ہے ہی پانی بھی اتنا ہی ٹھنڈا تھا، آخر آپ مجذوب کو بچانے کی غرض سے فوراً حوض کود پڑے اور انہیں کسی نہ کسی طرح کھینچ کر پانی سے باہر نکال لیا لیکن وہ یہ دیکھ کر اور بھی حیران رہ گئے کہ ان مجذوب کے جسم پر کہیں بھی پانی یا ذرا سا بھی گیلا پن نہیں تھا سر سے پیر تک بالکل سو کھے تھے، غلام محمد کی یہ حالت دیکھ کر مجذوب مسکرا دئے اور فرما نے لگے کہ بھئی غلام محمد چراغ اور بتی تو ہم نے تمہارے اندر رکھ دی ہے لیکن اس کو روشن کرنا ہماری ذمہ داری نہیں یہ کام کوئی دوسرا کرے گا، یہ کہہ کر آپ غلام محمد کی نگاہوں سے روپوش ہوگئے اس کے بعد کہیں نظر نہیں آئے۔

    یہ ماجرا دیکھ کر غلام محمد صاحب نے اپنا مال و اسباب اور جائداد اللہ کی راہ میں دے دی اور تلاش حق میں جنگل کی راہ لی کئی سال اسی طرح بسر کئے آخر اللہ نے ان کو اسی حال میں دہلی میں حضرت غلام شاہ نقشبندی کی صحبت میں پہنچا دیا۔

    آج غلام علی شاہ کا روضہ چتلی قبر میں واقع ہے، ان کے ساتھ اور چار بزرگوں کے مزار بھی ہیں یہ بندہ حقیر راقم بھی وہاں حاضری دے کر آیا ہے، نہایت برکت کی جگہ ہے، ایک بات اور آپ کی معلومات کے لیے کہہ دوں کہ یہ غلام علی شاہ حضرت ہدایت علی شاہ جے پوری کے دادا پیر ہیں۔

    بہر حال! غلام علی شاہ کی صحبت میں کافی عرصہ رہے وہاں درویشی کی تعلیم اور دستارے سے فیض یاب ہوئے، اس کے بعد آپ پر اکثر کیفیت طاری ہوئی اور کشف ہونے لگا آخر آپ نے یہ بات غلام علی شاہ سے عرض کی انہوں نے کہا کہ تمہارا جو حصہ ہمارے پاس تھا وہ تمہیں مل گیا اب تمہیں جو کچھ ملے گا وہ سلسلۂ چشتیہ سے ملے گا تم اجمیر شریف جاؤ جیسا حکم ہو بجا لانا وہی تمہاری نعمت و دولت ہوگی، لہذا آپ قدم بوسی کر کے پیدل اجمیر روانہ ہو گئے، کئی دن بعد جب اجمیر پہنچے تو بلند دروازہ پر ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی انہوں نےان کو دیکھ کر کہا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہاری رہنمائی کروں۔

    غلام محمد صاحب نے سر جھکا کر کہا کہ حکم فرمائی، کہا کہ سلطان الہند کے مزار پر حاضیر دو اس کے بعد بریلی چلے جاؤ یہاں تمہاری جو امانت تھی وہ شاہ نیاز بے نیاز کے پاس پہنچا دی گئی ہے اور وہ امانت تمہیں انہیں کے ہاتھوں ملے گی، انہیں یہاں سے ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔

    آستانہ خواجہ پر حاضری دے کر آپ پیدل ہی بریلی کے لیے روانہ ہوگئے، کئی دن بعد آپ بریلی میں حضرت شاہ نیاز بے نیاز کے در دولت پر حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا شاہ نیاز بے نیاز نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا بھئی آؤ بڑے اچھے وقت پر آئے تمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا۔

    اس طرح اللہ نے آپ کو کشمیر کی وادیوں سے نکال کر بریلی کے ایک گوشہ میں شاہ نیاز بے نیاز کے اختیار میں دے دیا، آپ ایک عرصہ ان کی خدمت میں رہے اور شاہ صاحب کی دیکھ ریکھ میں مراتب طے کرتے رہے، جب غلام محمد صاحب کو خلافت ملنے کا وقت آیا تو شاہ صاحب نے جا کر ان کو خلافت مع شرائط عطا کی اور مسکین شاہ کے لقب سے نوازا اور حکم دیا کہ تمہیں جے پور جا کر رشد و ہدایت اور خدمت خلق کا کام سنبھالنا ہے، اپنے شیخ کی قدم بوسی کر کے آپ جے پور تشریف لے آئے یہ ز مانہ جے پور کے مہاراجہ رام سنگھ جی کے دور حکومت کا تھا جلد ہی آ کر یہاں کی عوام میں مقبول ہوئے اور خلق خدا کو فیضیاب کرنے لگے، کیا آمیر کیا غریب کیا چھوٹا اور کیا بڑا سبھی آپ کے حلقہ میں شامل ہونے لگے آپ کے خاص خلفا میں حضرت صادق علی شاہ، سکندر علی شاہ وغیرہ کے نام سامنے آتے ہیں، آپ کے ارادت مندوں میں ایک بڑی تعداد غیر مسلموں کی بھی تھی۔

    آپ کا مزار گھاٹ دروازہ کے باہر آگرہ روڈ پر ہے، یہی آپ کی خانقاہ تھی یہاں مسجد بھی ہے اور اس کا حوض بھی ہر سال آپ کا عرس بڑی شان سے منایا جاتا ہے، اب تک ۱۵۰ سے زائد عرس ہو چکے ہیں آپ کی عمر بھی طویل تھی، جیسا کہ بتایا جاتا ہے کہ ۱۲۵ سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔

    ایک تحقیق کے مطابق خواجہ سید علی ہمدانی کشمیری آپ کے نانا تھے اور انہوں نے بخارا سے ترک سکونت کرکے کشمیر کو وطن بنایا۔

    آپ نے جے پور میں ہی سلسلۂ نیاز یہ کو بہت وسعت دی،۱۲۷۲ھ میں آپ نے جے پور میں اپنی خانقاہ اور مسجد تعمیر کرائی، آپ کے خلفا میں ایک شاہ ولی محمد صاحب سیکر میں ہیں، ایک خلیفہ محبوب علی شاہ فتح پور شیخا واٹی میں ہیں، ایک خلیفہ فیض اللہ صاحب کرنال میں ہیں، ایک خلیفہ سکندر علی صاحب الٰہ آباد میں ہیں، ایک خلیفہ مولوی گل محمد صاحب لکھنؤ میں ہیں، ایک خلیفہ صادق علی شاہ صاحب جے پو رمیں ہیں، ان سبھی نے اپنی اپنی خانقاہیں تعمیر کی اور سلسلہ کو آگے بڑھایا، مسکین شاہ صاحب کے زمانے میں جے پور ریاست کے وزیر اعظم نواب فیاض علی صاحب تھے وہ شاہ صاحب کے مرید تھے، انہوں نے ہی شاہ صاحب کا مزار اور بارہ دری بنوائی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے