Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت سید عابد علی عنایتی ابوالعلائی

شاہد احمد جمالی

حضرت سید عابد علی عنایتی ابوالعلائی

شاہد احمد جمالی

MORE BYشاہد احمد جمالی

    آپ کی پیدائش ۱۹۳۳ء میں شہر اجمیر محلہ اندر کوٹ میں ہوئی، آپ کے والد ماجد کا نام احمد علی تھا اور والدہ ٹونک سے تعلق رکھتی تھیں، آپ کا مزار جے پور میں اجمیر روڈ پر ایس آئی ڈسپنسری کے پیچھے شانتی نگر حکیم لطیف صاحب کی بغیچی میں واقع ہے، آپ خوش اخلاق، رحم دل، ملنسار، کم گو شخص تھے، ہمیشہ با وضو رہا کرتے تھے اور آپ نے پیر و مرشد کو بھی کبھی بے وضو ہاتھ نہیں لگایا، شریعت کی پابندی کا ہر وقت پاس رکھتے تھے۔

    آپ لمبے قد و قامت اور خوش رنگ تھے، ہندی اردو انگریزی عربی فارسی زبانوں پر آپ کو عبور حاصل تھا، کتابت کے بھی شوقین تھے، آپ کو علم و حکمت میں بھی مہارت حاصل تھی، مریض کے مرض اور مزاج کے شناخت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، صبح شام آپ کے در پر ضرورت مندوں اور بیماری سے پریشان لوگوں کا ہجوم لگا رہتا تھا اور خدا کے فضل سے سبھی صحت یاب ہوا کرتے تھے، وہ خود کوئی دوا نہیں دیا کرتے تھے بلکہ وہ یا تو مفردات لکھا کرتے یا ہمدرد دوا خانہ کہ بنی ہوئی دوائیاں لکھا کرتے تھے۔

    ایک مرتبہ دو شخص ایک مریض کو رکشہ میں ڈال کر آپ کے پاس لے کر آئے اور عرض کیا کہ حضرت یہ شخص دو سال سے سخت بیمار ہے، تمام ڈاکٹروں اور حکمیوں کا علاج کروا چکے لیکن نہ تو ان کی بیماری سمجھ میں آتی ہے نہ ہی ایک اچھا ہوا، آپ کا نام سن کر آئے ہیں آپ دعا کریں کہ یہ یا تو اچھا ہو جائے یا اسے موت ہی آ جائے، اس کی زندگی اجیرن بن گئی ہے، آپ نے بڑی اطمینان سے یہ سب کچھ سنا اور فرمایا کہ اس مریض کو میرے سامنے بٹھا دو اور تم بھی خاموش ہو کر ایک طرف بیٹھ جاؤ۔

    آپ نے اس پر اپنی توجہ شروع کی کچھ دیر بعد اس کے ساتھیوں سے کہا کہ وہ جو سامنے شربت روح افزا کی آدھی بوتل رکھی ہے، وہ اٹھا لاؤ اور اسے پلاؤ، چنانچہ اس شخص کو بنا پانی ملائے، شربت روح افزا کی وہ آدھی بوتل پلا دی، تھوڑی ہی دیر میں اس شخص کو اطمینان ہونا شروع ہوا، آپ نے فرمایا اسے لے جاؤ اور کل آ کر حال بتاؤ، دوسرے دن ان کی اطلاع ملی کہ خدا کے فضل و کرم سے وہ شخص بالکل اچھا ہوگیا، بیماری بالکل جاتی رہی، خدا نے آپ کی دعا میں ایسی ہی تاثیر رکھی تھی۔

    جب تک آپ اجمیر شریف میں رہنے محنت مزدوری کرنے کے بعد جتنا وقت ملتا زیادہ تر خواجہ غریب نواز کے آستانہ مبارک پر گزارتے اور کسی پیر و مرشد کی تلاش میں کوشاں رہتے، آخر اللہ نے آپ کی مراد سنی اور حضرت شاہ عنایت اللہ صاحب سے ۱۹۶۱ء میں آپ کی ملاقات ہوئی، اس وقت آپ کی عمر ۲۸؍ سال تھی، آپ کہتے تھے کہ مجھے خواب میں خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ تمہارے پیر و مرشد آ رہے ہیں اور مجھے ان کی شکل بھی دکھائی تھی، جب حضرت شاہ عنایت اللہ صاحب نے آپ کو مرید کر لیا تو فرمایا کہ یہ مرید ہمیں خواجہ غریب نواز نے عطا کیا ہے، حضرت شاہ عنایت اللہ کانپور کے رہنے والے تھے، جب بھی آپ اجمیر تشریف لاتے تو حضرت عابد علی صاحب دل و جان سے آپ کی خدمت کرتے، آخر دس سال کے بعد آپ کو خلافت و اجازت کی نعت عطا کردی گئی اور تبلیغ دین اور بیعت کرنے کا حکم دیا گیا۔

    آپ اس کے بعد اجمیر کی درگاہ شریف میں ہی ذکر و اذکار میں مصروف رہے اور متفکر رہنے لگے، ایک روز آپ کو حکم ہوا کہ ناسک شہر جاؤ اور وہاں جا کر دین کی خدمت کرو، یہ حکم ملنے کے بعد آپ اور زیادہ متفکر رہنے لگے کیوں کہ خواجہ غریب نواز کے قدموں سے دور جانا آپ کو منظور نہ تھا، آخر درخواست لگائی کہ اپنے غلام کو اتنی دور نہ کریں میں تو آپ کے قدموں ہی میں رہنا چاہتا ہوں۔

    آخر کچھ دن بعد بشارت ہوئی کہ جے پور چلے جاؤ، وہاں دین کی خدمت انجام دو اور لوگوں کو فیض پہنچاؤ آپ نے پھر عرض کیا کہ آستانہ چھوڑ کر نہیں جانا چہاتا، آخر حکم ہوا کہ ہمیں دیکھو کہ دین کی خار اپنا وطن گھر بار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہندوستان آئے ہیں، بس اتنا اشارہ ہونا تھا کہ آپ بے چوں چرا جے پور تشریف لے آئے، ۱۹۶۷ء میں جے پور میں حضرت جھاڑوں شاہ بابا کا وصال ہوا تھا، اس کے کچھ ہی دن بعد جے پور تشریف لائے آپ فرماتے تھے کہ حضرت ضیاؤالدین شاہ صاحب نے خواجہ غریب نواز سے کہہ کر جے پور بلوایا ہے ورنہ ہمیں ناسک جانا ہی پڑتا۔

    جے پور میں آپ نے محلہ نمد گراں میں سلسلۂ طریقت کا کام شروع فرمایا اور اکثر و بیشتر حضرت ضیاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر بھی ہوا کرتے، کچھ عرصے بعد آپ نے کمہاروں کی ندی میں ایک ٹیلر ماسٹر محمد عابد خاں کی دوکان پر بیٹھ کر لوگوں کو فیض یاب کیا، جو شخص آپ کے پاس آتا آپ اپنی توجہ ڈال اس کا سارا حال خود ہی بتا دیا کرتے تھے، آپ تعویذ وغیرہ بہت کم دیا کرتے تھے، وہ بھی تب جب کوئی ضرورت مند ضد کرتا، ورنہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا کام تو صرف خدا سے دعا کرنا ہے اور بزرگوں کے وسیلہ سے خدا کام کردیا کرتا ہے، بہت سی مثالیں جے پور میں مل جائیں گی جو بے اولاد تھے، اللہ نے آپ کی دعا سے ان کی گود بھر دی جو لوگ بیماری سے تنگ آ گیے تھے، اللہ نے آپ کی دعا سے انہیں صحت یاب کر دیا، جو لوگ آسیبی خلل میں پڑ گئے تھے وہ بھی سب ااپ کی دعا کی برکت سے اچھے ہو گئے، آپ نے کبھی بھی کسی سے اپنے کام کی اجرت نہیں لی، صرف فی سبیل اللہ خدم خلق کرتے تھے کیا ہندو کیا مسلمان سبھی آپ سے فیضیاب ہوتے تھے۔

    ۱۹۸۸ء میں آپ جل محل کے سامنے والی کالونی میں اپنا ایک مکان لے کر رہنے گلے، بے شمار لوگ آپ کے مرید اور معتقدین ہو گئے، آپ کے خلفا میں کچھ خاص نام یہ ہیں۔

    ۱۔جناب سمیع الدین مستری صاحب

    ۲۔ جناب محمد اسمعیل خان صاحب (آمیر)

    ۳۔ جناب اقبال میاں (ہانڈی پورہ)

    ۴۔ جناب حافظ محمد صابر صاحب (ٹونک)

    ۵۔ جناب ابراہیم خاں صاحب (چھاپری، ناگور)

    ۶۔ جناب علاؤالدین صاحب (ہٹواڑہ، جے پور)

    ۷۔ جناب ساجد میاں صاحب (جے پور)

    آپ کے مریدین نے محفل سماع کے لیے الگ الگ مقامات پر الگ الگ تاریخیں مقرر کر رکھی تھیں، اس کے علاوہ آپ صرف مخصوص لوگوں کے یہاں ہی محفل سماع میں جاتے تھے جیسے رضی الدین رضاؔ صاحب ہمدرد دوا خانہ، رام گنج بازار یا جناب امام الدین صاحب نلہ نیلگران، ہمدرد دوا خانہ پر تو آپ کا بہ تآنا جانا تھا، میں نے ان کو بہت اچھی طرح دیکھا بھی ہے اور فیض بھی حاصل کیا ہے، ہمارے تا یارضی الدین رضاؔ صاحب سے آپ کی اکثر علمی گفتگو ہوا کرتی تھی اور میں بڑے ذوق سے ان کی گفتگو کو سنا کرتا تھا، آپ نے سفر بھی بہت کیے ہیں سفر میں بھی آپ نے مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

    ۱۹۹۲ء میں آپ کو بیماری نے آ گھیرا، بہت زیادہ بیمار ہوگئے، علاج بھی بہت کرایا مگر خدا کو شفا دینا منظور نہ تھی، کسی نے حکیم لطیف صاحب سے علاج کرانے کا مشورہ دیا، حکیم صاحب انہیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیے لیکن چوں کہ یہ تو مرض الموت تھا، اس لیے شفا کیسے ہوتی، آخر۱۹۹۳ء میں آپ کا وصال ہو گیا، وصال سے پہلے آپ کے اہل و عیال نے آپ کو وہاں سے واپس گھر لانے کی کوشش کی مگر آپ نہ آئے، حتی کہ اسی کمرے میں آپ کا وصال ہوگیا، جب غسل کے لیے آپ کو اٹھایا گیا تو آپ کے سر کی جانب دیوار پر لکھا تھا کہ میرا آشیانہ یہیں ہے۔

    آپ کے وصال کی تاریخ ۱۳؍ فروری۱۹۹۳ء بروز سنیچر بعد نماز عشاء ۲۰؍ شعبان المعظم۱۴۱۳ھ ہے، اس وقت آپ کی عمر۶۰؍ برس تھی۔

    وصال کے بعد جب لوگوں سے حکیم صاحب سے نعش لے جانے کی اجازت چاہی تو حکیم صاحب نے فرمایا کہ جب وہ زندگی میں ہی نہیں گئے تو اب کیوں کر لے جا رہے ہو، یہ زمیں میری ذات ملکیت ہے میں آپ کو بخوشی اجازت دے رہا ہوں کہ انہیں یہیں مدفون کردو اور آگے عرس وغیرہ کرنے کی بھی اجازت دے رہا ہوں، اللہ حکیم صاحب قبلہ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

    آپ کے دو مریدین ایک بار سٹہ کا نمبر معلوم کرنے کے چکر میں پڑھائی میں لگ گئے اس وقت آپ جے پور میں نہیں تھے، بمبئی گئے ہوئے تھے، وہ دونوں ہڈی شاہ بابا کے مزار پر جا کر پڑھائی کرنے لگے، مصلحتاً کا نام نہیں لکھا) پڑھتے ان کو آواز آئی یہ کیا کر رہا ہے، وہ اٹھ کر بھاگے لیکن ایک نے ہمت کرکے کہا یہ تو اپنے مرشد جیسی آواز تھی اور وہ یہاں نہیں ہیں، واپس چلو اور پڑھائی شروع کرو، جب دو بارہ پڑھائی شروع ہوئی تو ان کے ایک زور دار تھپڑ پڑا، آخر وہ توبہ کر کے وہاں سے بھاگے کہ آئندہ ایسا کام نہیں کروں گا، ایسے ہی ایک دوسرا مرید ایک عامل کے چکر میں پڑ گیا، وہ بھی سٹہ وغیرہ کے نمبر بتایا کرتا تھا، وہ عامل مرید سے کہنے لگا کہ میں پڑھائی کے ذریعے جب نمبر معلوم کر لیتا ہوں تو وہ نمبر سامنے دیوار پر لکھ دیا جاتا ہے لیکن فوراً ہی ایک آدمی آکر اس نمبر کو اپنے ہاتھ سے مٹا دیا کرتا ہے، مرید نے کہا کہ مجھے دکھاؤ وہ شخص کون ہے، چنانچہ عامل نے ویسا ہی کیا، جیسے ہی نمبر دیوار پر لکھا حضرت عابد علی کی شیبہ ابھری اور اپنے ہاتھ سے انہوں نے وہ نمبر مٹا دیا، ان کو پہچان کر ان کا مرید چلایا، ارے یہ تو میرے پیر و مرشد ہیں فوراً یہ کام بند کرو ورنہ غضب ہو جائے گا۔

    ایک واقعہ آپ کے ایک خلیفہ حافظ محمد صابر کے ساتھ ہوا ایک بار وہ اپنے مرشد کی خدمت میں تھے، ہمت کر کے دبے الفاظ میں اپنی تنگ دستی کا اظہار فرمایا کہ حضور شب برأت قریب ہے اور میں بہت پریشان ہوں، کوئی انتظام بھی نہیں ہے، عابد علی صاحب خاموش رہے، صابر صاحب کے دل میں خیال گزرا کہ شاید پیر و مرشد نے میری بات پر التفات نہیں کیا، انہوں نے دزدیدہ نگاہوں سے ان کے چہرے کی طرف دیکھا، تو محسوس کیا کہ آپ کی نگاہیں کہیں اور لگی ہوئی ہیں اور اپنے ہاتھ کے شارے سے کسی کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، صابر صاحب نے از راہ تجسس خیال کیا کہ دیکھنا چاہیے کہ پیر و مرشد یہ کیا کر رہے ہیں اور پتہ لگانا چاہیے کس سے بات کر رہے ہیں، ابھی یہ خیال صابر صاحب کے دل میں گزرا ہی تھا کہ اچانک عابد علی صاحب نے غصہ سے کہا کہ تمہاری یہ جرأت کہ ہماری کسی بات کا پتہ لگاؤ کہ ہم کیا کر رہے ہیں، صابر صاحب گھبرا کر شرمندہ ہو کر معافی مانگنے لگے کہ حضرت غلطی ہوئی معاف فرمائیں آئندہ ایسا نہ ہوگا پھر پیر و مرشد نے فرمایا کہ ابھی تمہاری اتنی حیثیت نہیں ہے کہ ہمارے بارے میں کچھ جان سکو پھر بھی ہم آج تمہیں دکھا ہی دیتے ہیں، اپنی آنکھیں بند کرو جیسے ہی انہوں نے آنکھیں بند کی اپنے آپ کو ایک دفتر میں پایا جہاں ایک کرسی عابد علی صاحب کی بطور حاکم لگی ہوئی ہے اور آپ کے بتائے طریقہ پر دوسرے لوگ فیصلے لکھ رہے ہیں، اچانک انہوں نے کہا کہ آنکھیں کھولو، جیسے ہی آنکھیں کھولیں اپنے آپ کو واپس اسی جگہ پایا جہاں بیٹھے تھے، ایک واقعہ پنجاب میں جالندھر کا ہے، یہاں ایک بڑے بیوپاری راج دیو بھاٹی کی ایک لوہے کی فیکٹری تھی، اس فیکڑی میں روزانہ نئی نئی پریشانیاں اور مصیبتیں آتی تھی، کبھی کام کرنے والوں کی طبیعت بگڑتی تھی، کبھی مالک کی طبیعت خراب، کبھی فیکٹری میں نقصان، کبھی کچھ ہوتا کبھی کچھ ہوتا، راج دیو بھاٹی آپ کو اپنی فیکٹری میں لے گئے، آپ نے وہاں کا جائزہ لیا اور کچھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے فیکٹری میں سب طرف چھڑکنے کو کہا پھر فیکٹری مالک سے فرمایا کہ ہمارے سامنے بیٹھ جاؤ پھر آپ نے راج دیو بھاٹی پر توجہ دینی شروع کی کچھ ہی دیر میں فیکٹری مالک اپنے ہوش میں نہ رہا اور عجیب چیخ و پکار کرنے گلا، آپ نے انگلی سے اس کی طرف کچھ اشارہ کیا، تو وہ جن جو فیکٹری کے مالک کے جس میں حلول کر گیا تھا کہنے لگا مجھے چھوڑ دو میں یہاں سے جا رہا ہوں، آئندہ یہاں آکر کبھی کسی کو پریشان نہیں کروں گا، آپ نے یہ سن کر کہا کہ وعدہ خلافی مت کرنا، ورنہ انجام برا ہوگا، وہ جن وعدہ کرکے چلا گیا، اس دن کے بعد مالک فیکٹری اور فیکٹری کو آج تک کوئی نقصان یا پریشانی نہ ہوئی۔

    آپ کے اس طرح بے شمار واقعات ہیں برائے تبرک چند واقعات تحریر کردئے ہیں، خدا ہمیں ایسے لوگوں کا فیض عطا فرمائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے