باب التقریظ والانتقاد مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی پر ایک اہم کتاب
باب التقریظ والانتقاد مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی پر ایک اہم کتاب
سید صباح الدین عبدالرحمٰن
MORE BYسید صباح الدین عبدالرحمٰن
تقریباً بیالیس سال پہلے کی بات ہے کہ اس راقم نے اپنی کتاب بزمِ صوفیہ کے سلسلہ میں مکتوبات امام ربانی کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی، اس کے کچھ حصے سمجھ میں نہیں آئے تو استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے سمجھنے کی کوشش کی، انہوں نے کچھ دیر تک سمجھایا پھر یہ کہہ کر کتاب رکھ دی کہ مولانا عبدالباری ندی (مرحوم) تشریف لانے والے ہیں وہ فلسفی بھی ہیں اور صوفی بھی اس لئے وہ اچھی طرح سمجھا دیں گے، اس وقت تک حضرت استاذی المحترم تھانہ بھون جاکر بیعت نہیں ہوئے تھے، مولانا عبدالباری ندوی (مرحوم) تشریف لائے تو ان کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے مکتوباتِ ربانی کو سمجھانے کی گذارش کی، فرمایا میں کس چکر میں پڑ گیا ہوں ان کو بھی یہ مکتوبات خود سمجھ میں نہیں آئے تو مولانا اشرف علی تھانوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے سمجھنے کی کوشش کی، وہ سمجھانے لگے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا ان سے عرض کیا کہ وہ ان مطالب کو تحریر فرما دیں تاکہ ان کو وہ بار بار پڑھ کر سمجھ سکیں۔
خوشی کی بات ہے کہ ان مکتوبات کے عوامض و حقائق کو مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بڑی خوبی کے ساتھ اپنی کتاب تاریخِ دعوت و عزیمت جلد چہارم میں سمجھانے کی کوشش کی ہے جو مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی قدس سرہ کے حالات و تعلیمات پر مشتمل ہے، اس کے مندرجہ ذیل ابواب سے پوری کتاب کی نوعیت کا اندازہ ہوگا۔
باب اول۔ عالم اسلام دسویں صدی میں۔
باب دوم۔ اکبری عہدِ حکومت اور اس کے دو متضاد دور۔
باب سوم۔ حضرت مجدد الف ثانی، حالات زندگی از ولادت تا خلافت۔
باب چہارم۔ اہم واقعات و حالات، ارشاد و تربیت کی سرگرمی، وفات۔
باب پنجم۔ حضرت مجددرحمۃ اللہ کے دائرۂ تجدید کا مرکزی نقطۂ نبوت محمدی پر ایمان و اعتماد کی تجدید۔
باب ششم۔ وحدۃ الوجود یا وحدۃ الشہود، باب، ہفتم اکبر سے جہانگیر تک، سلطنت کو راہِ راست پر لانے کے لئے آپ کی خاموشی جدوجہد۔
باب ہشتم۔ حضرت مجدد کے دو خلفائے کبار اور ان کے منتسبین کے ذریعہ آپ کے تجدیدی کام کی توسیع و تکمیل۔
ان ابواب سے ظاہر ہوگا کہ حضرت مجدد الف ثانی کے عہد اور ان کے حالات و تعلیمات پر اس کتاب میں وہ سب کچھ ملے گا جو اب تک معلوم تھا اور وہ بھی جو اب تک معلوم نہ تھا، حضرت مجدد پر اردو اور انگریزی میں اس ملک اور بیرونِ ملک بہت کچھ ۔۔۔۔ لکھا جاچکا ہے لیکن مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ادب بھی ہے، انشا پردازی بھی ہے تحقیق بھی ہے، حقیقت پسندی بھی ہے اور مصنف کے دل کی سرشارانہ کیفیت بھی ہے اور ناظرین کے سکنیت قلب کا کافی سامان بھی ہے، اس کو پڑھتے وقت کبھی ادب و انشا کی لذت ملتی ہے، کبھی گہری تحقیقات کی داد دینی پڑتی ہے، کبھی تاریخ کی گتھیاں سلجھتی دکھائی دیتی ہیں، کبھی راہِ سلوک کی منزلیں طے ہوتی نظر آتی ہیں۔
اس کتاب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی سے پہلے دسویں صدی ہجری میں عالم اسلام میں جو سیاسی علمی، مذہبی اور روحانی تحریکیں چل رہی تھیں، ان کا بھی اس کتاب میں جائزہ لیا گیا ہے پھر اکبر کے عہدِ حکومت میں جو مذہبی اور روحانی فتنے اٹھے، ان پر بھی ناقدانہ تبصرہ ہے، ان کے مطالعہ کے بعد حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے تجدیدی کارناموں کو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی، ان ابواب کو پڑھتے وقت ٹھہر کر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی مختلف تحریکیں ان کو کس سمت لے جارہی تھیں، ان تحریکوں نے ان کے معاشرے یا ذہن کو سنوارا یا ان کو بگاڑ کر ان کو انتشار کی طرف لے گئیں، مثلا اس کے پہلے باب میں شطاریہ سلسلسہ کا ذکر آگیا ہے جس کے مشہور بزرگ شیخ محمد غوث گوالیاری کے حالات میں ہے کہ ان کی جاگیر کی آمدنی نو لاکھ سکہ نقرئی تھی، ان کے فیل خانہ میں چالیس ہاتھی تھے، خدم وحشم کا بھی ایک بڑا لشکر تھا، وہ بازار میں نکلتے تو ٹھٹھ لگے جاتے، اس کے باوجود ملک میں ان کے فقرکی دھوم مچی ہوئی تھی، (صفحہ 36-35) ان کے ذکر میں یہ بھی ہے کہ اس سلسلہ نے پہلی مرتبہ جوگ کو تصوف کے ساتھ ملایا اور اس کے بعض طریقے اور اذکار اور بعض آسن اور حبس دم کا طریقہ اختیار کیا (34) آگے چل کر یہ بھی ہے کہ شیخ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ کی مقبول کتاب جواہر خمسہ کی بنیاد زیادہ تر بزرگوں کے اقوال اور اپنے تجربات پر ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہونے یا معتبر کتب شمائل و سیر سے اخذ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ (صفحہ 244)
ان کو پڑھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تصوف میں جوگ آسن اور حبس دم کے طریقے ملائے گئے تو کیا اس کو اسلامی تصوف کہنا صحیح ہوگا پھر شطاریہ سلسلہ آگے چل کر کیوں اتنا مقبول نہیں رہا، جتنا کہ دسویں صدی میں تھا پھر شیخ محمد شطاری کی تصنیف کلید مخازن میں جو وحدت الوجود پیش کیا گیا ہے، وہ کیا وہی وحدت الوجود ہے جس کو شیخ راجح بن داؤد گجراتی، شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور حضرت خواجہ باقی باللہ نے پیش کیا ہے و مولانا ابوالحسن علی ندوی نے یہ بحث چھیڑ کر اس کی دعوت دی ہے کہ اس سلسلہ کا مطالعہ اس نوعیت کے ساتھ بھی کیا جائے۔
دسویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی ذہبی بے چینی اور اعتقادی انتشار خیال سے بھی بحث کی گئی ہے، بلوچستان کے فرقہ ذکریٰ کو خلافِ اسلام بتاگیا ہے (صفحہ 48) گو اس کے محرکین مسلمان ہی تھے، اسی طرح فرقہ روشنیہ کو انتشار پسندوں میں شمار کیا گیا ہے جو پیشاور کے قبیلوں اور مہمندزئیوں، سندھیوں اور بلوچیوں میں ضرور پھیلا مگر نہ صرف اکبر بلکہ علما کی شدید مخالفت کی وجہ سے تتر بتر ہوگئے اور بلآخر ناپید ہوگئے۔ (صفہ 5)
محمد جونپوری کی تحریک کا ذکر انتشار پسندی ہی کے سلسلہ میں کیا گیا ہے مگر اس کو زلزلہ انگیز بھی کہا گیا ہے (صفحہ۔52) ان کی تحریکِ مہدویت کے نام سے مشہور ہوئی گو خود محمد جونپوری نے اپنے کو مہدیِ وقت نہیں کیا، ان کے غالی، متبعین نے ان کو مہدی ہی تسلیم کرلیا بلکہ ان کو انبیا کا ہمسر اور بعض نے افضل و برتر بنا دیا، (صفحہ 55) اس کے پیرووں نے افغانستان اور ہندوستان میں کئی سلطنتیں قائم کرلیں مگر راسخ علما اس تحریک کے شدید مخالف ہوکر اس کو گمراہی اور ضلالت ہی قرار دیتے رہے، اس لئے اس کے اثرات رفتہ رفتہ کم ہوتے گئے۔
ان فرقوں کے وجود میں آجانے سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ انتشار پسند فرقے کیوں پیدا ہوتے گئے؟ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اس کے کچھ اسباب بتائے ہیں، ایک سبب تو یہ بتایا ہے کہ معاشرہ کے قول وعمل، عقیدہ اور زندگی میں جب مطابقت نہیں ہوتی تو بے اطمینانی پیدا ہوجاتی ہے پھر تشکک پیدا ہونے لگتا ہے جس کے بعد انتہا پسندی میں دینی تعلیمات بالائے طاق رکھ دی جاتی ہیں اور کوئی تحریک چلا کر اس میں پناہ لی جاتی ہے پھر جب سلاطینِ وقت احکامِ شریعت سے چشم پوشی کرنے لگتے ہیں تو پھر کچھ لوگ انقلابی تحریک کے نام پر بغاوت پر امآدہ ہوجاتے ہیں، دوسرا سبب یہ بتا ہے کہ جب نظامِ تعلیم بے روح ہوجاتاہے تو لوگ ایسی تحریکوں میں اپنے ذہن کی تسکین پانے لگتے ہیں، مولانا نے ان اسباب کی نشاندہی مختصر طریقے پر کرکے اس کی دعوت دی ہے کہ مسلمانوں کے دور میں جو مختلف مذہبی تحریکیں چلیں ان کے اسباب و علل کا مطالعہ تفصیل سے کیا جائے تاکہ آئندہ مسلمانوں کی اس قسم کی تحریکیں اٹھیں تو ماضی کے تجربات کی بنیاد پر ان کے روشن اور تاریک پہلوؤں پر ان کی نظر رہے۔
اسی باب میں ایران کی نقطوی تحریک کا بھی ذکر ہے جو بالکل ملحدانہ تھی، اس کی مختلف شکلیں مژدک، مانی اور حن بن صباح کی تحریکوں میں ابھریں، یہ سب ایران سے اٹھیں، مولانا نے یہ سوچنے کی دعوت دی ہے کہ آخر ایران کی سرزمین ملحدانہ تحریکوں کے لئے کیوں سازگار ہوتی ہے؟ ان کے ماننے والوں کی تعداد میں کیوں اضافہ ہوتا ہے؟ ان کے پیرو ان کی طرف نیک نیتی یا دینی سادہ لوحی میں مائل ہوجاتے ہیں؟ یا ان تحریکوں کے چلانے والے ایسے ریاکار اور فریبی ہوتے ہیں کہ ان کی طرف مائل ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے، جب ہم اسی کتاب میں یہ پڑھتے ہیں کہ شاہ عباس صفوی نے ہزاروں نقطویوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ مسلمانوں میں جب ملحدانہ تحریکیں چلائی جائیں گی تو اس کا حشر یہی ہوگا۔
ابوالفضل کو تاریخِ عالم آرائے عباسی کے حوالے سے نقطوی قراردیا گیا ہے (صفحہ 69) مگر میرا یہ خیال ہے کہ وہ کچھ بھی نہ تھا اور تھا تو اکبر کا بہت بڑا مزاجدار، خود مولانا نے بھی لکھا ہے کہ اس نے اپنے علم و ذہانت سے کام لے کر بادشاہ کی خواہشات کو علمی جامہ پہناننے اور اس کو علمی اسلحہ فراہم کرنے اور فرمانروائے سلطنت کی سطرح سے امام زمان اور ہادیِ دوران کے منصبِ رفیع تک پہنچانے میں جو کردار ادا کیا تھا، اس پر اس کا ضمیر مطمئن نہیں تھا اور وہ خود اپنے ایک خط میں جو خانحانان کو لکھا ہے اس کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ مشاغل لایعنی کے جہنم میں پھنس کر بندۂ فطرت ہوگیا اور اس کے قریب پہنچ گیا کہ خدا کی بندگی کے بجائے بندۂ درہم و دینار کہاجانے لگا۔ (صفحہ 101)
اکبر نے مذہبی مزاج کی تبدیلی کی ذمہ داری مولانا نے درباری علما پر ڈال دی ہے، انہوں نے ایک عربی شعر لکھ کر یہ واضح کیا ہے کہ اگر سلاطین مذہبی ذہن کو اپنے مفاد کی خاطر بگاڑتے ہیں تو علمائے سؤ اور دنیادار زاہدوں نے بھی اس کو بہت کچھ بگاڑا ہے، درباری علما پر اکبر کے مذہبی انحراف کی ذمہ داری ڈال کر مولانا نے ان غیر علام مؤرخوں کی تائید بڑی حد تک کر دی ہے جو اس قسم کی باتیں برابر لکھتے آئے ہیں، اس باب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے کہ جس میں اکبر کے دینِ الٰہی کی پوری تصویر ابوالفضل کی تحریوں سے دکھائی گئی ہے، اب تک دینِ الٰہی ملا عبدالقادر بدایونی کی تحریروں کے ذریعہ سے سمجھا جاتا رہا مگر ان کی تحریروں کو یہ لکھ کر مجروح کیا جاتا ہے کہ یہ ایک معصب اور انتہا پسند کی ہیں جو زیادہ قابلِ اعتماد نہیں، حالانکہ انہوں نے خدا کی قسم کھا کر لکھا ہے کہ انہوں نے اکبر کے مذہبی خیالات کے بارہ میں جو کچھ قلمبند کیا ہے، اس میں ملامت، نفرت، حسد اور تعصب کا جذبہ نہیں بلکہ صرف شرحِ مبین اور دین متین کی حمایت ہے، (منتخب التواریخ جلد دوم صفحہ 279) مگر دینِ اکبری کے گہرے مطالعہ کے بعد یہ اندازۂ اسلوب بیان کا فرق ہے۔
آئینِ اکبری میں اکبر کے خود ساختہ مذہب کی تفصیلات ایسی مشکل اور مغلق عبارت آرائیوں میں قلمبند کی گئی ہیں کہ ان کا سمجھنا آسان نہیں، اس لئے وہ نظرانداز کردی جاتی تھیں، اب مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اکبر کی، ایسی تمام تحریروں کے ٹکڑوں کو ایک ساتھ جمع کرکے اردو میں ان کے ترجمے بھی دے دیئے ہیں، ان کے مطالعہ کے بعد موجودہ دور کی سیکولرزم میں اس مذہب کی خوبیاں چاہے جتنی بیان کی جائیں لیکن یہ دینِ الٰہی داہی تباہی دین کے سوا کچھ نہ تھا، مولانا کی نظر اکبرنامہ پر بھی پڑی ہوگی، شاید طوالت سے بچنے کی خاطر اس میں اکبر کے عبادت خانہ کے مباحث کا جو ذکر ہے اس کی تفصیل لکھنا پسند نہ کیا ہو، اسی اکبر نامہ میں ہے کہ اکبر نے 25 دین سال جلوس میں خداشناسی کی خاطر کچھ ضابطے مقرر کئے جن میں کچھ یہ ہیں سال کے بارہ حصے ہیں، اس لئے سچقان آئیل میں چوہے نہ مارے جائیں ایلان آئیل میں سانپ نہ مارے جائیں، تحاقو آئیل میں مرغ نہ ذبح کئے جائیں اور نہ وہ لڑائے جائیں، آیت آئیل میں کتے جیسے وفادار جانور سے دوستی کا ثبوت دیا جائے، تینکو آئیل میں سو روں کو تکلیف نہ پہنچائی جائے، جمادی الآخر میں چمڑا نہ استعمال کیا جائے، محرم میں جاندار کو نہ ماریں۔ (الی آخرہ) (اکبر نامہ جلد سوم صفحہ 334/333)
ان ضابطوں کے بعد اکبر کے مذہب اور اس کی خداشناسی کے مضحک ہونے میں کیا شبہہ رہ جاتا ہے، مولانا کی اس رائے سے اتفاق کرنا صحیح ہوگا کہ مذہب کی حیثیت ایک زنجیرِ آتشیں کی تھی جو اس وقت اسلام کے گلے میں ڈال دی گئی تھی ( صفحہ 108) ابوالفضل نے اکبر کے کارناموں کو بیان کرکے اس کو اکبر اعظم ضرور بنا دیا لیکن اکبر کے دینِ الٰہی کی جب پوری تفصیل ابوالفضل ہی کی زبانی سمجھی جائے گی تو اکبر اعظم کے دینِ الٰہی کو ایک فتنۂ اعظم سمجھنے پر ناظرین مجبور ہوں گے، اسی فتنۂ اعظم کے مضرت رساں اثرات کے انسداد کے لئے حضرت شیخ احمد سرہندی اٹھے جو بعد میں مجدد الف ثانی کے نام سے مشہور ہوئے ان کی زندگی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک جہانگیر کے حکم سے ان کی اسیری بھی ہے، راقم ایک عرصۂ دراز سے اس واقعہ پر جتنا غور کرتا ہے، یہ ایک عقدہ لاینحل نظر آتا ہے، جہانگیر اپنے چودہویں سال جلوس مین ان کے بارہ میں لکھتا ہے۔
ان ہی دنوں مجھ سے عرض کیا گیا کہ شیخ احمد ثانی ایک جعل ساز (شپادے) نے سرہند میں مکروفریب کا جال بچھا کر بہت سے ظاہر پرستوں کو پھانس رکھا ہے، اس نے ہر شہر میں ہر علاقہ میں ایک خلیفہ مقرر رکھا ہے جو دوکانداری، معرفت فروشی اور مردم فریبی میں بہت پختہ ہیں، اس نے اپنے مریدوں اور معتقدوں کو بہت سے خرفات لکھے ہیں، ان کو ایک کتاب میں جمع کردیا ہے اور نام مکتوبات رکھا ہے، اس میں بہت سی مہمل اور لاطائل باتیں ہیں جو کفر کی حد تک پہنچتی ہیں
اسی سلسلہ میں وہ لکھتا ہے۔
ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ میں سلوک کی راہ میں ذی النورین کے مقام سے گذرا جو نہایت اونچا اور پاکیزہ تھا، اس سے گذرکر مقامِ فارق میں پیوست ہوگیا اور مقامِ فاروقی سے گذر کر مقامِ صدیق کو عبور کیا، ہر مقام کی تعریف اس کے مطابق کرکے لکھا ہے۔۔۔۔ اس طرح کی اور گستاخانہ باتیں لکھی ہیں۔۔۔۔۔
تزک جہانگیری کی یہ عبارتیں مولانا نے قصداً اپنی کتاب میں نقل کرنا پسند نہیں کیا ہے، شاید ان کی ثقابت اور متانت نے اس کو نقل کرنے سے ابا کیا ہو، صرف اتنا لکھنے پر اکتفا کیا ہے کہ مجدد صاحب کا ذکر جہانگیری نے بہت نامناسب انداز اور کسی قدر تحقیر آمیز طریقہ پر کیا ہے۔ (صفحہ 158)
تزک جہانگیری کی مذکورۂ بالا عبارتوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کا ناقدانہ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے اور راقم کو جہانگیر کے قلم سے ایسی عبارت کا لکھنا قابلِ یقین نہیں معلوم ہوتا، کیا وہ چودہ سال تک حضرت مجدد الف ثانی کی دعوت و عزیمت کی سرگرمیوں سے بے خبر رہا؟ شہزادہ خرم کو حضرت شیخ احمد سرہندی سے عقیدت تھی، خود مولانا بھی تحریر فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہجہاں کے دل میں ہمیشہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے لئے نرم گوشہ اور احترام و اخلاص رہا (صفحہ 319 کیا جہانگیر کو اسکی خبر نہیں رہی؟ پھر حضرت مجدد الف ثانی کے بہت ہی محبوب مرید شیخ فرید مرتضیٰ خاں بخاری تھے، وہ جہانگیر کے بھی بہت ہی مقرب درباری امیر تھے، اس کی تخت نشینی میں ان کا بڑا کارنامہ ہے، جب وہ شاہی تخت پر بیٹھا تو اس نے اس کو صاحب السیف والقلم کا خطاب اور پنج ہزاری منصب بھی دیا، (مآثر الامرا جلد دوم صفحہ 640-633) حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ فرید کو بادشاہ کا قرب حاصل تھا، ان کو خلوت و جلوت میں شریعت محمدی کی ترویج کا موقع حاصل تھا، حضرت مجدد کو ان سے امید تھی کہ وہ ترویجِ شرعیت کی سعادت حاصل کرکے سب سعادت مندوں سے بازی لے جائیں گے، (مکتوب ربانی جلد اول نمبر 51 صفحہ 68) اور مرکزی کردار ادا کیا، (صفحہ 316) یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ ہی کے اثر سے شیخ فرید نے جہانگیر پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسلامی شعار کے ساتھ حکومت کرے، جہانگیر نے اس کے لئے وعدہ بھی کرلیا اور شیخ فرید کو چار علما کو مدعو کرکے اس کے دربار میں وابستہ کرنے کی ہدایت بھی دی تاکہ وہ مسائل شرعیہ بیان کرتے رہیں، شیخ فرید نے خوشی کے عالم میں اس کی اطلاع حضرت مجدد کی دی جس کے جواب میں انہوں نے شیخ فرید کو تحریر فرمایا کہ اس مقصد کے لئے ایک عالم ہی کا انتخاب کیا جائے تو بہتر ہوگا تاکہ چار علما کے اختلاف سے مقصد فوت نہ ہوجائے، اس کی تفصیل خود مولانا ابوالحسن علی ندوی نے زیر نظر کتاب صفحہ 314-313 پر لکھی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مجدد دربار پر اثرانداز ہورہے تھے۔
وہ خود جہانگیر کے دربار کے ایک بااثر امیر صدر جہاں (م1027 ہجری) کو لکھتے ہیں کہ احکامِ شرعیہ کے جاری ہونے اور مذہب مصطفوی علی صاحبہاالصلوٰۃ والسلام کے دشمنوں کی خواری کی باتیں سن کر ماتم زدہ مسلمانوں کے دل کو خوشی ہوئی، اس باب میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کا احسان ہے، (مکتوبات امام ربانی نمبر 194) جہانگیر کے دربار کا رکن رکین خاں اعظم (م 1033 ہجری) تھا، اس کو بھی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی محبت و عقیدت تھی اور خود حضرت مجدد اس کے معترف تھے، اس لئے اس کو اپنے ایک مکتوب میں تحریک فرماتے ہیں کہ ہاری ہوئی بازی میں اس کے سوا کوئی اور مرد میدان نہیں (مکتوبات ربانی جلد اول نمبر 65) اسی طرح عبدالرحیم خاں خانان (م 1036 ہجری) اور اس کا لڑکا داراب خان (م 1034 ہجری) اور دوسرے امرا بھی ان کے معتقد تھے، کیا جہانگیر اپنے ان امرا کے روحانی پیشوا سے بے خبر رہا؟جہانگیر کی تخت نشینی کے بعد شیخ فرید بخاری (م سن 1025 ہجری ) گیارہ سال تک زندہ رہے، کیا انہوں نے حضرت مجدد کی عظمت اور بزرگی سے جہانگیر کو نا واقف رکھا ؟ یہ کیسے یقین کیا جاسکتا ہے۔
پھر خود مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ حضرت مجدد کے جس مکتوب پر جہاگیر نے ان کو مورد الزام قرار دے کر اسیر کیا، وہ 1012 ہجری میں لکھا گیا اور حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی گرفتاری 1028 ہجری میں عمل میں آئی (صفحہ 161) جہانگیر گرفتاری کا ذکر اپنے چودہویں سال جلوس۔۔ میں کرتا ہے، اس کی تخت نشینی 1014 عیسوی میں ہوئی جس سے ظاہر ہے کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے متنازع فیہ مکتوب اس کی تخت نشینی سے دو سال پہلے لکھا وہ اپنی حکومت کے چودہ سال تک اس مکتوب سے گویا بے خبر رہا، یہ تسلیم کرنے میں تامل ہے پھر یکایک چودہ سال کے بعد اکی رگِ حمیت کیوں پھڑک اٹھی، اس کا مؤرخانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، اگر شیخ فرید بخاری زندہ ہوتے تو شاید حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی اسیری عمل میں نہ آتی، وہ اس اسیری سے تین سال پہلے وفات پاچکے تھے مگر خان اعظم صدر جہان، عبدالرحیم خان خانان اور داراب خان وغیر تو اس وقت زندہ تھے، وہ آخر خاموش کیوں رہے؟ ان کی رگِ حمیت کیوں نہیں پھڑکی؟ وہ اپنے شاہی آقا کے سامنے اپنے روحانی آقا کے اخلاص، للّٰہیت، بے لوثی، بے غرضی اور علوئے مقام کو تو ظاہر کرسکتے تھے یا ان کا ضمیر ان کے ذاتی مفاد اور وجاہت پرستی کی خاطر اتنا مردہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے اپنے مذہبی پیشوا کے لئے کچھ کرنا پسند نہیں کیا یا وہ دربار کے شیعی امرا کے اثرات سے اتنے دب کر رہ گئے تھے کہ شیعی امرا نے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ خلاف جہانگیر کو استعمال کیا اور سنی امرا کے لئے دم بخود رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا، حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف شیعی امرا کا ہونا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ دربار میں جو شیعی اثرات بڑھ رہے تھے۔
ان کو بھی زائل کرنا چاہتے تھے، حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے ردِّ شیعیت میں جو کچھ لکھا یا کیا، اس کے متعلق ۔۔۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اپنی اس کتاب میں کھچ لکھنا پسند نہیں فرمایا، شاید لکھنؤ کی سنی شیعہ کے جھگڑوں کی فضا میں احتراز کرنا ہی مناسب سمجھا ہو مگر حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی اسیری کے سلسلہ میں شیعیت ضرور پس پردہ رہی، شاہی حرم میں نورجہاں کے داخل ہونے کے بعد دربار پر اس کے خاندان کے افراد چھا گئے، شیعی اثرات کا بڑھانا لازمی تھا، نوراللہ شوستری کا قتل شاہی حرم میں نورجہاں کے آنےسے پہلے ہوا تھا جس سے شیعہ بہت بد دل اور آزردہ تھے، عام خیال تو یہی ہے کہ جہانگیر نے ان کو قتل کرایا، گو اس کی تزک میں اس کا ذکر مطلق نہیں، اقبال نامۂ جہانگیری اور مآثر جہانگیری سے بھی اس کی شہادت نہیں ملتی کہ جہانگیر نے ان کو قتل کرایا، یہ شیعوں کی روایت ہے، اگر جہانگیر نے واقعی ان کو قتل کرادیا تو ممکن ہے کہ نور جہاں اور آپ کے خاندان کے دباؤ سے جہانگیر نے اپنے شیعی امرا کی خاطر حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کو گوالیار کے قلعہ میں نظر بند کردیا، گو بعد میں ان کے علوئے مقام کا معترف ہوگیا۔
اس کے علاوہ اس کی طرف بھی ذہن جاتا ہے کہ جہانگیر نے جب خود تزک قلمبند کرنا چھوڑ دیا تو ستر ہویں جلوس سے انیسویں جلوس تک کے کچھ حصے اس کے ندیمِ خاص محمد شریف نے لکھا جس کو اس نے معتمدخان کا خطاب دیا تھا، وہ ایرانی یعنی شیعہ تھا، (مآثر الامرا جلد سوم صفحہ 431) جہانگیر کے ایک اور درباری مرزا محمد ہادی نے تزک کا تکملہ لکھا، یہ بھی شیعہ ہی تھا، اس کے شروع میں دیباچہ بھی اس کا تحریر کیا ہوا ہے، وہ دیباچہ میں لکھتا ہے کہ اس نے تزکِ جہانگیری کو اپنے قلم سے نقل کیا اور اس کا تکملہ بھی کیا، یہ قرینِ قیاس ہے کہ اس نے یا معتمد خاں نے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق ایک ناروا تحریر لکھ کر ان کی شیعیت دشمنی کا انتقام لیا ہو، یہ بحث ایسی ہے جس کا ناقدانہ تجزیہ اچھی طرح کرنا ضروری ہے، جہانگیر، اکبر اور شاہ جہاں سے زیادہ علم شناس تھا، اس کی نظر ادب، شاعری، لغت اور مذہبی علوم پر بھی رہی، وہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا قدردان تھا، ان کی کتاب اخبارالاخیار کی خوبیوں کا بھی قائل رہا، اس نے اگر مکتوباتِ ربانی کے متعلق واقعی وہ لکھا ہے جو پچھلے صفحہ میں درج کیا گیا تو یہ عقدہ لا ینحل معلوم ہوتا ہے، خود مولانا ابوالحسن علی ندوی تحریر فرماتے ہیں یقینا وہ یعنی جہانگیر ایک سلیم الطبع، ذہین اور ہوشمند فرما روائے سلنطت کی حیثیت سے جس کو امرا وعلماء کے ساتھ، دنیاداروں اور دینداروں کی ایک بڑی تعداد کے حالات کا اپنے والد اکبر کے دور سے اس وقت تک مطالعہ کرنے کا موقع ملا تھا اور اس سے اس میں مردم شناسی کی وہ صلاحیت پیدا ہوگئی تھی جو ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوسکتی جن کو کھرے او کھوٹے پرکھنے کا اتنا طویل موقع نہیں ملتا (صفحہ 318) پھر یہ کیسے یقین کیا جائے کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کا رتبہ ناشناس ہوکر اس نے ان کے متعلق نا روا اور تحقیر آمیز تحریر لکھ دی، تزک میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ پر جو یہ الزام ہے کہ انہوں نے خلفا کے مقام سے گذر کر عالی تر مقام پر پہنچنے کا دعوی کیا ہے، اس پر کافی بحث ہوچکی ہے مگر مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنے امعانِ نظر سے اس الزام کو کس طرح دیکھتے ہیں، اس کو جاننے کی ایک فطری خواہش پیدا ہوئی، داراشکوہ جہانگیر کا پوتا تھا، اس نے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں لکھا ہے۔
از متاخرین مشائخ و صاحب ریاضت و مجاہدات و خوارق و تصانیف اند، در اواخر حال بعضے بر شیخ تہمت کردند کہ شیخ می گوید مرتبۂ من زیادہ از خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اما این محض بہتان وافترای مخالفان است بر شیخ، چرا کہ ایں فقیر خود شنیدہ از سیادت و ثقافت پناہ، فضائل و کمالات دستگاۂ حقائق و معارف آگاۂ افضل فضلائے عصر، علامی، فہامی، استاذی حضرت میرک شیخ بن شیخ فصیح الدین کہ می فرمودند وقفے ماز عبور بسر ہند واقع شد وکیف ما اتفق ملاقات شیخ احمد ردی داد در اثنائے ملاقات بخاطر گذشت کہ اگر شیخ را کرامتی است باید کہ مردم انچہ از ایشان بیان می کنند خاطر نشان من سازند۔۔۔۔ چوں ساعتی پیش شیخ نشستم جز ویکہ از زیر مسند خود بین اددند کہ مطالعہ نمایند، چون انرا تمام بدیدمٔ بمن گفتند ازیں چیزی ظاہری شود، گفتم ازیں خود ہیچ ظاہر نمی شود وانچہ در این جات درست است، گفتند پس بدایند کہ انچہ از ما واقع شدہ عین است وباقی افتراست (سفینۃ الاؤلیا، صفحہ 340)
یہ تحریر بہت اہم ہے، اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف افترا پردازی کی ایک مہم چلائی گئی جس میں یقینا غیر سنی ہی شریک ہوں گے، ان کی اسیری کا روشن پہلو یہ ہے کہ جہانگیر، نور جہاں اور اس کے خاندان کے متعلقین کے ساتھ رہنے کے باوجود حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی رہائی کے بعد ان کی تعلیمات سے متاثر ہوا اور اس کو احساس ہوا جیسا کہ مولانا نے بھی تحریر فرمایا ہے کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں سے مختلف ہیں جو ابھی تک دربار کی زینت یا بوریائے فقر کے مسند نشین تھے۔ (صفحہ 318)
زیر نظر کتاب کے باب پنجم میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے دائرۂ تجدید کا مرکزی نقطہ کے عنوان سے جو کچھ لکھا گیا ہے اور حضرت مجدد نے نبوت محمد رحمۃ اللہ علیہ کی ابدیت کو جس طرح ثابت کیا ہے، اس کو اس کتاب میں بہت ہی دل نواز اندا زمیں پیش کیاگیا ہے پھر بہت ہی مفید حصہ وہ ہے، جہاں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کی روشنی میں یہ دکھایا گیا ہے کہ عقل کہاں عاجز ہوکر رہ جاتی ہے، کچھ دن ہوئے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے ایک سیمنار میں حیدر آباد کے مقالہ نگار نے یہ کہہ کر اپنے سامعین کو چونکا دیا کہ اگر وحی بھی عقل کے مطابق نہ ہو تو یہ بھی قابلِ قبول نہیں، ایسے ذہن رکھنے والے حضرات زیر نظر کتاب کے اس حصہ کا مطالعہ کریں گے تو ان کا تاریک ذہن یقینا روشن ہوجائے گا، ان پر اچھی طرح واضح ہوجائے گا کہ انبیا کی اطلاعات کو اپنی عقل کا پابند ناظریق نبوت کا انکار ہے جس کے بعد الحاد کی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب وسنت کی پابندی اسوۂ رسول کی پیروی اور شمائل و اخلاق نبوی کے متتبع اور اسی کے ساتھ طریقت کو شریعت کی خادم قرار دینے کی جو زلزلہ انگیز تحریک چلا کر اس دور کے ظلمات کے امنڈتے ہوئے دریا کا جس طرح رخ موڑ دیا، اس کی تصویر کشی اس کتاب میں بہت عمدہ طریقے پر کی گئی۔
اس کتاب وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی بڑی فاضلانہ بحث ہے، یہ دونوں مسئلے ایسے ہیں کہ ان کا سمجھنا سب لوگوں کے بس کی بات نہیں مگر ان کو اس کتاب میں ایسا منقح کردیا گیا ہے کہ ان کو سمجھنے میں کوئی وقت نہ ہوگی، موجودہ دور کے کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وحدت الوجود کے حامی رام و رحیم، کفر و ایمان، حق و باطل میں تفریق نہیں کرتے، یہ غلط فہمی اس کتاب کے مطالعہ سے دور ہوجائے گی، عام طور سے یہ سمجھا جاتا رہا کہ حضرت شرف الدیحییٰ منیری وحدت الوجود کے بہت بڑے حامی تھے مگر مولانا ابوالحسن علی ندوی نے شاید پہلی ودفعہ اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ان کے یہاں وحدت الوجود کے متوازی وحدت الشہود کا بھی ذکر ملتا ہے، (صفحہ 273) اس کے ساتھ یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ حافظ ابن تیمیہ بھی وحدت الشہود کے کوچہ سے آشنا رہے (273) مگر وحدت الشہود کو جس مفصل اور واضح طریقہ سے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا، پہلے کسی اور نے نہیں کیا، اب محی الدین ابن العربی کا وحت الوجود اور حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کا وحدت الشہود دو متوازی طرز فکر سمجھاجانے لگا ہے، حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کومحی الدین ابن العربی کے وحدت الوجود کے بنیادی تخیل سے اختلاف نہیں، وہ ابن العربی کو مقبولینِ حق میں شمار کرتے ہیں، لیکن وہ ان کے ان غالی مبتعین پر ضرب کاری لگاتے ہیں جو وحدت الوجود کی مانی تعبیر کرکے اپنے بے باکانہ اقوال سے اباحیت، قوضوت اور اخلاقی انار کی کی ترویج کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔
اس کتاب میں عقیدۂ وحدت الوجود ہندوستان میں کے عنوان سے جو کچھ لکھا گیا ہے، اس کو پڑھ کر ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن صوفیائے کرام نے توحید وجودی کا سبق ہندوستان میں کے عنوان سے جو کچھ لکھا گیا ہے، اس کو پڑھ کر ذہن میں بہت سے سوالات پیداہوتے ہیں جن صوفیائے کرام نے توحید وجودی کا سبق ہندوستان ہی سے لیا، اس کی کیا نوعیت تھی، کیا وہ اسلامی توحید جود سے ہم آہنگ تھا یا دونوں متضاد چیزیں تھیں، یہ تسلیم کہ ہندوستان میں مسلمان آکر آباد ہوئے تو تو مقامی خیالات سے ان کا متاثر ہونا ناگریز تھا، انہوں نے جو تاثرات قبول کئے وہ اسلامی طرز فکر سے قریب تر تھے یا یہ بدعات تھیں، حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ صاحب تو بدعاتِ حسنہ کے بھی قائل نہیں (صفحہ 253) اگر توحید وجودی کا سبق ہندوستان سے واقعی لیا گیا تو کیا اس سے فکری انتشار نہیں پھیلا؟ اس کتاب میں یہ بحث تفصیل کے ساتھ آجاتی تو مفید ہوتی شیخ محمد غوث گوالیاری اور داراشکوہ ضرور ہندوستان کے تخیل وحدت والوجود سے متاثر ہوئے مگر وہ مقبول نہ ہوسکے، ان کے خیالات کتابوں تک محددود رہ گئے جو مؤرخین کے لئے ایک اچھا موضوع ہے مگر راسخ بزرگانِ دین کے لئے نہیں، مولانا ابوالحسن علی ندوی تحریر فرماتے ہیں یہاں آکر اسی فلسفہ کے مزاج نے مقامی مزاج سے ہم آہنگ وہم آغوش ہوکر ایک نیا جوش اور ایک نیا مکتبِ خیال پیدا کرلیا، یہاں کے مشائخ میں ایک بڑی تعداد اس مشرب کی حامی و حامل اور مبلغ و داعی نظر آتی ہے، (صفحہ 271) اسی کے بعد شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ عبدالرزاق جھنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ محمد برہانپوری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ محب اللہ الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے نام لے گئے ہیں۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو نیا مکتبِ خیال پیدا ہو وہ کیا ہندوستان کے فلسفۂ وحدت الوجود سے متاثر ہوا اور کیا اس نئے مکتبِ خیال اور ابن عربی کے وحدت الوجود میں فرق تھا؟ مقامی مزاج سے ہم آہنگ وہم آغوش ہوکر اس نئے مکتبِ خیال سے کفر واسلام، امر و نہی اور ثواب وعذاب کی تفریق باقی رہی کہ نہیں جن بزرگوں کے نام اوپر درج کئے گئے ہیں، وہ تو اس تفریق کے قائل تھے، البتہ شیخ محب اللہ الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ تسویہ متنازع فیہ ہوگیا تھا مگر ان پر شیخ ابن عربی ہی چھائے رہے، انہوں نے فصوص الحکم کی شرحیں فارسی اور عربی دونوں میں لکھیں اور سمعاً و طاعتہً شریعت کو قبول کرنے کی دعوت دی، اس کے بعد یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ یا اور دوسرے صوفیائے کرام نے مقامی مزاج سے ہم آہنگ وہم آغوش ہوکر وحدت الوجود میں کیا نئی چیز قبول کی جس سے ایک نیا مکتبِ خیال پیدا ہوا۔
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے بعد توحید وجودی کے بارے میں مشائخ و علما کا جو مصالحانہ رویہ رہا، اس سلسلہ میں شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ان کے چچا شاہ ابوالرضا رحمۃ اللہ علیہ، شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مرزا مظہر جانجانان رحمۃ اللہ علیہ کی رائیں بھی مختصر طریقہ پر لکھ دی جائیں تو یہ بحث مکمل ہوجاتی، مولانا نے صرف اتنا لکھنے پر اکتفا کیا ہےکہ بعد بلند پایہ علما اور محققین نے یہاں تک لکھ دیا کہ یہ اختلاف (یعنی وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا اختلاف) محض نزاعِ لفظی تھا، بعض حضرات نے یہاں تک لکھا ہے کہ مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے اس بارہ میں تسامح ہوا اور شیخ اکبر کی تمام تصنیفات ان کی نظر سے نہیں گذریں (صفحہ 289) جہاں تک اس عاجز راقم کا مطالعہ ہے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ہی نے یہ تحریر فرمایا کہ شیخ محی الدین ابن عربی کا وحدت الوجود اور حجرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا وحدت الشہود ایک ہی شے کے دو نام ہیں، وجود مشہود محض نزاع لفظی ہے ان میں مطابقت ہے، مخالفت نہیں (مکتوب مذنی شایع کردہ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور) یہ بہت ہی اہم رائے ہے، امید کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی کو بھی اس رائے اتفاق ہوگا اگر وہ اپنی شگفتہ تحریروں کے ذیعہ سے اس کی وضاحت فرما دیتے تو شاید وحدت الوجود۔۔۔ اور وحدت الشہود کا جھگڑا ختم ہوجاتا، اسی طرح جن حضرات کا یہ خیال ہے کہ مجدد صاحب سے شیخ اکبر کے خیالات کے سمجھنے میں تسامح ہوا تو یہ تسامح واقعی ہوا یا نہیں، اگر اس کی بھی توضیح ہوجاتی تو ایک مفید کام ہوتا۔
باب ہفتم کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ اپنی رہائی کے بعد لشکر شاہی کے ساتھ ساڑھے تین سال تک رہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مدت بھی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی نظر بندی کی تھی مگر شاہی لشکر سے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے جو خطوط لکھے ان سے دو جہانگیر کے شاکی نظر نہیں آتے بلکہ اس کی صحبتوں میں جو دینی مذاکرے ہوتے رہے، اس سے وہ مطمئن دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کے ایسے مکتوبات میں انشراحی کیفیت محسوس ہوتی ہے، خود مولانا ابوالحسن علی ندوی کا خیال ہے کہ جہانگیر کی تزک کی تحریروں میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت وجذبات کا اثر صاف جھلکتا ہے (صفحہ 318) اور اس بادشاہ اسلام نے اسلام سے دلچسپی لی (صفحہ 319) وہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ شاہ جہاں کے عہدِ سلطنت پر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے اثرات سایہ افگن ہوئے۔ (صفحہ 319)
انہوں نے مختلف اقتباسات سے یہ بھی دکھایا ہے کہ شاہ جہاں شریعت کا احترام کرنے والا بادشاہ تھا اور فرائض کا شرعی پابند بھی تھا (صفحہ 320) لیکن وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس احترامِ شریعت اور قدرے دینی حمیت کے ساتھ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شاہجاں اپنے متشرع، صاحب علم اور صاحب صلاحیت فرزند اورنگ زیب کے مقابلہ میں اپنے صلح کل اور آزاد مشرب بڑے بیٹے دارا شکوہ کو ترجیح دیتا تھا اور اسی کو تخت و تاج کا وارث اور اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ دکھ اور درد کے ساتھ لکھتے ہیں کہ یہی شخصی و موروثی سلطنتوں اور دین و سیاست کو تفریق کے اصول پر کاربند فرماں روایانِ سلطنت کی وہ خصوصیت ہے، جہاں ان کی ذاتی دینداری امور سلطنت پر اثر انداز اور کسی غلط یا مضر جانشین کے انتخاب میں مانع نہیں بنتی۔ (صفحہ 322-321)
اسی باب میں مولانا دارا شکوہ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ عہد عالمگیری میں جو تاریخیں مرتب کی گئی ہیں، محض ان کے اعتماد پر ہم دارا شکوہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے نہ اس کے قطعی طور پر بے دین اور بد عقیدہ ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں، (صفحہ 322) مگر اسی کے بعد وہ دائرۂ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار کا جب یہ حوالہ دیتے ہیں کہ وہ ہندو فلسفہ اور ضمنیات سے متاثر تھا جس کی وجہ سے وہ متعدد ایسے ملحدانہ خیالات کی طرف مائل ہوگیا جن کے واضح مماثل ہندو فلسفہ میں پائے جاتے ہیں اور جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں (صفحہ 322) تو پھر اسلامی نقطۂ نظر سے دارا شکوہ کے بے دین اور بد عقیدہ ہونے کا تو حکم لگ ہی جاتا ہے، اس کے علاوہ داراشکوہ نے اپنشد کے فارسی ترجمہ میں جو دیباچہ لکھا ہے یا جگ بشست کے فارسی ترجمہ کرانے کی جو وجہ بتائی ہے، اس سے خود وہ قطعی طور پر بے دین اور بدعقیدہ ظاہو ہو جاتا ہے پھر عالمگیری عہد کی تاریخوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
اسی باب میں اورنگ زیب کی دینی حمیت کا ذکر ہے جو حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے عقیدت رکھتا تھا اور ان کی دعوت سے شروع سے متاثر تھا، اس نے حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت و ارادت کا تعلق بھی قائم کرلیا تھا (صفحہ 326) حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی اصلاحی وتجدیدی تحریک کا اثر تھا کہ وہ سلطنت کو ہادمِ اسلام کے بجائے خادمِ اسلام بنانے کی کوشش میں لگا رہا۔ (صفحہ 327)
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت اور تضلیل کی تحریک کے سلسلہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس کی تفصیل پڑھ کر عام قارئین کو یہ تکلیف ہوتی ہے کہ آخر ان کے خلاف مخالفت اور تضلیل کی تحریک کیوں چلائی گئی، مولانا ابوالحسن علی ندوی اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں کہ ایسا معاملہ اکثر ان نادرۂ روزگار شخصیتوں کے ساتھ پیش آیا ہے جو کسی علم و فن کے مجتہد، کسی سلسلہ و طریق کے بانی اور اپنے زمانہ کی عام علمی ذہنی و باطنی سطح سے بلند ہوتی ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ علوم و کمالات، وہبی سے نوازتا ہے (صفحہ 336) مگر اس سے ان علما کی براءت نہیں ہوتی جو مخواہ مخواہ مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں، اس سے ان انتشار پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو اسلام کی آڑ میں ایسی تحریکیں چلاتے ہیں جن میں صرف انار کی، انتشار ضلالت، گمرہی اور پستی، بددینی ہوتی، ان کی مخالفت ہوتی ہے تو وہ اپنے گمراہ پیرووں اور سادہ لوح مقلدوں کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ اسلام کی کون ایسی مفید تحریک ہے جس کی مخالفت نہیں کی گئی۔
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کچھ دنوں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کی ہے مگر اس کا روشن پہلو یہ ہے کہ ان کی غلط فہمی جب دور ہوگئی تو ان کی مخالفت عقیدت میں تبدیل ہوگئی، حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ان کی ایک تحریر اخبار الاخیار کے آخر میں درج ہے جس میں انہوں نے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی محبت وعقیدت اور اسی کے ساتھ ان کی جلالت وعظمت کا پورا اعتراج کیا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تحریر الحاقی ہے، شاید اسی لئے مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اس کا حوالہ اپنی کتاب میں نہیں دیا ہے، اس دور میں کچھ ایسے اہلِ قلم بھی پیدا ہوگئے ہیں جو خواہ مخواہ ہماری اہم علمی وراثت کو الحاقی قرار دے کر اس میں شک و شبہ پیدا کر دیتے ہیں۔
ہندوستان کی قدیم تاریخ لکھنے کے سلسلہ میں کچھ مؤرخین من گھڑت فرضی اور جعلی مواد کہیں نہ کہیں سے دستیاب کرکے اپنی تاریخ مرتب کرنے میں مشغول ہیں مگر ہماری وراثت میں جو مفید چیزیں ہم کو ملی ہیں، ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کچھ اہل قلم ان کو الحاقی اور فرضی قرار دینے میں مشغول ہیں، شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا جو خط حضرت خواجہ حسام الدین دہلوی کے نام سے ہے، اس کو مولانا ابوالحسن علی ندوی نے نقل کیا ہے، (صفحہ 339) اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ان کی (یعنی شیخ عبدالحق کی) حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں غلط فہمی رفع ہوئی اور آپ کا علوے مقام ان پر منکشف ہوا تو انہوں نے اس کی تلافی کرنے میں قطعاً تقصیر و تاخیر سے کام نہیں لیا اور بڑے بلند الفاظ میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ خلوص ومحبت کا اظہار کیا جو ان کے جیسے عالم ربانی ہی کے شایان شان ہے، (صفحہ 339) اخبار الاخیار کے آخر میں جو تحریر ہے اس میں بلند الفاظ کے ساتھ اسی خلوص ومحبت کا اظہار ہے جو ان کے جیسے عالم ربانی ہی کے شایانِ شان ہے اور جو بات شیخ عبدالحق نے حضرت خواجہ حسام الدین احمد دہلوی کو لکھی ہے، وہی اخبارالاخیار کے آخری ضمیمہ میں ہے، صرف اجمال اور تفصیل کا فرق ہے، ظاہر ہے کہ ایک مکتوب میں وہ ساری باتیں نہیں لکھیں جاسکتی تھیں جو اخبارالاخیار کی تحریر میں ہیں۔
اسی باب میں اورنگ زیب عالمگیر کا ایک مراسلہ یا فرمان نقل کیا گیا ہے جو ایک غیر معروف اور غیر مستند مصنف کی کتاب کا سرالمخالفین سے لیا گیا ہے، اس مین اورنگ زیب کی طرف یہ ہدایت ہے کہ مکتوبات شیخ احمد سرہندی کے بعض مقامات ظاہراً عقائد اہل سنت کے مخالف ہیں، شیخ مذکور کے معتقد جو شہر اورنگ آباد میں سکونت رکھتے ہیں، ان کی شاعت کرتے ہیں، ان کا درس دیتے ہیں، ان عقائد باطلہ کی حقیقت پر اعتقاد رکھتے ہیں، حکم ہے کہ اس کے درس و تدریس کو روک دیا جائے اور جس کے متعلق معلوم ہو کہ وہ عقائد باطلہ پر اعتقاد رکھتا ہے، اس کو سزائے شروعی دی جائے۔ (صفحہ 351)
اورنگ زیب کو حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خاندان سے جو روحانی اور قلبی تعلق تھا اس کی بنا کا یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ مکتوبات شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض مقامات ظاہراً عقائد اہلِ سنت کے مخالف ہیں، اگر یہ مراسلہ یا فرمان اورنگ زیب کے ضخیم مجموعۂ فرامین میں مل جائے تو اس کو مستند سمجھنے میں کسی کو عذر نہ ہوگا، دارالمصنفین میں فیاض القوانین کا ایک ضخیم عمدہ نسخہ موجود ہے، راقم کی نظر اس پر جہاں تک گئی، اس میں یہ مراسلہ یا فرمان نہیں گذرا، اس سے یہ یقینِ کامل ہے کہ یہ ایک غیر مستند، جعلی اور فرضی تحریر ہے جس کو حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے مخالفین نے وضع کیا ہے اور ا کو ایک یہودی مصنف نے زیادہ اہمیت دی ہے جو اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ یہ افترا محض انتشار پسندی کی خاطر کیا گیا ہے۔
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خلفائے کبار اور ان کے منتسبین کے ذریعہ سے ان کے تجدیدی کام کی جو توسیع اور تکمیل ہوئی، اس کی تفصیل کتاب کے باب ہشتم میں ہے اور آخر میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی تمام تصانیف کا ذکر ہے، آخر میں بے اختیار ہوکر یہ لکھنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ اہم اور مفید کتاب ایسی ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے مسلمان قارئین کے ذہن پر نہ صرف ہندوستان کی ایک عظیم مذہبی شخصیت کی عظمت، جلالت اور اہمت کا اندازہ ہوگا بلکہ خود ان کی دینی حمیت میں جلا پیدا ہوگی، اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں ضرور ہوچاہئے، البتہ انگریزی ترجمے میں بعض ثانوی ماخذوں کو نکال کر معاصر ماخذوں کے حوالے زیادہ سے زیادہ دیے جائیں جو آسانی سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.