عہدِ تیموریہ سے پہلے کے صوفیہ کرام اور ان کی فارسی تصانیف
عہدِ تیموریہ سے پہلے کے صوفیہ کرام اور ان کی فارسی تصانیف
سید صباح الدین عبدالرحمٰن
MORE BYسید صباح الدین عبدالرحمٰن
دلچسپ معلومات
ماہنامہ معارف (اعطم گڑھ)
تمہید:- گذشتہ دسمبر 1944 عیسوی میں استاذی المحترمی علامہ سید سلیمان ندوی دامت معالیہ نے مدراس میں انڈین ہسٹری کانگریس کے خطبۂ صدارت میں فرمایا تھا کہ
صوفیہ کرام کی تصانیف ہندوستان کے اسلامی عہد کی مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی تاریخ کے لئے ایسی ضروری ہیں کہ ان کے بغیر ان تینوں پہلؤں کی تصویر واضح نہیں ہوسکتی، ہندوستان کے اسلامی دور میں دو قسم کی بادشاہت ساتھ ساتھ قائم تھی، ایک تخت و تاج کے حکمرانوں کی اور دوسری خانقاہ کے بوریا نشینوں کی، ایک توپ و تفنگ سے مملکت زیر نگین کرتے تھے اور دوسرے اپنے بلند اخلاق اور اعلیٰ اوصاف کے ذریعہ انسانی قلوب کو تسخیر کرتے تھے اور آج یہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں میں کس کے اثرات زیادہ غالب رہے، ذیل کے صفحات میں سلاطین کے زمانہ کے اکابر صوفیہ کرام اور ان کی فارسی تصانیف کے اجمالی مطالعہ کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان کے فرمانراؤں کے رزم و بزم سے علٰحدہ ہوکر ہم یہ دیکھیں کہ خانقاہ کے درویشوں اور بے تاج کے بادشاہوں نے اپنے علم وعمل سے ہندوستان میں تصوف کو کس رنگ میں پیش کیا اور اس کے ذریعہ اس عہد کے مسلمانوں کے مذہب ، اخلاق و معاشرت اور تمدن کو کس طرح سنوارنے کی کوشش کی، اس لئے اس مضمون میں بادۂ تصوف کے لذت شناسوں کو صوفیانہ مسائل کے غامض اور دقیق مباحث نہ ملیں گے جس کے لئے راقمِ سطوران سے معذرت خواہ ہے اور بارگاہِ ایزدی میں دست بدعا ہے کہ جس غرض سے یہ سطریں لکھی گئی ہیں، اس میں اس کو کامیابی کی سعادت عطا فرمائے وَما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔
ابوالحسن علی ہجویری:- ہندوستان کو یہ شرف حاصل ہے کہ فارسی زبان کی قدیم ترین صوفیانہ تصنیف کشف المحجوب کا مصنف اسی سرزمین میں آسودۂ خواب ہے۔
کشف المحجوب کے مصنف کا اسم گرامی ابوالحسن علی بن عثمان بن علی الغزنوی الہجویری الجلابی الاہوری ہے، ہجویر اور جلاب غزنین کے دو قریے ہیں، شروع میں ان کا قیام یہیں رہا، اس لئے ہجویری اور جلابی کہلائے آخر زندگی میں لاہور آکر رہے، اس لئے لاہوری بھی مشہور ہوئے، پیدایش 400 ہجری میں بتائی جاتی ہے، سلسلۂ نسب یہ ہے، علی بن سید عثمان بن سید علی بن علی الرحمٰن بن شاہ شجاع بن ابوالحسن علی بن حسن اصغر بن سید زید شہید بن امام حسن بن علی مرتضیٰ۔
ان کے ابتدائی حالات اور تحصیل علم کی تفصیل کچھ زیادہ معلوم نہیں ہے، ابوالعباس بن محمد الاشفانی کے ذکر کے سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ اندر بعضے علوم استاد من بود مگر کشف المحجوب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی علمی استعداد غیر معمولی تھی، ملاجامی ان کے علمی تبحر کے معتبر ہیں۔
ان کے شیخ کا نام ابوالفضل بن حسن ختلی ہے، ایک ضمنی موقع پر اپنے شیخ کےحال میں وہ خود لکھتے۔
’’تعلیم تفسیر و روایات و اندر تصوف مذہب جنید داشت، مرید عصری، بود و صاحبِ سردانی و از اقران ابو عمر و قزوینی و ابوالحسن بن سالبہ بودہ است دشصت سال بحکم غزلتی بگوشہا اندر می گریخت و نامِ خود از میانِ خلق کم کردہ بود و بیشتر بخل بکام (؟) بود، عمر نیکو یافت و ویرا آیات و براہین بسیار بود اما لباس در سوم متصوفہ نداشتی و باہلِ رسم شدید بودے ومن از وے مہیب تر مردے ندیدہ بودم
روحانی کسبِ کمال کے لئے تمام اسلامی ممالک شام، عراق، بغداد، پارس، قہستان، آذر بائیجان، طبرستان، خوزستان، کرمان، خراسان، ماورأالنہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا اور وہاں کے اؤلیائے عظام مثلاً ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ، ابو القاسم گرگانی اور ابواسعید ابوالخیر کی روح پرور صحبتوں سے مستفیض ہوئے ان مشائخِ کبار کا ذکر ایک مستقل باب میں لکھا ہے، خراسان میں وہ تین سو مشائخ سے ملے۔
اس سیر و سیاحت کے بعد لاہور آکر سونت پذیر ہوئے، حضرت نظام الدین اؤلیا سے روایت ہے کہ وہ لاہور اپنے مرشد کے حکم سے آئے، ان کے آنے کے قبل ان کے پیر کے مرید شیخ حسین زنجانی، لاہور میں مقیم تھے مگر جس شب کو وہ لاہور پہنچے، اسی شب میں شیخ حسین زنجانی نے انتقال فرمایا، آخر زندگی تک لاہور میں قیام پذیر رہے اور یہیں دفن ہوئے، سن وفات 465 ہجری ہے، انتقال کے بعد مزار زیارت گاہِ خلائق بن گیا، حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی قبر پر چلہ کیا اور جب مدت ختم کرکے رخصت ہونے لگے تو یہ شعر پڑھا۔
گنج بخش ہر دو عالم مظہر نورِ خدا
کاملانِ را ہنر کامل نا قصانِ راہنما
خزینۃ الاصفیا کے مصنف کا بیان ہے کہ گنج بخش کے نام سے شہرت کا سبب یہی ہے عوام داتا بخش کہتے ہیں، حضرت فریدالدین گنج شکر نے بھی ان کے مزار پر چلہ کشی کی تھی جو ان کے اعلیٰ روحانی کمال کی دلیل ہے، آپ کا مزارِ پرانوار ہر زمانہ میں مرجعِ خلائق رہا ہے۔
دارا شکوہ اپنے زمانہ کا حال لکھتا ہے:-
خلقی انبوہ بر شبِ جمعہ بزیارت آن روضۂ منور مشرف می گردند و مشہور است کہ ہر کہ چہل شب جمعہ یا چہل روز پیہم طوافِ روضۂ شریفہ ایشان بکند، ہر حاجتے کہ داشتہ باشد بحصولِ می انجامد، فقیر نیز بزیارت روضہ منورہ ایشان و والدین و خال ایشان مشرف گشتہ‘‘
(1) منہاج الدین اس میں اہلِ صفہ کے مناقب لکھے تھے، بقیہ اور کتابوں کے مضامین ان کے نام سے ظاہر ہیں۔
(2) کتاب الفنا والبقا
(3) اسرارالخرق والمؤنات
(4) کتاب الیبان لاہل العیان
(5) بحرالقوب
(6) الرعایۃ بحقوق اللہ۔
شعر و شاعری سے بھی ذوق رکھتے تھے، کشف المحجوب میں اپنے ایک دیوان کا ذکر کیا ہے، ان کی تحریر سے ان کی دو اور کتابوں کا پتہ چلتا ہے۔
پیش ازین اندر شرح کلام وے (منصور حلاج) کتابے ساخۃ ام
من اندر بیان این (ایمان) کتابے کردہ جدا گانہ
لیکن ان کتابوں میں سے اب کسی کا بھی پتہ نہیں ہے، ہم تک ان کی صرف کشف المحجوب پہنچی ہے جو ہر زمانہ میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بے مثل سمجھی گئی ہے، حضرت نظام الدین اؤلیا کا ارشاد ہے کہ جس کا کوئی مرشد نہ ہو، اس کو کشف المحجوب کے مطالعہ کی برکت سے مل جائے گا، حضرت شرف الدین یحییٰ منیری اپنے مکتوبات میں اس کتاب کا جا بجا ذکر فرماتے ہیں، حضرت جہانگیر اشرف سمنانی کی تصنیف لطائف اشرفی میں ان کا حوالہ بکثرت موجود ہے، ملا جامی رقمطراز ہیں۔
کشف المحجوب از کتب معتبرہ مشہور درین فن است و لطائف و حقائق دران کتاب جمع کردہ است
دارا شکوہ لکھتا ہے۔
حضرت علی ہجویری را تصنیف بسیار است اما کشف المحجوب مشہور و معروف است، در ہیچ کس را برآن سخت نیست و مرشدی است کامل، در کتب تصوف بخوبی آں در زبانِ فارسی کتابے تصنیف نہ شدہ
کشف المحجوب کی تصنیف کا سبب ابوسعید ہجویری کا ایک استفسار ہے جو تصوف کے رموز و اشارات کو شیخ ہجویری سے سمجھنا چاہتے ہیں، اسی کے جواب میں شیخ نے تصوف کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جس سے کشف المحجوب، تصوف کی قابلِ قدر کتاب بن گئی ہے، اس کے ذریعہ گویا پہلی مرتبہ اسلامی تصوف کو ہندوستان میں پیش کیا گیا ہے، اس لئے اس کے مباحث ناظرین کے سامنے زیادہ تفصیل سے پیش کئے جاتے ہیں۔
کتاب کا پہلا باب علم کی بحث سے شروع ہوتا ہے، اس باب میں پانچ فصلیں ہیں، شروع میں کلامِ مجید اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں علم کی اہمیت دکھا کر یہ بتایا ہے کہ علم ہی کے ذریعہ ایک سالک مراتب اور درجات کے حصول کے قابل ہوتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے علم پر عمل بھی کرتا ہو پھر علم کی دو قسمیں بتائی ہیں۔
(1) علم خداوند تعالیٰ
(2) علم خلق اور ان کی تصریح اس طرح کی ہے، اللہ تعالیٰ کے علم کے نزدیک اس کے بندوں کا علم بالکل ہیچ ہے، وہ تمام موجودات اور معدومات کو جانتا ہے، بندوں کا علم ایسا ہونا چاہئے کہ ظاہر وباطن میں نفع بخش ہو، اس کی دو قسمیں ہیں۔
(1) اصولی یعنی ظاہر میں کلمۂ شہادت پڑھنا اور باطن میں معرفت کی تحقیق کرنا۔
(2) فروعی یعنی ظاہر میں معاملہ کرنا اور باطن میں اس کے لئے صحیح نیت رکھنا۔
ہجویری رحمۃ اللہ کے نزدیک ظاہر بغیر باطن کے مناقبت ہے اور باطن بغیر ظاہر کے زندقہ، علم باطن حقیقت اور علمِ ظاہر شریعت ہے، علم حقیقت کے تین ارکان ہیں۔
(1) خداوند تعالیٰ کی ذات کا علم، یعنی وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، وہ نہ کسی مکان میں ہے، نہ جہت میں، اس کا کوئی مثل نہیں۔
(2) خداوند تعالیٰ کے صفات کا علم یعنی وہ عالم ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے، دیکھتا ہے اور سنتا ہے۔
(3) خداوند تعالیٰ کے افعال کاعلم، وہ تمام خلائق کا پیدا کرنے والا ہے۔
علم شریعت کے بھی تین ارکان ہیں (1) کتاب (2) سنت (3) اجماعِ امت۔
پہلا علم گویا خدا کا علم ہے اور دوسرا خدا کی طرف سے بندہ کو عطا کیا ہوا علم، ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے صوفیائے کرام کے اقوال اور اپنے دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس شخص کو خدا کا علم یعنی علمِ حقیقت نہیں اس کا دل جہالت کے سبب سے مردہ ہے اور جس شخص کو اس کا عنایت کیا ہوا یعنی علمِ شرعیت نہیں، اس کا دل نادانی کے مرض میں گرفتار ہے، شیخ نے دونوں علموں کو لازم وملزوم قرار دیا ہے اور حضرت ابو بکر دراق ترمذی کے اس قول کی تائید کی ہے کہ جس شخص نے صرف علمِ توحید پر اکتفا کی وہ زندیق ہوگیا۔
دوسرا باب فقر سے شروع ہوتا ہے، اس میں تین فصلیں ہیں۔
پہلی فصل میں کلامِ مجید اور احادیث کی روشنی میں دکھایا ہے کہ فقر کا مرتبہ خدا کے نزدیک بہت بڑا اور افضل ہے اور فقیر کی تعریف یہ کی ہے کہ اس کے پاس کچھ نہ ہو، اس کی کسی چیز میں خلل نہ آئے، نہ دنیاوی ساز و سامان ہونے سے مالدار ہوجائے اور نہ اس کے نہ ہونے سے محتاج ہوجائے یعنی اس کا ہونا اور نہ ہونا اس کے نزدیک برابر ہو بلکہ نہ ہونے سے اور بھی زیادہ خوش ہو کیونکہ فقیر جتنا تنگ دست ہوگا اسی قدر اس پر حال زیادہ کشادہ ہوگا اور اسرار منکشف ہوں گے وہ جس قدر دنیا کے مال و متاع سے بے نیاز ہوجاتا ہے، اتنا ہی اس کی زندگی الطاف خفی اور اسرار روشن سے وابستہ ہوتی جاتی ہے اور رضائے الٰہی کی خاطر وہ دنیا کی تمام چیزوں کو نظر انداز کردیتا ہے، ایک فقیر کا کمالِ فقر یہ ہے کہ اگر دونوں جہان اس کے فقر کے ترازو کے پلڑے میں رکھے جائیں تو وہ ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوں اور اس کی ایک سانس دونوں عالم میں نہ سمائے۔
دوسری فصل میں صوفیانہ نقطۂ نظر سے فقر و غنا پر بحث کی ہے بعض صوفیائے کرام کا خیال ہے کہ غنا فقر سے افضل ہے، ان کی دلیل ہے کہ غنا خداوند تعالیٰ کی صفت ہے، فقر کی نسبت اس کی جانب جائز نہیں اور دوستی میں ایسی صفت جو خدا اور بندہ کے درمیان مشترک ہو، ضرور پائی جائے گی اور یہ اس صفت یعنی فقر سے بہتر ہے جس کو خدا وند تعالیٰ کی جانب سے منسوب کرنا روا نہیں۔
شیخ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اس منطقیانہ دلیل کو منطقیانہ دلائل ہے سے رد کیا ہے مثلاً خدا کی صفات میں مماثلت کی کوشش آپس میں برابر ہونے کی دلیل ہے مگر خدا تعالیٰ کی صفت قدیم ہے اور خلق کی صفت حادث ہے، اس لئے دونوں میں مماثلت ممکن نہیں، غنی خدا کےمنجملہ اور نامورں کے ایک نام ہے، یہ اسی کے لئے زیبا ہے، بندہ اس نام کا مستحق نہیں ہوسکتا، بندہ کے غنا کا کوئی سبب ہوتا ہے مگر خدا کا غنا سبب سے بے نیاز ہے، خلق کے غنا میں حدوث و تغیرات ہوتے ہیں، خالق کا غنا اس سے ماورا ہے، س کی قدرت کا کوئی مانع نہیں، وجودِ بشری کو حاجت لازم ہے کیونکہ حدوث کی علامت احتیاج ہے اور جب احتیاج پیدا ہوتی ہے تو پھر غنا کیونکہ باقی رہ سکتا ہے؟ اس تشریح و تفصیل کے بعد ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے غنا کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفت قرار دیا ہے جو ایک بندہ کے لئے کسی طرح سزاوار نہیں مگر ہجوریری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بندہ کا غنی ہونا محال بھی نہیں الغنی من اغناہ اللہ یعنی غنی وہ ہے جس کو خدا غنی کر دے، اس لئے غنی باللہ فاعل ہے اور اغنااللہ مفعول ہے، فاعل بالذات تمام ہوتا ہے اور مفعول فاعل کی وجہ سے قائم ہوتا ہے اگر بندہ غنا سے سرفراز کیا جاتا ہے تو یہ اس کے لئے نعمت ضرور ہے مگر اس نعمت میں غفلت اسی طرح آفت ہے جس طرح فقر میں حرص، اس لئے بندہ اگر غنی ہے تو اس کو غافل نہ ہونا چاہیے اور اگر فقر رکھتا ہو، تو اس کو حریص نہ ہونا چاہیے، ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غنا میں دل کے غیر مشغول رہنے کا احتمال باقی رہتا ہے اور فقر میں دل اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے جدا رہتا ہے، اس لئے فقر غنا سے بہتر ہے اور جب ایک طالب خدا کے سوا دنیا کی تمام چیزوں سے مستغنی ہوجاتا ہے تو فقروغنا کے دونوں نام اس کے لئے بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تیسری فصل میں فقر و فقیر سے متعلق مشائخِ عظام کے جو اقوال ہیں، ان کی تشریح اور تفصیل کی ہے مثلاً حضرت رویم بن محمد فرماتے ہیں کہ فقیر کی تعریف یہ ہے کہ اپنے بھیدوں کو محفوظ رکھے اور اس کا نفس آفت سے مصٔون ہو اور وہ فرائض کا پابند ہو، ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ جو کچھ فقیر کے دل پر گذرے اس کو ظاہر نہ کرے اور جس کا ظہور ہوجائے، اس کو چھپائے نہیں اور نہ اسرار کے غالب ہونے سے ایسا مغلوب ہوجائے کہ شریعت کے احکام ادا نہ کرسکے یا مثلاً حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فقیر کی صفت یہ ہے کہ نہ ہونے کی صورت میں سکوت کرے اور ہونے کے وقت خرچ کرے اور خرچ کے لئے بے چین ہو، شیخ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے دو طرح سے اس کی تفسیر کی ہے، ایک یہ کہ نہ ہونے کے وقت سکوت گویا خداوند تعالیٰ کے رضا کی دلیل ہے اور اگر اس کے پاس کچھ ہوگیا تو گویا اس کو خداوند تعالیٰ کی جانب سے خلعت عطا ہوا مگر خلعت فرقت کی نشانی ہے، کیونکہ محب خلعت قبول نہیں کرتا، اس لئے جو کچھ فقیر کو ملتا ہے، اس کو وہ دوسروں کو دے کر جلد اپنے سے جدا کر دیتا ہے، دوسری تفسیر یہ ہے کہ فقیر کو سکون اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ کسی چیز کا منتظر نہیں رہتا اور جب کوئی چیز حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اس کو اپنے غیر پاتا ہے اور غیر کے ساتھ اس کو آرام نہیں ملتا، اس لئے اس کو ترک کر دیتا ہے۔
تیسرے باب میں صوفی کی اصلیت سے محققانہ بحث کی ہے، اس میں بھی تین فصلیں ہیں۔
لفظِ صوفی کی اصلیت ہمیشہ سے مختلف فیہ رہی ہے، ایک گروہ کہتا ہے کہ صوفی صوف کا کپڑا پہنتا ہے اس لئے اس نام سے منسوب ہوا اور دوسرا گروہ کہتا ہے کہ وہ صفِ اول میں رہتا ہے، اس لئے اس نام سے پکارا جاتا ہے، تیسرے کا خیال یہ ہے کہ صوفی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ اصحابِ صفہ کے ساتھ دوستی رکھتا ہے اور چوتھے کہ رائے یہ ہے کہ یہ اسم صفا سے مشتق ہے، اسی طرح توجیہات ہیں مگر ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے ہر ایک کو غلط قرار دیا ہے، فرماتے ہیں کہ صوفی کو صوفی اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے اخلاق و معاملات کو مہذب کرلیتا ہے اور طبیعت کی آفتوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے اور حقیقت میں صوفی وہ ہے جس کا دل کدورت سے پاک اور صاف ہو، کیونکہ تصوف بابِ تفعل سے ہے جس کا خاصہ تکلف ہے یعنی صوفی اپنے نفس پر تکلیف اٹھاتا ہے اور یہی تصوف کے اصلی معنی ہیں۔
اہلِ تصوف کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔
1۔ صوفی جو اپنی ذات کو فنا کرکے خدا کی ذات میں بقا حاصل کرتا ہے اور اپنی طبیعت سے آزاد ہوکر حقیقت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
2۔ متصوف:- جو صوفی کے درجہ کو مجاہدہ سے تلاش کرتا ہے اور اس تلاش میں اپنی ذات کی اصلاح کرتا ہے۔
3۔ مستصوف:- جو محض مال ومنال اور جاہ وحشمت کے لئے اپنے کو مثل صوفی کے بنا لیتا ہے۔
پس صوفی صاحبِ وصول (یعنی وصل حاصل کرنے والا) متصوف صاحبِ اصول (یعنی صوفی کے اصول پر چلنے والا) مستصوف صاحبِ فضول ہوتا ہے۔
دوسری فصل میں ہجویری رحمۃ اللہ علیہ مشائخِ کبار کے اقوال نقل کئے ہیں جن سے ان کے مذکورۂ بالا خیالات کی تائید ہوتی ہے مثلاً حضرت حسن نوری فرماتے ہیں کہ تصوف تمام خطوط نفسانی کے ترک کرنے کا نام ہے اور صوفی وہ لوگ ہیں جن کا دل بشریت کی کدورت سے آزاد ہوگیا ہو اور نفسانی آفتوں سے صاف ہوکر اخلاص سے مل گیا ہو، یہاں تک کہ غیر خدا سے بری ہوکر وہ صف اول اور درجۂ اولیٰ میں پہنچ جاتے ہیں۔
حضرت حصری کا قول ہے کہ تصوف دل اور بھید کی صفائی اور کدورت کی مخالفت کا نام ہے ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح یہ کی ہے کہ فقیر اپنے دل کو خدا کی مخالفت کے میل سے پاک رکھتا ہے کیونکہ دوستی میں صرف موافقت ہوتی ہے اور موافقت مخالفت کی ضد ہے اور جب مراد دیک ہوتی ہے تو مخالفت نہیں ہوتی ہے، اس لئے دوست کو دوست کے حکم کی تعلیم کے سوا اور کچھ نہیں چاہیے۔
حضرت شبلی کا قول ہے کہ صوفی وہ ہے کہ دونوں جہان میں خدائے عزوجل کے یہاں کوئی چیز نہ دیکھے ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تشریح کرکے بتایا ہے کہ بندہ جب غیر کو نہ دیکھے گا تو اپنی ذات کو نہ دیکھے گا، اس طرح اپنی ذات کی نفی اور اثبات سے فارغ ہوجائے گا۔
اس بحث میں ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کی تائید کی ہے، تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے جس سے آٹھ پیغمبروں کی پیروی ہوتی ہے، یعنی تصوف میں سخاوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہو، رضا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ہو، صبر حضرت ایوب علیہ السلام کا ہو، اشارات حضرت زکریا علیہ السلام کے ہو، غربت حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ہو، سیاحت حضرت عیسی علیہ لسلام کی، لباس حضرت موسیٰ کا ہو اور فقر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔
تیسری فصل میں ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ تصوف محض علوم ورسوم کا نام نہیں بلکہ ایک خاص اخلاق کا نام ہے، علوم ہوتا تو تعلیم سے حاصل ہوتا، یا رسوم ہوتا تو مجاہدہ سے حاصل ہوتا مگر یہ نہ تعلیم سے حاصل ہوتا ہے اور نہ صرف مجاہدہ سے اس اخلاق کی تین قسمیں ہیں۔
1. خدا کے احکام کو ریا سے پاک ہوکر پورا کرنا.
2. بڑوں کی عزت کرنا، چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا اور کسی سے انصاف اور عوض نہ چاہنا۔
3۔ نفسانی خواہشوں کا اتباع نہ کرنا۔
چوتھے باب میں صوفیوں کے لباس پر تین فصلوں میں بحث کی ہے، صوفی سنت رسول کی پیروی میں کمل یا گدڑی لباس کے طورپر استعمال کرتا ہے جو اس کے فقر و ریاضت کی دلیل ہے مگر گدڑی پہننے کے لئے ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سی شرطیں مقرر کی ہیں، گدڑی پہننے والوں کو تارک الدنیا اللہ کا عاشق ہونا چاہیے، اس کے باوجود وہ خود گدڑی اسی وقت پہن سکتا ہے جب کہ اس کو مشائخ پہنائیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ موخرالذکر اول الذکر سے ایک سال خلق کی خدمت اور ایک سال خدا کی خدمت لیں اور ایک سال اس کے دل کی رعایت حاصل کریں، خلق کی خدمت یہ ہے کہ وہ سب کو بلا تمیز اپنے سے بہتر جانتا ہوں اور ان کی خدمت اپنے لئے واجب سمجھتا ہوں مگر اپنی خدمت کی فضیلت کا گمان مطلق نہ کرتا ہو، خدا کی خدمت یہ ہے کہ دنیا اور عقبیٰ کے مزے کو ترک کردیتا ہو اور جو کام کرتا ہو صرف خدا کی خاطر کرتا ہو، دل کی رعایت یہ ہے کہ اس میں ہمت ہو، اس سے تمام غم دور ہوں اور وہ صرف اللہ کی طرف متوجہ ہو، جب یہ تینوں شرطیں پوری ہوجائیں تو شیخ اپنے مرید کو گدڑی پہنا سکتا ہے، گدڑی پہننا گویا کفن پہننا ہے جس کے بعد زندگی کی تمام لذتوں اورآسایشوں سے کنارہ کش ہوکر صرف خدا کا ہوکر رہنا پڑتا ہے۔
چھٹا باب ملامت پر ہے، ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے خلق کی ملامت کو خدا کے دو ستون کی غذا کہا ہے اور اس کی تین قسمیں بتائی ہیں۔
1۔ ایک یہ کہ ایک شخص اپنے معاملات وعبادات میں درست ہو، پھر بھی خلق اس کو ملامت کرتی ہو، لیکن وہ اس کی پرواہ مطلق نہ کرتا ہو مثلاً شیخ ابو طاہر حرمی ایک بار بازار میں جارہے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا اے پیر زندیق کہاں جاتا ہے، ان کے ایک مرید نے اس سے جھگڑا کرنا چاہا مگر انہوں نے روک دیا اور جب گھر آئے تو مرید کو بہت سے خطوط دکھائے، جن میں ان کو کسی میں شیخ زکی، کسی میں شیخ زاہد، کسی میں شیخ الاسلام اور کسی میں شیخ الحرمین کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا اور فرمایا کہ ہر شخص اپنے اعتقاد کے مطابق جو چاہتا ہو مجھ کو کہتا ہے یہ سب اسم نہیں ہیں، القاب ہیں کوئی مجھ کو زندیق کہے تو اس کے لئے جھگڑا کیوں کیا جائے۔
2۔ دوسری یہ کہ وہ دنیا کی جاہ و حشمت سے منہ موڑ کر خدا کی جانب مشغول ہو اور خلق کی ملامت کو روا رکھتا ہو کہ دنیا کی طرف مائل نہ ہونے پائے مثلاً ابو یزید رمضان کے مہینے میں سفرِ حجاز سے اپنے شہر میں واپس آئے تو لوگوں نے بہت اعزاز و اکرام سے ان کا استقبال کیا، اس خیر مقدم میں وہ خدا کی یاد سے غافل ہوگئے، انہوں نے اسی قت اپنی آستین سے ٹکیہ نکال کر کھانا شروع کردیا، لوگوں نے ان کو ٹکیہ کھاتے دیکھا تو ان کو ملامت کرنے لگے اور ان سے برگشتہ ہوگئے، ابو یزید نے قصداً ایسا کیا تو وہ دنیا اور دنیا والوں کی طرف متوجہ نہ ہونے پائیں۔
3۔ تیسری یہ کہ وہ ضلالت اور گمراہی میں مبتلا ہو اور اس سے خلق کی ملامت کے ڈر سے باز آیا محض نفاق اور ریاکاری سمجھتا ہو، یہاں تک کہ شریعت کو بھی ترک کردیتا ہو جو ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صحیح نہیں کے لئے مایۂ تفریح، مشتاقوں کے لئے راحت اور مریدوں کے لئے سرور ہے اور آخر میں خود اپنا ایک ذاتی واقعہ بیان کیا ہے کہ میں ایک مرتبہ شیخ ابو یزید کے مزار پر تین مہینے حاضر رہا، ہر روز غسل اور وضو کرکے بیٹھتا تھا مگر وہ کشف حاصل نہ ہوا جو ایک بار وہیں حاصل ہو چکا تھا، آخر میں وہاں سے اٹھ کر خراسان کی طرف چلا گیا، ایک گاؤں میں پہنچا تو ایک خانقاہ میں متصوفین کی ایک جماعت نظر آئی، میں اس جماعت کی نگاہ میں بہت ہی حقیر معلوم ہوا، ان میں سے کچھ کہنے لگے کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے اور واقعی میں ان میں سے نہ تھا، انہوں ے مجھ کو ٹھہرنے کے لئے کوٹھا دیا اور خود اونچے کوٹھے پر ٹھہرے کھانے کے وقت مجھ کو تو سوکھی روٹی دی اور خود اچھا کھانا کھایا، کھانے کے بعد تمسخر سے خرپزہ کے چھلکے میرے سرپر پھیکتے تھے اور طنز کی باتیں کرتے تھے مگر وہ جتنا زیادہ طنز کرتے تھے، اتنا ہی میرا دل ان سے خوش ہوتا تھا، یہاں تک کہ ذلت اٹھاتے اٹھاتے وہ کشف حاصل ہوگیا جو اس سے پہلے نہ ہوا تھا، اس وقت مجھ کو معلوم ہوا کہ مشائخ جاہلوں کو اپنے یہاں کیوں جگہ دیتے ہیں،
آگے سات بابوں میں صوفیانہ نقطۂ نظر سے صحابۂ اعظام اہلِ البیت، اہل لصفحہ تبع تابعین، ائمہ اور صوفیائے متاخرین کا ذکر ہے، چودھواں باب نہایت اہم ہے، اس میں صوفیوں کے مختلف فرقوں کے عقائد پر ناقدانہ اور محققانہ مباحث ہیں، تفصیل غالباً مناسب نہ ہوگی۔
پہلا فرقہ محاسبہ یہ ہے جو عبداللہ بن حارث بن اسد المحاسبی کی جانب سے منسوب ہے، حارث محاسبی کا عقیدہ تھاکہ رضا مقامات میں سے نہیں بلکہ احوال میں سے ہے۔ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے رضا اور مقامات کی تشریح کرکے حارث کی مدافعت کی ہے اور رضا کی دو قسمیں بتائی ہیں۔
1۔ خداوند تعالیٰ کی رضا بندہ سے۔
2۔ بندہ کی رضا خداوند تعالیٰ سے۔
بندہ دن سے خدا وند تعالیٰ کی رضا یہ ہے کہ وہ ان کو ثواب، نعمت اور بزرگی، عطا کرتا ہے اور خداوند تعالیٰ سے بندوں کی رضا یہ ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں، خداوندِ تعالیٰ اپنے احکام میں یا تو کسی چیز سے منع کرتا ہے یا عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے مگر اس کے احکام کے ماننے والے اس کے خوف و ہیبت میں ایسے ہی لذت محسوس کرتے ہیں جیسے اس کے لطف و کرم سے حظ اٹھاتے ہیں، اس کا جلال اور جمال ان کی نظروں میں یکساں ہے اور وہ محض اس لئے کہ وہ اپنے اختیارات کو سلب کرلیتے ہیں جس کے بعد ان کا دل غیر کے اندیشہ سے نجات پاکر تمام غم اولم سے آزاد ہوجاتا ہے۔
اصحابِ رضا چار قسم کے ہوتے ہیں، ایک خداوند تعالیٰ کی عطا (خواہ وہ کیسی ہی ہو) پر راضی رہتے ہیں، یہ معرفت ہے، دوسرے اس کی نعمتوں (دنیاوی) پر راضی ہوتے ہیں، وہ دنیا والے ہیں، تیسرے مصیبت پر راضی رہتے ہیں، یہ رنج ہے، چھوتے احوال و مقامات کی قید سے نکل کر صرف خداوند تعالیٰ کی خوشی پر رہتے ہیں یہ محبت ہے۔
دوسرا گروہ قصاریہ کا ہے، اس کے پیشوا ابو صالح بن حمدون احمد بن عمارۃ القصار ہیں جو خلق کی ملامت کو تزکیۂ نفس کے لئے ضروری سمجھتے ہیں، ملامت پر بحثت چھٹے باب میں گذر چکی ہے، اس لئے ہجویری نے اس موقع پر اس مسلک پر تفصیل کے ساتھ روشنی نہیں ڈالی ہے اس کے بعد گروہ طیفوریہ اور گرروہ جنیدیہ کا ذکر ہے، اول الذکر کے پیشوا ابو یزید طیفور بن شروشان البسطامی اور مؤخر الذکر کے امام ابو القاسم الجنیدیہ بن محمد ہیں، پہلے گروہ کا عقیدہ سکر اور دوسرے کا صحو پر مبنی ہے، اس سلسلہ میں ہجویری نے بتایا ہے کہ سکر اور اور صحو کیا ہیں، سکر حق تعالیٰ کی محبت کا غلبہ ہے ایک سالک جب محبوب کے جمال کو دیکھتا ہے تو اس کی عقل عشق سے مغلوب ہوجاتی ہے اور غایت بے خودی میں اس کے ادراک اور ہوش باقی نہیں رہتے، اس پر محویت اور فنا کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، صحو محویت کے بعد حصول مراد کا نام ہے جس میں جمالِ محبوب کے مشاہدہ سے حیرت اور وحشت باقی نہیں رہتی، صحو میں غفلت سے حجاب پیدا ہوتا ہے لیکن جب یہی غلفت محبت ن جاتی ہے تو کشف ہے، صحو غفلت کے قریب ہو تو سکر ہے اور سکر محبت کے قریب ہو تو صحو ہے، جب دونوں کی اصل صحیح ہوں تو سکر صحو اور صحو سکر ہے، اس جزوی اختلاف کے باوجود دونوں ایک دوسرے کی علت معلول ہیں لیکن جب دونوں کی اصل صحیح نہ ہوں تو دونوں بے فائدہ ہیں، ہجویری خود جنیدی مسلک کے پابند تھے اور صحو کو سکر پر فوقیت دیتے تھے، لکھتے ہیں کہ مقامِ صحو مردوں کی جائے فنا ہے۔
پانچواں گروہ نوریہ کا جس کے پیشوا ابن الحسن بن نوری ہیں، وہ در ویشوں کی عزلت گزینی کو ایک نامحمود فعل سمجھتے ہیں اور صحبت کو ضروری قرارد یتے ہیں اور اصحابِ صحبت کے لئے ایثار و کلف برادشت کرنے کو بھی ضروری سمجھتے ہیں ورنہ اس کے بغیر صحبت حرام اور اگر صحبت کے رسمی ایثار رنج و کلفت کے ساتھ محبت بھی شامل ہو تو اور زیادہ اولیٰ ہے، ہجویری نے فرقہ نوریہ کے اس مسلک کو پسندیدہ کہا ہے۔
6۔ سہلیہ : ا س کے امام حضرت سہل بن تستری ہیں ان کی تعلیم اجتہاد (جدوجہد مشقت) مجاہدۂ نفس اور ریاضت ہے، اجتہاد مجاہدہ اور ریاضت کی غرض نفس کی مخالفت ہے، اس لئے ہجویری نے نفس کی تصریح واضح طور سے کیا ہے، فرماتے ہیں کہ نفس کی مخالفت تمام عبادتوں کا سرچشمہ ہے، نفس کو نہ پہچاننا اپنے کو نہ پہنچاننا ہے جو شخص اپنے کو نہیں پہچانتا وہ خدا کو نہیں پہچان سکتا، نفس کا فنا ہو جانا حق کے بقا کی علامت ہے اور نفس کی پیروی حق عزو جل کی مخالفت ہے، نفس پر جبر کرنا یعنی نفسانی خواہشوں کو روکنا جہادِ اکبر ہے، حضرت سہل بن عبداللہ تستری نے اس میں بڑا غلو فرمایا ہے وہ نفس کے مجاہدہ کو مشاہدہ کی علت قرار دیتے ہیں، سہل تستری کے اس مسلک سے بعض گروہوں کو اختلاف ہے، ان کا خیال ہے کہ مشاہدہ محض عنایتِ ایزدی پر منحصر ہے، مجاہدہ وصل حق کی علت نہیں ہوسکتا، ممکن ہے کہ ایک شخص حجرہ کے اندر عبادت میں مشغول ہو پھر بھی حق سے دور ہو اور ایک شخص خرابات میں رہتا ہو، گنہگار ہو اور اسے قربِ خداوندی حاصل ہو، ہجویدی نے اس اختلاف کو محض الفاظ اور تعبیر کا اختلاف قرار دیا ہے کہ ایک شخص مجاہدہ کرتا ہے تو اس کو مشاہدہ حاصل ہوتا ہے اور دوسرا مشاہدہ کرتا ہے کہ مجاہدہ حاصل ہو، مشاہدہ کے بغیر مجاہدہ نہیں اور مجاہدہ کے بغیر مشاہدہ نہیں، اس رائے کے باوجود ہجویری مجاہدہ کو مشاہدہ کی علت قرار نہیں دیتے بلکہ اس کو وصل حق کا طریق اور ذریعہ سمجھتے ہیں۔
نفس کے بعدہوا یعنی نفس کی خواہشوں کا ذکر ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ بندہ دو چیزوں کا تابع رہتا ہے ایک عقل کا دوسرے نفس کی خواہشوں کا جو عقل کا متبع ہوتا ہے وہ ایمان کی طرف جاتا ہے جو ہوا کی پیروی کرتا ہے، وہ کفر، گمراہی اور ضلالت کی طرف مائل ہے، حضرت جنید سے پوچھا گیا کہ وصلِ حق کیا چیز ہے، فرمایا ”ہویٰ کا ترک کرنا“ ہجویری نے بھی اس کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ سب سے بڑی عبادت ہویٰ کا ترک کرنا ہے گو اس کا ترک کرنا ناخن سے پہاڑ کھودنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔
ہجویری نے ہوا کی دو قسمیں بتائی ہیں۔
1۔ لذت اور شہوت۔
2۔ جاہ وطلبی، اول الذکر کے فتنے سے خلق محفوظ رہتی ہے لیکن مؤخر الذر کر سے خلق کے درمیان فتنہ پیدا ہوتا ہے، خصوصاً جب یہ جاہ طلبی خانقاہوں میں ہوں۔
فرقۂ کیمیہ :- یہ گروہ حضرت ابو عبداللہ بن علی الحکیم الترمذی کی جانب سے منسوب ہے، اس فرقہ کا مسلک ہے کہ ولی اللہ خدا کا برگزیدہ بندہ ہوتا ہے جو نفس کی حرص و آز سے پاک ہوکر اسرارِ الٰہی سے وقف ہوتا ہے اور اس سے کرامت ظاہر ہوسکتی ہے، اس سلسلہ میں ہجویری نے ولی کی ولایت اور کرامت مفصل بحث کی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کچھ بندوں کو اپنا دوست بناتا ہے، ان کی صفات یہ ہیں کہ دنیاوی مال ودولت سے بے نیاز ہوکر وہ صرف ذاتِ خداوندی سے محبت کرتے ہیں، ان کے چہرے نورانی ہوتے ہیں، جب دوسرے لوگ ڈرتے ہیں تو وہ نہیں ڈرتے اور جب دوسرے غمزدہ ہوتے ہیں تو یہ نہیں ہوتے اور جب ایسے لوگ دنیا میں باقی نہ رہیں گے تو قیامت آجائے گی،
معتزلہ کا اعتراض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام بندے اس کے دوست ہیں، کوئی بندہ خاص اور برگزیدہ نہیں ہوتا، اللہ کا خاص بندہ صرف نبی ہوتا ہے، ہجویری نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو خاص بناتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے رسول کی رسالت کی دلیل روشن اور واضح ہوتی رہے، فرقہ حشوی خاص بندوں کا ہونا جائز سمجھتا ہے مگر ا س کا خیال ہے کہ ایسے بندے تھے ضرور مگر اب نہیں ہیں لیکن ہجویری کہتے ہیں کہ ایسے بندے ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور ان کی قسمیں بتائی ہیں۔ 1 اخیار، 2 ابدال، 3 ابرار، 4 اوتاد، 5 نقبا، 6 قطب یا غوث۔
ایک گروہ کا اعترض ہے کہ ولی اپنی ولایت کے باعث عاقبت سے بے خوف اور دنیا پر مغرور ہوسکتا ہے لیکن ہجویری نے بہت سے اقوال سے ثابت کیا ہے کہ ولی وہ ہے جو اپنے حال میں فانی اور مشاہدۂ حق میں باقی ہو، اسے اپنے وجود کی خبر نہ ہو اور نہ اس کو اللہ کے سوا غیر کے ساتھ قرار ہو، وہ مشہور ہوتا ہے لیکن شہرت سے پرہیز کرتا ہے کیونکہ شہرت باعثِ فساد رعونت ہے۔
جب ولی اپنی ولایت میں صادق ہوتا ہے تو اس کے کرامت ظاہر ہوتی ہے، کرامت ِولی خاصہ ہے، کرامت نہ عقل کے نزدیک محال ہے اور نہ اصولِ شریعت کے خلاف ہے، کرامت محض ”مقدورِ خداوندی“ ہے یعنی اس کا ظہور کسب سے نہیں بلکہ خدا کی بخششوں سے ہوتا ہے۔
اس کے بعد یہ بحث ہے کہ کرامت کا ظہور کب ہوتا ہے، ابو یزید ذوالنون مصری اور محمد بن خفیف وغیرہ کا خیال ہے کہ اس کا ظہور سکر کے حال میں ہوتا ہے اور جو صحو کے حال میں ہو، وہ نبی کا معجزہ ہے، ولی جب تک بشریت کے حال میں رہتا ہے، وہ محجوب رہتا ہے اور جب خدا کے الطاف و اکرام کی حقیقت میں مدہوش ہو جاتا ہے تو اس حال میں (جو سکر ہے) کرامت ظاہر ہوتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ولی کے نزیدک پتھر اور سونا دونوں برابر ہو جاتے ہیں۔
حضرت جنید اور ابوالعباس سیاری وغیرہ کا مسلک ہے کہ کرامت سکر میں نہیں بلکہ صحو اور تمکین میں ظاہر ہتی ہے، ولی خدا کے ملک کا مدبر واقف کار ور ولی ہوتا ہے اور اس سے ملک کی گتھیاں سلجھتی ہیں، اسی لئے اس کی رائے سب سے زیادہ صائب اور اس کا دل سب سے زیادہ شفیق ہوتا ہے مگر یہ مرتبہ تلوین اور سکر میں حاصل نہیں ہوتا ہے کیوں کہ تلوین اور سکر ابتدائی مدارج ہیں اور جب یہ آخری منازل تمکین اور صحو میں منتقل ہوجاتے ہیں تو ولی برحق ہوتا ہے اور اس کی کرامت صحیح ہوتی ہے، اس بحث کے بعد اؤلیا اللہ کی کرامتوں کا بیان ہے پھر دو فصلوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ انبیا اؤلیا سے افضل ترین اور انبیا اؤلیا، فرشتوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔
8۔ فرقہ خرازی : یہ فرقہ حضرت ابو سعید خراز کی جانب منسوب ہے جنہوں نے سب سے پہلے مقامِ فنا اور بققا سے بحث کی ہے، اس لئے اس فصل میں ہجویری نے صرف فنا اور بقا پر روشنی ڈالی ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فنا سے مراد اپنی ذات اور وجود کا مٹا دینا اور بقا سے مراد خدا سے متحد ہوکر اس میں حلول کرجانا ہے لیکن ہجویری نے ان دونوں کی ترید کی ہے، ان کے نزدیک ذات اور جوود کا نیست ہوکر خدا میں حلول کرنا محال ہے کیونکہ حادث قدیم سے، مصنوع صانع سے، مخلوق خالق سے متحد اور ممتزج نہیں ہوسکتا۔ ہجویری کے نزدیک فنا سے مراد شہوات و لذات کو ترک کرکے خصائصِ بشریت سے اس طرح علیحدہ ہوجاتا ہے کہ پھر محبت و عداوت، قرب وبعد وصل و فراق اور صحو سکر میں کوئی تمیز باقی نہ رہ جائے اور جب یہ مقصود حاصل ہوجائے تو یہی بقا ہے، اس کو مختصر الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسانیت کے تعلقات سے کنارہ کش ہونے کا نام فنا ہے اور اخلاص و عبودیت کا نام بقا ہے یا علائق دینوی سے علیحدہ ہونا فنا ہے او رخدا کا جلال دیکھنا بقا ہے، اس غلبۂ جلال سے یہ کیفیت ہوتی ہے کہ سالک دین و دنیا کو فراموش کردیتا ہے، حال و مقام سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور اس کی زبان حقِ تعالیٰ سے ناطق ہوجاتی ہے۔
9۔ فرقہ خفیفی : یہ فرقہ حضرت ابو عبداللہ بن خفیف کی جانب منسوب ہے، اس کا مذہب تصوف ”غیبت و حضور“ ہے، غیبت دے مراد دل کا اپنے وجود سے غائب رہنا اور حضور سے مراد اس کا خدا کے ساتھ رہنا ہے، اپنے سے غیبت حق سے حضور ہے یعنی جو شخص اپنے سے غائب ہے، وہ خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہے، ایک سالک کے اپنے سے غائب ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی ہستی کے وجود کی آفتوں سے دور ہو، اس کی صفاتِ بشری ختم ہوگئی ہوں اور اس کے تمام ارادے پاک ہوں، اس سلسلہ میں صوفیۂ کرام نے یہ بحث کی ہے کہ غیبت حضور پر مقدم ہے یا حضور غیبت پر ا یک گروہ کہتا ہے کہ غیبت سے حضوری حاصل ہوتی ہے، دوسرا کہتا ہے کہ حضوری سے غیبت حاصل ہوتی ہے، ہجویری کا خیال ہے کہ دونوں برابر ہیں کیونکہ غیبت سے مراد حضور ہے جو اپنے سے غائب نہیں ہے وہ حق سے حاضر نہیں ہے اور جو حاضر ہے وہ غائب ہے یہ نکتہ حضرت جنید کے حال سے واضح ہو جاتا ہے اور انہوں نے فرمایا کہ مجھ پر کچھ زمانہ ایسا گذرا ہے کہ آسمان اور زمین مریے حال پر روتے تھے پھر خدا نے ایسا کر دیا کہ میں ان کی غیبت پر روتا تھا اور اب یہ زمانہ ہے کہ مجھ کو نہ آسمان کی خبر ہے اور نہ زمیں کی اور نہ خود اپنی۔
10۔ فرقہ سیاریہ : یہ فرقہ ابو عباس سیاری کی جانب منسوب ہے جو مرد کے امام تھے، ان کی بحث جمع و تفرقہ پر ہے، ہجویری نے اس پر یہ روشنی ڈالی ہے کہ اربابِ علم کے نزدیک جمع توحید کا علم او رتفرقہ احکام کا علم ہے مگر اصحابِ تصوف کے نزدیک تفرقہ سے مکاسب اور جمع سے مواہب مراد ہیں جب سالک خدا کے راستہ میں مجاہدہ کرتا ہے تو وہ تفرقہ میں ہے اور جب خدا کی عنایت اور مہربانی سے سرفراز ہوتا ہے تو یہ جمع ہے جمع میں بندہ جو کچھ سنتا ہے، وہ خدا سے وہ۔۔۔۔ اگر کچھ دیکھتا ہے تو خدا کو، کچھ لیتا ہے تو خدا سے اورکچھ کہتا ہے تو خدا سے پس بندہ کی عزت اس میں ہے کہ وہ اپنے فعل کے وجود اور مجاہدہ کو خدا کی نوازشوں میں مستغرق پائے اور مجاہدہ کو ہدایت کے پہلو میں منفی کردے کیونکہ جب ہدایت غالب ہوتی ہے تو کسب اور مجاہدہ بے کار ہیں۔
چنانچہ فرقہ سیاریہ کا مسلک ہے کہ تفرقہ اور جمع اجتماع ضدین ہیں، جمع کا اظہار تفرقہ کی نفی پر ہے لیکن ہجویری نے اس کی ترید کی ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ جس طرح آفتاب سے نور، جوہر سے عرض اور موصوف سے صفت جدا نہیں سکتی ہے، اسی طرح شریعت حقیقت سے اور مجاہدہ ہدیات سے علیحدہ نہیں ہوسکتا ہے، ممکن ہے کہ مجاہدہ کبھی مقدم ہو اور کبھی مؤخر مقدم کی حالت میں مشقت زیادہ ہوتی ہے، اس وجہ سے کہ وہ غیبت کی حالت میں ہوتا ہے اور جب مجاہدہ مؤخر ہوتاہے تو رنج و کلفت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ حالتِ حضوری ہوتا ہے، ہجویری نے دونوں کو لازم ملزوم اس لئے قرار دیا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ خدا کا قرب ہدایت سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ کوشش سے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.