Sufinama

حضرت شاہ موجود صفی

صوفی

حضرت شاہ موجود صفی

صوفی

MORE BYصوفی

    از : محمدالدین فوق

    خطہ پاک اودھ یوں تو ہمیشہ مردم خیز رہا ہے اور اس کی سر زمین نے ہر شعبہ زندگی میں ایسے فرزند پیدا کئے جن پر مادر گیتی کو بجا طور پر ناز ہوسکتا ہے، بالخصوص جب اسلام کے آفتاب جہاں تاب نے اس سرزمین کو اپنی ضیا پاشیوں سے بقعہ نورانی بنایا، اس کی خاک سے ایسے ایسے افراد اٹھے جن پر اسلام بجا طور پر نازاں ہے، خصوصیت کے ساتھ علما و صلحا اور صوفیائے کرام تو ایسے ایسے پیدا ہوئے جن کے نام آپ تاریخ کے صفحات میں زریں حروف سے لکھے جائیں گے، نہ صرف متقدمین ہی میں بلکہ اس دور آخر میں بھی جبکہ اسلام تو نہیں مگر مسلمان ہر شعبہ زندگی میں زوال پذیر ہیں بڑے بڑے صاحبِ عرفاں و اربابِ طریقت اہل اللہ یہاں کی خاک سے عالمِ وجود میں آکر راہ نمائے حقیقت معرفتہ ہوئے جن کی تعلیم و تلقین سے بہت سے جویائے حق منزلِ مقصول پر پہنچے۔

    انہیں بزرگانِ دین میں وہ بزرگ بھی ہیں جن کا نام زیب عنوان ہے یعنی حضرت شاہ موجود صفی رحمۃ اللہ علیہ، آپ اپنے زمانے کے بڑے خدا رسیدہ بزرگ تھے، آپ کی ذاتِ گرامی صفات سے صدہا بندگانِ خدا نے راہِ ہدایت پائی اور سیکڑوں گم کردہ راہ حقیقت فائزالمرام ہوئے شاہ صاحب مرحوم کا متاخرین صوفیا میں بڑا مرتبہ ہے، آپ کے مرید و معتقدین اقطاع اودھ میں پھیلےہوئے ہیں۔

    سلف صالحین نے اؤلیائے کرام کے حالات میں جو تذکرے ملتے ہیں ان میں زیادہ تر اظہار کرامات اور ذاتی عقیدت و محامد گستری سے کام لیا گیا ہے مگر زمانہ بدل چکا ہے، ذکر کرامۃ سے زیادہ مؤثر اور بہتر طریقہ میرے نزدیک انسان کے اخلاق خصائص اور سادہ معاشرت کا تذکرہ ہے اور یہی وہ شے ہے جس کی تقلید ابنائے جنس اور اخلاف کو کرنا چاہیے بلکہ ایک بزرگ کی سوانح زندگی میں انہیں چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے، لہٰذا میں نے یہی شاہ صاحب مرحوم کے سادہ واقعات زندگی کو زیادہ تر اس مضمون میں دکھایا ہے۔

    وطن:- مضافات لکھنؤ صوبہ اودھ میں کرسی ایک مشہور قصبہ ہے، جہاں بزرگان دین و اہلِ یقین بڑی تعداد میں گزرے ہیں، اسی کے قریب ضلع بارہ بنکی پرگنہ دیوہ میں پیر ساداں ایک موضوع ہے جسے آپ کے وطن آبائی ہونے کا فخر حاصل ہے، یہ گمنام موضع آپ کی ذات بابرکات کی وجہ سے شہرت پذیر ہوگیا، اس موضع کو آپ کے مورثِ اعلیٰ شیخ جواد رحمۃ اللہ نے حضرت سید سالار مسعود غازی کے ہمراہ آکر آباد کیا تھا مگر اس کو آباد کئے ہوئے زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا کہ 1226ہجر ی میں جب کہ ہندوستان میں عام بد نظمی کا بازار گرم اور سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب لب بام دشمنوں نے قابق پا کر آپ کے جد بزرگوار شیخ عزت اللہ کو شہید کو دیا اور خود موضع پر قبضہ کر لیا۔

    والد مرحوم:- اس وقت آپ کے والد مرحوم حضرت شاہ پیر محمد مرحوم کی عمر صرف بارہ برس کی تھی پیر محمد صاحب نے اپنی بیوہ والدہ کے ساتھ چار و ناچار وطن کو خیرباد کہا اور قصبہ کرسی میں آکر قیام فرمایا اور اپنی جان بچائی، مولانا فتنہ فرد ہونے کے بعد آپ کے والد اپنے موضع میں آرہے اور 1228ہجری میں شاہ موجود صفی صاحب نے عالم کائنات میں قدم رکھا اور اپنے والد کی آغوشِ محبت میں تربیت پاتے رہے، ذہانت فطری کا یہ حال تھا کہ پندرہ سال کی عمرہی میں تمام ضروری و مروجہ علومِ ظاہری سے فراغت حاصل کرلی اور علومِ باطنی کے اکستاب کا ذوق دل میں گہ گہ یاں لینے لگا۔

    تعلیم تصوف:- چنانچہ اپنے والد بزرگوار مولانا شاہ پیر محمد صاحب ہی کے مرید ہوئے اور علومِ باطنی فیوضِ روحانی کی تحصیل میں مصروف رہنے لگے، ہونہار فرزندمیں آثارِ کمال دکھ کر ایک روز والد بزرگوار نے فرمایا کہ چلو تمہارا ہاتھ شاہ قل ہواللہ کے ہاتھ میں پکڑا دیں کہ وہ شیخ وقت اور ہمارے پیر و مرشد ہیں، تمہارا عروج کمال نہیں کے ذریعہ سے ہونا ہے، چنانچہ سعادت مند بیٹے نے نہایت خوشی سے منظور کیا اور مولانا شاہ پیر محمد نے شاہ موجودہ صفی کو ساتھ لے جا کر حضرت شاہ قل ہو اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا مرید کرا دیا۔

    ایں سعادت بزوربازو نیست

    تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

    شاہ قل ہواللہ صاحب کا معمول تھا کہ ہر جمعرات کو اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ خادم صفی محبوب رحمانی کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے، شاہ موجود صفی کے بعد حسبِ معمول حاضرِ خدمت ہوئے تو تذکرہ کیا کہ ایک بنا بنایا لڑکا داخل سلسلہ ہوا ہے، حضرت محبوب رحمانی نے قوتِ باطنی سے دریافتِ حال فرما کر ارشاد کیا کہ یہ لڑکا ہر حیثیت سے ہونہار معلوم ہوتا ہے، جاتے ہی اسے خلافت دیجئے اور یہ میری ٹوپی لے جائیے، خلافت کے وقت اس کے سر پر رکھئے گا، میرا نام خادم صفی ہے، اس کا لقب میں نے موجود صفی رکھا، اس صورت سے شاہ موجود صفی سلسلہ چشتیہ میں داخل اور اسی ہفتہ میں اپنے پیر و مرشد شاہ قل ہواللہ محبوب یزدانی کے خلیفۂ اول ہوگئے آپ کا شجرۂ ارادت تیرہ واسطوں سے حضرۃ شاہ مینا رحمۃ اللہ تک اور بائیس واسطوں سے حضرت سلطان الہند غریب نواز معین الدین چشتی تک اور 3 واسطون سے حضرت علی کرم اللہ وجہ تک پہنچتا ہے جو بخوف طول یہاں درج نہیں کیا جاسکتا اور غالباً اس کا نقل کرنا غیر دلچپس بھی ہوگا۔

    ترک وطن اور دورہامیں قیام:- خلافت عطا ہونے کے بعد پیر و مرشد کی جانب سے موضع دورہا پرگنہ دیوہ ضلع بارہ بنکی میں حکم قیام و استقامت ہوا، اس موضع میں حضرت موجود صفی کی ننہیال بھی تھی اور آپ کے نانا مرحوم شاہ عظمت اللہ قدس سرہ بڑے صاحبِ کمال اہل اللہ تھے، شاہ موجود صفی حسب الحکم دوراہے میں چلے آئے اور بمصداق ’’و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ اپنے فطری فرض کی ادائی میں مصروف ہوگئے۔

    ریاضت و عبادت:- شاہ موجود صفی بڑے مجاہد اور ذاکر و شاغل تھے، ریاضت و عبادت کے سوا کوئی مشغلہ زندگی نہ تھا آپ کو ولیٔ مادر زاد' کہا جائے تو ایک حد تک بجا ہے کہ آپ کو آغازِ طفلی سے ذکر و شغل کا شوق تھا زمانہِ طفلی میں جب کہ مکتب میں آپ تعلیم پا رہے تھے یہ عالم تھا کہ اور لڑے کے پاخانہ پیشاب کے بہانہ سے باہر جاکر کھیل کود میں مصروف ہوجاتے تھے اور آپ کسی حیلہ سے مکتب سے اٹھ کر کسی خاموش اور تنہائی کی جگہ میں جا بیٹھتے اور ذکر الٰہی کیا کرتے تھے یہ واقعات خود آپ کے ہمصروں نےدیکھے اور بیان کئے ہیں جن کی صداقت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

    خلافت سے سرفراز ہونے اور دوراہے میں قیام پذیر ہونے بعد اس مشغلہ میں بہت زیادہ اضافہ و انہماک ہوگیا، اس کے سوا دنیا کا کوئی کام نہ تھا، سات سال تک کامل اور مسلسل صائم رہےاور ترکِ حیوانات کے ساتھ خدانِ چشتیہ کے اوراد و اعمال کی زکوٰۃ دی، حرزِیمانی کی دعوت صغیر و کبیر ادا کی ان تمام اشغال کے علاوہ آپ کا شمسی و قمری شغل بھی اس پایہ پر تھا جس کی مثال دشوار ہے شغل شمسی کے کتنے ہی باقاچلّے کئے اور روزانہ شغل جاری رکھا جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ گویا ہمہ تن خاصۂ آفتاب ہوگئے۔ اس شغل کی کیفیت سے قلب کی جو حالت ہو جاتی ہے، اس کا تو ذکر ہی کیا اوراد کا یہ عالم تھا کہ دیگر اوراد و اشغال کے علاوہ اکتالیس بار روزانہ حرزِیمانی کا درد اور کبھی اکتالیس بار اول روز میں اور اسی قدر آخر روز میں رہتا تھا جو سچ یہ ہے کہ طاقت بشری سے باہر ہے اور واقعہ یہ ہے کہ شاہ موجود صفی ہی کا کام تھا۔

    شغل شمسی اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ اگر حضرت درختاں سر سبز و پُرگل پر نظر جلالی ڈالتے تو مرجھا جاتے تھے اور نگاہِ جمالی پڑ جاتی تو شگفتہ و شاداب ہوجاتے تھے جس شخص پر نگاہ پڑ جاتی ممکن نہ تھا کہ متاثر ہوئے بغیر رہتا، آنکھیں ہر وقت سرخ رہا کرتی تھیں، قوت نگاہی کا عجیب عالم تھا۔

    سماع و حالت سماع:- شاہ صاحب ذوق سماع بھی رکھتے تھے اور حالت ذوق و کیف میں جس پر نگاہ پڑ جاتی تھی اس کی حالت متغیر ہوجاتی، لطفِ سماع کے ساتھ حضرت کی طبع سلیم کو قدرت نے مذاق بھی بہت عمدہ عطا کیا تھا اور علمی قابلیت نے ان سب میں مزید جلا پیدا کردی تھی۔

    تصانیف:- شاہ صاحب مرحوم کی تصانیف میں ایک دیوان فارسی (2) ایک دیوان اردو یادگار ہےجس کا ہر شعر و ہر مصرعہ جان معرفت و درسِ حقیقت خیال کرنا چاہئے لیکن افسوس ہے کہ ہنوز اس کی طباعت و اشاعت کی نوبت نہیں آئی اور ہم حضرت کے پس ماندگان و ارادت مندانِ خاص سے باصرار التماس کریں گے کہ دونوں کو شائع فرما کر دنیائے ادب کو مرہونِ کرم فرمائیں کہ یہ کلام تشنہ کامان ذوق کے لئے آبِ حیات و شربت مراد ثابت ہوگا، فارسی میں مثنوی ریحان العارفین اور عربی میں دعائے حرز موجودی معروف بہ دعائے احمدی اور دعائے قہر طبع ہوکر حلقہ مریدین و معتقدین تک الحمدللہ پہنچ کی ہے۔

    اخلاق و سادہ مزاجی:- ان خوبیوں اور کمالاتِ ظاہری و باطنی کے باوجود طبیعت مین حد درجہ سادگی تھی جو اہل اللہ کا خاصہ ہے اور معصومیت کا یہ عالم تھا کہ ہر کسی کی بات کو باور کر لینے میں ذرا بھی پس و پیش نہیں ہوتا تھا، اخلاق کا پیمانہ نہایت وسیع تھا اور غذائے لذیذ و خوشگوار مرغوب طبع نہ تھی بلکہ سگ وغیرہ سے رغبت رکھتے تھے، فیض روحانی عام تھا، بات بات میں اظہارِ کرامت کی شان نمایاں ہونی تھی، حضرت کی بے طبعی، قناعت و استغنا زبان زد خاص و عام ہے، قوت نگاہی اور کیفیت عرفاں کا تو کہنا ہی کیا ہے، لباس نہایت سادہ زیب جسم فرماتے تھے غرض ہر بات میں سادگی اور دنیا سے بے نیازی کا رنگ چھلکتا تھا۔

    ایک خاص واقعہ:- ذیل میں ایک واقعہ حوالہ قلم کیا جاتا ہے جس سے شاہ صاحب مرحوم کے کمال باطنی کا اظہار ہوتا ہے، ایک بار شاہ صاحب بزمانۂ ترک حیونات گیارہویں کی تقریب میں آستانہ پیر و مرشد کی حاجری کے ارادہ سے پا برہنہ جارہے تھے، کچھ مرید و عقیدت مند بھی ہمراہ تھے، بژسگال کا موسم، رات کا تاریک رات و خوفناک راستہ، جنگل کی کھنی جہاڑیوں کے درمیان بے حد تنگ و تار تھا جیسے کہ دیہات کے اکثر راستے ہوا کرتے ہیں، راتہ میں ایک بڑا پرانا، سیاہ سانپ پڑا ہوا تھا، کچھ نظر نہ آتا تھا، اتفاق سے شاہ صاحب کا پاؤں ہی پر پڑا، اس نے فوراً ہی پاؤں کے انگوٹھے میں کاٹ لیا، اتنے میں بجلی چمکی تو حضرت کی اوچھی سی نظر سانپ پر جا پڑی، سانپ کھسک کر جھاڑی میں ہوگیا، رفقائے سفر کو تردد و انتشار پیدا ہوا مگر آپ نے تسلی فرمائی اور کہا کہ تردد ہی کیا ہے جس کا نشہ و زہر غالب ہوگا وہ اپنا کام کر جائے گا، چلنا چاہئے فکر و تردد کی کیا بات ہے، چنانچہ آپ اور سب ہمراہی منزلِ مقصود کو روانہ ہوئے اور کچھ بھی اثر زہر شاہ صاحب کے چہرۂ و جسم پر نہ ظاہر ہوا، آستانۂ مرشد پر حاضری سے فراغت کر کے دوسرے دن واپسی ہوئی، اسی جگہ پہنچ کر یارانِ ہم سفر نے دکھا تو سانپ جھاڑی میں مرا پڑا تھا، یہ تو شاہ صاحب کی ایک اوچھی سی نظر کا کرشمہ تھا، حقیقت یہ ہے کہ پوری نگاہ پڑ جاتی تو وہ مار سیاہ، وہ پیکرِ زہر اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کرسکتا، الحق کہ کرامات الاؤلیائے حق۔

    قوتِ روحانی:- شاہ صاحب کی قوتِ روحانی بھی بہت بڑھی ہوئی تھی، آپ نہایت فیاضی کے ساتھ نزدیک و دور کے مریدوں کی امداد فرماتے اور دشوار طلب امور میں تسلی و تشفی سے کام لیتے تھے، لاطمعی کا اندازہ اس سے ہوگا کہ جب کبھی کوئی حاجت پیش آتی اور وہ نذر دینا چاہتا تو ہرگز قبول نہ فرماتے، غیر ضرورت مند اگر باصرارِ نذر کی طور پر کچھ پیش کرتا تو بہت تھوڑا قبول فرما لیتے، ایک بار ایک رئیس کہیں سے تشریف لائے اور التجا کی کہ میرے بھائی کو دشمنوں نے عداوت سے مقدمہ قتل عمد میں ماخوذ کر کے جیل خانہ بھیجوا دیا ہے اور وہ جیل کی حالت میں سخت پریشان ہے، مقدمہ ابھی عدالت میں پیش نہیں ہوا ہے مگر ظاہری حالت مقدمہ کی نہایت نازک پائی جاتی ہے، بہت دور سے حضور کا نام سن کر حاضر ہوا ہوں، دعا فرمایئے کہ وہ بے گناہ ملزم رہا ہوجائے اور عذابِ زنداں سے نجات پائے، محض جھوٹا اور بیجا الزام لگایا گیا ہے، شاہ صاحب نے فرمایا خدائے پاک داتا و پاک۔۔۔ ہے منصف ہے ضرور انصاف فرمائے گا، کسی کے الزام لگانےسے سے کیا ہوتا ہے اور اگر واقعی یہی ہے تو اپنے کئے کی سزا پائے گا۔

    رئیس نے پھر کہا۔ حضور ملزم بالکل بے گناہ و بے قصور ہے، ضرور دعا فرمائیں، یہ کہہ کر اپنے ملازم کی جانب اشارہ کیا، ایک سفید رومال میں پانچ سو روپیہ باندھے اور وہ ہاتھ میں لئے ہوئے تھا، رومال اپنے آقا کے حوالہ کیا، رئیس نے یہ کہہ کر شاہ صاحب کے آگے رومال بڑھا دیا کہ یہ نذرانۂ غلام قبول فرمائے۔

    شاہ صاحب نے نہایت روکھائی سے فرمایا۔ آپ یہاں سے چلے جائے، آپ کا کام نہیں ہوسکتا جب میں آپ سے دعا کا معاوضہ یا رشوت لے لوں گا تو خدا کےسامنے کیا منہ دکھاؤں گا، رئیس پر اس کا بہت اثر ہوا، فوراً اپنے فعل پر اظہارِ ندامت کیا اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی پھر بہت رویا گِڑ گَڑایا، آخر شاہ صاحب کو اس کی حالتِ زار پر ہوش آگیا، اس وقت تسلی فرما کر رخصت کیا اور وہ بے گناہ مجرم آپ کی برکتِ دعا کی بدولت عدالت سے رہا ہوگیا۔

    غرض شاہ صاحب کے حالات اور خوارق عادات بیش از بیش ہیں۔

    وفات حسرت آیات:- آپ کے فیوضِ باطن کا سرچشمہ جاری تھا، بمصداق لکل امۃ اجل اور کل شی ہالک الا وجہہ اجل نے پیام وصال و یا شاہ صاحب نے دو شنبہ کے دن 22 ماہِ جمادی الاول 1326ہجری کو اس جہانِ فانی سے عالمِ آخرت کا کوچ کیا اور اپنے ارادت مندوں کو داغِ فراق دے کر داعی اجل کو لبیک کہا۔

    موت یوں تو ہر انسان کے لیے ہے لیکن ان بزرگانِ دین کے وصال کی موت نہ کہنا چاہیئے لسان الغیب حافظ شیرازی کا قول ہے۔

    ہر گز نہ میرد آنکہ زندہ شد بعشق

    ثبت است برجریدۂ عالم دوامِ ما

    اور ارشادِ باری ہے:- ولا تقولو لھم اموات بل احیاء عند ربھم۔۔۔

    واقعۂ وفات:- حضرت شاہ صاحب کی وفات کا واقعہ بھی ایک عجیب واقعہ ہے، 21 جمادی الاول 1335ہجری کو (آپ کی وفات سے پورے اک سال قبل) شاہ صاحب کے پیر و مرشد شاہ قل ہواللہ محبوبِ یزادانی نے وصال فرمایا تھا اور ماندہ مذکور کی 22 تاریخ کو دو شنبہ کے دن تجہیز و تکفین ہوئی تھی، اپنے مرشد کے انتقال کا آپ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ ان کے بعد ایک سال سے زیادہ اس عالم میں نہ رہ سکے۔۔۔ سال آئندہ مرشد کے روز عرس سے چار دن قبل مع اہل و عیال شرکتہ عرس کے لئے نواب گنج ضلع بارہ بنکی تشریف لے گئے جہاں شاہ قل ہواللہ محبوبِ یزدانی کا مزار پاک ہے اور 20 جمادی الاول 1326ہجری کی رات کو باہر سے زنانہ مکان میں تشریف لا کر اپنی صاحبزادیوں اور بہؤں کو بٹھا کر بزرگانِ دین کے واقعاتِ زندگیِ ان کے کانگی حالات، سادہ اصول معاشرت وغیرہ قریب صبح تک بیان فرماتے رہے، بزرگانِ دین کی بہو بیٹیوں اور اولاد نے دنیا میں یوں بسر اوقات کی ہے اور یوں لذائذ دنیا کو ہیچ سمجھا ہے، تکالیف میں صبر و قناعت سے کام لیا ہے، فراغت و اطمینان میں شکرِ خدا و اعترافِ احسان کے ساتھ گزر بسر کی ہے پھر 21 جمادی الاول 26ہجری کو باہر مردانہ میں علی الصباح تشریف لائے اور دو پہر کو عارضۂ ہیضہ میں مبتلا ہوگئے، غیر حالت دیکھ کر لوگ دو راہے میں مکان پر لے آئے 22 جمادی الاول کو 11 بجے دن مین مکان پر پہنچے اور پلنگ پر لٹانا تھا کہ نفس جسم سے طائرۂ روح نے پرواز کیا اور شاہ صاحب نے دنیائے فانی سے عالمِ جاودانی کا سفر فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

    شاہ صاحب کا انتقال ٹھیک اسی تاریخ اور اسی دن ہوا جس روز آپ کے پیر و مرشد کا قل تھا، آہ! خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں۔

    ان دونوں بزرگوں کی تاریخِ وصال و عرس چونکہ ایک ہی ہے مریدین و معتقدین کی حاضری دونوں جگہ ایک ہی دن میں نہیں ہوسکتی اس وجہ سے شاہ موجود صفی رحمۃ اللہ کا فاتحہ تو روز وصال ہی کے دن ہو جاتا ہے مگر قل 25 جمادی الاولیٰ کو رکھا گیا ہے تاکہ ارادت مند دونوں جگہ شرکت فرما سکیں، شاہ صاحب کے ایک عقیدت مند جناب امداد نے قطعہ تاریخ وفات کہا ہے جو درج ذیل ہے۔

    چو موجودِ صفی پیرم و دا شد

    دروں سینہ ام مجروح شد دل

    بہ شاہ قل ہواللہ دست بیع بود

    خلافت بود ازآں شاہ حاصل

    وطن کرسی ید و راہا مہاجر

    و زآں جا بود ذاکر نیز شاغل

    بادل عرسِ امر شد درد یارش

    شدہ بیمار قاصر شد ز محفل

    بوقت قل بدوراہا رواں شد

    رسید آں جاؤ شددر خلد داخل

    دو شنبہ لبست و دوم اول جمادی

    بوقت چاشت روحشت ناقل

    پئے سال وصالش گفت امدادؔ

    بحق گشتہ شدہ موجود واصل

    1326

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے